کرشنن کو جب اچانک نرم سفید جلد والا موٹا پھل ملتا ہے، تو سبھی خوش ہو جاتے ہیں۔ وہ اسے کھولتے ہیں، اندر کا رنگ چمکیلا گلابی لال ہے۔ اور ۱۲ سالہ آر راجکمار جب بے قراری سے اسے کاٹتا ہے، تو اس کے ہونٹ بھی پوری طرح سرخ ہو جاتے ہیں – اس لیے اس نے اور باقی بچوں نے تھپّاٹّی کَلّی کا نام ’لپسٹک پھل‘ رکھا ہے۔ باقی بچے بھی پھل کا مزہ لینے لگتے ہیں، ان سبھی کے منھ لال ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کا جنگل کا سفر ان کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔
دسمبر کے آخر کی اُس صبح کو اِن بچوں کی رہنمائی کر رہے ہیں ۳۵ سالہ جی منی کندن اور ۵۰ سالہ کے کرشنن۔ وہ انہیں چیروکّنور گاؤں کے قریب واقع جھاڑی دار جنگلوں کے اندر لے جاتے ہیں، بیلوں اور گھاس پھوس کو صاف کرتے ہوئے، اور بیل والی جڑوں کو کھودنے کے لیے برما کا استعمال کرتے ہیں۔ پانچ بچے – جن کی عمر ڈیڑھ سال سے لے کر ۱۲ سال تک ہے – ساتھ ہی ان کے رہنما بھی، سبھی ایرولا ہیں۔
اس اتوار کی صبح، وہ کاٹّو ویّلی کِیژنگو ، قند کی ایک بیل کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپ اسے صرف مخصوص مہینوں میں [دسمبر-جنوری میں] ہی کھا سکتے ہیں۔ یہ نرم ہونا چاہیے، ورنہ جب آپ اسے کھائیں گے تو کھجلی ہوگی،‘‘ منی کندن کہتے ہیں۔ ’’سب سے پہلے ہمیں باقی جھاڑیوں میں سے تنے کی پہچان کرنی ہوگی۔ تنے کی موٹائی ہمیں بتائے گی کہ قند کتنا بڑا ہونا چاہیے اور اسے پورا باہر نکالنے کے لیے کتنا گہرا کھودنا چاہیے۔‘‘ وہ اسی قند کو ڈھونڈ رہے تھے کہ انہیں یہ لپسٹک پھل مل گیا (جسے مقامی سطح پر نڈھیلی پژم بھی کہا جاتا ہے)۔
پھر، چاروں طرف دیکھنے کے لیے کچھ ہی منٹوں کے بعد، انہیں کاٹّو ویلّی کیژنگو کی ایک معقول بیل مل جاتی ہے، جس کی نرم جڑ کو وہ کھود کر نکالتے ہیں۔ بچے، جو ساتھ ساتھ یہ سبھی دیکھ رہے تھے، پرجوش ہوکر اس کی جلد کو چھیلتے ہیں اور اسے کاٹ کر کھانے لگتے ہیں۔
یہ گروپ جو نو بجے صبح کو روانہ ہوا تھا، دوپہر کو بنگلا میڈو واپس لوٹتا ہے، جو کہ تمل ناڈو کے تیرو ولّور ضلع کے تیروتّنی تعلقہ میں چیروکّنور سے تقریباً تین کلومیٹر دور واقع ایرولا بستی ہے۔
منی کندن اور ان کے دوست مجھے جنگل سے جمع کی گئی کچھ سبزیاں اور پھل دکھاتے ہیں۔ کاٹّو ویلّی کیژنگو کے علاوہ، وہ اپنے ساتھ لائے ہیں کُٹّی کیژنگو ، جسے ناشتہ کے طور پر کھایا جاتا ہے؛ کونکی پژم ، ایک میٹھا پھل؛ تھمرائی کیژنگو ، جسے تالابوں سے توڑا اور سبزیوں کی طرح پکایا جاتا ہے؛ ماٹو کلی مولم ، جسے کھانے کے بعد پانی پینے سے یہ میٹھا ذائق دیتا ہے؛ اور کوژی کلی مولام ، جو بہت حد تک بھوک مٹا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ کو خاص طور سے صرف ایرولا کے ذریعے ہی کھایا جاتا ہے۔
کوژی کلی مولم کا استعمال خاص طور سے اس وقت فائدہ مند ہوتا ہے جب وہ صبح کو تقریباً ۷ بجے کچھ بھی کھائے بغیر جنگل کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور شام کو ۵ یا ۶ بجے واپس لوٹتے ہیں۔ ’’یہ کافی حد تک بھوک مٹا دیتا ہے اور اسے کچا کھایا جا سکتا ہے۔ آپ کو کئی گھنٹوں تک بھوک کا احساس نہیں ہوگا،‘‘ منی کندن کہتے ہیں۔
کھانے کے لیے ان جڑوں، پھلوں، قندوں اور ادویاتی جڑی بوٹیوں کو تلاش کرنے کے لیے بہت سے لوگ باقاعدگی سے جنگلوں میں جاتے ہیں - جو لمبے وقت سے اس برادری کے لیے غذا اور دوا کا روایتی ذریعہ رہے ہیں۔ منی کندن بتاتے ہیں کہ جڑی بوٹیاں، جڑیں، پھول اور چھال عام بیماریوں کے علاج کے لیے بھی مفید ہیں۔ مثال کے طور پر، پانی کی لِلی، اَلّی تھمرائی ، اور کمل کی جڑ، تھمرائی کیژنگو کو ابال کر کھانے پر یہ پیٹ کی تکلیفوں کو دور کر سکتی ہے، اور چِنّا ایلائی نام کی چھوٹی پتی کا استعمال کیڑے کے کاٹنے سے ہونے والے دھبّے کا علاج کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
ایروالا کو آدیواسی معاملوں کی وزارت کے ذریعے خاص طور سے کمزور آدیواسی گروپ (پی وی ٹی جی) کے طور پر فہرست بند کیا گیا ہے، اور وہ ملک کے ۷۵ اور تمل ناڈو کے چھ پی وی ٹی جی میں سے ایک ہیں۔ وہ نیلگری کی پہاڑیوں اور میدانی علاقوں کی بستیوں سمیت ریاست کے کئی علاقوں میں رہتے ہیں، انہیں غیر آدیواسی گاؤوں سے اکثر الگ کر دیا جاتا ہے۔
سال ۲۰۰۷ میں گاؤں کے باقی لوگوں کے ساتھ جھگڑے کے بعد، تقریباً ۱۵ ایرولا فیملی چیروکنور گاؤں سے بنگلا میڈو بستی چلی گئی تھی (وقت گزرنے کے ساتھ، یہاں سے ۳۵ فیملی جا چکی ہے)، منی کندن کہتے ہیں، جو ایک این جی او کے ذریعے چلائے جا رہے بستی کے ایک اسکولی تعلیمی مرکز کا انتظام و انصرام کرتے ہیں۔ بستی میں زیادہ تر گھر مٹی کی بنی ہوئی چھوٹی جھونپڑیاں ہیں، حالانکہ ۱۲ گھر پکّے بھی ہیں جو ۲۰۱۵ اور ۲۰۱۶ میں بھاری بارش کے سبب کئی گھروں کے بہہ جانے کے بعد این جی او کے ذریعے بنوائے گئے تھے۔
بنگلا میڈو میں کسی نے بھی ۱۰ویں کلاس سے آگے کی پڑھائی پوری نہیں کی ہے۔ منی کندن نے چیروکنور کے پنچایت یونین میڈیکل اسکول سے ۸ویں کلاس تک کی تعلیم حاصل کی ہے، جیسے کہ تعلیمی مرکز کی ایک اور ٹیچر سُمتی راجو ہیں۔ کرشنن اسکول کبھی نہیں گئے۔ کئی دیگر لوگوں نے ۸ویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑ دیا ہے، کیوں کہ ریاست کے ذریعے چلائے جا رہے ہائر سیکنڈری اسکول تقریباً پانچ کلومیٹر دور دوسرے گاؤں میں ہے۔ نئے اسکول جانا کئی طلبہ کے لیے مشکل ہے، کیوں کہ آٹورکشہ یا بس پکڑنے کے لیے بچوں کو دو کلومیٹر پیدل چل کر جانا پڑتا ہے، جس کا خرچ ان کے اہل خانہ عام طور پر برداشت نہیں کر سکتے۔
چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور کھانے لائق پودوں کو تلاش کرنا، دونوں ہی تیز نظر اور جانوروں کے برتاؤ، ان کی پناہ گاہ اور مقامی موسم کی گہری سمجھ کا کام ہے
محدود تعلیم کے سبب، ایرولا کے کام کے متبادل بھی کم کر دیے گئے ہیں۔ وہ عام طور پر چیروکنور یا آس پاس کی پنچایتوں میں چھوٹے تعمیراتی مقامات پر اور کبھی کبھی تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور تیروتھانی شہر میں مزدوری کرتے ہیں۔ وہ دھان کے کھیتوں پر کام کرتے ہیں، گنّے کی فصل اور بانس کاٹتے ہیں، اور باغات میں پانی دیتے ہیں۔ کچھ سوُکّو کے درخت کاٹتے ہیں، جن کا استعمال تعمیراتی کام میں کیا جاتا ہے۔ دیگر لوگ تیروتھانی تعلقہ میں پھیلے اینٹ یا چارکول کے بھٹوں پر مزدوری کرتے ہیں۔ سبھی کام موسمی اور غیر یقینی ہیں، اور وہ مہینے میں تقریباً ۱۰ دن اوسطاً ۳۰۰ روپے یومیہ کماتے ہیں۔ کئی بار، برادری کی عورتیں بھی ریاست کے ذریعے چلائے جار ہے منریگا کے مقامات پر کام کرتی ہیں اور ۱۷۰ روپے یومیہ مزدوری پاتی ہیں، جہاں ان کے کام میں پودے لگانا، نہر کھودنا اور جنگلی جھاڑیوں کو صاف کرنا شامل ہیں۔
برادری میں ایک یا دو کنبوں نے دودھ کے لیے بکریوں کو رکھنا شروع کر دیا ہے، جسے وہ قریب کے بازاروں میں بیچتے ہیں۔ کچھ لوگ پاس کی کم گہری جھیلوں سے مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ اور کئی بار کھیت کے مالک ایرولا آدیواسیوں کو اپنے کھیتوں سے چوہے بھگانے کے کام میں لگا دیتے ہیں، کیوں کہ یہ چوہے دھان کی چوری کرکے اسے زمین کے نیچے لمبی بلوں میں جمع کر لیتے ہیں۔ ایرولا ان بلوں سے چوہوں کو باہر نکالنے کے لیے دھوئیں کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں جال سے پکڑتے ہیں۔ وہ اس کے گوشت کا استعمال سانبھر میں کرتے ہیں، اور بلوں سے دھان کو نکالنا جاری رکھتے ہیں۔
محدود آمدنی کے سبب، ایرولا کے لیے جنگل سبزیوں اور مانس کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ ’’جب کبھی ہمیں کام نہیں ملتا، تو ہم کھانے کے لیے جنگل جاتے ہیں۔ ہم چھوٹے جانوروں کا بھی شکار کرتے ہیں،‘‘ منی کندن کہتے ہیں۔ ’’ہم خرگوش، گھونگھے، گلہری اور پرندوں کی کچھ قسمیں تلاش کرتے ہیں۔‘‘ کچھ لوگ کبھی کبھی خرگوش کا گوشت ۲۵۔-۳۰۰ روپے میں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ آگے کہتے ہیں۔ ’’خرگوش پکڑنے کے لیے آپ کو بہت خوش قسمت ہونا پڑے گا۔ ایک کو پکڑنے میں ایک ہفتہ سے لے کر ۱۰ دن تک بھی لگ سکتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم ایک دن میں ۲ یا ۳ بھی پکڑ سکتے ہیں۔ خرگوش کھلے میں نہیں گھومتے۔ انہیں گھنی جھاڑیوں سے باہر بھگانے کے لیے ہمیں لمبے ڈنڈوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے، تاکہ وہ ہمارے جال میں پھنس جائیں۔ لیکن خرگوش چاند کی روشنی میں بھی اچھی طرح سے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ جال کے دھات کے پتلے تار کو بھی بھانپ لیتے ہیں اور اس پر دوڑنے سے بچتے ہیں۔ اس لیے ہم انہیں پکڑنے کے لیے اماوسائی کی رات میں باہر نکلتے ہیں، جب آسمان میں چاند نہیں ہوتا۔‘‘
چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور کھانے لائق پودوں کو ڈھونڈنا، دونوں ہی تیز نظر اور جانوروں کے برتاؤ، ان کی پناہ گاہ اور مقامی موسم کی گہری سمجھ کا کام ہے۔ یہ علم ایرولا کے درمیان نسل در نسل پاس ہوتا چلا آ رہا ہے – ٹھیک اسی طرح جیسے کہ کرشنن اور منی کندن نے اس اتوار کو بچوں کے ساتھ کیا تھا۔ ’’ہم ہفتہ کے آخری دنوں اور اسکول کی چھٹیوں کا انتظار کرتے ہیں۔ جب ہمارے والدین ہمیں ان کے ساتھ جنگل میں جانے کی اجازت دیتے ہیں،‘‘ چیروکنور کے پنچایت اسکول میں ۸ویں کلاس کے طالب علم، ۱۳ سالہ آر انوشا کا کہنا ہے۔
لیکن گھنی جھاڑیوں والے جنگل – جو کبھی ایرولا آدیواسیوں کے لیے جلانے والی لکڑی، کھانا، دوا اور معاش کا بنیادی ذریعہ ہوا کرتے تھے – دہائیوں سے سکڑتے چلے جا رہے ہیں۔ کچھ حصوں میں، کھیتوں یا آم کے باغوں کے لیے جنگل صاف کر دیے گئے ہیں؛ کچھ حصوں کو رہائش کے لیے زمین کے ٹکڑوں میں بدل دیا گیا ہے؛ اور کچھ جگہوں پر، تھیروولور ضلع کے غیر آدیواسیوں نے اس علاقے میں باڑ لگاکر زمین کا مالک ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور ایرولا آدیواسیوں کے داخلہ پر پابندی لگا دی ہے۔
گھٹتے جنگل اور کام کے غیر یقینی متبادل کے سبب، برادری کے کئی لوگوں کو امید ہے کہ بہتر تعلیم ان کے بچوں کو بہتر متبادل دے گی۔ ہائی اسکول تک پہنچے میں پریشانیوں کے باوجود، بنگلا میڈو کی ایرولا برادری کے کئی لوگ آگے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ منی کندن کے تعلیمی مرکز میں، ان کی ۳۶ سالہ بہن کے کنی امّا، جو اپنے پوتے کے ساتھ وہاں پہنچتی ہیں، کہتی ہیں، ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اچھی طرح سے پڑھائی کریں اور نوکریں حاصل کریں۔ ہم انہیں اپنے جیسا نہیں بنانا چاہتے کہ وہ کمانے اور زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتے رہیں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)