’’ہم مٹی میں رہنے والے لوگ ہیں، کنٹکریٹ ٹائلس پر یا اونچی عمارتوں کے اندر رہنے والے نہیں ہیں،‘‘ لکشمی گایکواڑ کہتی ہیں۔ ابھی، وہ زمین سے کافی اونچائی پر بیٹھی ہوئی ہیں – ۲۶۹ مربع فٹ والے فلیٹ کی ۱۲ویں منزل پر، جو پرجاپورپاڑہ کی آدیواسی بستی میں ان کے دو ایکڑ کھیت کے بدلے انھیں ملا ہے۔
’’جب بھی میں نیچے دیکھتی ہوں، مجھے ڈر لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں گر پڑوں گی۔ ہم یہاں کے نہیں ہیں۔ یہاں پر میں اتنی آزادی سے گھوم پھر نہیں پاتی، جتنی آزادی سے پاڑہ میں گھومتی پھرتی تھی،‘‘ تقریباً ۷۵ سالہ بزرگ، لکشمی اپنی آنکھوں میں آنسو لیے کہتی ہیں۔
ان کا نہایت چھوٹا یہ نیا ’گھر‘ ممبئی کی جھگی بازآبادکاری اتھارٹی (ایس آر اے) اسکیم کا حصہ ہے، جو اندھیری کے مغربی علاقہ، چکالا میں ایک بلڈنگ کامپلیکس میں بنا ہوا ہے۔ یہ علاقہ آرے مِلک کالونی میں واقع پرجاپور پاڑہ سے تقریباً ۷ء۳ کلومیٹر دور ہے۔
اس مِلک کالونی کو مرکزی حکومت نے ۱۹۴۹ میں قائم کیا تھا – اس کے اندر دودھ کی ایک فیکٹری اور ۳۱۶۰ ایکڑ زمین پر مویشیوں کے لیے چراگاہ ہے۔ اس پورے علاقہ میں آدیواسیوں کے ۲۷ پاڑے ہیں، جن کی کل آبادی ۸ ہزار سے زیادہ ہے۔ یہاں ۱۹۹۰ کی دہائی کے ابتدائی دور سے ہی، جھگیاں بھی بننے لگی ہیں۔
گایکواڑ کی فیملی، ۷۰ کوکنا آدیواسی کنبوں میں سے ایک ہے – ان کنبوں میں تقریباً ۳۰۰ لوگ ہیں، جنہیں اپریل ۲۰۱۷ میں ان کے پاڑہ سے اس وقت بے گھر کر دیا گیا تھا، جب ممبئی میٹرو ریل کارپوریشن لمٹیڈ (ایم ایم آر سی) نے ۲۶ ہیکٹیئر کے رقبہ میں ایک ڈپو اور شیڈ کی تعمیر کرنے کے لیے اس زمین کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
آرے کے ساریپُت نگر کے تقریباً ۱۰۰ کنبوں کے ساتھ، ۷۰ کنبوں کو ۱۶ منزل والی ایس آر اے بلڈنگ میں منتقل کر دیا گیا۔ ایس آر اے مہاراشٹر حکومت کی اسکیم ہے، جسے ان کنبوں کو ان کے جھگیوں والے گھروں کے بدلے ۳۰۰-۲۵۰ مربع فٹ والے فلیٹ میں بسانے کے لیے، ۱۹۹۵ میں شروع کیا گیا تھا۔
آرے میں مکانوں کو زمین دوز کرنے سے کچھ ہفتے پہلے، پرجاپور پاڑہ اور ساریپُت نگر کے لوگوں کو ایس آر اے فلیٹس مالکانہ دستاویزوں کے ساتھ دیے گئے۔ ’’لیکن ہم [آدیواسی] جانے کے لیے تیار نہیں تھے،‘‘ سنجے پاڈاوی کہتے ہیں۔ ’’اس لیے انھوں نے [پولس نے] جبراً ہم سے ہمارا گھر خالی کروا دیا۔‘‘ یونین بینک کے سینئر منیجر سنجے (۳۵)، بے گھر کیے گئے کوکنا آدیواسیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی فیملی کی تقریباً ڈیڑھ ایکڑ زمین چھن گئی، جس پر ان کے والدین پالک، ککڑی اور تورئی جیسی سبزیوں کی کھیتی کرتے تھے۔ اب وہ ایس آر اے بلڈنگ کی پانچویں منزل پر ایسا نہیں کر سکتے۔ ’’یہاں ہمارے لیے زندگی مشکل ہو گئی ہے۔ ہم قدرت کے ساتھ آزاد پرندوں کی طرح جینا چاہتے ہیں،‘‘ سنجے کہتے ہیں، جو اپنے والدین، بیوی اور ایک سال کی بیٹی کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔
پرجاپور پاڑہ کے لوگوں نے جب جانے سے انکار کر دیا، تو اپریل ۲۰۱۷ میں انھیں اپنا گھر خالی کرنے کے لیے ۷۲ گھنٹے کا الٹی میٹم دیا گیا۔ المونیم کا ایک پچکا ہوا برتن مجھے دکھاتے ہوئے، لکشمی مسماری کے دن – ۲۸ اپریل کو یاد کرتی ہیں۔ ’’پولس نے اسے باہر پھینک دیا، انھوں نے میرے زرعی آلات – کلہاڑی، ہنسیا، ہل – پھینک دیے۔ میں نے انھیں کئی برسوں سے سنبھال کے رکھا تھا۔ بہت سے پولس والے، گارڈ، بڑا بلڈوزر وہاں لائے گئے تھے۔ اس دن انارکی پھیل گئی تھی۔ میں بہت چیخی، روئی۔ لیکن انھوں نے کچھ نہیں سنا۔ انھوں نے میری آنکھوں کے سامنے میرے گھر کو توڑ کر برابر کر دیا۔‘‘
بنیادی طور پر پال گھر ضلع کے دہانو تعلقہ کی رہنے والی گایکواڑ، شادی کرنے کے بعد پرجاپور پاڑہ آئی تھیں۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی کھیتی کرتے اور درختوں کے درمیان رہتے ہوئے گزاری ہے، اور ایس آر اے بلڈنگ میں منتقل ہونے کے بعد جذباتی اور جسمانی دونوں طرح سے مجروح ہوئی ہیں۔ میٹرو شیڈ کی مجوزہ تعمیر کی خبریں جب ۲۰۱۴ میں آنی شروع ہوئیں، تبھی سے ان کا بلڈ پریشر بڑھنے لگا تھا۔ چھوٹے فلیٹ میں کم جسمانی حرکت کی وجہ سے، ان کے ٹخنوں میں ورم آ گیا ہے۔
لکشمی کے شوہر رام جی کا، ۲۰۱۰ میں عمر سے متعلق بیماریوں کے سبب انتقال ہو گیا تھا۔ اپنی آبائی زمین پر کھیتی کرنا اس فیملی کا واحد ذریعہ معاش تھا۔ لکشمی کی تین بیٹیاں شادہ شدہ ہیں۔ وہ اپنی ایک غیر شادی شدہ بیٹی، سنگیتا کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کے دو بیٹوں اور ان کے کنبوں کو ایس آر اے بلڈنگ میں ہی ایک جیسا فلیٹ ملا ہے – وہ پاڑہ میں بھی الگ الگ گھروں میں رہتے تھے۔
کھیتی ان کے لیے سب کچھ تھا۔ ’’میرے بھائی اور میں، اپنی ماں کے ساتھ، کھیت پر کام کرتے اور جو کچھ پیدا کرتے، اسی پر زندہ رہتے۔ ہم سبھی نے پہلی کلاس تک ہی تعلیم حاصل کی ہے، اس لیے کسی نوکری کے بارے میں کبھی نہیں سوچا،‘‘ ۴۰ سالہ سنگیتا کہتی ہیں۔
فیملی کے دو ایکڑ کھیت میں ۵۰۰ کیلے کے درخت تھے۔ ان میں سے تقریباً ۱۵۰، ہر ماہ فصل دیتے تھے – اور انھیں کل ملا کر ۱۸۰۰ کچے اور پکے کیلے مل جایا کرتے تھے۔ ’’چھوٹے خریدار اور تاجر ہمیں ۱۲ سے ۱۵ روپے فی درجن دیتے تھے، جن سے ہمیں تقریباً ۲۷ ہزار روپے کی کمائی ہر ماہ ہو جایا کرتی تھی،‘‘ سنگیتا بتاتی ہیں۔
یہ فیملی ہر موسم میں ۱۵-۱۰ کلو سبزیاں بھی اُگا لیتی تھی، جیسے کہ ککڑی، پالک اور مولی، اور کیلے کے پتے بھی بیچتی تھی – جس سے انھیں اضافی ایک ہزار روپے ہر مہینے مل جایا کرتے تھے۔ ان کے پاس ۲۰ مرغیاں تھیں، اور کچھ مستقل خریدار ان سے انڈے خریتے – جس سے فیملی کو ۳ ہزار روپے اور ملتے تھے۔ ’’یہاں آنے سے پہلے ہم نے ان سبھی کو بیچ دیا،‘‘ سنگیتا بتاتی ہیں۔
بے گھر ہونے کے بعد ان کی فیملی کی آمدنی میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ صرف لکشمی کے سب سے بڑے بیٹے، ۴۸ سالہ لڈک کو، تعمیراتی مقامات پر تقریباً ۳۰۰ روپے یومیہ مزدوری کا کچھ کام مل جاتا ہے۔ ان کے چھ بچے ہیں – ایک بڑی بیٹی شادی شدہ ہے، ایک اور بیٹی قریب کے سیپز اسپیشل ایکنامک ژون میں زیورات بنانے کے ورکشاپ میں کام کرتی ہے۔ باقی اسکول میں ہیں۔ لکشمی کا چھوٹا بیٹا، ۳۸ سالہ جانو، ذہنی امراض میں مبتلا ہے؛ وہ اور اس کی بیوی، ایک خاتونِ خانہ، کے دو بچے ہیں۔ وہ تعمیراتی مقامات پر مہینہ میں تقریباً ۱۵ دن کام کرتا ہے۔ ’’ہم اپنی بچت سے زندگی جی رہے ہیں،‘‘ لکشمی کہتی ہیں۔ ’’اس عمر میں مجھے کون کام دے گا؟ میں کیا کروں؟ میں کیسے زندہ رہوں؟‘‘
پرجاپور پاڑہ سے بے گھر کیے گئے کئی کنبے جو موسمی پھل اور سبزیاں اُگانے پر منحصر تھے، اندھیری اور جوگیشوری کے قریبی بازاروں میں اسے بیچتے تھے۔ اپنے ذاتی استعمال کے لیے وہ ارہر، مونگ اور دھان کی کچھ فصل بھی اُگایا کرتے تھے۔ اب ان کنبوں نے نہ صرف اپنا ذریعہ معاش اور کھانے کا ذریعہ کھو دیا ہے، بلکہ ایس آر اے بلڈنگ میں انھیں مستقبل میں، رکھ رکھاؤ کی لاگت کے طور پر ایک ہزار روپے ماہانہ فی فلیٹ بھی ادا کرنے ہوں گے۔
کوکنا کنبوں میں سے کسی کو بھی نہ تو مالی معاوضہ ملا ہے اور نہ ہی ’پروجیکٹ سے متاثر شخص‘ (پی اے پی) سرٹیفکیٹ، پاڈاوی کہتے ہیں۔ مہاراشٹر پروجیکٹ سے متاثر افراد کی بازآبادکاری قانون، ۱۹۹۹ کے مطابق، ریاستی پروجیکٹ سے متاثر ہر شخص کو مالی معاوضہ ملنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، کلکٹر کو بازآبادکاری کی پوری کارروائی کی نگرانی کرنی ہوگی اور سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہوگا، تاکہ فیملی کا ایک رکن پی اے پی کے لیے ریزرو کوٹہ کے تحت روزگار حاصل کر سکے۔
پاڈاوی، جو کہ شاید پرجاپور پاڑہ کے پہلے گریجویٹ ہیں، کہتے ہیں، ’’بے گھر ہونے کے سبب ہم نے جو زمین یا درخت کھو دیے، اس کی ہمیں کوئی مالی بازآبادکاری نہیں ملی۔ انھوں نے [صرف] زبانی معاوضہ کا وعدہ کیا۔‘‘ ایس آر اے فلیٹس میں پاڑہ کے باشندوں کی بازآبادکاری کے بارے میں ۲۰۱۴ کے ایم ایم آر سی نوٹس کے جواب میں، پاڈاوی نے ضلع کلکٹر کو، ایم ایم آر سی کو خط لکھے، اور مہاراشٹر حکومت کے شکایت نمٹارہ پورٹل – آپلے سرکار پر شکایت درج کی۔ لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔
’’ہم جھگیوں میں رہنے والے لوگ نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم آرے جنگل کے اصلی باشندہ ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد یہاں رہتے تھے اور تب آرے ملک کالونی قائم بھی نہیں ہوئی تھی۔ ہم دیسی لوگ ہیں اور ہمارے حقوق ۲۰۰۶ کے فاریسٹ رائٹس ایکٹ کے تحت محفوظ ہیں۔ ایم ایم آر سی ایل نے [سال ۲۰۰۰ کی] ممبئی شہری ٹرانسپورٹ اسکیم پالیسی پر بھی غور نہیں کیا، جس میں ہمارے لیے الگ سے ایک ترقیاتی اسکیم ہے۔ معاوضہ حاصل کرنے کے لیے ایم ایم آر سی ایل ہم سے رہائش کا ثبوت اور سات/بارہ زمین کے ریکارڈ پیش کرنے کو کہہ رہا ہے۔‘‘ (سات/بارہ یا ۱۲/۷ دستاویز، محکمہ مالیت کے زمینی رجسٹر سے ایک اقتباس ہے، جیسا کہ پٹہ یا مالکانہ حق کا کاغذ؛ آدیواسیوں کے لیے اسے حاصل کرنا مشکل ہے، کیوں کہ مِلک کالونی کے بن جانے کے بعد، وہ آرے اتھارٹی سے پٹہ پر لی گئی زمین پر کھیتی کرتے تھے)۔
پاری کے ذریعہ بار بار سوال کرنے پر، ایم ایم آر سی نے جواب دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن، کئی ہفتے گزر جانے کے بعد بھی ہمیں وہ جواب نہیں ملا۔ اخبار کی ایک رپورٹ میں، ایم ایم آر سی نے کہا ہے کہ پاڑہ برادریوں کے پاس اپنی دیسی حیثیت کو ثابت کرنے کا دستاویز نہیں ہے۔ ’’ہم نے جب ان سے یہ ثابت کرنے کے لیے دستاویز مانگے کہ زمین ان کے قبضے میں تھی، تو وہ اسے پیش نہیں کر سکے۔ فاریسٹ رائٹس ایکٹ، گائڈ لائنس کے بارے میں بہت واضح ہے۔ ان کے ڈھانچے سرکاری زمین پر تھے اور ہمیں اسے خالی کرانا پڑا تھا،‘‘ رپورٹ میں ایم ایم آر سی کے ایک افسر کے حوالے سے کہا گیا ہے۔
آرے کے لوگ خود کو بے گھر کیے جانے اور ’بازآبادکاری‘ کو بے تکا مانتے ہیں۔ بی ای ایس ٹی (یا بیسٹ) ملازمین کی بسوں کے رکھ رکھاؤ کا کام کرنے والے پرکاش بھوئیر (۴۶)، جو اُجاڑ دیے گئے پرجاپور پاڑہ سے تقریباً ایک کلومیٹر دور، کیلٹی پاڑہ میں رہتے ہیں، کا کہنا ہے، ’’ہم آدیواسی ہیں [یہ ملہار کولی ہیں]۔ یہ زمین ہمارے لیے آمدنی اور زندگی کا ذریعہ ہے۔ کیا ہم ان اونچی عمارتوں میں کھیتی کر سکتے ہیں؟ ہم مٹی اور درختوں کے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘
سال ۲۰۱۶ میں، بامبے ہائی کورٹ نے عدالت کی منظوری کے بغیر ۲۷ آدیواسی بستیوں میں ایس آر اے اسکیم کو نافذ کرنے سے ریاستی حکومت کو روک دیا تھا۔ یہ فیصلہ ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم کی مفادِ عامہ کی عرضی پر سماعت کے بعد آیا تھا، جسے اس نے عدالت میں تب دائر کیا تھا، جب ان بستیوں کے لوگوں کو ایس آر اے اسکیم کے لیے ان کی اہلیت کا اندازہ لگانے کے لیے سروے کے میونسپل کارپوریشن سے نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ ’’ایم ایم آر سی ایل نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ آدیواسیوں کو ان کے حقوق دینے سے منع کیا جا رہا ہے،‘‘ ماہر ماحولیات اور ممبئی واقع این جی او، ون شکتی کے ڈائرکٹر اسٹالن دیانند کہتے ہیں۔ اکتوبر ۲۰۱۷ میں، ان کی تنظیم نے نیشنل گرین ٹربیونل میں ایک عرضی دائر کی، جس میں کہا گیا ہے کہ آرے ایک جنگل ہے جہاں کوئی ترقیاتی سرگرمی نہیں ہونی چاہیے اور یہاں کے آدیواسیوں کے حقوق کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ اس عرضی پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
پاڈاوی اب ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ’’ہو سکتا ہے کہ تب سرکار ہمارے اوپر توجہ دے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اس درمیان، اپنی جالی دار کھڑکی سے، غمزدہ لکشمی دیگر اونچی عمارتوں اور پہلے سے چل رہی میٹرو- ۱ کو دیکھ سکتی ہیں۔ آس پاس کوئی کھلی جگہ نہیں ہے، جہاں وہ چاروں طرف دوڑنے والی اپنی ۲۰ مرغیاں پال سکیں۔ سات دیگر فلیٹوں کے ساتھ صرف ایک اندھیرا مشترکہ گلیارہ ہے۔ اور کھڑکی پر رکھے چھوٹے سے گملے میں لگا ہے اڑہل اور ہری اروئی۔
انوشکا جین کے ذریعہ اضافی رپورٹنگ
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)