سال ۲۰۲۰ میں کورونا وبائی مرض کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا تھا۔ گاؤں سے خبر آئی تھی کہ میرے دادا گر گئے تھے اور ان کا پیر ٹوٹ گیا تھا۔ صحت عامہ کے مرکز سے ڈاکٹر غائب تھے۔ آس پاس کے تمام پرائیویٹ کلینک کورونا کی وجہ سے بند تھے۔ دادا کے ٹوٹے پیر پر گھر والوں نے جیسے تیسے پلاسٹر چڑھوا دیا تھا اور گھر پر ہی ان کی دیکھ بھال ہونے لگی۔ لیکن، کبھی بخار تو کبھی پیر میں شدید درد کی وجہ سے ان کی چیخیں نکل جاتیں۔ ان کا جسم کمزور ہوتا گیا، اور مئی کے آخر میں انہوں نے آخری سانس لی۔
اس حادثہ کے وقت میں ممبئی میں تھا۔ اچانک سب کچھ بند ہو جانے کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں طوفان سا آ گیا تھا۔ ایک طرف وبائی مرض کا خوف ستائے جا رہا تھا، تو دوسری طرف سڑکوں پر پولیس ڈنڈے برسا رہی تھی۔ کام کاج ٹھپ تھا، مہاجر مزدور اپنے گاؤں کی جانب لوٹنے لگے تھے۔ میں ممبئی میں رکا رہا، کیوں کہ سبزی بیچتا تھا، اور اس کی وہاں اجازت تھی۔ لیکن، اتر پردیش کے جونپور ضلع میں واقع میرے گاؤں سے جب دادا کے گزر جانے کی خبر آئی، تو گھر جانے کے لیے بے تاب ہو اٹھا۔ ان کے ساتھ میرا جذباتی رشتہ تھا۔ اس کے علاوہ، گاؤں میں ماں کے سوا کوئی دوسرا ذمہ دار انسان بھی موجود نہیں تھا۔
یہی وہ دور تھا، جب کئی خبروں نے اندر سے توڑ دیا تھا۔ کچھ مزدور پیدل اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے، اور رات میں تھکان کی وجہ سے ٹرین کی پٹری پر ہی سو گئے تھے ۔ ٹرین آئی اور انہیں کاٹتی ہوئی چلی گئی تھی۔ کوئی ماں بغیر دانہ پانی کے گود میں دودھ پیتا بچہ لیے چل رہی تھی۔ میں نے دادا کے انتقال کے بعد پیکنگ کی اور ٹرین کا پتہ لگانے کے لیے ممبئی کے اندھیری (ویسٹ) کے قریبی تھانہ میں گیا۔ لیکن وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ الہ آباد جانے والی ٹرین نہیں چل رہی ہے۔ اسی درمیان وارانسی میں ٹرین کے اندر سے دو لاشیں ملنے کی خبر آئی۔ ایک ٹرین کو اتر پردیش جانا تھا، لیکن وہ اوڈیشہ نکل گئی۔ اور مجھے تو گاؤں تک پہنچنے کے لیے الہ آباد (پریاگ راج) سے بھی ۷۰ کلومیٹر آگے جانا تھا، اس لیے ان خبروں نے ٹوٹتے حوصلہ کو اور توڑ دیا۔ ٹیکسی بُک کرکے کوئی جانا چاہے، تو جا سکتا تھا، جس کے لیے ۵۰-۴۰ ہزار روپے چُکانے ہوتے۔ لیکن، میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا، اس لیے میں نے گاؤں جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس کے علاوہ، کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
آخری رسومات کے لیے دادا کو الہ آباد کے جھونسی قصبہ میں لے جایا گیا تھا۔ ماں بتاتی ہیں کہ گاڑیوں کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔ پولیس مختلف قسم کے سوال پوچھتی تھی۔ کئی جگہ پر تو گھاٹوں پر آخری رسومات ادا کرنے تک کی پابندی تھی۔ خوف کے سایہ میں جیسے تیسے دادا کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
ویسے میری پیدائش ممبئی میں ہی ہوئی تھی، لیکن بچپن اتر پردیش کے جونپور ضلع میں گزرا اور پڑھائی لکھائی بھی وہیں ہوئی۔ پاپا سال ۱۹۷۵ کے آس پاس ۱۵ سال کی عمر میں جونپور سے ممبئی آئے تھے۔ حالانکہ، ان کا ممبئی آنا اتنا آسان نہیں رہا تھا۔ جب وہ پیدا ہی ہوئے تھے کہ ان کی ماں گزر گئیں۔ دادا کے پاس روزگار کے نام پر دوسروں کے کھیتوں میں مزدوری کرنے، مٹی کے برتن اور چھت کے کھپریل بنانے کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔ دوسروں کے کھیتوں میں ہل جوتنے، کُدال چلانے پر اتنی مزدوری نہیں ملتی تھی کہ سب کا پیٹ بھر سکیں۔ پہننے کے نام پر فیملی کے مردوں کے پاس دھوتی نما چھوٹے کپڑے ہوتے تھے، جسے بھگئی کہتے ہیں اور جس سے صرف ستر کو ہی ڈھانپا جا سکتا تھا۔ کھانے میں گیہوں یا چاول جیسی چیزیں نہیں تھیں۔ باجرا، مکئی، آلو، مہوا آس پاس کے کھیتوں میں اُگتا تھا، اور غذا کا بنیادی ذریعہ ہوا کرتا تھا۔
*****
شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دادا کن لوگوں کے یہاں ہرواہی کرتے تھے، کن کے حصے زمینیں تھیں اور مزدور کون تھا۔
دادا کو کتنی ہی بار محنت کے بدلے مزدوری نہیں ملتی تھی۔ مانگنے پر کہا جاتا کہ تمہارے پُرکھوں (آباء و اجدا) کا ابھی بہت قرض باقی ہے، جو تمہیں ادا کرنا ہے۔ ’’تمہارے دادا نے اتنا قرض لیا تھا، پردادا کا اُتنا پیسہ باقی ہے…‘‘ شاید یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ کن لوگوں کے یہاں دادا ہرواہی (ہل چلانے کا کام) کرتے تھے، کن کے حصے زمینیں تھیں اور مزدور کون تھا۔ پاپا جب تھوڑے بڑے ہوئے، تو انہیں لوگوں کے یہاں رہنے لگے جہاں دادا ہرواہی کرتے تھے۔ ماں تھی نہیں اور دادا کی اپنی جدوجہد تھی، تو پاپا اور ان کے بڑے بھائی کا خیال کون رکھتا۔ پاپا پورا دن انہیں لوگوں کے یہاں گزارتے، اور کھیتوں سے لے کر گھر تک کے جو کام بتائے جاتے وہ کرتے۔ جب کام نہیں رہتا، تو ان کی گائیں بھینسیں لے کر چرانے نکل جاتے۔ ان سب کے عوض میں کچھ کھانے کو مل جاتا تھا۔ یہی ان کی مزدوری تھی۔ پاپا بتاتے ہیں کہ کام چھوڑ کر جانے کا متبادل بھی نہیں تھا۔
سال ۱۹۷۰ میں گاؤں کے ایک پڑوسی ممبئی آ گئے تھے اور انہوں نے کیلے بیچنے کا کام شروع کیا تھا۔ کچھ سال بعد، بڑے چاچا (پاپا کے بڑے بھائی) انہیں کے سہارے ممبئی آ گئے اور ان کے معاون بن کر کیلے کا کاروبار چلانے لگے۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے اپنا خود کا کاروبار شروع کیا۔ اگلی بار جب بڑے پاپا گاؤں آئے، تو پہلی بار کچھ پیسوں کی وجہ سے گھر میں رونق تھی۔ جب وہ پھر سے ممبئی گئے، تو اس بار پاپا کو بھی ساتھ لے لیا۔ اس کی خبر جب اُن لوگوں کو ہوئی جن کے یہاں پاپا دن بھر کام کرتے تھے، تو وہ آ کر گھر کے پڑوسی سے لڑ بیٹھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے آدمی کو بھڑکا رہے ہیں، بگاڑ رہے ہیں۔ بات کافی آگے بڑھ گئی تھی، مار پیٹ کی نوبت آ گئی تھی۔ دونوں گھروں کو خوب دھمکیاں ملیں، مگر سب نے ہمت برقرار رکھی اور ممبئی کی راہ لی۔ یہ غلامی کی زنجیر کو توڑنے کی سمت میں اٹھایا گیا پہلا قدم تھا۔ کئی بار یقین تو نہیں ہوتا کہ یہ سب آج سے محض ۴۵-۴۰ سال پہلے ہو رہا تھا، ایک آزاد ملک میں۔
ممبئی میں بڑے پاپا کے ساتھ کچھ وقت تک کام کرنے کے بعد، پاپا پھلوں کی اپنی دکان چلانے لگے۔ حالات تھوڑے بہتر ہوئے تو گاؤں میں ان کی شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد کچھ وقت تک گاؤں میں ہی رہنے کے بعد ماں، پاپا کے ساتھ ممبئی آنے جانے لگیں۔ اب سال کے کچھ مہینے وہ ممبئی میں پاپا کے ساتھ رہتیں، پھر گاؤں چلی جاتی تھیں۔ اسی دوران، ۱۹۹۰ میں ممبئی کے جوہو علاقے میں واقع کوپر اسپتال میں میری پیدائش ہوئی۔
ممی جس فیملی سے تھیں، وہاں کی مالی حالت بہتر تھی۔ نانا کے پاس ٹھیک ٹھاک کھیتی باڑی تھی۔ دونوں ماموں اچھی طرح لکھ پڑھ گئے تھے۔ آج سے تقریباً ۴۰ سال پہلے، ان کا بارہویں کلاس تک تعلیم حاصل کر لینا بہت بڑی بات تھی۔ اس کے علاوہ، ان کا سیاسی رجحان، سمجھ، سماج کے بارے میں نظریہ جدید تھا۔ لیکن، اس پدرانہ معاشرہ میں مردوں کی حالت کتنی بھی بہتر ہو جائے، عورتوں کے حصے کی جدوجہد ختم نہیں ہوتی۔ میری ماں، خالہ اور ممانیوں کی زندگی کھیتوں میں ہی صرف ہو رہی تھی۔
ماں کی پہلی شادی، یکساں مالی حالت والی ایک فیملی میں کر دی گئیت ھی۔ مگر کچھ عرصے بعد ممی میکے لوٹ آئی تھیں۔ مجھے وجہ ٹھیک ٹھیک نہیں معلوم، لیکن جہاں تک میں نے سنا ہے یہی پتہ چلا کہ شاید ماں کے جلد سے متعلق مرض کی وجہ سے ایسا ہوا تھا۔ میں نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ سال تک ماں، نانا و ماموں کے ساتھ رہیں۔ اس کے بعد، ان کی دوبارہ شادی کر دی گئی۔ دوسری شادی پاپا کے ساتھ ہوئی۔ بات سیدھی تھی، پاپا کے گھر کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی، اس لیے تھوڑی بہتر حالت والے گھر سے آئے رشتہ کو منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
میرے پیدا ہونے تک پاپا کی دکان ٹھیک چل رہی تھی۔ پھر کچھ ایسی مشکلیں آئیں کہ دکان چھوٹ گئی اور پاپا کو کرایے کی دکان پر کام شروع کرنا پڑا۔ وہیں، ہم پانچوں بچوں کی پیدائش کے بعد ماں کا ممبئی آنا جانا تقریباً بند ہو گیا تھا۔ ماں، گاؤں میں دادا کے ذریعے لی گئی بٹائی کی کھیتی میں مصروف رہتیں، اور بقیہ وقت مٹی کے برتن بنانے میں لگنے والی مٹی تیار کرنے میں مدد کرتیں۔ لیکن، مالی وجوہات سے خاندان کی آپسی لڑائی اتنی بڑھ گئی کہ ماں ہم پانچوں بھائی بہن کو لے کر خاندان سے الگ ہو گئیں۔ الگ ہونے پر، کچھ برتنوں اور تھوڑے اناج کے علاوہ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ حالانکہ، تب ماموں لوگوں نے تھوڑی مالی مدد کی تھی اور راشن کا شروعاتی انتظام بھی کرکے دیا تھا۔ پھر ماں نے گاؤں کے ہی اونچی ذات والوں کے کھیت بٹائی پر لے کر کھیتی کرنا شروع کیا۔ ماں کی محنت کا اثر ہی تھا کہ سال دو سال کے اندر گھر میں کافی اناج رہنے لگا۔ ماں دوسروں کے گھروں میں کام بھی کرنے لگی تھیں۔ ان کی کڑی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ کھانے پہننے کے معاملے میں ہم بہتر ہونے لگے۔
پاپا اگلی بار جب گاؤں آئے، تو ماں نے جاتے وقت مجھے ان کے ساتھ ممبئی بھیج دیا۔ تب سال رہا ہوگا ۹۹-۱۹۹۸، اور میری عمر تب ۸ یا ۹ سال کی رہی ہوگی۔ ممبئی بھیجنے کا مقصد یہی تھا کہ میری آوارہ گردی وہاں چھوٹے گی اور پاپا کی مدد بھی ہو جائے گی۔ اس درمیان پاپا نے کئی جگہ دکان بدلی۔ کہیں پر دھندہ نہیں تھا، تو کہیں بی ایم سی (برہمن ممبئی مہانگر پالیکا) کی کارروائی بہت زیادہ تھی۔ ان کے کام کا کوئی مستقل پتہ نہیں تھا۔ کچھ لوگوں کے دباؤ ڈالنے پر پاپا نے بی ایم سی کے ایک اسکول می میرا داخلہ کرا دیا۔ میرا نام عمر کے حساب سے تیسری کلاس میں لکھوا دیا گیا تھا۔ اسکول میں کچھ نئے بچوں سے ملاقات ہوئی اور میرے اندر اسکول جانے کی خواہش دوبارہ جاگ اٹھی۔
*****
حالات ایسے نہیں تھے کہ پڑھائی کے لیے ۴-۳ سال کی مہلت مل جائے۔ اس لیے، میں نے وہ خواب دیکھنا چھوڑ دیا۔
پاپا صبح کو منڈی نکل جاتے تھے۔ میں دودھ اور بسکٹ کھا کر اور کچھ پیسے لے کر صبح سات بجے اسکول نکل جاتا۔ تقریباً دس بجے جب لنچ ہوتا، تو اسکول کی کینٹین سے سموسا یا وڑا، جو بھی ملتا تھا وہ کھا لیتا تھا۔ بارہ بجے گھر لوٹ کر میں پاپا کی ہدایت کے مطابق مٹی کے تیل (کیروسین) سے چلنے والے اسٹوو (چولہے) پر کھانا بناتا۔ وہ عموماً کھچڑی یا دال چاول بنانے کا طریقہ بتا جاتے۔ نو سال کی عمر میں جتنا دماغ کام کرتا تھا، میں اس حساب سے بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ کتنی ہی بار چاول گیلا پکتا، کئی بار نیچے سے جل جاتا یا کچا رہ جاتا۔ کھانا بنانے کے بعد میں ٹفن پیک کرتا، اور بی ایس ٹی (روڈ ٹرانسپورٹ) کی بس پکڑ کر کمرے سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور واقع پاپا کی دکان پر لے جاتا۔ پاپا کھانا کھاتے وقت اکثر چیختے کہ یہ کیا بنا ڈالا ہے، یہی بتایا تھا کیا؟ ستیاناس (پورا برباد) کر دیا…وغیرہ وغیرہ۔
دوپہر میں پاپا دکان کے نیچے کی زمین پر سو جاتے اور میں دکان سنبھالتا۔ میرا کام یہیں ختم نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ شام کو اٹھتے، تو میں آس پاس کی گلیوں میں دھنیا اور لیموں فروخت کرنے نکل جاتا تھا۔ دھنیا کے بنڈل کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھ، اور دونوں ہتھیلیوں میں لیموں پکڑ کر میں نے راہگیروں کو بیچنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ لیموں دھنیا بیچ کر روزانہ ۵۰ سے ۸۰ روپے تک کی کمائی ہو جاتی تھی۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈھائی سال تک چلا۔ پھر اچانک کسی وجہ سے پاپا گاؤں گئے، تو مجھے بھی ساتھ جانا پڑا۔ پانچویں کی میری پڑھائی آدھی ادھوری رہ گئی۔
اس بار ماں نے مجھے گاؤں میں روک لیا۔ انہیں ایسا لگنے لگا تھا کہ تعلیم ضروری ہے، اس لیے گھر کا کوئی بچہ تو پڑھے۔ یا مجھے روک لینے کی وجہ شاید ممبئی کی میری جدوجہد تھی۔ میں نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے مجھ سے بھی جاننا نہیں چاہا کہ مجھے کہاں رہنا پسند ہے۔ انہیں جو بہتر لگا انہوں نے میرے لیے کیا۔
ماما کے گھر پڑھائی کا بہتر ماحول تھا، اس لیے ماں نے ان سے بات کی اور میں تقریباً گیارہ سال کی عمر میں ماما کے گھر چلا گیا۔ وہاں گھر کے سبھی بچے اسکول جاتے تھے۔ مجھے پہلی بار پڑھائی کا ایسا ماحول ملا تھا۔ ماما لوگ کمیونسٹ پارٹی سے جڑے تھے، تو ماحول اکثر سیاسی بھی ہو جاتا۔ پہلی بار میں نے یہیں پر ملک کی سیاسی پارٹیوں کے نام سنے، علاقائی لیڈروں کے نام جانے۔ ایک دوپہر کو دیکھا کہ پڑوس کے ایک آدمی، جنہیں ہم ماما کہتے ہیں اور لوگ کامریڈ بلاتے ہیں، بہت سے لال جھنڈے لیے دروازے پر کھڑے ہیں۔ تھوڑا پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ کمیونسٹ پارٹی کا جھنڈا ہے، کسان مزدوروں کا جھنڈا ہے۔ وہ لوگ سرکاری پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے لیے جا رہے تھے۔ مجھے تب پہلی بار یہ معلوم ہوا کہ سرکار کی مخالفت بھی کی جاتی ہے۔
سال ۲۰۰۸ میں بارہویں کا امتحان پاس کر لینے کے بعد، ماما نے مجھے پولی ٹیکنک میں ڈپلومہ کرنے کے لیے مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرنے کا مشورہ دیا۔ جب میں نے ماں سے اس موضوع پر بات کی، تو ماں نے کہا کہ اب پہلے جیسے حالات نہیں رہ گئے ہیں۔ ان کے یوں منع کرنے پر بھی ماما نے پولی ٹیکنک کا فارم ڈلوا دیا تھا۔ پہلی بار میں رینک اچھا نہیں آیا۔ میں نے اگلے سال پھر سے کوشش کی اور ایک سال کی محنت سے اچھا رینک آیا اور اس بار ایک سرکاری کالج مل گیا۔ کاؤنسلنگ کا لیٹر بھی آ گیا تھا، اور سال بھر کی فیس ۶۰۰۰ روپے تھی۔ میں نے ماں سے ایک بار پھر پوچھا، لیکن انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ ماما نے کہا، ہم دیکھ لیں گے۔ لیکن ماں نے پھر دوہرایا کہ بہنیں بڑی ہو رہی ہیں، پاپا اب اتنا نہیں کما پاتے۔ آگے کا کیسے ہوگا؟ میں صحیح تھی۔ حالات ایسے نہیں تھے کہ پڑھائی کے لیے تین چار سال کی مہلت مل جائے۔ میں نے وہ خواب وہیں چھوڑ دیا۔
اس کے بعد، میں نے کئی بار سائیکل اٹھا کر گاؤں سے دور کے ایسے بازاروں میں جا کر کام تلاش کرنے کی کوشش کی، جہاں مجھے کوئی نہ جانتا ہو۔ جاننے والوں سے کام مانگنے میں جھجک ہوتی تھی۔ خیر، کام ڈھونڈتے وقت ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے کا کام ملا۔ لیکن، دو تین مہینے پڑھا کر دیکھا کہ پورے پیسے نہیں مل رہے تھے، اس لیے دل ٹوٹ گیا۔ میں نے سوچا کہ ممبئی نکل جاتا ہوں؛ پاپا بھی تھے وہاں، تو لگا کہ کچھ نہ کچھ کام مل ہی جائے گا۔ ماں بھی اس بات سے راضی تھیں۔ پھر ایک دن انہی پڑوسی کے بیٹے کے ساتھ میں ممبئی آ گیا جن کے ساتھ پاپا پہلی بار آئے تھے۔
*****
کام کی تلاش پھر شروع ہوئی۔ رہنے کا ٹھکانہ بھی معلوم نہیں تھا۔ میں پورا دن کام کی ہی تلاش میں رہتا تھا۔
ممبئی کے اندھیری (ویسٹ) علاقے میں، پاپا جہاں سبزی کی دکان لگاتے تھے، وہیں فٹ پاتھ کے کونے میں کھانا بناتے، کھاتے اور وہیں سو بھی جاتے تھے۔ ایسے میں ان کے ساتھ رہنا مشکل تھا۔ دودھ کی ایک دکان پر مجھے کام مل گیا۔ مالک نے کہا کہ بس دکان دیکھنی ہے، کبھی یہاں وہاں سامان چھوڑنا ہوگا، رہنا کھانا یہیں ہوگا، کام مہینے کے تیسوں دن ہوگا، کوئی چھٹی نہیں، اور پگار (مزدوری) ۱۸۰۰ روپے۔ میں نے کام کے لیے حامی بھر دی تھی۔ لیکن، ایک ہفتہ میں اچانک دونوں پیروں میں ورم آ گیا۔ شدید درد تھا اور بیٹھنے پر تھوڑا سکون ملتا۔ بیس بائیس دن کام کرنے کے بعد، میں نے سیٹھ سے کہہ دیا کہ یہ مہینہ پورا ہو جانے کے بعد کام نہیں کر پاؤں گا۔
کام کی تلاش پھر شروع ہوئی۔ رہنے کا ٹھکانہ بھی معلوم نہیں تھا۔ دن بھر کام ڈھونڈتا تھا، پھر کبھی بس اسٹاپ یا کسی دکان کے سامنے سو جاتا تھا۔ آخرکار، ایک آن لائن لاٹری کی دکان میں کام مل گیا، جہاں لوگ سٹّہ (بازی) لگانے آتے تھے۔ یہاں میرا کام بورڈ پر لاٹری کے نمبر لکھنے کا تھا، جس کے لیے ایک دن کے ۸۰ روپے ملتے تھے۔ میرا سیٹھ ایک دن خود سٹّہ لگانے لگا، جس میں اس نے تقریباً ۸-۷ لاکھ روپے ڈبو دیے۔ اس کانڈ کے بعد اگلے دو دنوں تک دکان نہیں کھلی۔ تیسرے دن کسی نے مجھے بتایا کہ سیٹھ کے سیٹھ نے سیٹھ کو پیٹ دیا تھا اور اب دوسرے سیٹھ کے آنے تک دکان نہیں کھلے گی۔ لیکن دوسرا سیٹھ آیا ہی نہیں۔ میرے تقریباً ایک ہزار روپے بقایہ تھے، وہ ڈوب گئے۔ ایک بار پھر میں کام کی تلاش میں بھٹکنے لگا۔
اس درمیان، پاپا کے پیر میں مسئلہ شروع ہو گیا تھا۔ میں نے پاپا سے کہا کہ اب مجھے کام کرنے دیجئے اور آپ گاؤں ہو آئیے، میں آپ کی دکان یہاں سنبھالتا ہوں۔ شروع میں تو پاپا نے کہا کہ نہیں کر پاؤگے، دنیا بھر کی دقتیں ہوتی ہیں سڑک پر۔ لیکن، وہ خود بھی گھر جانا چاہتے تھے، میں نے بھی انہیں دکان چلانے کے لیے راضی کر لیا تھا۔
اپنے دَم پر ایک ہفتہ دکان چلا کر میں نے تقریباً ڈیڑھ ہزار روپے بچا لیے تھے۔ یہ میرے لیے بہت بڑی رقم تھی۔ اس کمائی نے کام کے تئیں ایمانداری کا جذبہ پیدا کر دیا اور ایک مہینے کی محنت کے بعد میں نے پانچ ہزار روپیے بچا لیے۔ جب میں نے ڈاک سے گھر پر پہلی بار پیسے بھیجے، تو ماں خوش تھی۔ پاپا حیران تھے کہ جس دکان پر وہ کچھ نہیں بچا پا رہے تھے، میں نے اتنے پیسے بچا لیے تھے۔
جہاں میں ریہڑی لگاتا تھا، سڑک کے اُس پار ایک سبزی کی دکان اور تھی جس پر میری عمر کا ایک لڑکا آ گیا تھا۔ دھیرے دھیرے ہم اچھے دوست بن گئے۔ مجھے یاد ہے جب پہلی بار اس نے کھانے کی پلیٹ آگے بڑھائی تھی۔ نام اس کا عامر تھا۔ عامر کے ساتھ آ کر کھانے پینے کی میری ٹینشن ختم ہو گئی۔ اب عامر مجھ سے پوچھتا کہ آج کیا بنا لیں۔ مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تھا، اس لیے اکثر میں کھانے کے بعد سارے برتن دھو دیتا تھا۔ جس کھلی جگہ پر ہم سوتے تھے، وہاں ہماری جیب سے پیسے چوری ہونے لگے۔ ایک بار تو کوئی جیب سے موبائل ہی نکال لے گیا تھا۔ اس لیے، کچھ دن بعد میں نے اور عامر نے مل کر کرایے کا مکان لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک جان پہچان والے نے ’چال‘ میں گھر دلوا بھی دیا۔ کچھ پیسے پگڑی کے (پیشگی رقم) دینے پڑے تھے اور مہینے کا کرایہ تین ہزار تھا، جو میں اور عامر آپس میں بانٹ لیتے تھے۔
گاؤں کا میرا گھر کچا بنا ہوا تھا۔ کچھ دنوں پہلے اس میں آگ لگ گئی تھی، اور مرمت کروانے کے باوجود اس کی حالت خستہ بنی ہوئی تھی۔ اس لیے، کچا گھر گراکر اسی جگہ پر پکا گھر بننے لگا تھا۔ اسی دور میں، سال ۲۰۱۳ کے مئی مہینے میں میرے دونوں پیروں میں عجیب طرح کا درد شروع ہوا۔ گاؤں کے کمیونٹی ہیلتھ سینٹر پر ڈاکٹر سے ملا، تو انہوں نے کیلشیم کی کمی بتائی۔ جب معاملہ ٹھیک نہیں ہوا، تو ڈاکٹر نے تمام ٹیسٹ لکھ دیے۔ رپورٹ آنے پر معلوم ہوا کہ پیلیا (یرقان) ہے۔ علاج کے باوجود میری حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ چونکہ افاقہ بالکل بھی نہیں ہو رہا تھا، اس لیے گھر والے اکثر نیم حکیم یا جھاڑ پھونک کرنے والے کے پاس لے جاتے۔ پیسے دونوں طرف سے جا رہے تھے، دوا اور دعا، دونوں میں۔ لیکن آرام کہیں سے بھی نہیں ملا۔ میں پیسے سے پوری طرح خالی ہو گیا۔ میری حالت دیکھ کر رشتہ داروں نے مدد کی۔ میں ممبئی چلا آیا۔
میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے۔ کبھی لگتا میں گاؤں میں ہوں، کبھی لگتا ممبئی میں۔ گاہک سے قریبی دوست بن چکی کویتا ملہوترا کو میرے بارے میں پتہ چلا، تو وہ پریشان ہو اٹھیں۔ پیشہ سے ٹیچر کویتا ملہوترا اپنے جاننے والے ڈاکٹروں کے پاس لے جانے لگیں۔ سارا خرچ وہ خود اٹھاتی تھیں۔ لوگوں کے بہت کہنے پر عامر مجھے درگاہ بھی لے گیا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ میں کبھی بدن کے پورے کپڑے نکال کر پھینک دیتا، کبھی ادھر ادھر بھاگنے لگتا۔ ایک دن پاپا مجھے ٹرین میں لے کر کسی پہچان والے کی مدد سے پھر گاؤں آ گئے۔ گاؤں میں ڈاکٹر اور اوجھاؤں کو دکھانے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو چکا تھا۔ اکثر لوگ الہ آباد کے تمام ڈاکٹروں کے مشورے دیتے، بولیرو (گاڑی) بُک کی جاتی، جس میں ماں مجھے لے کر چل پڑتی تھیں۔ پیسے ماں کے پاس بالکل بھی نہیں تھے، مگر رشتہ مالی مدد کر دیتے تھے۔ میرا وزن چالیس کلو تک آ گیا تھا۔ کھاٹ (تختے) پر لیٹتا تو ایسا لگتا ہڈی کا ڈھانچہ ہوں۔ لوگ کہتے کہ اب بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ایک ماں تھی، جو ہمت نہیں ہاری تھی۔ ماں نے علاج کے لیے یکے بعد دیگرے اپنے تمام زیورات بیچنے شروع کر دیے تھے۔
دریں اثنا، کسی کے مشورہ پر میرا علاج الہ آباد کے ماہر نفسیات ڈاکٹر ٹنڈن کے پاس شروع ہوا۔ انہوں نے ۱۵ اگست، ۲۰۱۳ کا اپائنٹمنٹ دیا تھا۔ جس بس سے ہم نکلے، وہ آگے جا کر بند ہو گئی۔ وہاں سے دو کلومیٹر دور ہی چوراہا تھا، جہاں سے الہ آباد کے لیے بسیں ملتی تھیں۔ میں نے ہمت باندھی اور پیدل چلنا شروع کیا، لیکن تھوڑی ہی دور بعد ہار گیا، اور سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ ماں نے کہا کہ ’’چلو، میں تم کو پیٹھ پر اٹھا کر لے چلوں گی۔‘‘ ان کی بات سن کر میں رو پڑا۔ تبھی ایک ٹیمپو وہاں سے گزرا اور ماں کے ہاتھ جوڑنے پر رک گیا۔ ٹیمپو ڈرائیور نے ہمیں بس بھی پکڑایا اور پیسے بھی نہیں لیے۔ مجھے اپنی بیماری کے دور کا کچھ بھی یاد نہیں ہے، لیکن یہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ اور ٹھیک یہیں سے میری صحت بہتر ہونا شروع ہوئی تھی۔ دھیرے دھیرے وزن بھی اضافہ ہوا۔ لیکن کمزوری اب بھی تھی۔ زیادہ وزن اٹھا نہیں پاتا تھا۔ مگر پھر بھی ہمت کرکے کام کرنے لگا اور پھر سے ممبئی آ گیا۔ کاروبار ایک بار پھر رفتار پکڑ چکا تھا، اور اگلے دو سال حالات بہتر رہے۔ پھر سال ۲۰۱۶ میں نوٹ بندی کا اعلان ہوا، جس سے میرا دھندہ پوری طرح چوپٹ ہو گیا۔
*****
بھگت سنگھ کو پڑھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ جو بھارت آج ہے، کیا انہوں نے اسی بھارت کا خواب دیکھا تھا؟
گزشتہ کافی عرصے سے، میں سوشل میڈیا کا بہت استعمال کرنے لگا تھا۔ وہاٹس ایپ فارورڈ پڑھ کر دماغ رائٹ ونگ رجحان کی طرف پوری طرح سے مائل تھا۔ ایک ڈیڑھ سال میں ہی سوشل میڈیا نے ایسے جکڑا کہ میں ایک مسلم فیملی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی مسلمانوں سے نفرت کرنے لگا تھا۔ عامر میری باتوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ مگر مجھے ملک کے باقی مسلمانوں سے دقت تھی۔ مجھے پاکستان، کشمیر، شمال مشرق کے لوگوں سے دقت تھی۔ میں جس مذہب میں پیدا ہوا، اس مذہب کو نہ ماننے والوں سے مجھے دقت تھی۔ کسی عورت کو جینس پہنتے دیکھتا تو لگتا یہ معاشرے کو خراب کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کی تنقید سن کر ایسا لگتا گویا کوئی میرے مسیحا کو گالی دے رہا ہے۔
ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ مجھے اپنی بات کہنی چاہیے، اور اس لیے، میں اپنے خود کے تجربات کو سوشل میڈیا پر کہانی کی طرح لکھنے لگا، جسے پڑھ کر لوگ مجھ سے جڑتے گئے
ایک دن عامر نے ایک صحافی کا ذکر کیا، جن کا نام سکسینہ تھا۔ عامر نے فیس بک پر ان کی کئی پوسٹ دکھائی۔ مجھے لگا کہ کیا بکواس آدمی ہے، غدارِ وطن۔ وزیر اعظم کی تنقید کرنے والی بات لکھنے والے کی عامر تعریف کر رہا تھا، جو مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ لیکن میں عامر سے کچھ نہ کہہ سکا۔ پھر ایک دن اچانک ان سے ملاقات بھی ہو گئی۔ چھوٹے قد اور بڑے بال والا یہ انسان مسکراتے ہوئے مجھ سے ملا۔ اس آدمی کے لیے نفرت اب بھی میرے من میں تھی۔
مینک کے دوسرے دوست بھی اسی کی سوچ والے تھے، ان سے بھی ملاقات ہوتی رہی۔ میں ان کو بحث کرتے دیکھتا۔ اتنے اعداد و شمار، کتابوں، جگہوں، آدمیوں کا نام وہ لے لیتے جنہیں میں نے کبھی سنا ہی نہ ہوتا۔ مینک نے ایک کتاب اپنی طرف سے دی۔ وہ تھی ’ستیہ کے ساتھ میرے پریوگ‘ ۔ یہ گاندھی کی لکھی ہوئی کتاب تھی۔ گاندھی، نہرو کو لے کر میرے دماغ میں اب بھی زہر بھرا ہوا تھا۔ وہ کتاب مجھے بورنگ لگی مگر میں پڑھتا گیا۔ پہلی بار گاندھی کے بارے میں اتنا جان پایا۔ مگر اب بھی بہت کچھ پڑھنا جاننا باقی تھا۔ جو کوڑا دماغ میں بھرا تھا، وہ دھیرے دھیرے نکلنے لگا تھا۔
ایک بار دادر میں احتجاجی مظاہرہ تھا۔ مینک وہاں جا رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے چلنے کے بارے میں پوچھا، تو میں بھی ساتھ ہو لیا۔ دادر اسٹیشن کے باہر بہت سے لوگ دائرہ بناکر احتجاج و مظاہرہ کر رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے، اور سرکار کی جابرانہ پالیسیوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ بہت سالوں بعد مجھے لال جھنڈا پھر دکھائی دیا۔ مینک وہاں ڈفلی لے کر لوگوں کے ساتھ عوامی تحریک سے متعلق گیت گانے لگے۔ پروٹیسٹ کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا اور یہ سب دیکھنا کسی حیرت سے کم نہ تھا۔ مینک کو تھوڑی فرصت ملی، تو میں نے ان سے پوچھا کہ ان کو یہاں آنے کے پیسے کون دیتا ہے؟ مینک نے پلٹ کر پوچھ لیا، ’’تمہیں کس نے پیسے دیے تھے یہاں آنے کے؟‘‘ اس سوال میں ہی مجھے جواب مل گیا تھا۔
اسی احتجاجی مظاہرہ کے دوران میری ملاقات انور حسین سے ہوئی۔ وہ اب اکثر آتے اور دکان سے سبزیاں لے جاتے۔ انہیں جب پتہ چلا کہ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، تو کچھ کتابیں دے گئے۔ ان میں منٹو، بھگت سنگھ، منشی پریم چند کی کتابیں زیادہ تھیں۔ منٹو نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ عورتوں کے تئیں میرے اندر ایک الگ ہی نظریہ جنم لینے لگا۔ بھگت سنگھ کو پڑھ کر ذہن میں سوال اٹھتا تھا کہ یہ جو بھارت آج ہے، کیا انہوں نے اسی بھارت کا خواب دیکھا تھا؟ منشی پریم چند کو پڑھ کر تو ایسا لگا گویا میں اپنی آپ بیتی، اپنے لوگو، اپنے سماج کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر میں نے ہری شنکر پرسائی کو پڑھنا شروع کیا۔ پرسائی کو پڑھ کر سماج اور اپنے آپ کے اندر تبدیلی لانے کی ایسی چھٹپٹاہٹ اٹھتی کہ لگتا کہ یہ انسان ابھی کے دور میں ہونا چاہیے تھا۔ ہوتا تو سب کو ننگا کر رہا ہوتا۔
اب میرے اندر کی نفرت جو کسی کمیونٹی، جینڈر، علاقہ، نسل کو لے کر تھی، وہ جاتی رہی۔ لگاتار پڑھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے لکھنے کی خواہش ہونے لگی۔ ویسے بھی، سوشل میڈیا پر کئی بڑے قلم کاروں کو پڑھ کر مجھے ان کی تحریر کافی مصنوعی لگنے لگی تھی، اور محسوس ہوتا تھا کہ مجھے اپنی بات کہنی چاہیے۔ اب میں اکثر اپنے ذاتی تجربات کو سوشل میڈیا پر کہانی کی طرح لکھ دیتا، جسے پڑھ کر لوگ مجھ سے جڑتے گئے۔ میں اچھا لکھنے والوں کو فالو کرنے لگا۔ سیکھنے کا عمل لگاتار چلتا رہا۔
*****
شادی میں نہ منگل سوتر تھا، نہ کنیا دان، اور نہ جہیز۔ میں نے ڈالی کو سیندور لگایا، ڈالی نے مجھے لگایا۔
میرا سڑک کا دھندہ ہے۔ اس لیے پولیس کے مظالم کے نہ جانے کتنے تجربات رہے ہیں۔ ہفتہ وصولی، گالی گلوج، تھانے میں لے جا کر لگاتار بیٹھائے رہنا، جب تب ۱۲۵۰ روپے فائن بھروا لینا، یہ سب اتنا ہوا ہے کہ لکھنے بیٹھوں تو ایک موٹی کتاب بن جائے۔ کتنے ہی پولیس والوں نے پٹائی کی ہے یا پیٹنے کی دھمکی دی ہے۔ ہفتہ نہ دینے پر کئی گھنٹے گاڑی میں بیٹھا کر شہر گھماتے رہے ہیں۔ یہ سب عام بات تھی۔ ان تجربات کو سوشل میڈیا پر لکھتے ہوئے ڈر بھی لگتا۔ مگر اس انداز میں لکھتا کہ نہ کسی پولیس والے کا نام آتا اور نہ ہی شہر یا ریاست کا ذکر ہوتا۔ نوٹ بندی کے بعد کے دور میں ایک دن سینئر صحافی اور فلم ساز رکمنی سین نے نوٹس کیا اور ’سب رنگ انڈیا‘ کے لیے لکھنے کو کہا، جو سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اس بیچ سال ۲۰۱۷ میں میری دوسری بہن کی شادی بھی ہو چکی تھی۔ اب مجھ پر بھی شادی کا دباؤ بننے لگا۔ مگر اب تک اتنا تو سمجھ آ گیا تھا کہ شادی جیسا اہم فیصلہ سماج کے دباؤ میں نہیں لینا چاہیے۔ اس دوران میری زندگی میں ڈالی آئی۔ ہم ساتھ رہتے، گھومتے تو اکثر لوگوں کو کھٹکتا۔ لوگ طرح طرح کے سوال پوچھتے۔ کون ہے، کون سی ذات سے ہے؟ میری ذات میں پیدا ہوئے لوگوں کو یہ جاننے کی زیادہ بے چینی تھی کہ لڑکی کون سی ذات سے ہے۔ دوسری ذات کا ہونے سے سب کی ناک خطرے میں آ جاتی۔ مگر میں ان سب سے اوپر اٹھ چکا تھا۔
ڈالی نے اپنے گھر پر میرے بارے میں بتایا۔ کچھ دن بعد میں ڈالی کے ماں باپ سے ایک بار مل آیا۔ میرے گھر والے چاہتے تھے کہ میں جلد از جلد شادی کر لوں۔ ڈالی اور میں بھی چاہتے تھے کہ شادی کریں، مگر پہلے ٹھیک طریقے سے سیٹل ہو جائیں۔ دو ڈھائی سال ایسے ہی نکل گئے اور اب ڈالی کے ماں باپ کی طرف سے اس پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔ وہ لڑکی کے ماں باپ تھے، ان پر الگ طرح کا سماجی دباؤ ہونا ہی تھا۔ وہ روایتی شادی کرنا چاہتے تھے۔ میرے گھر والوں کا بھی یہی ارادہ تھا۔ مگر میں کورٹ میرج (عدالت میں شادی) کرنا چاہتا تھا۔ ڈالی بھی یہی چاہتی تھی۔ ڈالی کی فیملی کو لگتا تھا کہ کہیں میں ان کی بیٹی کو چھوڑ کر بھاگ نہ جاؤں۔ میرے ماں باپ کا کہنا تھا کہ معلوم تو پڑے کہ بیٹے کی شادی ہوئی ہے۔ دباؤ کے درمیان فیصلہ تو لینا ہی تھا۔ ڈالی کے گھر والوں نے ایک چھوٹے سے ہال میں شادی رکھی۔
حالانکہ، ہماری ضد کے آگے ہمارے گھر والوں کو جھکنا پڑا۔ شادی میں نہ منگل سوتر تھا، نہ کنیا دان، اور نہ جہیز۔ میں نے ڈالی کو سیندور لگایا، ڈالی نے مجھے لگایا۔ ساتھ پھیرے ہوئے۔ پنڈت اپنے منتر پڑھ دیتا، اور ہر پھیرے کے بعد مینک ہمارے عہد پڑھتے، جو برابری کی بات کرنے والے تھے۔ ہال میں جمع لوگوں کو ہنسی آتی، مگر وہ سمجھ رہے تھے کہ کچھ الگ ہو رہا ہے اور بیڑیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ کچھ لوگ ناراض تھے۔ مگر ان کی ناراضگی سے کہیں زیادہ ضروری ہم دونوں کے لیے صدیوں سے چلی آ رہی غیر برابری، برہمن وادی اور خواتین مخالف رسموں کو توڑنا تھا۔ شادی کے بعد ہم اور ڈالی نئے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ مارچ ۲۰۱۹ میں جب ہم نے شادی کی تھی، تب گھر میں کچھ نہیں تھا۔ دھیرے دھیرے ضرورت کی چیزیں گھر میں آنے لگیں۔ سوئی سے لے کر الماری تک، ہم نے سب کچھ اپنی محنت کی کمائی سے جیسے تیسے جوڑ لیا۔
سال ۲۰۲۰ کے مارچ مہینے میں کورونا کی دستک ہو گئی تھی اور پھر لاک ڈاؤن لگ گیا۔ سامان خریدنے کی لوگوں میں ہوڑ مچ گئی۔ کچھ ہی منٹوں میں دکان پر جو بھی سبزیاں تھیں، خالی ہو گئیں۔ کچھ لوگ لوٹ لے گئے، کچھ نے ہی پیسے دیے۔ ساری دکانوں کا یہی حال ہوا۔ کچھ ہی پل بعد پولیس نے سبھی دکانیں بند کروا دیں۔ یہ بھی نہ بتایا گیاکہ کب کھلیں گی دکانیں۔ لوگ گاؤں بھاگنے لگے۔ جس بلڈنگ میں ہم تھے، وہ دو دن میں ہی خالی ہو گئی۔ مہاجرت کورونا کے ڈر سے کم، اور اس بات سے زیادہ ہو گئی تھی کہ سب کام دھندہ بند رہے گا تو کھائیں گے کیا۔ ڈالی، ٹریکنگ کے جیکٹ بنانے والے اسٹور میں کام کرتی تھی۔ وہ بھی ۱۵ مارچ، ۲۰۲۰ کو بند ہو گیا تھا۔
گھر کے لوگ کہتے کہ ابھی گاؤں آ جاؤ، بعد میں سب ٹھیک رہا تو دیکھیں گے۔ مگر اس وقت حالات ایسے تھے کہ پاس میں جمع پونجی نہیں بچی تھی، اس لیے رکنا مناسب سمجھا۔ کام سبزی سے جڑا ہوا تھا، دھندہ کرنے کی اجازت تھی۔ مگر سب سے بڑی مشکل سبزیوں کے ملنے کی تھی۔ بڑے بازار دادر میں تو تالا لگ چکا تھا۔ سبزیاں اکثر چونا بھٹی، سمیا گراؤنڈ جیسی ہائی وے کی جگہوں پر ملتیں۔ ان جگہوں پر کافی بھیڑ ہوتی ڈر لگتا کہ کہیں کورونا نہ ہو جائے؛ اور میری وجہ سے گھر میں ڈالی کو نہ ہو جائے۔ لیکن بھیڑ میں جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔ جیسے تیسے کام بھر کا خرچ نکل رہا تھا۔ مئی میں بی ایم سی نے دکان کھولنے کا وقت محض تین گھنٹے، دوپہر ۱۲ سے ۳ کر دیا۔ دیے گئے وقت سے ذرا بھی دیر ہوتی، تو پولیس کا ڈنڈا چلنے لگتا تھا۔ سبزی منگانے کے جتنے بھی آن لائن پورٹل تھے، صبح سے دیر رات کھلے رہتے۔ لوگوں نے اس وقت آن لائن منگانا زیادہ صحیح سمجھا۔ اس سے دھندے پر بہت فرق پڑا۔ اسی وقت دادا جی کا پیر ٹوٹا اور کورونا کے وقت کس طرح سے وہ اس دنیا کو چھوڑ کر گئے میں نے پہلے بتایا ہی ہے۔
کچھ مہینے بعد، کام کا وقت بڑھ کر شام ۷ بجے تک کر دیا گیا تھا۔ ایک شام، میرا چھوٹا بھائی روی سات بجے کے بعد، بس ٹھیلے پر رکھے پھلوں میں سے سڑے ہوئے آم الگ کر رہا تھا۔ ایک پولیس والا آیا اور ویڈیو بنانے لگا۔ ڈر کے مارے روی نے انہیں کچھ پیسے دینے کی پیشکش کی، مگر اس نے بڑی رقم مانگی، اور نہ دینے پر کیس بنانے کی دھمکی دینے لگا۔ وہ روی کو تھانے لے گیا۔ رات کے ایک ڈیڑھ بجے ایک پولیس والے نے روی کی جیب میں پڑے تقریباً چھ ہزار روپے نکال لیے اور اسے چھوڑ دیا۔ یہ رقم اس کی کل جمع پونجی تھی۔ حالانکہ، دو تین دن بعد ایک جان پہچان کے آدمی کے ذریعے ایک بڑے عہدے پر بیٹھے پولیس والے سے بات ہو گئی۔ دو دن بعد، جس پولیس والے نے پیسے لیے تھے، وہ روی کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور پورے پیسے دے گیا۔
کورونا کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک، دھندے کی حالت ٹھیک نہیں ہوئی ہے۔ دنیا سے نمبرد آزما ہوتے ہوئے ہم آج بھی زندگی کو پٹری پر لانے کی کوشش میں ہیں۔ اس وقت جب میں یہ کہانی لکھ رہا ہوں، کورونا پازیٹو ہوں۔ ڈالی بھی کورونا کی چپیٹ میں ہے۔ ہم دونوں نے خود کو گھر میں بند رکھا ہے۔ دکان پر جو سبزیاں بچی تھیں، آس پاس کے ٹھیلے والوں کی مدد سے فروخت ہو چکی ہیں۔ جو باقی ماندہ رقم پاس میں تھی، وہ کچھ دنوں کی دوا اور کورونا ٹیسٹ کرانے میں خالی ہو گئی ہے۔ مگر ٹھیک ہے۔ جانچ رپورٹ نگیٹو آئے گی، تو پھر نکلیں گے باہر۔ پھر کریں گے کوشش۔ زندگی سے دو دو ہاتھ کریں گے۔ اور متبادل ہی کیا ہے؟
سیکورٹی کے لحاظ سے کچھ لوگوں اور جگہوں کے نام اسٹوری میں شامل نہیں کیے گئے ہیں
کور فوٹو: سمیر سنگھ راٹھوڑ
مترجم: محمد قمر تبریز