’’آزادی! آزادی!‘‘ محل سے کچھ دور بے شمار گھنونے جانور ڈیرا جمائے بیٹھے تھے۔ اس کے اندر نفرت دوڑنے لگتی تھی، جب وہ ان جانوروں کو ایک ساتھ نعرے لگاتے سنتا۔ ’’آزادی! آزادی!‘‘ اس کے اندر کی نفرت بڑھ جاتی، جب یہ جانور عزت کی زندگی مانگنے کی حماقت کرتے۔ ’’آزادی! آزادی!‘‘ صرف اتنی بات سے وہ نفرت سے بھر اٹھتا کہ یہ کیڑے اب متحد ہونا سیکھنے لگے تھے۔ ’’آزادی! آزادی!‘‘ ان کیڑوں کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ گرد و غبار، مٹی اور اپنے پسینوں میں ڈبوکر، بیجوں کو اتنے شاندار پودوں میں تبدیل کر رہے تھے؟ یہ کیسی جادوگری؟ کیسا پاگل پن ہے یہ؟ ’’آزادی! آزادی!‘‘ اپنی محنت کے بدلے مزدوری مانگنے کی ہمت کیسے ہوئی ان بے زبان کیڑوں کی؟

وہ سمجھ گیا تھا کہ ان چیختے جانوروں کو واپس ان کے پنجروں میں ڈالنے کی ضرورت تھی۔ بادل ہو چکی مینار پر کھڑے ہوکر مسکرانے والے اس عظیم خدا کا شکر تھا کہ جانے کہاں سے ایک نئی بیماری آ ٹپکی اور اس کا خزانہ تیزی سے بھرنے لگا۔ یہ خزانہ ان کیڑوں کی جان کی قیمت گراکر بھرا گیا تھا، اس لیے بھیڑ چھٹنے لگی۔ ’’آزادی! آزادی!‘‘ اس نے امرت کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ لیا تھا جو ہوا میں پھیلی بدبو کا اکیلا علاج تھا۔ یہ کتنی بیہودہ قسم کی بات تھی کہ یہ کیڑے اس اکسیر کو مفت میں حاصل کرنا چاہتے تھے؟

اس کی سلطنت رات کی تاریکی میں ڈھک چکی تھی اور اس نے اپنی کھڑکی سے اپنے نئے محل کے گنبد کو حسرت کی نگاہ سے دیکھا۔ ’’آزادی! آزادی!‘‘ لعنت برسے ان آوازوں پر، لعنت اُن انگلیوں پر جنہوں نے مٹی کو زمرد جیسے قیمتی پتھر سے زیادہ ہرا بنایا۔ خاموش! کھڑکی کے پاس کچھ سرسراہٹ ہوئی۔ ایک عجیب سی بیل دھیرے دھیرے رینگ رہی تھی اور اوپر کی جانب سرکتی جا رہی تھی، جس میں پتیوں کی جگہ کیلیں اور پھولوں کی جگہ خون آلودہ لاشیں تھیں۔

اس کے کمرے کی کھڑکی کے باہر دو چاند اُگ آئے تھے۔ ایک ہمارے جلاوطن رمضان کا درانتی تھا، تو دوسرا کسی ٹریکٹر کا ایک اکیلا پہیہ۔

ہمارے جلاوطن رمضان کا درانتی

Sickle of our banished Ramadān

اس کی آنکھیں،
آنکھیں اس کی،
گویا سر کاٹنے کی مشین نے لی ہو گہری سانس،
یا مکئی کی شراب کے نشے میں ڈوبے چاند کی روشنی میں
کسی صوفی نے غسل کیا ہو۔


Burn like a farmer, breathe like a bee,
dance like a summer on a mulberry tree.

کسان کی طرح محنت کرو، مکھیوں کی طرح سانس لو،
شہتوت کے پیڑ پر برستی دھوپ سا ناچو


How do you spell shame,
is it with a sigh?
Is it with a bullet in a labourer's eye?

کیا شرم آتی ہے تمہیں،
کیا اس کے ساتھ آہ بھرنی ہوتی ہے؟
یا کسی مزدور کی آنکھ میں گولی داغنی ہوتی ہے؟


Moon is a dastak.
Moon is a pall.
Moon is a bottle of blue Folidol.

چاند، دروازے پر ہوئی دستک ہے۔
کفن ہے چاند۔
چاند اُس حشرہ کش کی بوتل ہے
جس کا رنگ نیلا ہے۔


اُس کا درد،
اس کی تکلیف
بیساکھ میں ہوئی بارش ہے۔
جیسے ایک بار پھر دھنس گئی یشودھرا
بدھ کے وسیع ریتیلے مجسمہ کے نیچے
اس بات سے انجان کہ اس کا ہل
سمندر تک لے جانے والا ایک پل ہے۔


Just a sip of a
thirsty pin will hammer the
clouds of porcelain.

پیاسے ہل کی بس ایک ہلکی چوٹ
پھاڑ دے گی
چینی مٹی کے بادلوں سی نظر آتی دھرتی کا سینہ۔


Death is a nargis.
Death is a shoe.
Death is a miner's caramel blue.

موت تو نرگس کا ہے پھول۔
موت، جوتے کی جیسے دھول۔
موت تو کان کھودنے والے کی زندگی کی نیلی بنیاد۔


A heart has four chambers,
hunger has none.
One for a Lohri, three for a gun.

ایک دل کے اندر، چار کمرے
بھوک کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔
ایک لوہڑی کا ہونا، تین بندوقوں کا کونا۔


Shame is a songbird.
Shame is a rye.
Shame is a sickle in a chaudhvin sky

شرم وہ چڑیا ہے جو گیت گاتی ہے۔
شرم ایک رائی کا پودا۔
شرم وہ درانتی ہے جو چودہویں کی رات آسمان میں جا دھنستا ہے


Lilacs at our windowsill.
They drip, they drown,
they dream until
the children of our eventide
in driftwood shall a phoenix hide.

ہماری کھڑکی پر بسنت کی طرح ٹنکے۔
وہ آنسوؤں سا رستے ہیں، ڈوب جاتے ہیں،
تب تک سپنے دیکھتے ہیں
ہماری زندگی کی شام سے اُداس بچے
جب تک فینکس نہ بن جائیں۔


سدھنوا دیش پانڈے کی آواز میں یہ نظم سنیں

(آئڈیو: سدھنوا دیش پانڈے جن ناٹیہ منچ کے ایک اداکار، ہدایت کار اور لیفٹ ورڈ بُکس کے ایڈیٹر ہیں)

**********

اس پروجیکٹ میں اہم کردار اداکرنے کے لیے ہم اسمیتا کھٹور کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

مضمون کا عنوان: شاعر نسیم اجمل کے ایک شعر کا مصرع

مترجم: محمد قمر تبریز

Poems and Text : Joshua Bodhinetra

জশুয়া বোধিনেত্র পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার (পারি) ভারতীয় ভাষাবিভাগ পারিভাষার কন্টেন্ট ম্যানেজার। যাদবপুর বিশ্ববিদ্যালয় থেকে তুলনামূলক সাহিত্যে এমফিল উত্তীর্ণ জশুয়া একজন বহুভাষিক কবি তথা অনুবাদক, শিল্প সমালোচক এবং সমাজকর্মী।

Other stories by Joshua Bodhinetra
Paintings : Labani Jangi

২০২০ সালের পারি ফেলোশিপ প্রাপক স্ব-শিক্ষিত চিত্রশিল্পী লাবনী জঙ্গীর নিবাস পশ্চিমবঙ্গের নদিয়া জেলায়। তিনি বর্তমানে কলকাতার সেন্টার ফর স্টাডিজ ইন সোশ্যাল সায়েন্সেসে বাঙালি শ্রমিকদের পরিযান বিষয়ে গবেষণা করছেন।

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique