مہاتما جیوتی راؤ پھولے کے ذریعے شروع کیے گئے اسکول میں پڑھنے والی ایک دلت طالبہ، مُکتا سالوے نے ۱۵ فروری، ۱۸۸۵ کو ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا ’مانگ مہارانچیا دُکھا وِشئی‘ (’مانگ اور مہاروں کی تکلیفوں کے بارے میں‘)۔ یہ مضمون مراٹھی کے ایک پندرہ روزہ رسالہ ’گیانودے‘ میں شائع ہوا تھا۔ اپنے اس شعلہ انگیز مضمون میں انہوں نے مذہب کے ٹھیکیداروں کو چیلنج کیا تھا۔ ’’کرہ ارض سے اُس مذہب کو ختم ہو جانے دیجئے، جس میں صرف ایک آدمی کو مراعات حاصل ہیں، باقی تمام لوگ محروم ہیں، اور ہمارے ذہنوں میں کبھی کبھی ایسے [تعصبانہ] مذہب پر فخر کرنے کی بات نہ آئے۔‘‘
مُکتا سالوے نے اپنی مانگ برادری کے لوگوں کے بارے میں جب یہ مضمون لکھا تھا اُس وقت ان کی عمر محض ۱۵ سال تھی۔ ان کا یہ بیباک مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح برہمن حکمرانوں اور پورے معاشرہ نے دلتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ٹھیک ویسے ہی، کڈو بائی کھرات نے روحانی پیشواؤں کو آلندی میں چیلنج کیا اور روحانیت و مذہب کی بحث میں انہیں شکست دی۔ کڈو بائی عام لوگوں کے دکھ اور ان کی جدوجہد کے بارے میں گاتی ہیں۔ ان کے گیت گہرے معنی اور فلسفے کو بیان کرتے ہیں۔ ان گیتوں کے ذریعے وہ مساوات کی قدر کی وضاحت کرتی ہیں اور بابا صاحب امبیڈکر کے تئیں احسان مندی کا اظہار بھی کرتی ہیں۔
*****
काखेत पोरगं हातात झाडनं डोईवर शेणाची पाटी
कपडा न लत्ता, आरे, खरकटं भत्ता
फजिती होती माय मोठी
माया भीमानं, भीमानं माय सोन्यानं भरली ओटी
मुडक्या झोपडीले होती माय मुडकी ताटी
फाटक्या लुगड्याले होत्या माय सतरा गाठी
पोरगं झालं सायब अन सुना झाल्या सायबीनी
सांगतात ज्ञानाच्या गोष्टी
सांगू सांगू मी केले, केले माय भलते कष्ट
नव्हतं मिळत वं खरकटं आणि उष्टं
असाच घास दिला भीमानं
झकास वाटी ताटी होता
तवा सारंग चा मुळीच पत्ता नव्हता
पूर्वीच्या काळात असंच होतं
बात मायी नाय वं खोटी
माया भीमानं, मया बापानं,
माया भीमानं माय, सोन्यानं भरली ओटी
گود میں بچہ، ہاتھ میں جھاڑو،
گوبر سے بھری ٹوکری سر پر
چیتھڑے میری پوشاک، بچا ہوا کھانا ہی میری
اجرت ہے،
یقین کرو، میری زندگی کسی بے عزتی سے کم
نہیں تھی
لیکن میرے بھیم، ہاں میرے بھیم نے زندگی کو
سونے سے بھردیا،
میری جھونپڑی ٹوٹی پھوٹی تھی، دروازے ٹوٹے
پھوٹے تھے
میری پھٹی ساڑی پر اتنے پیوند تھے کہ انہیں
گننا مشکل تھا
میرا بیٹا اب ایک افسر ہے، اور میری بہو
بھی افسر ہے
وہ مجھے وہ الفاظ سکھاتی ہیں جو علم سے
بھرے ہیں
میں نے زندگی میں اتنی جدوجہد کی اور اتنی
کڑی محنت کی
کئی بار جھوٹھا یا بچا ہوا کھانا بھی نہیں
ملا
لیکن بھیم آئے اور انہوں نے ہمیں کھلایا
صاف ستھرے پلیٹ میں اور پیالی میں
شاعر سارنگ تب وہاں موجود نہیں تھے
اُن دنوں ہم ایسی ہی زندگی بسر کرنے کو
مجبور تھے
میں کوئی جھوٹ نہیں کہہ رہی ہوں، میرے
پیارے بھیم،
جو والد کی طرح تھے، میری زندگی سونے سے
بھر دی
ہم نے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لکھے اور گائے گئے ہزاروں گیت سنے ہیں۔ لیکن ان میں سے چند ہی گیت ایسے ہیں جو ہمارے دل کے کافی قریب ہیں۔ یہ گیت اتنے مقبول ہوئے کہ آج وہ ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ بن چکے ہیں۔ کڈو بائی کھرات کے اس گیت نے بھی وہی مقام حاصل کر لیا ہے۔ یہ گیت لوگوں میں بے حد مقبول ہیں، ان کے گھروں اور دلوں میں پہنچ چکے ہیں – اور یہ امبیڈکر کے بارے میں سب سے مشہور گھریلو گانوں میں سے ایک ہیں۔
ان گیتوں کے اتنا مشہور ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر جذبات کے اظہار کے لیے بہترین الفاظ کا انتخاب، صاف اور واضح آواز، منفرد ساؤنڈ اور آلات موسیقی کا استعمال، اور ان سب کے پیچھے کڈو بائی کھرات کی مخصوص آواز۔ سادہ زندگی بسر کرنے والی کڈو بائی سب سے پہلے ٹی وی شو میں نظر آئیں جیسے کہ کلرز چینل کا جلسہ مہاراشٹرچا، اور زی ٹی وی کے پروگرام۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے انہیں جن راستوں سے ہو کر گزرنا پڑا، اس کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ کڈو بائی کی زندگی ایسے تجربات سے بھری ہوئی ہے، جیسا کہ خود ان کے نام سے ظاہر ہوتا ہے۔ (مراٹھی میں کڈو کا مطلب ہوتا ہے ’کڑوا‘۔ مراٹھواڑہ میں زیادہ تر لڑکیوں کا یہ نام اس لیے رکھا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ انہیں ’بری نظر‘ سے بچاتا ہے۔)
کڈو کے والد تُکا رام کامبلے تھے…
بچپن سے ہی غربت کی زندگی گزارنے والی کڈو بائی کی شادی محض ۱۶ سال کی عمر میں کر دی گئی تھی، لیکن کچھ سالوں بعد ہی دل کا دورہ پڑنے سے ان کے شوہر کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد اپنی اور اپنے تین بچوں – دو بیٹے اور ایک بیٹی – کی زندگی کو سنبھالنے کی پوری ذمہ داری ان کے اوپر آن پڑی۔ انہوں نے اپنے والد کی اِکتاری (اکتارہ) اٹھائی اور گھر گھر جا کر روایتی بھجن کیرتن گانے لگیں۔ ویدک دور میں، گارگی اور میتریئی نام کی وِدوشیوں [علم سے مزین خواتین] نے مذہب کے ٹھیکیداروں سے بحث کی تھی۔ اسی طرح، کڈو بائی نے بھی ایک بار آلندی مندر کے صحن میں روحانیت کے ٹھیکیداروں سے بحث و مباحثہ کیا تھا۔ انہوں نے مختلف قسم کے مذہبی گیت گاتے ہوئے اسی طرح کئی سال گزار دیے، لیکن مشکل سے دو وقت کے کھانے کا انتظام کر پاتی تھیں۔ لہٰذا ایک دن انہوں نے جالنہ ضلع [مہاراشٹر] میں واقع اپنے گاؤں کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور اورنگ آباد چلی آئیں۔
لیکن اورنگ آباد میں وہ کہاں رہتیں؟ انہوں نے اورنگ آباد-بیڈ بائی پاس روڈ کے قریب ایک گائیران زمین [سرکاری ملکیت والی چراگاہ] پر ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنائی اور وہاں پانی یا بجلی جیسی عوامی سہولیات کے بغیر رہنے لگیں۔ وہ آج بھی وہیں رہتی ہیں۔ شروع میں کچھ وقت کے لیے میرا اُماپ، کڈو بائی کو اپنی پرفارمنس منڈلی کے ساتھ لے جانے لگیں۔ لیکن انہیں اتنا پیسہ نہیں ملتا تھا جس سے وہ اپنے تین بچوں کی ٹھیک سے دیکھ بھال کر پاتیں۔ کڈو بائی بتاتی ہیں، ’’برسات کا موسم چل رہا تھا اور ہم نے ایک ہفتے سے سورج کو نہیں دیکھا تھا۔ میں کسی کام کے لیے گھر سے باہر بھی نہیں جا سکتی تھی۔ تینوں بچے بھوک سے نڈھال تھے۔ میں گھر گھر جا کر بھجن گانے لگی۔ ایک عورت نے کہا، ’ڈاکٹر امبیڈکر کے بارے میں کوئی گیت گاؤ‘۔ میں نے وہ گیت گایا اور اسے اپنے بچوں کی بھوک کے بارے میں بھی بتایا۔ وہ اپنے باورچی خانہ میں گئی اور کھانے پینے کا وہ سارا سامان اٹھا کر لے آئی جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے خریدا تھا، جو کہ میرے ایک مہینہ کے لیے کافی تھا۔ وہ میرے بچوں کی بھوک کو سمجھ گئی تھی۔
’’امبیڈکر کے گیت نے ان کے بھوکے پیٹ کے لیے کھانے کا انتظام کیا۔ میری پوری زندگی بدل گئی۔ میں نے بھجن کیرتن چھوڑ دیا اور ڈاکٹر امبیڈکر کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے لگی۔ اُس راستے پر چلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے، میں نے ۲۰۱۶ میں ہندو مذہب سے کنارہ کر لیا اور اپنی ماتنگ ذات کو چھوڑ دیا۔ میں نے بدھ کے دھمّا [بدھ مذہب] کو اپنا لیا!‘‘
کڈو بائی نے اپنے شوہر، اور اپنے والد کو بھی کھو دیا۔ لیکن اپنی تمام تر جدوجہد کے دوران، اکتاری اور اپنی سریلی آواز ہمیشہ ان کے ساتھ رہی۔ اپنے والد اور شوہر کی موت کے بعد انہیں بے سہارا نہیں ہونا پڑا۔
زندہ رہنے کی اس جدوجہد میں دو چیزیں ہمیشہ کڈو بائی کے ساتھ رہیں: اکتاری اور ان کی آواز۔ انہوں نے بابا صاحب کی محبت، ہمدردی، حوصلہ اور توانائی کی مدد سے دنیا کا سامنا کیا۔
گھر گھر جا کر گیت گانے اور بھیک مانگنے سے لے کر، آج مہاراشٹر میں ایک مشہور شخصیت بننے تک کا ان کا سفر کسی قابل ذکر یادگار سے کم نہیں ہے۔ اکتاری ۳۰ سال سے بھی زیادہ عرصے سے ان کی ساتھی رہی ہے۔
*****
اکتاری کا سب سے قدیم حوالہ اجنتا کی غاروں [مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع میں] میں غار نمبر ۱۷ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس آلہ موسیقی کی ایک پینٹنگ غار کی دیواروں پر موجود ہے۔ مہاراشٹر میں، ہر ذات کے پاس اپنا ایک مخصوص آلہ موسیقی ہوتا ہے۔ یہ آلات رسمی اور ثقافتی مقاصد کے لیے بجائے جاتے ہیں۔ مانگ ذات سے تعلق رکھنے والے ہلگی بجاتے ہیں؛ ڈکل وار ذات کے لوگ کِنگری ؛ دھنگر ذات کے لوگ گجی ڈھول ؛ دیوی یلّما کو ماننے والے چونڈک ؛ گوساوی لوگ ڈَورُو ؛ اور مہار برادری کے لوگ ڈھولکی ، تُنتُنے اور اکتاری بجاتے ہیں۔
ممبئی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر، ڈاکٹر نارائن بھوسلے کا کہنا ہے کہ گوساوی برادری چونکہ روایتی طور پر ڈَورُو آلہ بجاتی رہی ہے، اس لیے اسے ڈَورو گوسوامی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مادری معاشرہ کے بارے میں بھجن گانے والے بھاٹ کمیونٹی کے لوگ تُنتُنے اور سمبل بجاتے ہیں۔
اکتاری اور تنتنے کی شکل ایک جیسی ہوتی ہے۔ لیکن ان کی آواز، انہیں بجانے کا طریقہ، اور ان دونوں میں سے ہر ایک کو بنانے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے۔ مہار اور مانگ برادری کے لوگ اکتاری کے ساتھ جس طرح بھجن گاتے ہیں وہ اونچی ذات میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے – یا نایاب ہے۔ یہ آلات موسیقی ان برادریوں کی ثقافتی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ انہیں سماجی اور مذہبی تقریبوں اور روزمرہ کی زندگی میں الگ الگ موقعوں پر بجایا جاتا ہے۔
اکتاری کے بارے میں، مشہور شاہیر (شاعر) سمبھاجی بھگت بتاتے ہیں: ’’اس کی آواز اور سُر کا غم سے گہرا رشتہ ہے۔ ’ڈِنگ ناگ، ڈِنگ ناگ…‘ کی آواز درد کو بیان کرتی ہے۔ اس کے سُر، بھیروی کے ہیں، جو کہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی روایت کا ایک راگ ہے، جو غم کا اظہار کرتا ہے۔ اکتاری سنتے وقت آپ کو پوری طرح بھیروی کا احساس ہوتا ہے۔ اکتاری کے ساتھ گائے گئے تقریباً تمام بھجنوں کو بھیروی میں ہی تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ بھیروی کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔‘‘
ہندو مذہب میں بھکتی روایت کی دو شاخیں ہیں: سگُن [جہاں دیوتا کی شکل ہوتی ہے] اور نِرگُن [جہاں دیوتا کی کوئی ٹھوس شکل نہیں ہوتی]۔ سگُن روایت میں دیوتا کی مورتی اور مندر مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن، نِرگُن کے یہاں مندر یا مورتی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسے ماننے والے لوگ بھجن گاتے ہیں۔ ان کے لیے موسیقی ہی عبادت ہے، اور وہ اسے لوگوں تک لے جاتے ہیں اور ان کے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ بدھ مذہب اختیار کرنے سے پہلے، مہاراشٹر کے مہار لوگ کبیر اور ڈھگوجی-میگھوجی کے پیروکار تھے۔
आकाश पांघरुनी
जग शांत झोपलेले
घेऊन एकतारी
गातो कबीर दोहे
آسمان کے نیچے
دنیا سوئی ہے
اکتاری کے ساتھ
کبیر نے دوہا گایا ہے
کبیر کے تمام بھجن اکتاری پر ہی گائے جاتے ہیں۔ ان کی محنت اور زندگی کے تجربات، فلسفے، اور عالمی نظریات کو ان گیتوں میں واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
مظلوموں اور پس ماندہ لوگوں کے لیے کبیر روحانیت اور موسیقی کا سرچشمہ ہیں۔ خانہ بدوش برادریاں اور گھومنے پھرنے والے گلوکار، اپنے ہاتھوں میں اکتاری لیے، کبیر کے پیغام کو پورے ملک میں پھیلا چکے ہیں۔ کبیر پر مبنی ادب کے ایک بڑے عالم، پرشوتم اگروال کا کہنا ہے کہ کبیر کا اثر صرف ہندی بولنے والے علاقوں اور پنجاب تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ ان کی پہنچ اڑیہ اور تیلگو بولنے والے علاقوں تک تھی۔ انہیں سننے والے لوگ گجرات اور مہاراشٹر تک پھیلے ہوئے تھے۔
مہاراشٹر اور اس کی سرحدوں کے پار آندھرا، کرناٹک، گجرات اور مدھیہ پردیش میں بھی مہار اور دیگر ذاتیں جنہیں ’اچھوت‘ سمجھا جاتا تھا، یہ تمام لوگ ۱۹۵۶ سے پہلے کبیر کے پیروکار تھے۔ وہ کبیر پنتھی تھے۔ مہاراشٹر کے مشہور سَنت، تُکا رام بھی کبیر سے متاثر تھے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ کبیر کے اثر اور کبیر پنتھی روایت نے ان برادریوں میں اکتاری کو پہنچایا۔
دلت خاندانوں، خاص کر مہار اور دیگر تاریخی طور پر اچھوت برادریوں میں اکتاری کے ساتھ گانے کی روایت رہی ہے۔ اس ساز کا استعمال آج بھی ہو رہا ہے۔ فیملی میں کسی کی موت ہو جانے پر وہ اکتاری کے ساتھ ہی بھجن گاتے ہیں۔ مہار برادری نے کبیر کے فسلفے کے اصولوں کو بیان کرنے والے بھجن گائے۔ زندگی کی ثمر آوری، اس کا اظہار، اچھے اعمال کی اہمیت اور موت کا یقینی ہونا کبیر کے عالمی نظریہ کی بنیاد ہیں، جسے انہوں نے اپنے دوہے (دو مصرعوں پر مبنی اشعار) اور بھجن کے ذریعے پیش کیا۔ کڈو بائی ایسے سینکڑوں گیت جانتی ہیں جن کا تعلق کبیر، ناتھ اور [بھکتی دور کے] وارکری فرقوں سے ہے۔
کڈو بائی، کبیر کا بھجن ’آگ لگی بڑی بھاری گگن میں‘ گاتی ہیں۔
اور تُکا رام کا ایک ابھنگ بھی گاتی ہیں:
करीन नामाचा या गजर
धन चोरला दिसत नाही
डोळे असून ही शोधत राही
اے وٹھّل، تمہارے نام کی دولت بے شمار ہے
میں تمہارے نام کا ورد کروں گی!
چوروں کی نظر اس پر نہیں پڑے گی
بھلے ہی وہ اس کو تلاش کرتے پھریں
اگرچہ کڈو بائی جیسے بہت سے لوگوں نے اس طرح کے گیت گائے، لیکن بعد میں چل کر ڈاکٹر امبیڈکر کی سماجی انصاف کی تحریک کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے دوسرے گیت گانے لگے۔
پرہلاد سنگھ ٹِپنیا، مدھیہ پردیش کے ایک مشہور و معروف گلوکار ہیں، جنہوں نے اکتاری کی مدد سے کبیر کے بھجن کو الگ الگ جگہوں تک پہنچایا ہے۔ ان کا تعلق بلائی ذات سے ہے۔ اس برادری کی حالت مہاراشٹر کے مہار جیسی ہے۔ بلائی برادری کے لوگ مدھیہ پردیش کے برہان پور، مالوہ اور کھنڈوا علاقے میں، اور مہاراشٹر کی سرحد پر رہتے ہیں۔ جب ڈاکٹر امبیڈکر نے دلتوں کو درپیش ذات پات کے مظالم کو تفصیل سے بیان کیا، تو اس میں انہوں نے بلائی برادری کی مثالیں پیش کیں۔ گاؤں کے ریونیو ریکارڈز کا جائزہ لینے پر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تقریباً سو سال پہلے، گاؤں کے ذریعے مہاروں کو مکینوں کی حفاظت کرنے، زمین کی پیمائش کرنے، اور رشتہ داروں کو کسی کی موت کی خبر پہنچانے کے کام پر تعینات کیا جاتا تھا۔ معاشرہ میں ان کا یہی رول تھا۔ مدھیہ پردیش میں وہی سارے کام بلائی برادری کو تفویض کیے گئے تھے – گاؤں کے چوکیدار کو بلائی کہا جاتا تھا۔ برطانوی دور حکومت میں اس ذات کا نام مہار رکھ دیا گیا۔ یہ تبدیلی کیسے ہوئی؟ برطانوی انتظامیہ نے کھنڈوا اور برہان پور میں مشاہدہ کیا تھا کہ مدھیہ پردیش کے بلائی اور مہاراشٹر کے مہار ایک جیسے ہیں – ان کا طریقہ زندگی، رسم و رواج، سماج طور طریقے اور کام بھی ایک جیسے تھے۔ اور اسی لیے، جن لوگوں کا تعلق مہار ذات سے تھا، مدھیہ پردیش میں انہیں بلائی قرار دے دیا گیا۔ کاغذ پر ان کی ذات، ۴۳-۱۹۴۲ میں ایک بار پھر مہار ہی درج کی گئی۔ بلائی کی یہی کہانی ہے۔
*****
پرہلاد سنگھ ٹِپنیا اور شبنم ویرمانی [جن کا تعلق کبیر پروجیکٹ سے ہے] کبیر کے بھجن گاتے وقت اکتاری بجاتے ہیں۔
اکتاری ساز ملک کے کئی حصوں میں دیکھنے کو ملتا ہے – بھجن گانے والے اور سفر کرنے والے فنکار اسے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ تقریباً ۱۲۰-۱۰۰ سینٹی میٹر لمبی اکتاری کے کئی نام ہیں۔ کرناٹک میں اسے ایکناد کہتے ہیں؛ پنجاب میں تمبی؛ بنگال میں باؤل؛ اور ناگالینڈ میں اسے تاتی کہا جاتا ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں اس کا نام ’بُرّا وینا‘ ہے۔ چھتیس گڑھ کے آدیواسی اپنے رقص و موسیقی میں اکتاری استعمال کرتے ہیں۔
اکتاری میں ایک کھوکھلا، چپٹا اور سوکھا ہوا کدو تونبے کا کام کرتا ہے۔ تونبے کے چھوٹے سے منہ پر کھال کا ایک ٹکڑا منڈھ دیا جاتا ہے۔ ایک کھوکھلا ویلو [بانس کی چھڑی] تونبے کے اندر سے گزارا جاتا ہے۔ اس کے نچلے سرے کو کدو سے باہر نکال کر اس میں ایک تار پھنسا دیا جاتا ہے۔ پھر اس تار کو اوپر رکھی ایک ٹھیکری سے گزار کر ویلو کے دوسرے سرے پر موجود کھونٹی سے کس کر لپیٹ دیا جاتا ہے۔ تار کو شہادت کی انگلی یا بیچ والی انگلی سے کھینچ کر بجایا جاتا ہے۔
اکتاری [ایک تار سے بجنے والا ساز] کا ڈیزائن اور اسے بنانے کا عمل تار والے دوسرے سازوں کے مقابلے بہت آسان ہے۔ کدو، لکڑی، بانس اور تار آسانی سے مل جاتے ہیں۔ کدو کو سب سے عمدہ تونبا (گونج پیدا کرنے والا) مانا جاتا ہے۔ افریقی سازوں میں بھی یہ بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ اکتاری پہلے آواز میں سُر پیدا کرتی ہے، اور تال بھی۔ گلوکار اپنی آواز کو سُر کے ساتھ ملا سکتے ہیں اور گیت کی آواز کو رفتار بھی دے سکتے ہیں۔ یہ ایک قدیم اور دیسی ساز ہے۔ شروع میں، تار بھی چمڑے سے ہی بنایا جاتا تھا، جو جانور کی کھال کے اندرونی حصے سے بنی ہوتی تھی۔ کرناٹک میں یلّما کی پوجا میں ابھی بھی چمڑے کے تاروں والی اکتاری ہی بجائی جاتی ہے جسے جُمبروک کہتے ہیں۔ ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ پہلے موسیقی تب نکلی تھی، جب چمڑے کی ایک تار چمڑے کی ایک ڈسک سے رگڑ کھانے کے بعد گونجی تھی۔ کاشتکار معاشرہ میں دھات کی ایجاد ہونے کے بعد دھات کے تاروں کا استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے بعد پوری دنیا میں ایسے متعدد آلات موسیقی کا ایجاد ہوا جو ایک تار کی مدد سے بجائے جاتے تھے۔ سڑک پر پرفارم کرنے والے موسیقاروں اور خانہ بدوشوں نے بھی ایسے کئی آلات موسیقی کا ایجاد کی جن کا ان کی طرز زندگی سے براہ راست تعلق تھا۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ ہندوستان میں بھکتی تحریک کے دوران سنت شعراء کے ذریعے اکتاری کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا گیا تھا۔ لیکن تاریخی نقطہ نظر سے یہ پوری طرح سچ نہیں ہے۔ کبیر، میرا بائی، اور کچھ صوفی سنتوں کے ذریعے گانے کے وقت اکتاری بجائی جاتی تھی، لیکن مہاراشٹر میں نام دیو سے لے کر تکا رام جیسے بہت سے سنت شاعر تال یا جھانجھ، چِپلی [دھات کے چھلوں کے ساتھ ایک لکڑی کی تالی] اور مردنگ جیسے ساز بجاتے تھے۔ کچھ تصویروں میں سنت وینا بجاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
مراٹھی وشوکوش [لغت] کہتا ہے، ’’وینا ہندوستانی موسیقی کا ایک قدیم ساز ہے جن میں تار بندھے ہوتے ہیں۔ ان کا استعمال ویدوں کے منتر کا ورد کرتے وقت سُروں کی گنتی کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔‘‘ حالانکہ، اسے ہم عموماً نام دیو اور تکا رام کی تصویروں میں ان کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں، لیکن تکا رام کے ذریعے لکھے گئے کسی بھی ابھنگ میں ہمیں اس کا ذکر نہیں ملتا ہے، جب کہ تال، چپلی اور مردنگ جیسے آلات موسیقی کا ذکر ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ وینا کے ساتھ تکا رام کی تصویریں دراصل ایک برہمن وادی نظریہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کی عکاسی کرنے والے فریق کو برہمن وادی نظریات نے ہمیشہ سے موزوں بتانے کا کام کیا ہے۔ دیوی دیوتا، ثقافتی روایات اور زندگی کے دوسرے طور طریقوں کو برہمن وادی روایات کے ذریعے تسلیم کیے جانے کو فطری مانا گیا ہے، اور اس سلسلے میں ان کی بنیادی شکل و صورت اور کردار کا بدل جانا بھی فطری بات ہے۔ انگریزوں کے ذریعے ہندوستان پر قبضہ اور اپنے اختیارات اور پیشواؤں کے زوال کے بعد برہمنوں کے اثر و رسوخ میں تیزی سے کمی آ گئی۔ معاشرہ میں اپنے اس نقصان کی تلافی کے لیے برہمنوں نے ہندوستان کی ثقافت اور روایت میں خالی جگہوں پر اپنے پیر پھیلانے شروع کر دیے۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے بہت سے فنون اور آلات موسیقی، جن پر اب تک محنت کش طبقوں کا قبضہ تھا، کو اپنے ماتحت کر لیا، تاکہ ثقافتی مرکز کے طور پر ان کا استعمال کیا جا سکے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ محنت کش طبقہ نے ان فنون اور آلات موسیقی پر اپنی ملکیت اور واجب پکڑ کھو دی۔ اور، آخرکار انھیں لوگوں نے جنہوں نے ان کی تخلیق کی تھی، ان پر اپنا اختیار کھو دیا، اور فنون و ثقافت سے باہر ہوتے چلے گئے۔
وارکری کے ذریعے استعمال کیا جانے والا مردنگ ایک دراوڑ ساز ہے، جسے جنوبی ہندوستان کے اچھوتوں نے چمڑے کے استعمال سے بنایا تھا۔ دوسری طرف، وینا کی تعمیر شمالی ہند کی بھگوت روایت کے لوگوں کے ذریعے کی گئی تھی۔ یہ ممکن ہے کہ ان فرقوں نے وینا کا تعارف وارکری فرقہ کے لوگوں سے کرایا ہو۔ اکتاری، سمبل، ٹمکی، تُنتُنا اور کِنگری جیسے ساز مظلوم اور محروم برادریوں کے لوگوں کے ذریعے بنائے گئے ہیں، اور وینا، سنتور اور سارنگی جیسی کلاسیکی موسیقی میں بجائے جانے والے فارسی آلات موسیقی شاہراہ ریشم کے ذریعے ہندوستان پہنچے۔ دنیا کے سب سے مشہور وینا بجانے والے پاکستان میں ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی روایت وہاں محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان کے کوئٹہ میں ایسے کئی کاریگر ہیں جو وینا اور سنتور جیسے ساز بناتے ہیں جن کا استعمال برہمن وادی کلاسیکی موسیقی میں کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں کانپور، اجمیر اور میراج میں یہ کام مسلم کاریگروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں چمڑے اور تاروں والے آلات موسیقی عام طور پر محروم و مظلوم برادریوں کے ذریعے بنائے جاتے تھے۔ موسیقی اور فن پر برہمنوں کے روایتی قبضہ کی مخالفت میں یہ کام ان کے ثقافتی متبادل تھے۔ ثقافتی بالادستی قائم کرنے کے لیے برہمنوں نے کلاسیکی موسیقی اور رقص کو اپنا ذریعہ بنایا۔
*****
کڈو بائی کے اکتاری کے ساتھ گائے گئے گیت کافی دلکش ہیں۔ ساز کا ساتھ ان کی گلوکاری کی وضاحت اور گہرائی کو ایک دھار دیتی ہے۔
’’آؤ، یہ کہانی سنو،‘ ولاس گھوگرے، پرہلاد شندے، وشنو شندے اور کڈو بائی کھرات جیسے امبیڈکری شاہیر گلی محلوں اور گھر گھر میں گھوم کر اپنی اکتاری پر یہ گیت گاتے ہیں۔ مسافر گلوکاروں کا یہ ساز، اکتاری بھی فنکاروں کے ساتھ ہمیشہ سفر کرتا رہتا ہے۔
اکتاری ہمیشہ سے اچھوتوں کی موسیقی کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے روحانی ارتقا کا ایک اہم آلہ بھی رہی ہے۔ جس طرح سائنس کی پیش رفت کے ساتھ نئے نئے ساز وجود میں آئے، اسی طرح فوک روایات اور اکتاری جیسے فوک آلات موسیقی کو ہٹانے والے نئے ساز بھی آ گئے۔ ممکن ہے کہ کڈو بائی ہاتھ میں اکتاری لے کر پرفارم کرنے والی آخری فنکار ہوں۔ حالیہ برسوں میں امبیڈکری گلوکاروں کے درمیان برہمن وادی اور جدید آلات موسیقی کا رواج بڑھا ہے، اور لوگ اکتاری کو آہستہ آہستہ چھوڑنے لگے ہیں۔
امبیڈکر سے متعلق نئے گیتوں کو مقبول مراٹھی دھُنوں کی طرز پر گایا جا رہا ہے، مثلاً ’واٹ ماجھی باگھتوئے رکچھا والا‘ [رکشہ والا میرا انتظار کر رہا ہے]۔ ایسا نہیں ہے کہ جدید ساز یا موسیقی میں نئے تجربات کوئی غلط بات ہے، لیکن یہ تجربہ موسیقی کے انداز میں ہونا چاہیے۔ کیا گیت کا پیغام اپنی منزل تک پہنچ رہا ہے؟ کیا لوگ اسے اچھی طرح سمجھ پا رہے ہیں؟ یہ سبھی بنیادی سوال ہیں۔ جدید ساز ہمارے انسانی سماج میں بنے ہیں، اس لیے ان کا استعمال ہماری موسیقی کے ارتقا میں ہونا چاہیے۔ لیکن امبیڈکری گیتوں کو فلمی دھنوں کے موافق ڈھالا جا رہا ہے۔ اب وہ سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اب امبیڈکر کا گہرا فلسفہ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ اپنی مخصوص پہچان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ چونکہ ان کا اثر اب غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے، اس لیے وہ لوگوں تک صحیح طریقے سے انہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ ان گیتوں کے بنیادی فسلفہ کو نہیں سمجھ پانے والے لوگ صرف ان پر رقص ہی کر سکتے ہیں۔ ایسے گیت کسی بھی حالت میں لوگوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔
کڈو بائی کی آواز میں ہزاروں سال کی غلامی کی مخالفت شامل ہوتی ہے۔ وہ عام لوگوں کی گلوکارہ ہیں، جنہوں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے غریبی اور مشکلوں سے ایک لمبی جدوجہد کی ہے۔ ان کے گانے ہمیں ذات اور مذہب کی تفریق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ سماجی جبر، غیر انسانی رویہ اور چھوا چھوت کے غیر انسانی پہلو سے ہمارا تعارف کراتے ہیں۔ اکتاری کے ساتھ وہ اپنی فیملی اور معاشرے کی بیش قیمتی وراثت کو لوگوں تک پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔ اکتاری کے ساتھ گائے گئے ان کے گیت دلوں کو چھوتے ہیں۔
मह्या भिमाने माय सोन्याने भरली ओटी
किंवा
माझ्या भीमाच्या नावाचं
कुंकू लावील रमाने
अशी मधुर, मंजुळ वाणी
माझ्या रमाईची कहाणी
میرے بھیم نے میری
زندگی سونے سے بھر دی
یا
میرے بھیم کے نام پر
رما نے کُم کُم لگایا
ایسی سریلی اور میٹھی
آواز
یہی میری رمائی کی
کہانی ہے
اس گیت کے ذریعے کوئی بھی آدمی امبیڈکر کی زندگی اور فلسفہ کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس کے ذریعے امبیڈکر کے تئیں احسان مندی کا اظہار کیا گیا ہے۔ عام زندگی میں روز مرہ کی جدوجہد اور تکلیفوں کو سمجھنے اور روحانیت کے نقطہ نظر سے بھی یہ ایک اہم گیت ہے۔ کچھ ہی لوگ رہے ہیں جو سسٹم کے خلاف اپنی آواز اٹھاتے ہیں۔ ایک طرف وہ رائج سماجی نظریات کی مخالفت کرتے ہیں، تو دوسری طرف ہماری تاریخ کی یادوں کو بھی زندہ رکھتے ہیں۔ کڈو بائی بھی ان میں سے ایک ہیں۔
یہ اسٹوری سب سے پہلے مراٹھی میں لکھی گئی تھی۔
یہ ملٹی میڈیا اسٹوری، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے تعاون سے انڈیا فاؤنڈیشن فار آرٹس کے ذریعے آرکائیوز اینڈ میوزیم پروگرام کے تحت چلائے جا رہے ایک پروجیکٹ ’انفلوئنشیل شاہیرز، نریٹوز فرام مراٹھواڑہ‘ کا ایک حصہ ہے۔ اس پروجیکٹ کو نئی دہلی واقع گیٹے انسٹی ٹیوٹ (میکس مولر بھون) سے بھی جزوی تعاون حاصل ہوا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز