’’چھتوں سے چوہے کا گرنا اور پھر ہمارے گھروں میں ہی ان کا مر جانا مجھے آج بھی یاد ہے۔ اتنا منحوس نظارہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ سن کر آج آپ کو ہنسی آ سکتی ہے، لیکن اُس زمانے میں جب چھتوں سے چوہے گرتے تھے تو ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑتا تھا، اس بات سے انجان کہ ہم پتہ نہیں واپس کب لوٹ پائیں گے۔‘‘
یہ باتیں ہمیں اے کوڈندئی اَمّل نے بتائیں، جو کوئمبٹور کے کالپٹّی علاقے میں رہتی ہیں۔ ابھی اُن کی عمر ۸۰ سال سے زیادہ ہے، لیکن ۱۹۴۰ کے ابتدائی عشرے میں جب تمل ناڈو شہر میں طاعون کی بیماری پھیلی، تب وہ کافی چھوٹی تھیں۔
چیچک سے لے کر طاعون اور ہیضہ تک – کوئمبٹور کی تاریخ وبائی امراض سے بھری ہوئی ہے۔ یہ بیماریاں ویسے تو دیگر علاقوں میں بھی پھیلی ہوئی تھیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس نے کوئمبٹور علاقے کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا، کیوں کہ یہاں پر ’پلیگ ماری امّن‘ (جنہیں ’بلیک ماری امّن‘ بھی کہتے ہیں) کے نام سے بنائے گئے مندر آج بھی موجود ہیں۔ صرف اس شہر میں ایسے ۱۶ مندر ہیں۔
اور، ظاہر ہے، جب کووڈ۔۱۹ وبائی مرض نے دستک دی، تو یہاں ’کورونا دیوی‘ مندر بھی وجود میں آ گیا۔ لیکن جتنا مجمع پلیگ ماری امّن میں دیکھنے کو ملتا ہے، اتنا کہیں اور نہیں ملتا۔ پڑوس کے تریپور ضلع میں بھی ایسے کچھ مندر موجود ہیں، جہاں مختلف قسم کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔
سال ۱۹۰۳ سے ۱۹۴۲ کے درمیان، کوئمبٹور میں طاعون کی وبا کم از کم ۱۰ بار پھیلی، جس میں ہزاروں لوگوں کو موت ہوئی۔ اب اس بیماری کو ختم ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن یہاں کے لوگوں کی یادداشت سے یہ ختم نہیں ہوئی ہے۔ کوڈندئی امّل جیسے بزرگوں کے سامنے جیسے ہی طاعون کا ذکر آتا ہے، ان کے ذہن میں اس سے جڑی یادیں فوراً تازہ ہو جاتی ہیں کہ کیسے اس شہر نے اس مصیبت کو جھیلا تھا۔
شہر کے بھیڑ بھاڑ والے ٹاؤن ہال علاقے میں موجود مندروں میں سے شاید سب سے مشہور پلیگ ماری امّن مندر کے باہر بیٹھی ہوئی کانمّل (جن کی عمر ۴۰ سال سے زیادہ ہے)، شام کو پھول بیچنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ پھولوں کو بڑی نزاکت سے دھاگے میں پرونے کے کام پر اپنی نظریں مرکوز کرتے ہوئے، وہ بتاتی ہیں، ’’آج جمعہ کا دن ہے۔ اس لیے، کافی لوگ آئیں گے۔‘‘ انہیں اتنی بھی فرصت نہیں ہے کہ وہ بات کرتے وقت اپنی نظریں میری طرف اٹھا کر دیکھ سکیں۔
’’وہ (دیوی) طاقتور ہیں۔ آج بھلے ہی ہمارے یہاں کورونا دیوی کا مندر بن گیا ہو، لیکن بلیک ماری امّن ان [طاقتور دیویوں] میں سے ایک ہیں۔ ہم ان کی پوجا کرتے رہیں گے، خاص کر بیمار پڑنے پر، لیکن دوسری قسم کی عام پوجا کے لیے بھی۔ ’عام پوجا‘ سے ان کی مراد خوشحالی، کامیابی اور لمبی عمر کے لیے کی جانے والی دعا ہے، جو عقیدت مندوں کی عام خواہش ہوتی ہے۔ کانمّل، طاعون کا خاتمہ ہونے کے تقریباً چالیس سال بعد پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن اُن کی نسل کے بھی کئی لوگ اپنی مرادیں مانگنے کے لیے بڑی تعداد میں ماری امّن آتے ہیں۔
طاعون کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ یہ کوئمبٹور کی ثقافتی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ کوئمبٹور کے ایک قلم کار، سی آر ایلنگوون بتاتے ہیں، ’’شہر کے آبائی باشندوں نے نہ صرف طاعون کی تباہ کاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، بلکہ وہ خود بھی اس کے شکار بنے۔ یہاں پر آپ کو ایسی ایک بھی فیملی نہیں ملے گی جو طاعون سے متاثر نہ ہوئی ہو۔‘‘
ضلع کی ۱۹۶۱ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، ۱۹۰۹ میں کوئمبٹور شہر میں طاعون کی وجہ سے ۵۵۸۲ لوگوں کی موت ہوئی، جب کہ ۱۹۲۰ میں ۳۸۶۹ لوگ ہلاک ہوئے۔ دیگر رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۱۱ میں طاعون کی وجہ سے اس شہر کی آبادی گھٹ کر ۴۷ ہزار ہو گئی تھی، جو کہ ایک بڑی تباہی تھی کیوں کہ سال ۱۹۰۱ میں شہر کی آبادی تقریباً ۵۳ ہزار تھی۔
ایلنگوون کہتے ہیں کہ خود ان کی فیملی کے لوگ کچھ دنوں کے لیے کوئمبٹور چھوڑ کر ’’جنگل میں رہنے‘‘ چلے گئے تھے، اس امید میں کہ وہاں پر ’’انہیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا‘‘۔ لیکن آج تو امید کا وہ ذریعہ بھی نہیں بچا ہے، جہاں جا کر مصیبت کے وقت کوئی پناہ لے سکے۔
لہٰذا، کوئمبٹور کے ماہر حشریات اور ضلع کی نسلیات (ایتھنوگرافی) میں گہری دلچسپی رکھنے والے پی شیو کمار دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایسے سیاہ دور میں، جب کسی قسم کی طبی سہولت دستیاب نہیں تھی، لوگ مدد کی امید لیے دیوی دیوتاؤں کا رخ کرنے لگے۔‘‘
اُس امید سے خوف اور مایوسی بھی جڑی ہوئی تھی، جیسا کہ ایسے حالات میں اکثر ہوتا ہے۔ سال ۱۹۲۷ میں، شہر میں طاعون کی وبا کا یہی وہ وسطی دور تھا، جب فلسفی برٹرینڈ رسل نے مذہب کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ’’پوری طرح سے خوف پر ٹکا ہوا ہے۔ جزوی طور پر نامعلوم کی دہشت، اور جزوی طور پر اس احساس کی خواہش کہ آپ کے پاس ایک طرح سے بڑے بھائی کی شکل میں کوئی تو ہے جو تمام طرح کی پریشانیوں اور مصائب و آلام میں آپ کا ساتھ دے گا۔‘‘
’طاعون کی دیوی‘ سے منسوب مذکورہ بالا ۱۶ مندر بھی شاید انہی وجوہات کے سبب وجود میں آئے، حالانکہ خود ’دیوی‘ کے مشہور نام میں وقت کے حساب سے تبدیلی ہوتی رہی۔ ایلنگوون کہتے ہیں، ’’ پلیگ ماری امّن کو لوگوں نے بلیک ماری امّن بھی کہنا شروع کر دیا۔ اور چونکہ تمل زبان میں ماری کا مطلب ’سیاہ‘ (بلیک) بھی ہوتا ہے، اس لیے یہ نام آسانی سے بدلتے رہے۔‘‘
اور چونکہ خود طاعون کی یادیں تاریخ کے صفحات میں کہیں گم ہو چکی ہیں، اس لیے الگ الگ نسل کے لوگ اس کے اثرات کے بارے میں الگ الگ طریقے سے بتاتے ہیں۔
کوئمبٹور میں رہنے والی، ۳۲ سالہ نِکیلا سی بتاتی ہیں، ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب بھی بیمار پڑتی تھی، میرے ماں باپ مجھے مندر لے جایا کرتے تھے۔ میری دادی تو ہمیشہ مندر جایا کرتی تھیں۔ میرے ماں باپ یہ مانتے تھے کہ مندر کا مقدس پانی، بیماری کو ٹھیک کر دے گا۔ وہاں جا کر وہ پوجا بھی کرتے تھے۔ آج، جب میری بیٹی بیمار پڑتی ہے، تو میں بھی وہی کرتی ہوں۔ میں اسے وہاں لے جاتی ہوں اور پوجا کر تی ہوں، پھر اسے مقدس پانی دیتی ہوں۔ میں اُتنی پابندی سے تو نہیں جاتی جتنی پابندی سے میرے ماں باپ جایا کرتے تھے، لیکن اب بھی جاتی ہوں۔ میرے خیال سے یہ اس شہر میں رہنے کا نتیجہ ہے۔‘‘
*****
ٹاؤن ہال علاقے میں موجود پلیگ ماری امّن مندر میں، ۴۲ سالہ ایم راجیش کمار کہتے ہیں، ’’میں یہاں پر چوتھی نسل کا پجاری ہوں؛ لوگ آج بھی چیچک، جلد سے متعلق امراض، کووڈ۔۱۹ اور وائرل انفیکشن ہونے پر علاج کی امید میں یہاں آتے ہیں۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ دیوی ان بیماریوں کو ٹھیک کر دیتی ہیں۔‘‘
’’اس مندر کو بنے ہوئے ۱۵۰ سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ کوئمبٹور میں جب طاعون کی بیماری پھیلی [۱۹۴۲-۱۹۰۳]، تو میرے پردادا نے پلیگ ماری امّن کے نام سے ایک الگ مورتی نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی وفات کے بعد، میرے دادا اور میرے والد نے اس کی رکھوالی کی۔ آج وہی کام میں کر رہا ہوں۔ تب سے لے کر آج تک، دیوی کی نگہداشت والے کسی بھی خطہ میں طاعون سے کوئی بھی شخص متاثر نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے لوگ آج بھی انہیں مانتے ہیں۔‘‘
کوئمبٹور کی سائی بابا کالونی میں واقع پلیگ ماری امّن مندر کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ مندر کی انتظامیہ کمیٹی کے ایک رکن، ۶۳ سالہ وی جی راج شیکھرن بتاتے ہیں، ’’اسے بنیادی طور پر تقریباً ۱۵۰ سال پہلے بنایا گیا تھا۔‘‘ یعنی، اس مندر کی تعمیر طاعون کی وبا پھیلنے سے پہلے ہو چکی تھی۔
مزیدار بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں، اور ان جیسے کئی اور، پہلے سے ہی ماری امّن مندر تھے – لیکن ان مندروں میں اس دیوی کی پوجا دوسری شکلوں یا اوتار کے طور پر ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں طاعون کی وجہ سے جب تباہی پھیلنے لگی، تو انہی مندروں میں پلیگ ماری امّن کے نام سے پتھر کی بنی دیوی کی مورتی الگ سے نصب کر دی گئی۔
کوئمبٹور شہر پر طاعون کے حملہ سے تین دہائی قبل تعمیر شدہ مندر کے پجاری راج شیکھرن بتاتے ہیں کہ اُس وقت اس بیماری کی وجہ سے ’’ہر فیملی میں کم از کم پانچ یا چھ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی موت کے بعد، یا جب طاعون کی وبا تیزی سے پھیلنے لگی اور چھتوں سے چوہے گرنے لگے، تو اپنا گھر چھوڑ کر چلے گئے اور چار یا پانچ مہینے کے بعد واپس لوٹ سکے۔‘‘
اُس وقت سائی بابا کالونی ایک چھوٹا گاؤں ہوا کرتا تھا، جہاں کے لوگوں نے طاعون سے نجات پانے کے لیے وہاں الگ سے ایک مورتی نصب کرکے اس کی پوجا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا نام پلیگ ماری امّن رکھا۔ ’’ہماری فیملی میں دو لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ جب میرے چچا بیمار پڑے، تو دادی انہیں مندر لے کر آئیں، انہیں پلیگ ماری امّن کے سامنے لیٹایا، ان کے جسم پر نیم اور ہلدی لگائی۔ اس طرح، وہ ٹھیک ہو گئے۔‘‘
تبھی سے، اُس گاؤں کے ساتھ ساتھ کئی اور گاؤوں (جو اَب کوئمبٹور شہر کا حصہ ہیں) کے لوگ یہ ماننے لگے کہ ماری امّن کی پوجا کرنے سے وہ طاعون کی بیماری سے بچ جائیں گے۔‘‘
ایلنگوون کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں پلیگ ماری امّن مندروں کی تعمیر کے پیچھے شاید یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ ’’سائی بابا کالونی، پیلا میڈو، پاپّنایَکّن پالَیَم، ٹاؤن ہال، اور دیگر علاقے ایک صدی پہلے الگ الگ گاؤوں رہے ہوں گے۔ آج یہ سبھی علاقے کوئمبٹور شہر کا حصہ ہیں۔‘‘
تمل ثقافتی تاریخ کے مصنف اور تاریخ نویس اسٹالن راجنگم کا کہنا ہے کہ پلیگ ماری امّن کی پوجا ایک ’’ایک ایسی بیماری کا فطری نتیجہ یا ردعمل ہو سکتا ہے جس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تھی۔ عقیدے کی بنیاد یہ ہے: آپ اپنے مسائل، اپنی پریشانیوں کا حل تلاش کرنے کے لیے بھگوان پر یقین کرتے ہیں۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی بیماری ہے۔ تو ظاہر ہے، عقیدہ بیماریوں سے نجات حاصل کرنے پر ہی مرکوز ہے۔‘‘
راجنگم مزید کہتے ہیں، ’’عیسائی مذہب اور اسلام میں بھی یہ عام ہے۔ مسجدوں میں بیمار بچوں پر دعا پڑھ کر پھونکی جاتی ہے۔ عیسائی مذہب میں، ہم آروگیہ مادھا (صحت کی ماں) کی عبادت کرتے ہیں۔ بودھ بھکشوؤں کا طب پر عمل کرنا مشہور ہے۔ تمل ناڈو میں، سِدّھر آج بھی پائے جاتے ہیں، جو بنیادی طور پر حکیم ہوا کرتے تھے۔ اسی سے طب کی ایک نئی شاخ نکلی، جسے ہم سدھّ کے نام سے جانتے ہیں۔‘‘
ماری امّن مندر تمل ناڈو کے تقریباً ہر گاؤں میں موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی علاقے میں اس دیوی کا کوئی الگ نام ہو، لیکن آپ کو ان کا مندر ضرور مل جائے گا۔ کسی مخصوص بھگوان یا ان کا غیض و غضب یا بیماری سے نجات دلانے کی ان کی طاقت کا تصور کسی ایک مذہب یا ایک ملک تک ہی محدود نہیں ہے۔ اور پوری دنیا کے دانشوروں نے حالیہ دہائیوں میں طاعون اور دیگر وبائی امراض پر مذہبی ردعمل کو زیادہ سنجیدگی سے لیا ہے۔
جیسا کہ مؤرخ ڈوئین جے اوشائیم، ۲۰۰۸ میں شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالہ، Religion and Epidemic Disease (مذہب اور وبائی امراض) میں لکھتے ہیں: ’’وبائی امراض کے بارے میں کوئی واحد یا پیش قیاسی مذہبی ردعمل نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ فرض کرنا درست ہے کہ مذہبی ردعمل ہمیشہ الہامی ہوتے ہیں۔ البتہ یہ تسلیم کرنا زیادہ صحیح ہوگا کہ جنس، طبقہ، یا نسل کی طرح ہی مذہب بھی تجزیہ کا ایک زمرہ ہے۔ وبائی امراض کے تئیں مذہبی ردعمل کو اگر اثرانداز ہونے والی بیماری اور اس کے تئیں انسانی ردعمل کے مطالعہ کے ایک فریم، لگاتار بدلتے فریم کے طور پر دیکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔‘‘
*****
تمل ناڈو میں آج بھی سالانہ امّن تیروویڈا ( ماری امّن کے تہوار) عام طور سے منائے جاتے ہیں۔ اسی لیے، بقول اسٹالن راجنگم، عوامی صحت اور مذہبی عقیدہ کے درمیان موجود رشتے کو سمجھنا ہمارے لیے زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ تہوار خاص طور سے تمل ماہ، آدی (وسط جولائی سے وسط اگست) کے دوران ریاست بھر کے امّن مندروں میں منائے جاتے ہیں۔
راجنگم کہتے ہیں، ’’اس سے قبل کے مہینے – چتیرئی ، ویگاسی اور آنی [بالترتیب وسط اپریل سے وسط مئی، وسط مئی سے وسط جون، اور وسط جون سے وسط جولائی] تمل ناڈو میں کافی گرم ہوتے ہیں۔ زمین بھی خشک ہوتی ہے، اور جسم بھی۔ اسی خشکی کی وجہ سے امّئی (خسرہ/چیچک) کی بیماری ہوتی ہے۔ دونوں کا علاج ٹھنڈاپن ہے۔ اور تیروویڈا کا سارا تعلق اسی سے ہے۔‘‘
’موتو ماری امّن‘ (دیوی کی ایک اور شکل) کی پوجا، دراصل خسرہ اور چیچک سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہی کی جاتی ہے۔ ’’چونکہ اس بیماری کی وجہ سے جلد پر دانے نکلنے لگتے ہیں، اسی لیے اس کی دیوی کو موتو ماری امّن کہا جاتا ہے، تمل زبان میں ’موتو‘ کا مطلب ہے موتی۔ چیچک کے علاج کے لیے طبّ کے شعبہ میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے، پھر بھی ان مندروں میں لوگوں کی بھیڑ ہمیشہ لگی رہتی ہے۔‘‘
راجنگم اِن تہواروں سے وابستہ کچھ رسومات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جن کی سائنسی اہمیت بھلے ہی نہ ہو، لیکن طبی اہمیت ضرور ہے۔ ’’گاؤں میں تیروویڈا کا اعلان ہونے کے بعد، کاپو کٹّوتل نام کی ایک رسم ادا کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی آدمی گاؤں سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ انہیں اپنے گھروں میں، گلی محلوں میں، اور پورے گاؤں میں صاف صفائی رکھنی پڑتی ہے۔ ان تہواروں کے دوران، جراثیم کش سمجھی جانے والی نیم کی پتیوں کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔‘‘
راجنگم کہتے ہیں کہ جس وقت سائنسی برادری کووڈ۔۱۹ کا حل تلاش کرنے میں مصروف تھی، اس وقت جن رہنما خطوط کا اعلان کیا گیا، وہ کچھ اسی قسم کے تھے۔ ’’جسمانی دوری اختیار کرنے اور صاف صفائی کے لیے سینٹائزر کے استعمال کی بات کہی گئی۔ اور بعض معاملوں میں، لوگوں نے نیم کی پتیاں استعمال کرنی شروع کر دیں کیوں کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ کووڈ سے بچنے کے لیے اور کیا کیا جائے۔‘‘
علیحدگی اختیار کرنا (آئیسولیشن) اور کسی نہ کسی قسم کے سینٹائزر کا استعمال ایک عالمگیر طریقہ ہے۔ کووڈ پھیلنے کے دوران اوڈیشہ میں صحت عامہ کے عہدیداروں نے پوری جگن ناتھ کی مثال پیش کرتے ہوئے کوارنٹائن اور جسمانی دوری کی اہمیت کو نمایاں کیا۔ انہوں نے لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ کیسے بھگوان جگن ناتھ سالانہ رتھ یاترا سے پہلے خود کو اناسر گھر (آئیسولیشن روم، یا خلوت کے کمرہ) میں بند کر لیتے ہیں۔
اور دیوی اور بیماری سے لڑنے کا تصور’’اتنا عالمگیر ہے کہ کرناٹک کا ایک امّن مندر تو ایڈز کے لیے وقف ہے،‘‘ نیویارک کی سینا یونیورسٹی میں مذہبی مطالعے کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مصنف، ایس پیروندیوی کہتی ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ماری امّن کی پوجا ایک ’’انتہائی جامع خیال ہے… دراصل، تمل زبان میں ماری کا مطلب بارش بھی ہے۔ مولئی پاری (زرعی تہوار) جیسی کچھ رسومات میں، ماری امّن کو فصلوں کے طور پر دیکھا اور پوجا جاتا ہے۔ کہیں کہیں ان کی پوجا موتیوں کے طور پر بھی کی جاتی ہے۔ اس طرح، انہیں ایک ایسی دیوی تصور کیا جاتا ہے جو بیماری کا سبب ہیں، خود بیماری ہیں، اور اس کا علاج بھی۔ طاعون [کے معاملے] میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔‘‘ لیکن پیروندیوی اس بیماری کو رومانوی شکل دینے سے متنبہ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ ماری امّن سے جڑی مقامی داستان دراصل بیماری کو زندگی کا ایک حصہ سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔‘‘
*****
تو ماری امّن کون ہیں؟
اس دراوڑی دیوی نے محققین، مؤرخین، اور مقامی داستان گویوں کو کافی عرصے سے اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔
ماری امّن تمل ناڈو کے گاؤوں کی شاید سب سے مشہور دیوی تھیں اور آج بھی ہیں، جہاں انہیں اپنا سرپرست سمجھا جاتا ہے۔ اور ان کی کہانیاں اتنی ہی متنوع ہیں جتنی کہ ان کہانیوں کے ماخذ۔
کچھ مؤرخین بودھ مذہب کی روایت کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہیں ناگ پٹّینم کی بودھ راہبہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جن کے پاس بیمار لوگ، خاص طور پر چیچک کے مریض علاج کرانے آیا کرتے تھے۔ وہ ان سے بدھ میں یقین رکھنے کے لیے کہتیں اور نیم کی پتیوں کے لیپ اور دعا کے ذریعے ان کا علاج کرتیں – اور انہیں حفظان صحت، صاف صفائی کا خیال رکھنے اور خیرات کرنے کا مشورہ دیا کرتی تھیں۔ انہیں جب عرفان حاصل ہو گیا، تو لوگوں نے ان کی ایک مورتی بنا دی، اور یہیں سے ماری امّن کی کہانی شروع ہوتی ہے۔
کئی دوسری روایتیں بھی ہیں۔ ایک کہانی پرتگالیوں کی ہے کہ جب وہ ناگ پٹینم آئے، تو انہیں عیسائیوں کی دیوی قرار دیتے ہوئے ان کا نام ماری امّن رکھا۔
کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو انہیں شمالی ہندوستان میں چیچک اور دیگر متعدی امراض کی دیوی، شیتلا کا ہم عصر کہتے ہیں۔ شیتلا (جس کا سنسکرت میں مطلب ہے ’جو ٹھنڈا کرے‘) کو بھگوان شیو کی بیوی، دیوی پاروَتی کا اوتار مانا جاتا ہے۔
لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دیہی لوگوں کی دیوی تھیں، جن کی پوجا دلت اور نیچی ذات کے لوگ کرتے تھے – یعنی دلت نژاد دیوی۔
اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ ماری امّن کی طاقت اور مقبولیت کا ہی نتیجہ ہے کہ اونچی ذات کے لوگ پچھلے کئی سالوں سے انہیں اپنا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جیسا کہ مؤرخ اور مصنف، کے آر ہنومنتن نے ۱۹۸۰ کے اوائل میں The Mariamman Cult of Tamil Nadu (تمل ناڈو کا ماری امّن مسلک) عنوان سے شائع اپنے مقالہ میں نشاندہی کی ہے: ’’ ماری امّن ایک قدیم دراوڑی دیوی ہیں جن کی پوجا تمل ناڈو کے ابتدائی باشندے کیا کرتے تھے… یہ انکشاف پریہ [ پریّار ، درج فہرست ذات] کے ساتھ دیوی کے تعلق سے ہوتا ہے، جنہیں پہلے ’اچھوت‘ سمجھا جاتا تھا اور جو تمل ناڈو کے دراوڑی عوام کے سب سے قدیم نمائندے تھے۔‘‘
ہنومنتن کہتے ہیں کہ اس دیوی کے کئی مندروں میں، پریار کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’لمبے وقت تک وہاں کے پجاری ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر چنئی کے قریب تیرورکاڈو میں واقع کرو ماری امّن مندر کے پجاری۔ یہاں کے اصلی پجاری پریار تھے۔ لیکن مذہبی اوقاف قانون [۱۸۶۳] آنے کے بعد اُنہیں ہٹا کر برہمنوں کو وہاں کا پجاری بنا دیا گیا۔‘‘ اس برطانوی نوآبادیاتی قانون نے پس ماندہ برادریوں کے مندروں پر اونچی ذات کے قبضے کو (جو پہلے سے ہی جاری تھی) قانونی منظوری دے دی۔ آزادی کے بعد، تمل ناڈو جیسی ریاستوں نے اس ناانصافی کو ختم کرنے کی کوشش میں خود اپنے قوانین بنائے ہیں۔
*****
اور اب ’کورونا دیوی‘ مندر؟ سچ میں؟
جی ہاں، کوئمبٹور کے ایروگور مضافات میں واقع کورونا دیوی مندر کے مینیجر، آنند بھارتی بتاتے ہیں، ’’یہ بھی پلیگ ماری امّن کی ہی طرز پر ہے۔ جب ہم نے [پہلے سے موجود مندر میں] کورونا دیوی کی مورتی نصب کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تب یہ بیماری اپنے عروج پر تھی۔ اور ہمارا عقیدہ ہے کہ پوجا کرنے سے ہی ہماری جان محفوظ رہ سکتی ہے۔‘‘
لہٰذا، جب کووڈ۔۱۹ وبائی مرض پھیلا، تو کوئمبٹور ملک کے اُن چند مقامات میں سے ایک تھا جہاں ۲۰۲۰ کے اواخر میں، اس بیماری سے بچنے کے لیے ایک عبادت گاہ بنائی گئی تھی۔
لیکن ’دیوی‘ کیوں؟ کورونا ماری امّن کیوں نہیں؟ ہمارے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بھارتی کہتے ہیں کہ اُن الفاظ کو جوڑنے پر لغوی معنی کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ’’ ماری امّن لفظ، طاعون کے ساتھ تو ٹھیک بیٹھ جاتا ہے کورونا کے ساتھ نہیں۔ اسی لیے، ہم نے انہیں ’دیوی‘ پکارنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
ماری امّن مندر تمل ناڈو کے تقریباً ہر گاؤں میں موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی علاقے میں اس دیوی کا کوئی الگ نام ہو، لیکن آپ کو ان کا مندر ضرور مل جائے گا
طبی شعبے میں لگاتار ہو رہی پیش قدمی کے باوجود، صحت سے متعلق مسائل پیدا ہونے پر لوگ آج بھی اس دیوی کے پاس آتے ہیں اور دیگر متعلقہ رسومات ادا کرتے ہیں۔
لیکن پلیگ ماری امّن مندروں کے برعکس، کورونا دیوی کا مندر وجود میں آ جانے کے باوجود لوگوں کو وہاں جا کر پوجا کرنے کی اجازت نہیں تھی، کیوں کہ لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا۔ ظاہری طور پر دیکھا جائے تو ایک ایسا مندر، جس کی تعمیر مہلک بیماری سے لڑنے کے لیے کی گئی تھی، وہاں نہ صرف اس ’دیوی‘ کو وائرس سے بچانا ضروری تھا، بلکہ وبائی امراض سے متعلق پروٹوکول پر عمل کرنا بھی ضروری تھا۔ مندر کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہاں پر ۴۸ دنوں تک یگیہ کیا تھا (جو کسی مخصوص مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر کی جانے والی پوجا یا نذرانہ پیش کرنے کی رسم ہوتی ہے) جس کے بعد کورونا دیوی کی مٹی سے بنی مورتی کو ندی میں بہا دیا گیا تھا۔ اب یہ مندر عقیدت مندوں کے لیے کھول دیا گیا ہے، لیکن مندر میں دیوی کی مورتی نہ ہونے سے انہیں پوجا کرنے میں شاید پریشانی ہوتی ہو۔
ایلنگوون جیسے مصنفین، کورونا دیوی مندر کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئمبٹور کی اخلاقیات میں جو رتبہ پلیگ ماری امّن مندروں کو حاصل ہے، وہ کورونا دیوی مندر کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ’’یہ شہرت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے اور کچھ نہیں۔ پلیگ ماری امّن سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، آپ ان کا موازنہ نہیں کر سکتے۔ پلیگ ماری امّن مندر، کوئمبٹور کی تاریخ اور ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔‘‘
پورے شہر میں پلیگ ماری امّن کی جتنی بھی عبادت گاہیں ہیں، وہاں پر آج بھی لوگوں کا مجمع لگا رہتا ہے، حالانکہ خود طاعون (پلیگ) کی یادداشت ہمارے ذہنوں سے معدوم ہو چکی ہے۔ سال ۲۰۱۹ میں، یعنی کووڈ۔۱۹ کے شروع ہونے سے کچھ دنوں پہلے، پاپّنائیکن پالَیَم میں واقع پلیگ ماری امّن مندر اُس وقت سنسنی کا باعث بن گیا تھا جب تہوار کے دواران ایک طوطا ’دیوی‘ کی مورتی پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔ طوطے کو دیکھ کر سارے عقیدت مند حیران ہو گئے تھے۔
مقامی رپورٹوں کے مطابق، یہ ’پروگرام‘ کئی گھنٹوں تک چلا، جس کی وجہ سے مندر میں آنے والوں کی بھیڑ کافی بڑھ گئی تھی۔ ایلنگوون بتاتے ہیں، ’’ ماری امّن گاؤں کی دیوی ہیں۔ عام لوگوں کے درمیان ان مندروں کی افادیت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پر، ٹاؤن ہال علاقے میں کونی یمّن مندر کے تہوار کے لیے مقدس آگ کا گڑھا اسی علاقے کے پلیگ ماری امّن مندر میں بنایا جاتا ہے۔ ان کی رسومات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ کونی یمّن کو، کوئمبٹور کی سرپرست دیوی تصور کیا جاتا ہے۔‘‘
موجودہ نسل کے بہت سے لوگ اس قسم کی پیچیدہ تاریخ اور کہانیوں سے واقف نہیں ہیں۔ پھر بھی، ان کے نزدیک ان عبادت گاہوں کی کافی اہمیت ہے۔ کوئمبٹور کے ۲۸ سالہ کاروباری، آر نرائن کہتے ہیں، ’’مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ان مندروں کی اس قسم کی تاریخ ہے۔ لیکن میں اپنی ماں کے ساتھ مندر ہمیشہ جاتا ہوں، اور آئندہ بھی جاتا رہوں گا۔ اس سے میرے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یا شاید، میری حیرانی مزید بڑھ جائے۔‘‘
کویتا مرلی دھرن، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہریوں کی آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے مواد پر کوئی ادارتی کنٹرول نہیں کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز