’’بار بار مارنے کی بجائے بہتر ہوتا کہ خدا ہمیں ایک ہی بار میں ہلاک کر دیتا،‘‘ سمندر کی اونچی لہروں کے سبب ۲۶ مئی کو سندر بن کے موسونی جزیرے میں آئے سیلاب میں اپنا گھر کھونے والے ایک کسان، اظہر خان کہتے ہیں۔
خلیج بنگال میں طوفان کے سبب پیدا ہونے والے مدوجزر کی وجہ سے، اُس دن دوپہر کو مُڑی گنگا ندی کی لہریں بھی تیز ہونے لگیں اور آبی سطح معمول سے ۱-۲ میٹر اونچی ہو گئی تھی۔ نتیجتاً ندی کے کنارے بنے بند ٹوٹ گئے اور جزیرے کے نچلے علاقوں میں سیلاب آ گیا، جس سے مکانوں اور گھروں کو زبردست نقصان پہنچا۔
یہ آندھی ۲۶ مئی کو دوپہر سے ٹھیک پہلے سمندری طوفان ’یاس‘ کی وجہ سے آئی تھی، جب وہ موسونی جزیرے سے تقریباً ۶۵ ناٹیکل میل جنوب مغرب میں، اوڈیشہ کے بالاسور کے قریب ساحل سے ٹکرایا تھا۔ یہ انتہائی شدید سمندری طوفان تھا، جس کی وجہ سے ہوائیں ۱۳۰-۱۴۰ کلومیٹر بھی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے لگی تھیں۔
’’ہم نے جب طوفان کو آتے دیکھا، تو سوچا کہ اپنا سامان محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے ہمارے پاس ابھی وقت ہے، لیکن پانی تیزی سے گاؤں میں آ گیا،‘‘ باگھ ڈانگا موضع (گاؤں) کی ماجورہ بی بی بتاتی ہیں۔ وہ مُڑی گنگا پر بنے بند کے قریب رہتی ہیں، جو موسونی کے مغرب میں واقع ہے۔ ’’ہم اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے، لیکن اپنا سامان نہیں بچا سکے۔ ہم میں سے کئی لوگ اپنی جان بچانے کے لیے درختوں پر چڑھ گئے تھے۔‘‘
بارش لگاتار ہونے کی وجہ سے جزیرے کے چار گاؤوں – باگھ ڈانگا، بلیارہ، کُسُم تلا اور موسونی – میں جانے والی کشتیوں اور موٹر بوٹ کو تین دنوں کے لیے روک دیا گیا تھا۔ ۲۹ مئی کی صبح جب میں موسونی پہنچا، تو اس کا زیادہ تر حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔
میں باگھ ڈانگا کے ایک راحت کیمپ میں ابھیلاش سردار سے ملا، جنہوں نے بتایا کہ ’’میری زمین کھارے پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ہم کسانوں نے اپنا ذریعہ معاش کھو دیا ہے۔ میں اپنی زمین پر اگلے تین سال تک کھیتی نہیں کر سکتا۔ اسے دوبارہ زرخیز بننے میں سات سال لگ سکتے ہیں۔‘‘
مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے نام کھانا بلاک میں واقع موسونی جزیرہ، ندیوں اور سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ ’یاس‘ کے سبب ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے موسونی کے لیے یہ تباہی، ماضی میں آئے قدرتی آفات کے سلسلہ کی تازہ کڑی ہے۔
پچھلے سال – ۲۰ مئی ۲۰۲۰ کو – سمندری طوفان امفان نے سندر بن کو تباہ کر دیا تھا۔ اس سے پہلے، سمندری طوفان بُلبُل (۲۰۱۹) اور آئلہ (۲۰۰۹) نے اس جزیرے پر تباہی مچائی تھی۔ آئلہ نے موسونی کی ۳۰-۳۵ فیصد زمین کو خراب کر دیا تھا۔ اس طوفان کی وجہ سے، موسونی کے جنوبی ساحل پر واقع زیادہ تر علاقوں کی مٹی میں کھارا پن بڑھ گیا اور یہ زمین کھیتی کرنے لائق نہیں رہ گئی تھی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ گلوبل وارمنگ کے سبب صرف سمندری سطح کا درجہ حرارت نہیں بڑھا ہے، بلکہ ساحلی سطح کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے خلیج بنگال میں آنے والے سمندری طوفانوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) کے سال ۲۰۰۶ کے ایک مطالعہ کے مطابق ، خطرناک سمندری طوفانوں کی شدت میں مئی، اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں اضافہ ہوا ہے۔
باگھ ڈانگا میں پانچ ایکڑ کھیت کے مالک، سرل داس بتاتے ہیں کہ ’یاس‘ سے پہلے ۶ ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے میں پھیلا اس جزیرے کا تقریباً ۷۰ فیصد حصہ کھیتی کے لائق تھا۔ اب صرف ۷۰-۸۰ ایکڑ زمین ہی خشک بچی ہے۔‘‘
سمندری طوفان کی وجہ سے جزیرے کی ۲۲ ہزار لوگوں (مردم شماری ۲۰۱۱) کی تقریباً پوری آبادی متاثر ہوئی ہے، داس کا کہنا ہے، جو باگھ ڈانگا کے کوآپریٹو اسکول میں بھی کام کرتے ہیں۔ ’’جزیرے کے تقریباً ۴۰۰ گھر پوری طرح اجڑ چکے ہیں، جب کہ ۲ ہزار مکانوں کو نقصان پہنچا ہے۔‘‘ زیادہ تر مویشی، مرغیاں اور مچھلیاں بھی ختم ہو چکی ہیں، وہ کہتے ہیں۔
موسونی میں پینے کے پانی کا بنیادی ذریعہ ٹیوب ویل ہے، لیکن طوفان کے بعد وہاں تک پہنچنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ’’زیادہ تر ٹیوب ویل سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہم کمر تک گہرے کیچڑ میں تقریباً پانچ کلومیٹر چل کر، سب سے قریبی ٹیوب ویل تک پہنچ پاتے ہیں،‘‘ جَینَل سردار کہتے ہیں۔
موسونی کے لوگوں کو اس قسم کی تباہی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی عادت ڈالنی پڑے گی، ماحولیات کے ایک محافظ اور سندربن اور یہاں کے لوگوں کا احاطہ کرنے والے سہ ماہی رسالہ ’سُدھو سندربن چرچہ‘ کے ایڈیٹر، جیوتریندر نارائن لاہڑی کہتے ہیں۔ ’’انہیں زندہ رہنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنانی چاہیے، مثلاً ایسے مکانوں کی تعمیر کرنا، جو سیلاب کو جھیل سکیں۔‘‘
لاہڑی کہتے ہیں کہ آفت کے لحاظ سے ہمیشہ خطرے میں رہنے والے موسونی جیسے علاقوں کے لوگ، سرکاری راحت پر منحصرنہیں رہتے۔ ’’وہ آفات کے لیے تیار رہ کر ہی زندہ بچا پاتے ہیں۔‘‘
مغربی بنگال کی حکومت کا اندازہ ہے کہ ریاست بھر میں کھڑی فصلوں والی تقریباً ۹۶ ہزار ۶۵۰ ہیکٹیئر (۲ لاکھ ۳۸ ہزار ۸۳۰ ایکڑ) زمین سیلاب کے پانی میں ڈوب گئی ہے۔ موسونی میں، جہاں کاشت کاری ہی معاش کا بنیادی ذریعہ ہے، حالات اب مزید خراب ہو جائیں گے کیوں کہ یہاں کی زرخیز زمین میں سے زیادہ تر اب کھارے پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔
جزیرے پر رہنے والے لوگ ابھی ’یاس‘ سے ہونے والی بربادی سے باہر نکلنے کی کوشش کر ہی رہے ہیں کہ محکمہ موسمیات نے ۱۱ جون کو شمالی خلیج بنگال میں طوفان کی پیشن گوئی کی ہے، جس کی وجہ سے سندربن میں زبردست بارش ہو سکتی ہے۔
حالانکہ، باگھ ڈانگا میں بی بی جان اس سے بھی زیادہ گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’پانی کم ہونے کے بعد، گوکھرا (ہندوستانی کوبرا سانپ) ہمارے گھروں میں گھُسنے لگے گا۔ ہم ڈرے ہوئے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز