چمنی بائی کو اپنی عمر تو ٹھیک سے یاد نہیں ہے، لیکن انہیں اتنا ضرور یاد ہے کہ ان کے بچپن کے دنوں میں کھانے کا ذائقہ بہتر ہوا کرتا تھا: ’’کھانے کا ذائقہ الگ ہو چکا ہے۔ اب آپ کو پہلے جیسا ذائقہ نہیں ملتا۔ دیسی بیج بچے نہیں ہیں۔ ان کی الگ الگ قسمیں تلاش کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔‘‘
راجسھتان کے اُدے پور شہر کے مضافات میں واقع گھاٹی گاؤں میں رہنے والی ۸۰ سالہ چمنی بائی، بچپن سے ہی بیجوں کو محفوظ طریقے سے بچا کر رکھنے میں مصروف ہیں۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ کیسے انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اپنا گھر بنایا اور کھیتی کی، اور صرف گزارہ چلانے میں ہی ان دونوں کو کتنی محنت کرنی پڑی۔ پھر بھی وہ کہتی ہیں کہ ان کی نوجوانی کے دنوں میں زندگی اور کھانا بہتر ہوا کرتا تھا۔
چمنی بائی اور ان کی فیملی نے برسوں سے بیجوں کی درجنوں مقامی قسمیں محفوظ کرکے رکھی ہیں۔ اور اب انہوں نے اپنا یہ علم اپنی بہوؤں کو منتقل کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’عورتیں بیجوں کو بہتر طریقے سے سنبھال کر رکھتی ہیں اور ان کی تلافی کرنا یاد رکھتی ہیں۔ اس عمل میں بہت سی ضروری تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔‘‘
چمنی بائی بتاتی ہیں، ’’مجھے وہ دور یاد ہے، جب ہمارا گاؤں سیلاب کی چپیٹ میں آ گیا تھا۔ تب سال ۱۹۷۳ چل رہا تھا اور گاؤں کے سبھی گھر برباد ہو گئے تھے۔ ہمارا سب کچھ تباہ ہو گیا تھا، لیکن مجھے اپنے بیجوں کی سب سے زیادہ فکر تھی۔ وہی میری پہلی ترجیح تھی، اور ابھی تک میرے پاس ہیں۔ بیج کسی کسان کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہوتے ہیں۔‘‘
بہت سال پہلے، ان کی فیملی نے بیج کے تحفظ اور ادلا بدلی کی پہل شروع کی تھی، جس کے ذریعے انہیں مقامی کسانوں کے ساتھ بیجوں کی نایاب قسموں کو آپس میں بانٹنے کا موقع ملا۔ بدلے میں، کسان اپنے قرض کی ادائیگی ڈیڑھ گنا بیج کے طور پر کرتے تھے۔
چمنی بائی کی فیملی اب بھی اپنی گھریلو ضروریات کے لیے آرگینک کھیتی کرتی ہے، لیکن بازار کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے بیٹے کیسا رام مینا کہتے ہیں، ’’گاؤں کے دیگر کسان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم حکومت کے ذریعے دیے جانے والے مفت بیج یا کھاد کیوں نہیں لیتے ہیں؟ وہ مجھے بیوقوف کہتے ہیں، لیکن وہ فصلیں الگ ہوتی ہیں۔ ہم انہیں گھر پر نہیں کھاتے۔‘‘
گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کی فیملی کثیر فصلی کھیتی کر رہی ہے۔ آج بھی وہ ہر تین مہینے میں اپنی فصل بدل دیتے ہیں۔ لیکن، بازار پر بڑھتے انحصار کا گاؤں پر منفی اثر پڑا ہے۔ یہ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق اناج نہیں اگا پا رہے ہیں، اور غذا کی فراہمی کے لیے بازار کا رخ کرتے ہیں۔ چمنی بائی بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں، تو ان کے کھیت میں سب کچھ اُگایا جاتا تھا۔ لوگ صرف نمک خریدنے بازار جاتے تھے۔
مترجم: محمد قمر تبریز