قہقہے سن کر ہم ان کی جانب متوجہ ہوئے۔ کچھ لڑکیاں رسی کود رہی ہیں، لڑکوں کا ایک گروپ کرکٹ کھیلنے میں مست ہے، کچھ بچے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں اور کچھ اکیلے کنارے کھڑے ہیں، جہاں سے وہ اپنے کلاس کے ساتھیوں کو بڑے میدان میں کھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
پُنے کے دونڈ تعلقہ میں دن بھر پاری کے لیے چکی کے گانوں کے پروجیکٹ کی شوٹنگ اور ریکارڈنگ کرنے کے بعد جب ہم اپنا سامان سمیٹ رہے تھے، تبھی مالتھن گاؤں کی ایک چھوٹی سی بستی، ییولیوستی میں بنے ضلع پریشد پرائمری اسکول کے بچوں کے قہقہے نے ہمیں اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
یہاں کرکٹ کا کھیل چل رہا ہے، جسے پورے جوش و جذبہ کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ ایک کنارے جو لڑکا بلے بازی کر رہا ہے، وہ کیمرے سے لیس، ہمیں اپنی جانب آتے ہوئے دیکھتا ہے، لیکن فوراً اپنی نظریں بالر کی طرف گھما کر گیند کو زور سے مارتا ہے۔ فیلڈرس اس گیند کو پکڑنے کے لیے دوڑنے لگتے ہیں۔
چند لڑکیاں ہمارے ارد گرد جمع ہو جاتی ہیں۔ گانا سنانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنی پڑی، حالانکہ شروع میں وہ تھوڑا شرماتی ہیں۔ گاتے وقت وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتی ہیں، اس بات کو پختہ کرنے کے لیے کہ گانا صحیح گا رہی ہیں یا نہیں۔ پاری ٹیم سے جتیندر میڈ ان بچوں کو ایک کھیل سکھاتے ہیں جس میں گانا اور ناچنا ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ لڑکیاں ایک دائرہ بنا لیتی ہیں اور جتیندر کے ذریعے بولی جانے والی ہر لائن اور دکھائی گئی ہر حرکت کو دوہراتی ہیں۔
’’پڑھائی کے جب سارے پیریڈ ختم ہو جاتے ہیں، تو ہم انھیں ایک گھنٹہ تک کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں،‘‘ ان کی ٹیچر، سُنندا جگدالے بتاتی ہیں۔ اسکول کے پرنسپل، سندیپ رسال، ہمیں آفس اور کلاس روم دکھاتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس ایک کمپیوٹر بھی ہے، ہم اسکول کی عمارت کی مرمت کرانے کے ساتھ ہی اس کی دوبارہ پُتائی بھی کرا رہے ہیں، اگر آپ سے ہو سکے تو ہماری کچھ مدد کیجیے،‘‘ وہ کہتے ہیں اور اس سے ملحق ایک سائبان میں ہمیں لے جاتے ہیں۔ اسے وہ اپنا ’ماڈرن‘ کچن بتا رہے ہیں – یہ پوری طرح صاف ستھرا ہے، اناج صفائی سے ٹن کے ڈبوں میں رکھے ہوئے ہیں، بوریے میں نہیں – جہاں وہ مڈ ڈے میل پکاتے ہیں۔
اس اسکول میں 43 بچے ہیں – 21 لڑکیاں اور 22 لڑکے، جن کی عمر 6 سال سے لے کر 10 سال تک ہے۔ پہلی سے لے کر چوتھی کلاس تک، ہر ایک جماعت میں تقریباً 10 بچے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مالتھن کے ہیں، کچھ ہی بچے پڑوس کے گاؤں، مُگاؤں سے ہیں۔ ’’مالتھن میں ایک ہائی اسکول ہے، جہاں دسویں کلاس تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ اس پرائمری اسکول سے پاس ہونے کے بعد ان میں سے زیادہ تر طالب علم وہیں جائیں گے،‘‘ رسال ہمیں بتاتے ہیں۔
ایک نئے کلاس روم کی تعمیر ہو رہی ہے – یہاں چیزیں بے ترتیبی سے رکھی ہوئی ہیں، پینٹ کے ڈبے زمین پر بکھرے ہوئے ہیں۔ دور کونے میں، ایک بچہ پرانی ساڑی سے بنے جھولن کھٹولے میں سو رہا ہے۔ ’’یہ میری چھوٹی بیٹی ہے۔ میری بڑی بیٹی بھی اسی اسکول میں پڑھتی ہے،‘‘ سنندا بتاتی ہیں۔ پرنسپل اور ٹیچر شادی شدہ ہیں؛ وہ ایک ساتھ مل کر اس اسکول کو فخریہ انداز میں چلا رہے ہیں، جسے مزید بہتر بنانے کی انھیں امید ہے۔ یہاں پڑھانے والے اسٹاف یہی دونوں میاں بیوی ہیں۔ یہ دونڈ ٹاؤن میں رہتے ہیں، جو یہاں سے تقریباً 65 کلومیٹر دور ہے، جہاں سے یہ اپنی کار سے روزانہ اسکول آتے ہیں۔
دریں اثنا، یہ چھوٹے کرکٹر اس بات کو لے کر آپس میں لڑ رہے ہیں کہ اگلی بلے بازی کون کرے گا۔ تبھی ان میں سے ایک، دوسرے سے کہتا ہے کہ کچھ لوگ باہر سے آئے ہوئے ہیں جو انھیں دیکھ رہے ہیں، اس لیے جھگڑنا بند کرو۔ اتنا کہتے ہی لڑائی بند ہو جاتی ہے، ورنہ ان کے درمیان ہاتھا پائی بس شروع ہونے ہی والی تھی۔
تقریباً 3 بجے کھیل کا وقت جیسے ہی ختم ہوتا ہے، ٹیچر بچوں کو آواز لگاتے ہیں کہ وہ فرنیچر کو ترتیب سے لگائیں، کلاس روم سے اپنے بیگ اور پانی کی بوتلیں ہٹائیں، اور کودنے والی رسیوں، بَلّوں اور گیندوں کو واپس ان کی جگہ لے جا کر رکھ دیں۔ ہر کوئی کام میں لگ جاتا ہے۔ لڑکیاں اور لڑکے بغیر کوئی شور کیے اس پورے کام کو انجام دیتے ہیں اور پھر میدان میں جمع ہو جاتے ہیں، جہاں وہ صفائی سے قطار میں کھڑے ہیں۔ اس کے بعد، وہ پوری متانت سے، وندے ماترم گاتے ہیں – یہ ان کے روزانہ کے معمول کا ایک حصہ ہے۔
اخیر میں سب کو ایک ساتھ ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ لگانا تھا، لیکن کسی نے پہلے تو کسی نے بعد میں لگایا اور اس طرح سب کچھ چوپٹ ہو گیا، اس کی وجہ سے ٹیچر کو کافی غصہ آیا۔ جگدالے ان بچوں سے کہتے ہیں کہ وہ اسے ٹھیک سے دوہرائیں اور پھر ایک سینئر اسٹوڈنٹ کو آگے آکر قیادت کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ دوسری کوشش کامیاب رہتی ہے، جس کے بعد اسمبلی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن پھر، سب پرنسپل کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں ایک سنجیدہ سوال کے ساتھ: ’’سر، آج کا ہمارا ہوم ورک کیا ہے؟‘‘
’’ہم نے آج گنتی سیکھی ہے۔ سارے نمبر کو 100 تک یا 500 تک لکھیے، آپ نے جس لیول تک سیکھا ہے اسی حساب سے،‘‘ رسال جواب دیتے ہیں۔ یہ نمبر طالب علموں کی مختلف سطحوں کے کام کو ظاہر کرتے ہیں – تمام عمر کے بچوں کی سبھی کلاسیں ایک ہی کمرے کے اندر ہوتی ہیں۔
’’سر، ہم نے یہ نمبر 1 لاکھ تک سیکھا ہے، تو کیا ہم اسے 1 لاکھ تک لکھ کر لائیں؟‘‘ یہ سوال ایک بڑے طالب علم کی طرف سے آتا ہے، جو ظاہر ہے، چوتھی کلاس میں ہے۔
والدین آئے ہوئے ہیں، اس لیے کچھ بچے ان کے ساتھ چلے جاتے ہیں، سائیکل، اسکوٹر یا موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر۔ دوسرے بچے وہیں زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور انتظار کرنے لگتے ہیں کہ انھیں لینے کوئی آئے گا۔ ہم انھیں الوداع کہتے ہیں، اور بچوں سے ملی اس دن کی خوشی کو اپنے ساتھ سنجوئے وہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)