لاکھوں انسانوں کا پانی اور بجلی کاٹ دینا، ایسا کرکے ان کی صحت کو سنگین خطرے میں ڈالنا، پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ذریعہ بیریکیڈنگ کرکے ان کے اوپر خطرناک طریقے سے پاگل پن کی حالت کو نافذ کرنا، احتجاج کر رہے کسانوں تک صحافیوں کی رسائی کو تقریباً ناممکن بنا دینا، پچھلے دو مہینوں میں ہائپوتھرمیا اور دیگر وجوہات سے اپنے تقریباً ۲۰۰ لوگوں کی جان گنوا دینے والے گروپ کو سزا دینا۔ دنیا میں اسے کہیں بھی بربر اور انسانوں کے حقوق اور ان کی عزت پر حملہ کے طور پر دیکھا جائے گا۔
لیکن ہم، ہماری سرکار اور برسراقتدار طبقہ اس سے کہیں زیادہ گہری تشویش میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ دنیا کی خونخوار دہشت گرد ریحنّا اور گریٹا تھن برگ کی سازش کو کیسے ناکام کیا جائے، جن کا مقصد کرۂ ارض کے اس سب سے بڑے ملک کو بدنام اور ذلیل کرنا ہے۔
خیالی طور پر، یہ پوری طرح سے عجیب ہوگا۔ حقیقی طور پر، یہ صرف پاگل پن ہے۔
یہ سب چونکانے والا تو ہے، لیکن حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔ جن لوگوں نے ’’کم از کم گورنمنٹ، زیادہ سے زیادہ گورننس‘‘ کا نعرہ دیا تھا، انہیں بھی اب یہ پتا چل گیا ہوگا۔ اصل بات تھی- سرکاری طاقت کا زیادہ سے زیادہ استعمال اور خونیں گورننس۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ بلند آواز میں بولنے والے بہت سارے لوگ خاموش ہیں، جن میں سے کچھ نے اقتدار کا دفاع کرنے اور ایسے تمام قوانین کی تعریف کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ آپ نے سوچا ہوگا کہ وہ جمہوریت کی اس روزمرہ کی تباہی کو بھی خارج کر دیں گے۔
مرکزی کابینہ کا ہر ایک رکن جانتا ہے کہ اس وقت جاری کسانوں کے احتجاج کا حل نکالنے میں اصل رکاوٹ کیا ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ تینوں قوانین پر کسانوں کے ساتھ کبھی کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا گیا – حالانکہ کسانوں کی اسی دن سے یہ خواہش تھی، جس دن انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ اسے آرڈیننس کی شکل میں لانے کی تیاری چل رہی ہے۔
ان قوانین کو بناتے وقت ریاستوں کے ساتھ کبھی کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا – حالانکہ زراعت آئین میں ریاستی فہرست میں ہے۔ نہ ہی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ، یا پارلیمنٹ کے اندر ہی ایسا کچھ کیا گیا۔
بی جے پی کے لیڈروں اور مرکزی کابینہ کے ارکان کو معلوم ہے کہ کوئی صلاح و مشورہ نہیں ہوا تھا – کیوں کہ خود ان سے آپس میں کبھی کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا۔ نہ تو اِس پر، اور نہ ہی دیگر اہم موضوعات پر۔ ان کا کام تو بس اپنے قائد کا حکم ملنے پر سمندر کی لہروں کو روکنا ہے۔
اب تک، لہریں درباریوں سے بہتر کام انجام دے رہی ہیں۔ اتر پردیش میں زبردست احتجاجی مظاہرہ۔ مغربی یوپی کے کسان لیڈر، راکیش ٹکیت آج حکومت کے ذیعہ برباد کرنے کی کوشش کے بعد، پہلے سے کہیں زیادہ اثردار بن کر ابھرے ہیں۔ ۲۵ جنوری کو مہاراشٹر میں بہت بہت بڑے پیمانے پر کسانوں کا احتجاج دیکھنے کو ملا۔ راجستھان میں، اور کرناٹک – جہاں ٹریکٹر ریلی کو بنگلورو میں داخل ہونے سے روک دیا گیا – آندھرا پردیش اور دیگر مقامات پر بھی اسی طرح احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ہریانہ میں، سرکار ایک ایسی ریاست میں کام کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، جہاں کے وزیر اعلیٰ عوامی اجلاس میں شرکت کرنے سے معذور نظر آ رہے ہیں۔
پنجاب میں، تقریباً ہر گھر احتجاجیوں کے ساتھ کھڑا ہے – ان میں سے کئی ان کے ساتھ شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں، کچھ پہلے سے ہی ایسا کرنے کے عمل میں ہیں۔ وہاں ۱۴ فروری کو ہونے والے مقامی بلدیہ کے انتخابات کے لیے بی جے پی کو کوئی امیدوار نہیں مل رہا ہے۔ جو لوگ پہلے سے اس کے پاس ہیں – پرانے وفادار – وہ بھی اپنی پارٹی کا نشان استعمال کرنے سے احتیاط برت رہے ہیں۔ دریں اثنا، ریاست میں نوجوانوں کی ایک پوری نسل الگ ہو گئی ہے، ان کا مستقبل خطرے میں ہے۔
یہ اس حکومت کی ایک حیرت انگیز حصولیابی ہے کہ اس نے سماجی طاقتوں کے ایک وسیع اور غیر امکانی گروپ کو متحد کر دیا ہے، جس میں کچھ روایتی حریف جیسے کہ کسان اور آڑھتیا (کمیشن ایجنٹ) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، اس نے سکھوں، ہندوؤں، مسلمانوں، جاٹوں اور غیر جاٹوں، یہاں تک کہ کھاپوں اور خان مارکیٹ گینگ کو بھی متحد کر دیا ہے۔ زبردست۔
لیکن جو آوازیں اس وقت خاموش ہیں، انہوں نے دو مہینے ہمیں یہ یقین دلانے میں گزارے کہ یہ ’’صرف پنجاب اور ہریانہ کے بارے میں ہے۔‘‘ کوئی اور متاثر نہیں ہوا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
مزیدار۔ جب آخری بار اس کمیٹی کے ذریعہ تصدیق کی گئی جسے سپریم کورٹ نے مقرر نہیں کیا تھا، تب پنجاب اور ہریانہ دونوں ہی ہندوستانی یونین کا حصہ تھے۔ آپ نے سوچا ہوگا کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہم سبھی کے لیے معنی رکھتا ہے۔
کبھی بلند آواز میں بولنے والوں نے ہمیں یہ بھی بتایا – اور اب بھی دبی زبان میں کہتے ہیں – کہ اصلاحات کی مخالفت کرنے والے یہ سبھی ’’امیر کسان‘‘ ہیں۔
دلچسپ۔ پچھلے این ایس ایس سروے کے مطابق، پنجاب میں ایک کسان فیملی کی اوسط ماہانہ آمدنی ۱۸۰۵۹ روپے تھی۔ ہر ایک کسان فیملی میں افراد کی اوسط تعداد ۵ اعشاریہ ۲۴ تھی۔ اس لیے فی کس ماہانہ آمدنی تقریباً ۳۴۵۰ روپے تھی۔ منظم شعبے میں سب سے کم تنخواہ پانے والے ملازم سے بھی کم۔
واہ! اتنا پیسہ۔ آدھی بات ہمیں نہیں بتائی گئی تھی۔ ہریانہ کے لیے متعلقہ اعداد و شمار (کسان فیملی کا سائز ۵ اعشاریہ ۹ افراد) یوں تھے- ۱۴۴۳۴ روپے اوسط ماہانہ آمدنی اور فی کس ماہانہ آمدنی تقریباً ۲۴۵۰ روپے۔ یقیناً، یہ تھوڑی تعداد بھی انہیں دیگر ہندوستانی کسانوں سے آگے رکھتی ہے۔ جیسے کہ، مثال کے طور پر، گجرات سے جہاں کسان فیملی کی اوسط ماہانہ آمدنی ۷۹۲۶ روپے تھی۔ ہر ایک کسان فیملی میں اوسطاً ۵ اعشاریہ ۲ افراد کے ساتھ، فی کس ماہانہ آمدنی ۱۵۲۴ روپے تھی۔
کسان فیملی کی ماہانہ آمدنی کے لیے ملک گیر اوسط ۶۴۲۶ روپے تھا (تقریباً ۱۳۰۰ روپے فی کس)۔ ویسے – ان تمام اوسط ماہانہ اعداد و شمار میں تمام ذرائع سے موصول ہونے والی آمدنی شامل ہے۔ صرف کاشتکاری سے ہی نہیں، بلکہ مویشی، غیر زرعی کام اور مزدوری اور تنخواہ سے ہونی والی آمدنی بھی شامل ہے۔
یہ ہے ہندوستان کے کسانوں کی حالت، جیسا کہ نیشنل سیمپل سروے کے ۷۰ویں دور ’ہندوستان میں کنبوں کی حالت کے بنیادی اشاریے‘ (۲۰۱۳) میں درج کیا گیا ہے۔ اور یاد رکھیں کہ سرکار نے اگلے ۱۲ مہینوں میں، یعنی ۲۰۲۲ تک ان کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایک مشکل کام، جو ریحنّا اور تھن برگ جیسوں کی تباہ کن مداخلت کو مزید تکلیف دہ بناتا ہے۔
اوہ، دہلی کی سرحدوں پر موجود وہ امیر کسان، جو ۲ ڈگری سیلسیس یا اس سے کم درجہ حرارت میں لوہے کی ٹرالیوں میں سوتے ہیں، جو ۵-۶ ڈگری درجہ حرارت میں کھلے آسمان کے نیچے غسل کرتے ہیں – انہوں نے یقینی طور پر ہندوستانی امیروں کے بارے میں ہماری سمجھ میں اضافہ کیا ہے۔ ہم نے جتنا سوچا تھا، وہ اس سے کہیں زیادہ محنت کش ہیں۔
دریں اثنا، کسانوں سے بات کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل کردہ کمیٹی، مناسب انداز میں خود آپس میں بات کرنے میں ناکام لگ رہی ہے – اس کے چار ممبران میں سے ایک نے اپنی پہلی میٹنگ سے پہلے ہی اسے چھوڑ دیا۔ جہاں تک احتجاجیوں سے بات کرنے کی بات ہے، تو ایسا بالکل بھی نہیں ہوا ہے۔
۱۲ مارچ کو، سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل کردہ کمیٹی کی دو مہینے کی میعاد (زراعت کے لیے بیحد ضروری کیڑوں کی افزائش کی زیادہ سے زیادہ مدت) ختم ہو چکی ہوگی۔ تب تک کمیٹی کے پاس اُن لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہوگی، جن سے انہوں نے بات نہیں کی، اور اس سے کہیں زیادہ لمبی اُن لوگوں کی فہرست، جنہوں نے ان سے بات نہیں کی۔ اور شاید ان لوگوں کی ایک چھوٹی فہرست، جن سے انہیں کبھی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔
احتجاج کرنے والے کسانوں کو ڈرانے دھمکانے کی ہر کوشش کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ انہیں بدنام کرنے کے ہر قدم نے اقتدار حامی میڈیا کو بھلے ہی بہت زیادہ راغب کیا ہو – لیکن زمین پر اس کا اُلٹا اثر ہوا ہے۔ ڈرانے والی بات یہ ہے کہ یہ کسی بھی طرح سے اس حکومت کو اُن کوششوں کو تیز کرنے سے نہیں روک پائے گا جو مزید آمرانہ، جسمانی اور بہیمانہ ہوتے جائیں گے۔
کارپوریٹ میڈیا میں کئی لوگ جانتے ہیں، اور بی جے پی کے اندر بھی کئی لوگ بہتر جانتے ہیں، کہ شاید اس تنازع میں سب سے بڑی اڑچن ذاتی انا ہے۔ نہ تو پالیسی، اور نہ ہی سب سے امیر کارپوریشنز سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی بات ہے (وہ یقینی طور پر، کسی نہ کسی دن پورے کر دیے جائیں گے)۔ نہ ہی قوانین کے احترام کا کوئی سوال ہے (جیسا کہ حکومت نے خود ہی تسلیم کیا ہے کہ وہ اس میں کئی ترمیم کر سکتی ہے)۔ بات صرف اتنی ہے کہ بادشاہ کبھی غلط نہیں کر سکتا۔ اور غلطی کو تسلیم کرنا اور اس سے پیچھے ہٹنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے، چاہے ملک کا ہر ایک کسان الگ ہو جائے – لیڈر غلط نہیں ہو سکتا، چہرہ نہیں کھو سکتا۔ مجھے بڑے روزناموں میں اس پر ایک بھی اداریہ نہیں ملا، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔
اس گڑبڑی میں انا کتنا اہم ہے؟ انٹرنیٹ بند کرنے پر رائم-اینڈ-بلوز گلوکارہ کے ذریعہ ایک عام ٹوئٹ – ’’ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں؟‘‘ – پر ردِ عمل دیکھیں۔ جب اس پر ہونے والی بحث یہاں تک پہنچ جائے کہ ’ارے، ٹوئٹر پر مودی کے فالوور ریحنّا سے زیادہ ہیں‘، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم بھٹک گئے۔ دراصل، ہم تو اسی دن بھٹک گئے تھے جب وزارت خارجہ نے اس معاملے پر دہشت گردی مخالف خودکش حملہ جیسی بہادری کی قیادت کی، جس نے دیش بھکت سیلیبریٹی لائٹ بریگیڈ کو اپنی طرف سے سائبر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ (تباہی کی ڈجیٹل وادی میں، جہاں ٹوئٹ کی بوچھار اور گڑگڑاہٹ ہوئی، جس نے بڑھتی ہوئی مایوسی کی پرواہ کیے بغیر، سب سے بہتر چھ سو حاصل کر لیے)۔
بنیادی ذلت آمیز ٹوئٹ، صرف اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہ ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں، میں کوئی واضح رخ یا طرفداری نہیں تھی – آئی ایم ایف کے چیف ماہر اقتصادیات اور کمونکیشنز کے ڈائرکٹر کے بیانات کے برعکس، جنہوں نے عوامی طور پر زرعی قوانین کی تعریف کی ہے (جب کہ ’تحفظاتی قدم‘ کے بارے میں ’احتیاط‘ کو جوڑ دیا ہے – جس طرح نیکوٹین فروخت کرنے والے پوری ایمانداری سے اپنے سگریٹ کے ڈبوں پر قانونی وارننگ لکھ دیتے ہیں)۔
نہیں، آر اینڈ بی فنکارہ اور ۱۸ سالہ ماحولیاتی کارکن واقعی میں خطرناک ہیں، جن سے سختی اور بے رحمی سے نمٹا جانا چاہیے۔ یہ تسلی کی بات ہے کہ دہلی پولیس اس کام پر نکل پڑی ہے۔ اور اگر وہ عالمی سازش سے آگے بڑھتے ہوئے اس میں کسی اور سیارہ کا ہاتھ ہونے کا پتا لگانے کے لیے نکل پڑتے ہیں – آج کرۂ ارض، کل کہکشاں – تو میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گا جو ان کا مذاق اڑا رہے ہوں گے۔ جیسا کہ میری پسندیدہ باتوں میں سے ایک اس وقت انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہے: ’’دوسرے سیارہ کے علم کے وجود کا سب سے معتبر ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
یہ مضمون پہلی بار دی وائر میں شائع ہوا تھا۔
کور کا خاکہ: لبنی جنگی بنیادی طور پر مغربی بنگال کے نادیا ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبہ کی رہنے والی ہیں، اور فی الحال کولکاتا کے سینٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز سے بنگالی مزدوروں کی مہاجرت پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ وہ خود سے سیکھی ہوئی ایک مصور ہیں اور سفر کرنا پسند کرتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز