جنہیں رات کا اندھیرا اور تھوڑی تھوڑی دیر پر آتی ٹرینوں کی آوازیں نہیں ڈراتیں وہ اس خیال سے ہی خوف کھا جاتی ہیں کہ کوئی مرد انہیں دیکھ رہا ہے۔
۱۷ سالہ نیتو کماری کہتی ہیں، ’’رات کے وقت صرف ریل کی پٹریاں ہی بیت الخلاء کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔‘‘
نیتو، جنوب وسطی پٹنہ کے یارپور علاقہ کے وارڈ نمبر ۹ کی جھگی بستی میں رہتی ہیں۔ بستی میں بنے کئی مکانوں کے بالکل درمیان میں سیمنٹ کی بنی ایک مستطیل دیوار ہے، جہاں کئی نل لگے ہوئے ہیں۔ وہاں دو مرد اپنے انڈر ویئر میں نل کے نیچے بیٹھ کر اپنے جسم پر صابن مل رہے ہیں۔ تقریباً درجن بھر لڑکے پانی کے ساتھ کھیل رہے ہیں، فرش کی پھسلن کے ساتھ ایک دوسرے کو گرا رہے ہیں، ہنس رہے ہیں۔
تقریباً ۵۰ میٹر کی دوری پر ایک ٹوائیلیٹ بلاک ہے، جو کہ کالونی کا اکلوتا بلاک ہے، جس کے سبھی ۱۰ بیت الخلاء کے باہر تالا لگا ہوا ہے، اس لیے اس کا استعمال کوئی نہیں کرتا۔ وبائی مرض کے سبب اس عوامی سہولت کے مرکز کو کمیونٹی کے حوالے کیے جانے میں تاخیر ہوئی ہے۔ بلاک کے پاس کچھ بکریاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ پیچھے کی طرف ریلوے کی پٹریوں کی جانب کوڑے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ یہاں سے سب سے قریب موجود بیت الخلاء ۱۰ منٹ کی دوری پر ہے، جو چالو حالت میں ہے، اور کچھ لوگ ریلوے کی پٹریوں کو پار کرکے یارپور کے دوسرے کنارے پر بنے بیت الخلاء کا استعمال کرتے ہیں، وہاں تک پہنچنے کے لیے بھی ۱۰ منٹ پیدل چلنا پڑتا ہے۔
نیتو کہتی ہیں، ’’لڑکے تو کبھی بھی اور کہیں بھی ٹوائلیٹ کر لیتے ہیں۔ لیکن، لڑکیاں صرف رات میں ریل کی پٹریوں پر ٹوائلیٹ کے لیے جاتی ہیں۔‘‘ نیتو بی اے سال اول کی طالبہ ہیں۔ (اس مضمون میں سبھی کا نام بدل دیا گیا ہے۔) وہ کہتی ہیں کہ ان کی قسمت بستی کی دیگر لڑکیوں کے مقابلے اچھی ہے، کیوں کہ وہ دن کے وقت یہاں سے دو سو میٹر دور واقع اپنی چچی کے گھر جاکر بیت الخلاء کا استعمال کر سکتی ہیں۔
نیتو کہتی ہیں، ’’اس کے علاوہ ہمارے گھر میں دو کمرے ہیں۔ ایک میں میرا چھوٹا بھائی سوتا ہے اور دوسرے میں میں اور ماں رہتے ہیں۔ اس لیے، میرے پاس کم از کم سینیٹری پیڈ بدلنے کے لیے رازداری تو رہتی ہے۔ کئی لڑکیوں اور عورتوں کو سارا دن انتظار کرنا پڑتا ہے، تاکہ وہ رات کے اندھیرے میں ریل کی پٹریوں پر جاکر سینیٹری نیپکن بدل سکیں۔‘‘
اس کی کالونی، وارڈ نمبر ۹ کی جھگی بستی اور اس سے ملحق یارپور امبیڈکر نگر میں کل ۲۰۰۰ کنبے رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر مزدور ہیں اور یہاں کے باشندوں میں سے زیادہ تر نیتو کی فیملی کی طرح دو نسلوں سے وہاں آباد ہیں۔ ان میں سے کئی فیملی بہار کے دیگر علاقوں سے روزگار کی تلاش میں دہائیوں قبل شہر آئی اور یہیں بس گئی۔
یارپور امبیڈکر نگر کی عورتیں بتاتی ہیں کہ وہ لمبے وقت سے سینیٹری نیپکن استعمال کرتی رہی ہیں، لیکن وبائی مرض کے سبب نوکریاں چھوٹ جانے اور اقتصادی بحران کے سبب ان میں سے کچھ عورتیں اب گھر پر بنایا ہوا کپڑے کا نیپکن استعمال کرنے لگی ہیں۔ اور زیادہ تر عورتیں، جو مجھ سے بات کرنے کے لیے ایک مندر کے برآمدے میں جمع ہوئی تھیں، بتانے لگیں کہ وہ بیت الخلاء استعمال تو کر سکتی ہیں، لیکن ان کی حالت بہت خراب ہے، رکھ رکھاؤ اور مرمت کی کمی کے علاوہ، رات میں ان بیت الخلاء میں روشنی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بیت الخلاء ۲۴ گھنٹے کھلے رہتے ہیں، لیکن اندھیرے میں وہاں جانے کو لیکر ان میں بہت جھجک اور ہچکچاہٹ ہے۔
۳۸ سالہ پرتیما دیوی بتاتی ہیں، ’’وارڈ نمبر ۹ کی بستی میں ریلوے ٹریک کے اُس پار بنے بیت الخلاء کے علاوہ دوسرا کوئی ٹوائلیٹ نہیں ہے۔‘‘ پرتیما دیوی مارچ ۲۰۲۰ میں اسکول بند ہونے سے پہلے تک، اسکول بس اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے مہینہ میں ۳۵۰۰ روپے کما لیتی تھیں۔ تب سے لیکر اب تک انہیں کوئی کام نہیں مل پایا ہے۔ ان کے شوہر ایک ریستوراں میں کھانا بنانے کا کام کرتے تھے، لیکن ۲۰۲۰ کے آخر میں ان کی بھی نوکری چلی گئی۔
اب یہ دونوں میاں بیوی یارپور سے جانے والی بنیادی سڑک پر، ایک ٹھیلہ پر سموسا اور دوسرے کھانے فروخت کرکے اپنا گھر چلا رہے ہیں۔ پرتیما صبح چار بجے اٹھ کر کھانا بناتی ہیں، خریداری کرتی ہیں اور دن کی فروخت کے لیے تیاری کرتی ہیں، اور پھر صاف صفائی کرکے فیملی کے لیے دوسرے وقت کا کھانا تیار کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہم کوئی دس سے بارہ ہزار روپے نہیں کما رہے، جیسا کہ پہلے کماتے تھے، اس لیے ہمیں بڑے احتیاط سے گھر کا خرچ چلانا پڑتا ہے۔‘‘ پرتیما یارپور کی ان عورتوں میں سے ایک ہیں جو اب سینیٹری نیپکن نہیں خرید پا رہی ہیں۔
نیتو کالج جانے والی طالبہ ہیں۔ ان کے والد (انہیں شراب کی عادت تھی) کی کچھ سال پہلے موت ہو گئی تھی۔ ان کی ماں بستی سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر واقع بورنگ روڈ کے پاس کے کچھ گھروں میں کھانا بنانے کا کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، صاف صفائی کے چھوٹے موٹے کاموں کے ذریعے وہ مہینہ میں پانچ سے چھ ہزار روپے کما لیتی ہیں۔
نیتو کہتی ہیں، ’’کالونی میں ہماری طرف کے ۸ سے ۱۰ گھر ایسے ہیں جن کے پاس اپنے ذاتی ٹوائلیٹ ہیں، لیکن ان کے علاوہ بقیہ سبھی لوگ پٹریوں پر یا کسی دوسرے پبلک ٹوائلیٹ میں بیت الخلاء کے لیے جاتے ہیں۔‘‘ ان میں ان کی پھوپھی کا گھر بھی شامل ہے، لیکن ان ٹوائلیٹس کی نالیاں کھلی ہوئی ہیں اور وہ کسی سیویج لائن سے نہیں جڑی ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’صرف رات میں مجھے پریشانی ہوتی ہے۔ لیکن، اب مجھے عادت ہو گئی ہے۔‘‘
اُن راتوں میں جب نیتو ریل کی پٹریوں پر حوائج ضروریہ کے لیے جاتی ہیں، تب انہیں ٹرین کی سیٹی کی آواز اور اس کے آنے سے پہلے پٹریوں پر ہونے والی جنبش کو لیکر چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ کچھ سالوں میں انہیں وہاں سے گزرنے والی ٹرینوں کے وقت کے بارے میں اندازہ ہو گیا ہے۔
وہ بتاتی ہیں، ’’یہ محفوظ نہیں ہے اور کاش کہ مجھے وہاں نہیں جانا پڑتا، لیکن دوسرا راستہ ہی کیا ہے؟ کئی لڑکیاں اور عورتیں پٹریوں کے سب سے اندھیرے حصے میں جاکر سینیٹری نیپکن بدلتی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ مرد ہمیں دیکھ رہے ہیں۔‘‘ وہ آگے کہتی ہیں کہ صفائی کرنا بھی ہمیشہ ممکن نہیں ہو پاتا ہے، لیکن اگر گھر پر مناسب مقدار میں پانی ہوتا ہے، تو وہ اپنے ساتھ ایک بالٹی لیکر آتی ہیں۔
حالانکہ، وہ کسی کے ذریعے دیکھے جانے جیسے خدشہ کے بارے میں بتاتی ہیں، لیکن نہ تو نیتو اور نہ ہی دوسری نوجوان عورتیں اور لڑکیاں بیت الخلاء کے لیے جاتے وقت جنسی بدسلوکی ہونے کی بات کرتی ہیں۔ کیا وہ حوائج ضروریہ کے لیے جاتے ہوئے محفوظ محسوس کرتی ہیں؟ نیتو کی طرح، بقیہ سبھی کہتی ہیں کہ انہیں اب اس کی عادت ہو گئی ہے اور وہ احتیاط کے طور پر جوڑے میں یا گروپ میں بیت الخلاء کے لیے جاتی ہیں۔
نیتو کی ماں نے وبائی مرض کے دوران کچھ مہینے تک سینیٹری نیپکن خریدنا بند کر دیا تھا۔ نیتو بتاتی ہیں، ’’میں نے ان سے کہا کہ یہ ضروری ہے۔ اب ہم خریدتے ہیں۔ کبھی کبھی کچھ این جی او ہمیں سینیٹری نیپکن کے کچھ پیکٹ دے جاتے ہیں۔‘‘ لیکن، ان سینیٹری نیپکن کا نمٹارہ کہاں اور کیسے کریں، یہ ابھی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’بہت سی لڑکیاں انہیں پبلک ٹوائلیٹ میں یا ٹرین کی پٹریوں پر چھوڑ آتی ہیں، کیوں کہ انہیں کاغذ میں لپیٹ کر کوڑے دان کی تلاش میں بھٹکنا بڑا عجیب لگتا ہے۔‘‘
اگر نیتو صحیح وقت پر کوڑا گاڑی تک پہنچ پاتی ہیں، تو اپنا استعمال کیا ہوا سینیٹری نیپکن اسی میں ڈالتی ہیں یا پھر اس کے نمٹارہ کے لیے امبیڈکر نگر جھگی کے دوسرے کنارے پر رکھے ہوئے ایک بڑے کوڑے دان تک پیدل جاتی ہیں۔ اگر ان کے پاس وہاں تک دس منٹ چل کر پہنچنے کا وقت نہیں ہوتا ہے، تو وہ اسے پٹریوں پر پھینک دیتی ہیں۔
یارپور سے تقریباً تین کلومیٹر کی دوری پر، جنوب وسطی پٹنہ میں واقع حج ہاؤس کے پیچھے سگدی مسجد روڈ سے کئی نیم پختہ مکانوں کی لمبی قطار جڑی ہوئی ہے، جو ایک کھلے ہوئے نالے کے دونوں طرف بنے ہوئے ہیں۔ یہاں رہنے والے لوگ بھی مہاجر ہیں، جو اس شہر میں بڑے لمبے وقت سے رہ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ چھٹیوں میں، شادیوں یا دیگر تقریبات میں بیگوسرائے، بھاگل پور یا کھگڑیا میں اپنے کنبوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔
۱۸ سالہ پشپا کماری ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو نالے کے نچلے کنارے پر رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہاں پانی بھر جاتا ہے۔ سیلاب کا پانی ہمارے گھروں اور ٹوائلیٹ میں بھر جاتا ہے۔‘‘ اپنے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر وہ زیادہ بارش کی حالت میں پانے بھرنے کی سطح کے بارے میں سمجھاتی ہیں۔
تقریباً ۲۵۰ گھروں میں سے زیادہ تر گھروں کے باہر بیت الخلاء بنا ہوا ہے، جو ان کنبوں نے نالے کے کنارے بنوایا ہے۔ بیت الخلاء سے نکلا ہوا کچرا سیدھے ۲ میٹر چوڑے اور کھلے نالے میں گرتا ہے، جہاں سے بہت تیز بدبو آتی ہے۔
۲۱ سالہ سونی کماری، جو یہاں سے کچھ گھروں کی دوری پر رہتی ہیں، بتاتی ہیں کہ مانسون کے مہینوں میں کبھی کبھی پورا دن گزر جاتا ہے اور سیلاب کے پانی سے بیت الخلاء بھرا رہتا ہے۔ ان کے پاس ٹوائلیٹ سے پانی نکلنے تک انتظار کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں بچتا ہے۔
ان کے والد، جو کھگڑیا ضلع کے ایک بے زمین خاندان سے آتے ہیں، پٹنہ میونسپل کارپوریشن کے ساتھ ٹھیکہ پر کام کرنے والے ایک صفائی ملازم ہیں۔ وہ کچرا گاڑی چلاتے ہیں اور ایک بڑے کچرے کے ڈبہ کے ساتھ کچرا جمع کرنے کے لیے گلیوں سے گزرتے ہیں۔ سونی بتاتی ہیں، ’’انہوں نے پورے لاک ڈاؤن کے دوران کام کیا۔ انہیں (اور ان کی ٹیم کو) ماسک اور سینیٹائزر دیکر کام پر جانے کو کہا گیا۔‘‘ سونی بی اے سال دوئم کی طالبہ ہیں۔ ان کی ماں پاس کے ہی ایک گھر میں ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی ۱۲ ہزار روپے ہے۔
کھلی نالی سے ملحق ان کی کالونی میں ہر بیت الخلاء کسی گھر کے سامنے ہی بنا ہوا ہے، جس کا استعمال صرف گھر کے ممبران کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ پشپا کہتی ہیں، ’’ہمارا ٹوائلیٹ بری حالت میں ہے، اور ایک دن سلیب نالے میں گر گیا۔‘‘ پشپا کی ماں ایک خاتون خانہ ہیں اور ان کے والد ایک مستری ہیں اور تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتے رہے ہیں، لیکن کئی مہینوں سے انہیں کوئی کام نہیں ملا ہے۔
یہ بیت الخلاء دراصل بے حد چھوٹے بکسے ہیں، جو اسبسطوس یا ٹن کی چادروں سے بنے ہیں اور بانس کے ستون اور سیاسی پارٹیوں کے پھینکے ہوئے بینر، لکڑی اور اینٹ جیسی چیزوں کے سہارے کھڑے کیے گئے ہیں۔ اس کے اندر بیٹھ کر پیشاب پاخانہ کرنے کے لیے، سیریمک کا ایک بڑا کٹورا بنا ہوا ہے، جن میں سے زیادہ تر ٹوٹے ہوئے، داغ دھبے والے ہیں، جنہیں کچھ بیت الخلاء میں ایک اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ ان بیت الخلاء میں کوئی دروازہ نہیں لگا ہوا ہے اور ان میں خراب کپڑوں سے پردہ کرکے تھوڑی بہت رازداری بنائی جاتی ہے۔
بستی کے کچھ شروعاتی مکانوں سے کچھ میٹر کی دوری پر، یعنی سگدی مسجد روڈ کے تقریباً آخر میں، ایک سرکاری پرائمری اسکول ہے۔ اس عمارت کے باہر دو ٹوائلیٹ ہیں، جن میں وبائی مرض کی شروعات سے ہی (پچھلے سال مارچ ۲۰۲۰ سے) اسکول کی طرح ہی تالا لگا ہوا ہے۔
کالونی میں رہنے والے لوگ پاس کے ہی عوامی نل سے پانی لیکر آتے ہیں، جو ان کے غسل کرنے کی جگہ ہے۔ کچھ عورتیں اپنے گھر کے پیچھے پردے کی آڑ میں اور کونوں میں تھوڑی بہت رازداری کے ساتھ جگہ بناکر غسل کرتی ہیں۔ بہت سی لڑکیاں اور نوجوان عورتیں اپنے گھر کے باہر دروازے پر یا عوامی نل کے پاس گروپ میں پورے کپڑوں میں غسل کرتی ہیں۔
سونی کہتی ہیں، ’’ہم میں سے کچھ عورتیں اور لڑکیاں اپنے گھر کے پیچھے کونے میں پانی لیکر نہانے جاتی ہیں۔ وہاں تھوڑی رازداری ہوتی ہے۔‘‘
پشپا غسل کرنے کے بارے میں کہتی ہیں، ’’ہم ایڈجسٹ کر لیتے ہیں، لیکن پانی لیکر ٹوائلیٹ تک پیدل جانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’سب کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ، پانی کے دوسرے ذرائع کے نام پر کچھ ہینڈ پمپ ہی ہیں، جو بستی میں الگ الگ جگہوں پر لگے ہوئے ہیں۔ وہی پانی (ہینڈ پمپ اور عوامی نلوں سے) سبھی گھروں میں کھانا پکانے اور پینے کے کام میں بھی آتا ہے۔ این جی او کے رضاکار اور اسکول ٹیچر آتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کو صاف پینے کے پانی کے بارے میں صلاح دیتے رہتے ہیں، لیکن لڑکیاں بتاتی ہیں کہ کوئی بھی یہاں پانی ابالتا نہیں ہے۔
زیادہ تر لڑکیاں سینیٹری نیپکن استعمال کرتی ہیں، اور بہت کم ایسی ہیں جو کپڑے کا استعمال کرتی ہیں۔ حالانکہ، لاک ڈاؤن کے دوران دکان سے نیپکن خریدنے میں انہیں کافی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کئی لڑکیاں بتاتی ہیں کہ ان کی مائیں ہمیشہ ان کے لیے پیڈ خرید کر لاتی ہیں، لیکن عمر دراز عورتیں خود کپڑوں کا استعمال کرتی ہیں۔
اکثر، استعمال کیے ہوئے سینیٹری نیپکن کھلی نالی میں پھینک دیے جاتے ہیں، جہاں وہ کچھ دنوں یا ہفتوں کے بعد کاغذ یا پالی تھین کے کور سے نکل کر سطح پر آ جاتے ہیں۔ سونی بتاتی ہیں، ’’ہمیں [این جی او کے رضاکاروں کے ذریعے] بتایا گیا تھا کہ پیڈ کو اچھے سے ڈھانپ کر میونسپل کارپوریشن کی کچرا اٹھانے والی گاڑیوں میں پھینکنا ہے، لیکن کبھی کبھی ایک پیڈ کے ساتھ چلنے میں (بھلے ہی وہ بہت اچھے سے ڈھکا ہوا ہو) اور کچرے کے ڈبے میں پھینکنے میں بڑی شرم آتی ہے، کیوں کہ سارے مرد دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘
مقامی کمیونٹی ہال میں مجھ سے بات کرنے کے لیے جمع ہوئی لڑکیاں ہنستے ہوئے کئی طرح کے قصے سناتی ہیں۔ پشپا سب سے پوچھتی ہیں، ’’یاد ہے پچھلے مانسون کے دوران ہم نے پورے دن کھانا نہیں کھایا تھا، تاکہ ہمیں پانی سے بھرے ہوئے بیت الخلاء میں نہ جانا پڑے؟‘‘
سونی گریجویشن کے بعد نوکری کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ایسا اس لیے، تاکہ میرے والدین کو کام نہ کرنا پڑے جو وہ ابھی کرتے ہیں۔‘‘ وہ آگے کہتی ہیں کہ وہ لوگ جو تعلیم، تھوڑی بہت طبی خدمات اور دیگر سہولیات تک رسائی رکھتے ہیں، لیکن صفائی کا مسئلہ ان کے لیے لگاتار بنی ہوئی رکاوٹ کی طرح ہے: ’’بستی میں ٹوائلیٹ، لڑکیوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
رپورٹر کے قلم سے: میں دیکشا فاؤنڈیشن کو اس مضمون میں مدد کرنے اور ان کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ فاؤنڈیشن (یو این ایف پی اے اور پٹنہ میونسپل کارپوریشن کے ساتھ) پٹنہ شہر کی جھگی بستیوں میں رہنے والی عورتوں اور بچوں کے درمیان صفائی اور دیگر مسائل پر کام کرتا ہے۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز