’’گدھے کا دودھ، بچہ مضبوط،‘‘ ایک آواز آئی۔ میں چونک کر پیچھے مڑی۔
وہاں سکھدیو کھڑے تھے، کاجول کے ساتھ جو سر ہلا رہی تھی اور خاموش تھی۔ اس نے ایک بھی آواز نہیں نکالی اور ان کے ساتھ بے دلی سے چلتی رہی۔
میں حیران تھی، لیکن مالاڈ کی اُس گلی میں لوگ سکھدیو کو سرسری نظر سے دیکھ رہے تھے، جو کاجول کے گلے میں بندھی رسی کو پکڑے آگے آگے چل رہے تھے، ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی بھی تھی جسے وہ کبھی کبھی زمین پر پٹختے تاکہ وہ قابو میں رہے۔
کئی بار، آٹھ سال کی کاجول کی بجائے رانی، یہ بھی آٹھ سال کی ہے، دروازے دروازے گھومتی ہے جب کہ سکھدیو گدھے کے دودھ کی تعریف کرتے ہیں۔ اُس دن رانی گھر پر تھی، مالاڈ مشرق کی اپّا پاڑہ جھونپڑی میں۔ پاڑہ میں اس کے ساتھ کھڑا تھا کاجول کا پانچ مہینے کا بچہ۔ دو سال کی لنگڑی، جس کا دایاں پیر پیدائشی طور پر لنگڑا تھا، گھر واپس آ گئی تھی۔
ان کے ساتھ عام طور پر چھ اور مادہ گدھے رہتے ہیں، جو سکھدیو کے توسیعی کنبہ کی ملکیت ہیں – مُڈا کے مالک ان کے بھتیجے رام داس ہیں، جب کہ ان کے بڑے بھائی وامن کے پاس پانچ گدھے ہیں، جن کے نام نہیں رکھے گئے ہیں۔
سکھدیو ’’فلموں کے بارے میں پاگل ہیں‘‘ ان کی بیوی جے شری کہتی ہیں، اس لیے ان کے گدھوں کے نام عام طور پر بالی ووڈ کے فلم ستاروں کے نام پر رکھے گئے – پہلے ایک مادھوری دیکشت بھی تھی۔
مضافاتی شمالی ممبئی کے اپّا پاڑہ میں پہاڑی کے اوپر انسان اور گدھے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ لوگ کھچاکھچ بھری جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، جب کہ گدھوں کو پاس کے ستونوں میں رسیوں سے باندھ دیا جاتا ہے۔ پڑوسی برا نہیں مانتے۔ ساحل کہتے ہیں، ’’وہ ہمارے یہاں آنے سے کافی پہلے سے رہ رہے تھے،‘‘ ساحل کہتے ہیں، جو اسی پاڑہ میں رہتے ہیں۔
گدھے کے بچے کے باپ کا نام راجا ہے، جو ادھر ادھر بھاگتنے رہنے اور لوگوں کو ٹانگ مارنے کے سبب بدنام ہو گیا تھا، ایسا وہاں کے لوگ کہتے ہیں۔ ’’وہ بہت مستی [شرارت] کیا کرتا تھا، مادہ گدھوں کو اپنے پیچھے بھگاتا رہتا تھا، سڑکوں پر چلنے والے لوگوں کو دھکہ دے دیتا تھا – حالانکہ اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا،‘‘ راجا کے مالک رام داس کہتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے چار مہینے پہلے اسے اپنے گاؤں میں فروخت کر دیا۔
جادھو فیملی کے رکن کبھی کبھی مہاراشٹر کے پونہ ضلع کے جیجوری تعلقہ میں کھنڈوبا مندر کے سالانہ میلہ میں گدھے خریدتے ہیں اور بیچتے ہیں، جہاں پر مختلف ریاستوں کے لوگ اس جانور کی تجارت کرنے آتے ہیں۔ قیمت الگ الگ ہوتی ہے، کمزور گدھا ۵ ہزار روپے میں ملتا ہے، جب کہ بھاری بوجھ اٹھانے والے طاقتور گدھے کی قیمت ۲۵ ہزار روپے ہے۔
میں سکھدیو سے ان کے گاؤں کے بارے میں پوچھتی ہوں۔ بڑے فخر سے وہ مجھ سے کہتے ہیں، ’’آپ نے سیراٹ [۲۰۱۶ میں ریلیز ہونے والی ایک مراٹھی فلم] دیکھی ہے؟ اس کی شوٹنگ ہمارے گاؤں میں ہوئی تھی۔ ہم اسی گاؤں سے ہیں۔‘‘ پوری فیملی اپنے گاؤں کے بارے میں ایسے ہی بتاتا ہے، جہاں اس ہٹ فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی – سولاپور ضلع کے کرمالا میں۔
یہ لوگ وڈار برادری (مہاراشٹر میں او بی سی کے طور پر فہرست بند) سے ہیں۔ سکھدیو کے والد اور دادا بھی گدھے رکھتے تھے۔ ’’گاؤں میں [اور آس پاس کے گاؤوں میں]، ہم تالابوں، گھروں، چھوٹے باندھوں کی تعمیر کرنے میں مدد کرتے تھے - ہمارے گدھے بوجھ ڈھوتے تھے،‘‘ ۵۲ سالہ سکھدیو کہتے ہیں۔ ’’ہم جو بھی کماتے، اسی سے کھاتے اور گزارہ کرتے تھے،‘‘ ۳۸ سالہ جے شری کہتی ہیں۔
کام دستیاب تھا، لیکن وقت مشکل تھا۔ ’’کئی بار سوکھا پڑا،‘‘ سکھدیو کہتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس اگر کھانے کے لیے روٹی ہوتی، تو سبزی نہیں ہوتی تھی۔ ہم پیاسے ہوتے، تو پینے کے لیے پانی نہیں ہوتا تھا۔‘‘ اس کے علاوہ فیملی بڑھ رہی تھی، ان کے پاس کوئی زمین نہیں تھی، اور، وقت کے ساتھ، کام تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے سنا تھا کہ ممبئی میں جنگل ہے، جہاں ان کے گدھے گھوم اور چر سکتے ہیں۔ اور انہوں نے یہ بھی سنا تھا کہ شہر میں کام اور مزدوری کی کوئی کمی نہیں ہے۔
سال ۱۹۸۴ میں، توسیع شدہ جادھو فیملی کا ایک بڑا گروہ – سکھدیو کے والدین، ان کے چھ بھائی، بہت سارے بچے – اور برادری کے دیگر رکن ممبئی آ گئے۔ ان کے ساتھ ’’سینکڑوں گدھے‘‘ بھی تھے۔
وہ سبھی پیدل چل کر آئے، سکھدیو بتاتے ہیں، ان میں سے صرف کچھ ہی لوگوں نے کبھی کبھار ٹیمپو کا استعمال کیا کیوں کہ گاڑیوں میں سبھی گدھوں کو لانا ممکن نہیں تھا۔ کرمالا سے ممبئی تک، تقریباً ۳۲۵ کلومیٹر چلنے میں ۱۱-۱۲ دن لگے، وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’جہاں کہیں بھی ڈھابہ نظر آ جاتا، ہم وہاں کھانا کھا لیتے تھے۔‘‘
ممبئی میں ایک کھلی جگہ ڈھونڈتے ہوئے، وہ مالاڈ کے اپّا پاڑہ پہنچے۔ یہ علاقہ، تب بوری ولی کے نیشنل پارک کا ایک توسیعی حصہ، گھنا جنگل تھا۔ ’’ہمارے گدھے کہیں بھی [جنگل میں] گھوم سکتے تھے، کچھ بھی کھا سکتے تھے،‘‘ سکھدیو کہتے ہیں۔ ’’اب آپ لوگوں کو [اس علاقے میں] دیکھتے ہیں کیوں کہ ہم پہلے یہاں بسے تھے۔‘‘
ممبئی میں ۱۹۸۰ کی دہائی کے وسط میں تعمیراتی کام کافی حد تک شروع نہیں ہوا تھا، لیکن تعمیراتی مقامات پر اور ریلوے میں جادھو خاندان کے گدھوں کے لیے کافی کام تھا، جو اینٹ اور ریت ڈھوتے تھے۔ ’’ٹھاکر گاؤں، ہنومان نگر، مہاویر نگر کس نے بنایا؟‘‘ سکھدیو مضافاتی کالونیوں کا ذکر کرتے ہوئے پوچھتے ہیں۔ ’’ہم نے اپنے گدھوں کے ساتھ بنایا۔‘‘
’’ہمارے لوگ ۱۰-۱۵ گدھوں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے،‘‘ جے شری یاد کرتی ہیں۔ ’’ہمیں ایک دن کا پیسہ اجتماعی طور پر ملتا تھا، جسے ہم آپس میں تقسیم کر لیتے تھے – کبھی ۵۰ روپے، تو کبھی ۱۰۰ روپے۔‘‘
لیکن ۲۰۰۹-۲۰۱۰ کے آس پاس، مویشیوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی تنظیموں نے گدھوں کے بھاری بوجھ ڈھونے پر اعتراض جتانا شروع کر دیا، وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’تنظیم [این جی او] کے اِن لوگوں نے کہا کہ جانوروں کے خلاف کوئی تشدد نہیں ہونا چاہیے،‘‘ ۴۰ سالہ رام داس غصے سے کہتے ہیں۔ اس لیے بلڈر اب گدھوں کو کام پر نہیں رکھتے، وہ کہتے ہیں۔ ’’میں یہ کام اپنے والد اور دادا کے وقت سے کر رہا ہوں۔ وہ نہ صرف میرے پیٹ پر بلکہ ان کے [گدھوں کے] پیٹ پر بھی لات مار رہے ہیں۔ انسان بھی تو بوجھ اٹھاتے ہیں، لیکن اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے؟‘‘
اس کے علاوہ، وقت کے ساتھ بھاری مشینری کے بڑھتے استعمال سے، تعمیراتی مقامات پر گدھے کا کام کم ہو گیا ہے، جے شری کہتی ہیں۔ ’’اب مشینیں بوجھ اٹھاتی ہیں، جسے پہلے ہمارے گدھے کیا کرتے تھے۔‘‘ رام داس کو ابھی بھی پہاڑی کے اوپر تعمیراتی مقامات پر کبھی کبھی کام مل جاتا ہے۔ ’’جہاں پر ٹرک نہیں جا سکتے، وہاں بوجھ اٹھانے کے لیے گدھے کا استعمال کیا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ کمیاب ہے۔
جادھو خاندان کے چند اراکین کو کام نہیں ملا، اس لیے وہ کرمالا لوٹ آئے یا معاش کی تلاش میں پونہ چلے گئے۔ ممبئی میں رہ رہے خاندان کے زیادہ تر ممبران کو یومیہ مزدوری مل جاتی ہے، جو روزانہ ۳۰۰-۴۰۰ روپے کماتے ہیں۔ ’’دوسرا کیا کام کرنا ہے؟ ہم بیگاری کے کام کے لیے یہاں جاتے ہیں، وہاں جاتے ہیں۔ ایک دن مجھے کام مل جاتا ہے، دوسرے دن نہیں ملتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ اپنے مادہ گدھے، مُڈا کو رکھے ہوئے ہیں، ’’اپنی خوشی کے لیے‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ جانوروں کے آس پاس رہتے ہوئی ہی بڑے ہوئے ہیں۔
کبھی کبھی، سکھدیو کے ۲۱ سالہ بھتیجے آنند، جو ان کے بڑے بھائی وامن کے بیٹے ہیں، پاور نامی طاقتور گدھے کو گورے گاؤں واقع فلم سٹی لے جاتے ہیں۔ وہاں ان جانوروں کی شوٹنگ کسی فلم یا ٹیلی ویژن کے سیریل میں کی جاتی ہے، اور وہ ۳-۴ گھنٹے کی شوٹنگ کے بدلے، ۲ ہزار روپے لے کر لوٹتے ہیں۔ لیکن یہ کام شاذ و نادر ہی ملتا ہے – اور اس کے لیے پاور جیسے جانور کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے سکھدیو اور جے شری نے، تعمیراتی مقامات پر کام ختم ہو جانے کے بعد جب کوئی دوسرا متبادل نہیں بچا، تو دروازے دروازے دودھ بیچنا شروع کرد یا۔ سکدھیو کی فیملی نے اپنے گاؤں میں شاید ہی کبھی گدھے کا دودھ بیچا ہو۔ عام طور پر بیمار فیملی کا کوئی شخص دودھ مانگنے آ جاتا تھا، کیوں کہ گدھے کا دودھ اکثر تغذیہ سے بھرپور مانا جاتا ہے۔
وہ صبح ۷ بجے گھر سے نکلتے ہیں (اور شام ۴ بجے تک لوٹتے ہیں)، اور گاہکوں کی تلاش میں مختلف جھگی بستیوں اور چالوں میں جاتے ہیں، وہ بھی راستہ بدل بدل کر۔ کبھی کبھی، وہ ویرار تک بھی چلے جاتے ہیں، جو تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور ہے۔ ’’جب کبھی میری لکشمی [دولت کی دیوی کے طور پر گدھے کا ذکر کرتے ہوئے] مجھے لے جاتی ہے، میں چلا جاتا ہوں،‘‘ سکھدیو کہتے ہیں۔
گدھے کا دودھ موقع پر نکالا جاتا ہے۔ دودھ کو فوراً، اور کم مقدار میں پینا پڑتا ہے۔ سکھدیو اور جے شری اس کے لیے ایک چمچہ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ’’یہ دوا ہے، آپ کی ساری کھانسی، بخار، جسم کی گرمی دور ہو جائے گی، اور یہ بچوں کے بڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ ڈاکٹر تو ابھی آئے ہیں، پہلے یہی دودھ دیا جاتا تھا،‘‘ جے شری کہتی ہیں۔ اس سیال کے بارے میں ان کا پورا یقین ہے کہ اس میں انسانوں کی ماں کے دودھ کی طرح ہی بھرپور غذائیت ہوتی ہے۔ ’’اسے پئیں اور دیکھیں کہ یہ آپ کو کتنا مضبوط بنا دیتا ہے۔‘‘
پہلے، جادھو خاندان اپنے گاؤں میں اس دودھ کو فی چمچہ ۲ روپے میں فروخت کیا کرتا تھا۔ اب یہ قیمت عام طور پر ۱۰ ملی لیٹر کے لیے ۵۰ روپے ہے۔ ’’جیسا دیس ویسا بھیس،‘‘ سکھدیو کہتے ہیں، گاہکوں کے حساب سے اپنی قیمت طے کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے۔ ’’پلاسٹک سے ڈھکی اس رہائش گاہ میں [جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے] قیمت ۳۰ روپے ہے، پکے مکانوں کے لیے یہ ۵۰-۶۰ روپے ہے، اور بڑی عمارتوں میں رہنے والوں کے لیے یہ ۱۰۰ روپے ہے۔‘‘ کچھ لوگ تو پورا ایک کپ یا اسٹیل کا چھوٹا گلاس دودھ سے بھرا ہوا مانگتے ہیں، جس کی قیمت ۵۰۰ روپے ہے۔ لیکن ایسے لوگ کم ہی آتے ہیں۔
کیا انہیں مناسب گاہک مل جاتے ہیں؟ ان کے ۲۰ سالہ بیٹے، سورج جواب دیتے ہیں: ’’نہیں، بہت کم لوگ گدھے کے دودھ کے بارے میں جانتے ہیں۔ صرف گاؤں کے لوگ یا بوڑھے لوگ ہی اس کی خوبی کو جانتے ہیں۔ آج کے نوجوان لڑکے یا لڑکیوں کو اس کے بارے میں بالکل بھی علم نہیں ہے۔‘‘
کئی بار لوگ سکھدیو کے فون نمبر اور پتہ کو نوٹ کر لیتے ہیں، تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں دودھ مل سکے۔ ’’لوگ یہاں [ان کے اپّا پاڑہ کے گھر میں] اندھیری، کھار، نالہ سُپارہ سے آتے ہیں،‘‘ جے شری کہتی ہیں۔
گاہک عام طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے گھر پر کسی بچے کی پیدائش ہوئی ہے یا فیملی کا کوئی رکن بیمار ہے۔ ’’اگر آپ اسے تین دنوں تک پیتے ہیں، تو آپ کی ساری کمزوری دور ہو جائے گی۔ آپ ۵-۶ دنوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں،‘‘ جے شری کہتی ہیں۔ اس فیملی کو سردیوں میں زیادہ گاہک ملتے ہیں، جنہیں ٹھنڈ اور بخار سے راحت چاہیے ہوتی ہے۔
کبھی کبھی والدین رسم ادا کرنے کی بھی درخواست کرتے ہیں – نظر نکالنے کی۔ بچے کو چمچہ سے دودھ پلانے کے بعد سکھدیو یا جے شری اس کے سر اور پیر کو گدھے کی پیٹھ، ٹانگ اور پونچھ سے چھواتے ہیں۔ پھر، اگر بچہ بہت زیادہ رو نہیں رہا ہے، تو وہ اسے گدھے کے نیچے اور اوپر سے گزارتے ہیں۔ اور اس کے بعد، وہ بچے کو کچھ پل کے لیے ہوا میں پکڑتے ہیں اور اسے اُلٹا کر دیتے ہیں۔ ان کا اور بچے کے والدین کا ماننا ہے کہ یہ کسی بھی بری نظر کو دور کر دیتا ہے۔
سکھدیو اور جے شری کی کل آمدنی ایک دن میں ۵۰۰ روپے سے ۱۵۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے – لیکن وہ ہفتے میں صرف ۳-۴ دفعہ ہی باہر نکلتے ہیں، باقی دن گدھے اور وہ خود بھی آرام کرتے ہیں۔
ان کا کام پوری طرح سے اُس مادہ گدھے پر منحصر ہے، جس نے حال ہی میں کسی بچے کو جنم دیا ہو۔ گدھے کا بچہ نو مہینے تک اپنی والدہ کا دودھ پیتا ہے، جس کے بعد وہ گدھی دودھ پلانا بند کر دیتی ہے۔ کاجول کے ساتھ ایسا ہونے پر جے شری اور سکھدیو اسے اس کے بچے کے ساتھ فروخت کر دیں گے اور ایک نئی گدھی کو اس کے بچے کے ساتھ خریدیں گے۔ تھانے ضلع کے اپنے شناسا سوداگروں سے ایک جوڑی خریدنے کے لیے، انہیں کچھ دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور ایجنٹوں کو پہلے سے ہوشیار کرنا پڑتا ہے۔
گدھوں کو اچھی طرح سے کھلانا پڑتا ہے۔ ’’وہ سب کچھ کھاتے ہیں،‘‘ جے شری کہتی ہیں۔ ’’وہ جنگل میں [نیشنل پارک کے ارد گرد کے جنگلی علاقوں میں] گھومتے اور چرتے ہیں۔ وہ ککڑی، دال، چاول، جو کچھ بھی ملتا ہے، کھا لیتے ہیں۔‘‘ ان کا پسندیدہ کھانا جوار اور گیہوں کے دانے ہیں۔ انہیں اپنے کچھ مستقل گاہکوں سے بچی ہوئی چپاتیاں بھی مل جاتی ہیں۔ یہ فیملی اپنے تین مادہ گدھوں کو کھلانے کے لیے ہر مہینے ۷۰۰ سے ۱۲۰۰ روپے خرچ کرتی ہے، جے شری بتاتی ہیں۔
بھیڑ بھاڑ والے ممبئی میں ان جانوروں کی دیکھ بھال کرنا آسان نہیں ہے۔ انہیں کھلی جگہ چاہیے۔ جادھو فیملی جب انہیں گھومنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے، تو وہ عام طور پر شام تک لوٹ آتے ہیں۔ لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا جب وہ کئی دنوں تک لوٹ کر نہیں آئے۔ ’’پھر ہم گدھے کو تلاش کرنے نکلتے ہیں، لوگوں سے پوچھتے ہیں اور انہیں واپس لے آتے ہیں،‘‘ سکھدیو کہتے ہیں۔
’’جب گدھا لوٹتا ہے، تو ہم اس کے چہرے سے جان جاتے ہیں کہ وہ ہمیں کچھ بتانا چاہتا ہے یا نہیں،‘‘ سورج کہتے ہیں۔ ’’وہ اپنی پونچھ سے دھکہ دے گا یا مارے گا۔ اگر اس نے اپنا پیر زخمی کر لیا ہے، تو اسے ہلائے گا اور دکھائے گا۔‘‘
اور کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے جب جانور واپس نہیں آتے ہیں۔ کچھ گدھے سالوں پہلے چلے گئے اور دوبارہ نہیں ملے۔ لگاتار بڑھتے اور بھیڑ بھاڑ والے شہر میں جب اس واقعہ میں اضافہ ہونے لگا، تو توسیعی خاندان نے اپنے جانوروں کو فروخت کر دیا یا انہیں واپس کرمالا بھیج دیا۔
سورج کو گدھوں سے پیار ہے۔ وہ اور ان کا بھائی، ۲۲ سالہ آکاش، دونوں نے ہائی اسکول کے وقت پڑھائی چھوڑ دی تھی اور اب جہاں بھی کام ملتا ہے، یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ گُٹکی کو یاد کرتے ہوئے سورج کہتے ہیں، ’’وہ میری سب سے اچھی دوست تھی کیوں کہ میں ایک بچہ تھا اور ۱۵ سال کا ہونے تک وہ میرے ساتھ تھی۔ میں کبھی کسی دوسرے گدھے پر نہیں بیٹھتا تھا۔ میں گھنٹوں اس کے ساتھ جنگل میں رہتا اور اپنے سارے راز اس کے ساتھ شیئر کرتا۔‘‘ مالاڈ میں، ہائی وے پر جب ایک سڑک حادثہ میں گُٹکی کی موت ہو گئی، تو سورج گھنٹوں روئے تھے۔
گدھوں کی جب موت ہو جاتی ہے – ہندوستان میں ان کی مدتِ حیات ۱۵-۲۰ سال تک ہوتی ہے – تو جادھو بتاتے ہیں کہ انہیں نیشنل پارک کے درختوں کے بیچ دفن کر دیا جاتا ہے۔
جادھو فیملی اپنے علاقے میں جھگی بازآبادکاری اتھارٹی کے فلیٹ میں پھر سے رہنے کے اہل ہیں۔ ان کے پاس رہائش کا ضروری سرٹیفکیٹ ہے۔ ایسا ہونے پر، سورج کو امید ہے کہ انہیں گدھوں کو رکھنے کے لیے تھوڑی جگہ مل جائے گی۔ ’’یا کچھ رہ سکتے ہیں، دیگر گاؤں چلے جائیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اس پر سکھدیو بولتے ہیں، ’’ہے بھگوان، نہیں۔ ان کے بغیر، میں کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر قمر تبریز)