’’ان کی یہ تصویر دیوار پرنہیں ہوتی،‘‘ شیلا تارے کہتی ہیں۔ ’’اگر ان کا علاج وقت پر ہو جاتا، تو آج وہ ہمارے ساتھ ہوتے۔‘‘
ان کے شوہر اشوک کی تصویر کے نیچے مراٹھی میں لکھا ہے: ’2020/05/30 کو انتقال‘۔
اشوک کا انتقال مغربی ممبئی کے باندرہ کے کے بی بھابھا اسپتال میں ہوا تھا۔ موت کا سبب تھا ’مشکوک‘ کووڈ- ۱۹ انفیکشن۔ وہ ۴۶ سال کے تھے اور برہن ممبئی مہانگر پالیکا (بی ایم سی) میں صفائی ملازم کے طور پر کام کرتے تھے۔
۴۰ سالہ شیلا اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مشرقی ممبئی کے چیمبور میں، جھگی جھونپڑی باز آبادکاری اتھارٹی (ایس آر اے) کی عمارت میں فیملی کے ۲۶۹ مربع فٹ کے کرایے کے فلیٹ میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ان کے بیٹے نکیش اور سوپنِل اور بیٹی منیشا، اپنی ماں کے بولنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
شیلا اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں، ’’۸ سے ۱۰ اپریل کے درمیان، جب بھانڈوپ میں ان کی چوکی کا مقدم [کووڈ- ۱۹] پازیٹو پایا گیا، تو انہوں نے اس چوکی کو بند کر دیا اور تمام ملازمین سے [اسی علاقے میں، شہر کے ایس وارڈ میں] نہور چوکی میں رپورٹ کرنے کو کہا۔ ایک ہفتہ بعد، انہوں نے سانس لینے میں دقت کی شکایت کی۔‘‘
اشوک کچرا اٹھانے والے ٹرک پر ایک ٹیم کے ساتھ کام کرتے تھے۔ یہ ٹیم بھانڈوپ میں مختلف مقامات سے کچرا اٹھاتی تھی۔ وہ کوئی تحفظاتی لباس نہیں پہنتے تھے۔ انہیں ذیابیطس تھا۔ انہوں نے چیف سپروائزر کی توجہ اپنی علامات کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بیماری کے سبب چھٹی دینے اور طبی جانچ کرانے کی ان کی درخواستوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ شیلا اُس دن کو یاد کرتی ہیں، جب وہ اشوک کے ساتھ نہور چوکی گئی تھیں۔
’’میں ان کے ساتھ صاحب سے یہ گزارش کرنے گئی تھی کہ وہ انہیں پانچ دن کی چھٹی دے دیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اشوک نے اپنے ۲۱ دنوں کی پیڈ چھٹی میں سے ایک بھی چھٹی نہیں لی تھی، وہ کہتی ہیں۔ ’’کرسی پر بیٹھے ہوئے صاحب نے کہا کہ اگر سبھی لوگ چھٹی پر چلے جائیں گے، تو ایسی حالت میں کام کون کرے گا؟‘‘
اس لیے اشوک اپریل اور مئی میں بھی کام کرتے رہے۔ ان کے ساتھی سچن بانکر (ان کی درخواست پر نام بدل دیا گیا ہے) بتاتے ہیں کہ وہ دیکھ سکتے تھے کہ اشوک کو کام کرنے میں پریشانی ہو رہی ہے۔
’’وہ جلدی تھک جاتے تھے اور انہیں سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔ لیکن صاحب اگر ہماری بات نہیں مانتے، تو ہم کیا کر سکتے تھے؟‘‘ سچن نے مجھے فون پر بتایا۔ ’’کووڈ- ۱۹ کے لیے ہماری چوکی کے کسی بھی ملازم کا، چاہے وہ مستقل ہو یا ٹھیکہ پر، ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا۔ مقدم کے پازیٹو آنے کے بعد کسی نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ انہیں کوئی علامت تو نہیں ہے۔ ہمیں بس دوسری چوکی پر رپورٹ کرنے کے لیے کہہ دیا گیا۔‘‘ (سچن اور دیگر ملازمین کی مدد سے، مقدم کی صحت کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی اس رپورٹر کی کوشش ناکام رہی۔)
جولائی کے آخری ہفتہ میں جاکر، سچن اور ان کے دیگر ساتھیوں کا کووڈ- ۱۹ کے لیے ٹیسٹ ان کے کام کے علاقہ میں بی ایم سی کے ذریعے لگائے گئے کیمپ میں کیا گیا۔ ’’مجھے کوئی علامت یا مرض نہیں ہے۔ لیکن مارچ- اپریل میں بھی ہمارا ٹیسٹ کیا جانا چاہیے تھا، جب حالت سنگین تھی،‘‘ سچن کہتے ہیں۔
بی ایم سی کے ایک ہلیتھ آفیسر نے اس رپورٹر کو بتایا کہ ایس وارڈ میں ۵ اپریل تک کووڈ کے ۱۲ پازیٹو معاملے درج کیے گئے تھے۔ ۲۲ اپریل تک، یہ تعداد بڑھ کر ۱۰۳ ہو گئی تھی۔ یکم جون کو، یعنی اشوک کے انتقال کے ایک دن بعد، وارڈ میں کووڈ کے ۱۷۰۵ معاملے تھے، اور ۱۶ جون تک یہ تعداد بڑھ کر ۳۱۶۶ ہو گئی تھی۔
بڑھتے معاملوں کا مطلب ممبئی کے سبھی وارڈوں میں کووڈ سے متعلق کچرے کا بھی بڑھنا تھا۔ بی ایم سی کے ٹھوس فضلہ کے بندوبست کے محکمہ کے اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ ۱۹ مارچ سے ۳۱ مارچ کے درمیان ممبئی میں ۶۴۱۴ کلو کووڈ- ۱۹ کچرا پیدا ہوا تھا۔ اپریل میں، شہر کا کووڈ- ۱۹ کچرا (الگ الگ علاقوں سے) ۱۲۰ ٹن سے زیادہ، ۱۱۲۵۲۵ کلوگرام تھا۔ مئی کے آخر میں، جب اشوک کا انتقال ہوا، یہ مقدار اس مہینہ میں تقریباً ۲۵۰ ٹن ہو چکی تھی۔
اس کچرے کو اٹھانا – کوئی ضروری نہیں کہ اسے الگ کیا گیا ہو، بلکہ وہ اکثر پوری ممبئی میں پیدا ہونے والے کئی ٹن دیگر کچرے کے ساتھ ملے ہوتے تھے – شہر کے صافی ملازمین کی ذمہ داری ہے۔ ’’روزانہ، ہمیں کچرا جمع کیے جانے والے مقامات پر بہت سارے ماسک، دستانے، ٹشیو پیپر ملتے ہیں،‘‘ سچن کہتے ہیں۔
بہت سارے صفائی ملازمین کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ان کی صحت کی مسلسل جانچ اور صحت کی مستقل نگرانی کے لیے باقاعدہ اسپتال ہونا چاہیے۔ (دیکھیں ضروری خدمات، غیر ضروری انسان )۔ لیکن بی ایم سی کے صفائی ملازمین کو – ۲۹ ہزار مستقل اور اور ۶۵۰۰ ٹھیکہ پر تعینات – جنہیں کچھ دستاویزوں میں ’’کووڈ جانباز‘‘ کہا گیا ہے – تحفظاتی آلات اور طبی سہولیات کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
’’ہمارے مطالبات کبھی پورے نہیں ہوئے۔ تمام احتیاطیں اور دیکھ بھال امیتابھ بچن جیسے خاندانوں کے لیے ہیں۔ انہیں میڈیا اور سرکار کی طرف سے اتنا دھیان دیا جاتا ہے۔ ہم کون ہیں؟ صرف صفائی ملازم،‘‘ ۴۵ سالہ دادا راؤ پاٹیکر کہتے ہیں، جو ایم ویسٹ وارڈ میں بی ایم سی کے کچرا اٹھانے والے ٹرک پر کام کرتے ہیں۔
’’مارچ- اپریل میں ہمیں کوئی ماسک، دستانے یا سینیٹائزر نہیں ملے،‘‘ سچن کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صفائی ملازمین کو این- ۹۵ ماسک ان کی چوکی میں صرف مئی کے آخری ہفتہ میں دیے گئے۔ ’’وہ بھی، سبھی کو نہیں۔ کل ۵۵ میں سے [ایس وارڈ کی نہور چوکی میں]، صرف ۲۰-۲۵ کو ہی ماسک، دستانے اور ۵۰ ملی لیٹر کی سینیٹائزر کی ایک بوتل ملی تھی، جو ۴-۵ دنوں میں ختم ہوجاتی ہے۔ مجھ سمیت بقیہ ملازمین کو جون میں ماسک ملا۔ ہم ماسک کو دھوکر اسے دوبارہ استعمال کرتے ہیں۔ جب ماسک اور دستانے گھِس جاتے ہیں، تو ہمارے سپروائزر نئے اسٹاک کے لیے ہم سے ۲-۳ ہفتے تک انتظار کرنے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘
’’صرف یہ رَٹنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے کہ ’صفائی ملازم کووڈ جانباز ہیں‘۔ [ان کے لیے] تحفظ اور دیکھ بھال کہاں ہے؟‘‘ شیلا غصے سے کہتی ہیں۔ ’’وہ دستانے اور این- ۹۵ ماسک کے بغیر کام کر رہے تھے۔ اور کسے پرواہ ہے کہ صفائی ملازم کی فیملی ان کی موت کے بعد کیسے زندہ رہے گی؟‘‘ تارے خاندان کا تعلق نو بودھ کمیونٹی سے ہے۔
مئی کے آخری ہفتہ میں، اشوک کی حالت کافی خراب ہو گئی تھی۔ ’’تب، پاپا کو بخار تھا۔ ۲-۳ دنوں کے وقفہ میں، ہم سبھی کو بخار ہو گیا۔ مقامی [پرائیویٹ] ڈاکٹر نے کہا کہ یہ عام بخار ہے۔ ہم لوگ دوا سے ٹھیک ہو گئے، لیکن پاپا ٹھیک نہیں ہوئے،‘‘ ۲۰ سالہ منیشا کہتی ہیں، جو گھاٹ کوپر مشرق کے ایک کالج میں بی کام سائم دوئم میں پڑھ رہی ہیں۔ فیملی کو لگا کہ یہ کووڈ ہو سکتا ہے، لیکن ڈاکٹر کے ریفرل کے بغیر (جو اس وقت لازمی تھا) اشوک کا ٹیسٹ کسی سرکاری اسپتال میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔
۲۸ مئی کو، بخار کم ہو گیا تھا، اور صبح ۶ بجے سے دوپہر ۲ بجے تک کی شفٹ میں کام کرنے کے بعد تھکے ہوئے اشوک گھر لوٹ آئے، کھانا کھایا اور سو گئے۔ جب وہ رات کو ۹ بجے اٹھے، تو انہیں قے ہونے لگا۔ ’’انہیں بخار تھا اور چکّر آ رہا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کر دیا اور سو گئے،‘‘ شیلا کہتی ہیں۔
اگلی صبح، ۲۹ مئی کو، شیلا، نکیش، منشیا اور سوپنل نے انہیں اسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔ صبح ۱۰ بجے سے دوپہر ۱ بجے تک، انہوں نے اپنے گھر کے قریب واقع مختلف اسپتالوں کا دورہ کیا۔ ’’ہم نے دو رکشے لیے۔ پاپا اور آئی ایک میں تھے، اور ہم تینوں دوسرے میں،‘‘ ۱۸ سالہ سوپنل کہتے ہیں، جو چیمبور کے ایک کالج میں بی ایس سی کی پڑھائی کر رہے ہیں۔
’’ہر اسپتال یہی کہہ رہا تھا کہ اس کے یہاں کوئی بستر خالی نہیں ہے،‘‘ ۲۱ سالہ نکیش بتاتے ہیں، جنہوں نے دو سال پہلے اپنا بی ایس سی پورا کیا اور اب نوکری تلاش کر رہے ہیں۔ ’’ہم راجاواڑی اسپتال، جوائے اسپتال اور کے جے سومیا اسپتال گئے۔ کے جے سومیا اسپتال میں تو پاپا نے ڈاکٹر سے یہ بھی کہا کہ اگر ضروری ہوا تو وہ فرش پر ہی سو جائیں گے، اور ان سے درخواست کی کہ انہیں علاج فراہم کیا جائے۔‘‘ اشوک نے ہر اسپتال میں اپنا بی ایم سی ملازم کا شناختی کارڈ بھی دکھایا – لیکن اس سے بھی کوئی مدد نہیں ملی۔
آخر میں، باندرہ کے بھابھا اسپتال میں، ڈاکٹروں نے اشوک کی جانچ کی اور ان کے لعاب لیے۔ ’’پھر وہ انہیں کووڈ- ۱۹ آئیسولیشن وارڈ میں لے گئے،‘‘ سوپنل بتاتے ہیں۔
جب منیشا اشوک کے کپڑے، ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ اور صابن کا ایک تھیلا سونپنے کے لیے اس کمرے میں گئیں، تو وہ یاد کرتی ہیں، ’’راستے میں پیشاب کی تیز بدبو آ رہی تھی، کھانے کے پلیٹ فرش پر پڑے ہوئے تھے۔ کمرے کے باہر کوئی اسٹاف نہیں تھا۔ میں نے اندر جھانکتے ہوئے اپنے والد کو آواز لگائی کہ وہ اپنا تھیلا لے جائیں۔ انہوں نے اپنا آکسیجن ماسک ہٹایا، دروازے پر آئے اور مجھ سے تھیلا لیا۔‘‘
ڈاکٹروں نے تارے فیملی سے یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے جانے کو کہا کہ اشوک ان کی نگرانی میں ہیں اور ان کی جانچ کے نتائج کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اُس رات، شیلا نے اپنے شوہر سے رات میں ۱۰ بجے فون پر بات کی۔ ’’مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میں ان کی آواز آخری بار سن رہی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب اچھا محسوس کر رہے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اگلی صبح، ۳۰ مئی کو، شیلا اور منیشا دوبارہ اسپتال گئیں۔ ’’ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ کل رات ۱:۱۵ بجے آپ کے مریض کا انتقال ہو گیا تھا،‘‘ شیلا کہتی ہیں۔ ’’لیکن میں نے ان سے آخری رات ہی بات کی تھی...‘‘
صدمہ اور غم میں مبتلا تارے فیملی، اس وقت اشوک کی موت کی وجہ کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کر سکی۔ ’’ہم اپنے ہوش میں نہیں تھے۔ لاش کو قبضے میں لینے کے لیے سبھی کاغذی کارروائی پوری کرنا، ایمبولینس اور پیسے کا انتظام کرنا، ماں کو دلاسہ دینا – ان سب کی وجہ سے ہم ڈاکٹر سے پاپا کی موت کے بارے میں پوچھ نہیں سکے،‘‘ نکیش کہتے ہیں۔
اشوک کی آخری رسومات ادا کرنے کے دو دن بعد، تارے فیملی کے ممبران پھر سے بھابھا اسپتال گئے اور موت کی وجہ تحریری طور پر بتانے کے لیے کہا۔ ’’جون میں ۱۵ دنوں تک، ہم اسپتال کے صرف چکّر پر چکّر ہی لگا رہے تھے۔ ڈاکٹر کہتے کہ رپورٹ فیصلہ کن نہیں ہے، اشوک کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کو خود پڑھیں،‘‘ اشوک کے بھتیجے، ۲۲ سالہ وسنت ماگرے کہتے ہیں۔
۲۴ جون کو، جب مولنڈ کے ٹی وارڈ (جہاں اشوک ایک ملازم کے طور پر رجسٹرڈ تھے) کے بی ایم سی اہلکاروں نے اسپتال کو ایک خط لکھ کر موت کی وجہ پوچھی، تب جاکر اسپتال انتظامیہ نے تحریری طور پر بتایا: سبب ’مشکوک کووڈ- ۱۹‘ تھا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اسپتال میں داخل ہونے کے بعد اشوک کی طبیعت بگڑنے لگی تھی۔ ’’۳۰ مئی کو، شام ۸:۱۱ بجے، کاسمو پولس لیباریٹری نے ہمیں ای- میل کرکے بتایا کہ گلے کا لعاب ناکافی ہے۔ اور ہمیں دوبارہ جانچ کے لیے مریض کا لعاب بھیجنے کے لیے کہا۔ لیکن چونکہ مریض کی موت پہلے ہی ہو چکی تھی، اس لیے لعاب دوبارہ بھیجنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے، موت کی وجہ کا اعلان کرتے ہوئے، ہم نے اسے ’مشکوک کووڈ- ۱۹‘ ہونے کی بات کہی۔‘‘
اس رپورٹر نے بھابھا اسپتال میں اشوک کا علاج کرنے والے ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کی کئی بار کوشش کی، لیکن انہوں نے کال اور میسیج کا جواب نہیں دیا۔
اشوک جیسے ’کووڈ- ۱۹ جانبازوں‘ کے کنبوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے، حکومت مہاراشٹر نے صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ۲۹ مئی ۲۰۲۰ کو ایک تجویز پاس کی، جس میں کہا گیا تھا کہ ’کووڈ- ۱۹ وبائی امراض کے سروے، ٹریسنگ، ٹریکنگ، ٹیسٹنگ، روک تھام، علاج اور راحت سرگرمیوں سے متعلق سرگرم ڈیوٹی پر لگائے گئے سبھی ملازمین کو ۵۰ لاکھ روپے کا حادثاتی بیمہ فراہم کیا جائے‘۔
۸ جون ۲۰۲۰ کو بی ایم سی نے اس تجویز کو نافذ کرنے کے لیے ایک سرکولر جاری کیا۔ سرکولر میں اعلان کیا گیا کہ ’’کوئی بھی ٹھیکہ پر کام کرنے والا مزدور/آؤٹ سورس کیا گیا ملازم/یومیہ مزدور/اعزازی کارکن، جو کووڈ- ۱۹ سے متعلق فرائض انجام دیتے ہوئے، کووڈ- ۱۹ کے سبب مرتا ہے‘‘ تو اس کی فیملی کچھ شرطوں کے تحت ۵۰ لاکھ روپے پانے کی حقدار ہے۔
شرطوں میں شامل ہے کہ وہ ملازم اسپتال میں داخل ہونے کے وقت یا موت سے پہلے ۱۴ دنوں تک ڈیوٹی پر ہونا چاہیے – جیسا کہ اشوک تھے۔ سرکولر میں آگے کہا گیا ہے کہ اگر کووڈ- ۱۹ کا ٹیسٹ یا تشخیص مناسب طریقے سے نہیں کی گئی ہے، تو معاملے کی تاریخ اور طبی کاغذات کی جانچ کرنے کے لیے بی ایم سی اہلکاروں کی ایک کمیٹی بنائی جائے گی، تاکہ کووڈ- ۱۹ کے سبب موت کے امکان کا تجزیہ کیا جا سکے۔
بی ایم سی کے ٹھوس فضلہ کے بندوبست کے محکمہ کے لیبر آفیسر کے ذریعے دستیاب کرائے گئے اعدادوشمار کے مطابق، ۳۱ اگست تک کل ۲۹ ہزار مستقل ملازمین میں سے ۲۱۰ پازیٹو پائے گئے اور ۳۷ کی موت ہو گئی، جب کہ ۱۶۶ نے ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ ڈیوٹی شروع کر دی تھی۔ افسر نے بتایا کہ وائرس سے متاثر ٹھیکہ پر کام کرنے والے ملازمین کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
اپنی جان گنوانے والے ۳۷ صفائی ملازمین میں سے ۱۴ کے کنبوں نے ۵۰ لاکھ روپے کے لیے دعویٰ دائر کیا ہے۔ ۳۱ اگست تک، ۲ کنبوں نے بیمہ کی رقم حاصل کی تھی۔
اشوک کی موت کی وجہ کے بارے میں تحریری دستاویز حاصل کرنے کے بعد، تارے فیملی نے ۵۰ لاکھ روپے کا بیمہ کور پانے کے لیے اپنا دعویٰ دائر کرنے کے لیے بی ایم سی کے ٹی وارڈ دفتر کے چکّر لگانے شروع کر دیے۔ نوٹری کی فیس، فوٹوکاپی، آٹورکشہ کا کرایہ اور دیگر اخراجات میں اب تک ۸ ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
بینک میں اشوک کے تنخواہ والے کھاتہ کا استعمال کرنے میں ناکام، شیلا کہتی ہیں کہ انہیں آدھا تولہ سونے کی ایک بالی ۹ ہزار روپے میں گروی رکھنی پڑی۔ ’’ہر بار، افسر نوٹری کیے جانے کے بعد، کاغذ میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کرنے کے لیے کہتے تھے۔ اگر ۵۰ لاکھ روپے نہیں، تو بی ایم سی کو میرے بڑے بیٹے کو اپنے والد کے مقام پر ضابطہ کے مطابق نوکری دینی چاہیے،‘‘ وہ مجھے ساری فائلیں اور کاغذی کارروائی دکھاتے ہوئے کہتی ہیں۔
اس رپورٹر نے جب ۲۷ اگست کو ٹی وارڈ کے اسسٹنٹ کمشنر کے آفس سے بات کی، تو ان کا جواب یہ تھا: ’’ہاں، وہ ہمارے ملازم تھے اور ہم نے ان کی فائل کو دعوے کے لیے پروسیس کر دیا ہے۔ بی ایم سی کے اہلکاروں کی جانچ کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ ابھی زیر غور ہے، بی ایم سی اب بھی اس پر کام کر رہا ہے۔‘‘
اشوک کی آمدنی سے ہی ان کی فیملی کا خرچ چل رہا تھا۔ جون سے، شیلا نے پڑوس کی عمارتوں کے دو گھروں میں کھانا بنانے کا کام شروع کر دیا ہے، جہاں سے انہیں مشکل سے کل ۴ ہزار روپے ملتے ہیں۔ ’’اب گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے کبھی کام نہیں کیا، لیکن اب مجھے کرنا پڑے گا۔ میرے دو بچے اب بھی زیر تعلیم ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کے بڑے بھائی، ۴۸ سالہ بھگوان ماگرے، جو نوی ممبئی میونسپل کارپوریشن میں ٹھیکہ پر کام کرنے والے صفائی ملازم ہیں، نے کمرے کا ۱۲ ہزار روپے کا بقایا ماہانہ کرایہ ادا کرنے میں ان کی مدد کی ہے۔
اشوک ۲۰۱۶ میں جاکر ’مستقل‘ صفائی ملازم بننے اور ۳۴ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے میں کامیاب ہوئے، اس سے پہلے وہ ٹھیکہ پر کام کرتے تھے اور ۱۰ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پاتے تھے۔ ’’جب انہوں نے اچھی کمائی شروع کی، تو ہم مولنڈ کی جھگی سے ایس آر اے کی اس عمارت میں منتقل ہو گئے۔ ہم دھیرے دھیرے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے تھے،‘‘ شیلا کہتی ہیں۔
اشوک کے انتقال کے ساتھ، تارے فیملی کی ترقی رک گئی۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ سرکار ہماری بات سنے۔ انہیں چھٹی سے کیوں محروم رکھا گیا؟ ان کا اور دیگر ملازمین کا ٹیسٹ فوراً کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘ شیلا پوچھتی ہیں۔ ’’اسپتالوں میں داخل ہونے کے لیے انہیں گڑگڑانا کیوں پڑا؟ ان کی موت کے لیے اصل میں ذمہ دار کون ہے؟‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز