’’کاش کہ اسکول میں دو بار کھانا ملتا۔‘‘
سات سال کے بسَو راجو، تلنگانہ کے سیری لنگم پلّی منڈل میں واقع منڈل پریشد پرائمری اسکول میں پڑھتے ہیں۔ رنگا ریڈی ضلع کا یہ اسکول ملک بھر کے ان ۲ء۱۱ لاکھ اسکولوں میں سے ایک ہے جہاں بچوں کو دوپہر میں گرما گرم کھانا ملتا ہے۔ بسو راجو کے ہی اسکول میں پڑھنے والی ۱۰ سالہ امبیکا اسکول کے لیے روانہ ہونے سے پہلے صرف ایک گلاس گنجی (پکے ہوئے چاول کا پانی) پیتی ہیں؛ ایسے بچوں کے لیے مڈ ڈے میل دن کا پہلا کھانا ہوتا ہے۔
ہندوستان کی مڈ ڈے میل (دوپہر کا کھانا) اسکیم کے تحت سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں، اور سرو شکشا ابھیان کے تحت چلائے جا رہے سرکاری تعلیمی مراکز میں پڑھنے والے پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت کے تقریباً ۱۱۸ ملین (یعنی ۱۱ کروڑ ۸۰ لاکھ) طلباء کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ ریاضی کے سوال حل کرنا اور حروف کے ساتھ کھیلنا آسان ہوتا ہے، لیکن اسکول میں دوپہر کا کھانا فراہم کرنے کا بنیادی مقصد بچوں کو اسکول تک لانا رہا ہے۔ (مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کم از کم ۱۵ کروڑ بچے اور نوجوان باضابطہ تعلیم سے محروم ہیں۔)
جب ہم راجستھان کے بھیلواڑہ ضلع کے جودھ گڑھ گاؤں میں واقع راجکیہ پراتھمک ودیالیہ پہنچے، تو ہماری ملاقات ۱۰ سال کے دکش بھٹ سے ہوئی۔ اسکول آنے سے پہلے دکش نے کھانے کے نام پر صرف کچھ بسکٹ کھائے تھے۔ یہاں سے ہزاروں کلومیٹر دور واقع آسام کے نلباڑی ضلع کی الیشہ بیگم ہمیں بتاتی ہیں کہ انہوں نے اسکول (نمبر ۸۵۸ نزکھگٹا ایل پی اسکول) جانے سے پہلے صرف ایک روٹی کھائی تھی اور ساتھ میں کالی چائے پی تھی۔ ان کے والد ایک پھیری والے ہیں اور ماں خاتون خانہ ہیں۔
غریب اور پس ماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں، جنہیں مقوی غذا نہیں مل پاتی ہے، کی صحت کے لیے اسکول میں دیاجانے والا کھانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے بچوں کو ۴۸۰ کیلوری اور ۱۲ گرام پروٹین، اور اپر پرائمری اسکول میں ۶ سے ۸ویں کلاس تک کے بچوں کو ۷۲۰ کیلوری اور ۲۰ گرام پروٹین والا کھانا دیا جاتا ہے۔
بنگلورو شہر کے پٹّنگیرے علاقے میں واقع نمّورہ گورنمنٹ لوور پرائمری اسکول کے پرنسپل این سگنا کہتے ہیں، ’’دو چار کو چھوڑ کر، سبھی بچے اسکول میں ملنے والا کھانا ہی کھاتے ہیں۔‘‘ یہ شمالی کرناٹک کے یادگیر (جسے یادگیری بھی کہا جاتا ہے) ضلع سے آنے والے مہاجر مزدوروں کے بچے ہیں، جو بنگلورو کے تعمیراتی مقامات پر کام کرتے ہیں۔
سال ۲۰۲۱ میں مڈ ڈے میل اسکیم کا نام بدل کر ’پردھان منتری پوشن شکتی نرمان‘ یا ’ پی ایم پوشن ‘ کر دیا گیا تھا۔ اس کا مقصد ’’اندراج میں اضافہ کرنا، بچوں کو اسکول چھوڑنے سے روکنا، اور حاضری کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی غذائیت کی سطح کو بہتر کرنا ہے۔‘‘ سال ۱۹۹۵ سے یہ مرکزی حکومت کے ذریعے امداد یافتہ قومی اسکیم رہی ہے، جسے ہندوستان کی ہر ریاست اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں نافذ کیا گیا ہے۔ چھتیس گڑھ کے رائے پور ضلع کے مٹیا گاؤں میں واقع سرکاری پرائمری اسکول کی پرنسپل پونم جادھو اپنے اسکول کے ۸۰ سے زیادہ بچوں کو دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے دیکھ کر مسکراتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کچھ ہی والدین اپنے بچوں کے دوپہر کے کھانے کا خرچ اٹھا سکتے ہیں۔ مڈ ڈے میل اسکیم کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ بچے ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں، جس میں بچوں کو سب سے زیادہ مزہ آتا ہے۔‘‘
وزارت تعلیم کی ۲۰۱۵ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسکولوں میں کھانا پکانے کے لیے الگ الگ قسم کے اناج، دالوں اور سبزیوں کے ساتھ تیل یا چربی، نمک اور مسالوں کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن کئی ریاستوں نے کھانے کی فہرست میں اپنے ذائقہ کے مطابق تبدیلی کی ہے، جس کے تحت غذائیت کو بڑھانے والی اشیاء الگ سے شامل کی جاتی ہیں۔ جھارکھنڈ، تمل ناڈو اور کیرالہ نے اپنے اسکولی کھانے میں انڈے اور کیلے شامل کیے ہیں، جب کہ کرناٹک میں ایک گلاس دودھ (اور اس سال سے انڈا) بھی دیا جاتا ہے۔ چھتیس گڑھ، آسام اور اروناچل پردیش میں کچن گارڈن (زمین کا وہ ٹکڑا جس پر اپنے استعمال کے لیے پھل یا سبزیاں اگائی جاتی ہیں) میں ان سبزیوں کو اگانے پر زور دیا جاتا ہے جنہیں بچوں کے کھانے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ گوا میں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ کھانا سپلائی کرتے ہیں، جب کہ منی پور اور اتراکھنڈ میں والدین کو مدد کے لیے آگے آنے کو کہا جا رہا ہے۔ گجرات اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں مقامی برادریوں کے لوگ کھانے میں مقوی غذا شامل کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر غذائی اشیاء فراہم کرتے ہیں۔
چھتیس گڑھ کے فُٹہاموڈا گاؤں کے سرکاری پرائمری اسکول میں پڑھنے والے سبھی ۱۰ طلباء کمار برادری کے ہیں، جو ریاست میں پی وی ٹی جی (خصوصی طور پر کمزور آدیواسی گروپ) کے طور پر درج فہرست ہیں۔ دھمتری ضلع کے نگری بلاک میں واقع اس چھوٹے سے اسکول کی واحد ٹیچر انچارج، روبینہ علی کہتی ہیں، ’’کَمار برادری کے لوگ روزانہ جنگلی پیداوار اور ایندھن کی لکڑی جمع کرنے کے لیے جنگل جاتے ہیں۔ انہیں بھروسہ دلایا گیا ہے کہ ان کے بچوں کو اسکول میں کھانا بھی ملے گا اور پڑھائی بھی ہوگی۔‘‘
تمل ناڈو کے ایروڈ ضلع کے جنگلاتی علاقہ، ستیہ منگلم کے گوبی چیٹّی پلیَم تعلقہ کے تلئی ملائی گاؤں میں سرکار کے ذریعے چلائے جا رہے ایک آدیواسی رہائشی اسکول میں ۱۶۰ بچے پڑھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچے سولیگا اور ایرولا برادریوں (دونوں درج فہرست ذات) سے ہیں۔ یہ بچے دوپہر میں ملنے والے کھانے (عام طور پر چاول اور سامبھر) کا لطف اٹھاتے ہیں۔ انہیں ہفتہ میں کئی بار انڈا کری (شوربہ دار انڈا) بھی دیا جاتا ہے۔
پی ایم پوشن اسکیم پر ۲۲-۲۰۲۱ سے لے کر ۲۶-۲۰۲۵ تک کل ۱۳۰۷۹۴ کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے، جسے مرکزی حکومت اور ریاستوں کے ذریعے شیئر کیا جائے گا۔ مڈ ڈے میل کے لیے مختص رقم اور غذائی اجناس (چھ لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ) کی تقسیم میں کبھی کبھی گڑبڑی ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے ٹیچروں اور باورچیوں کو بازار سے اناج خریدنا پڑتا ہے۔ ہریانہ کے ایگراہ گاؤں میں سرکار کے ذریعے چلائے جا رہے شہید حولدار راج کمار آر وی ایم ودیالیہ کے ایک ٹیچر نے ’پاری‘ کو بتایا کہ جب ایسی حالت آتی ہے، ’’تو ہم ٹیچر آپس میں مل کر چندہ کر لیتے ہیں، تاکہ بچے بھوکے نہ رہیں۔‘‘ ہریانہ کے جیند ضلع کے اس اسکول میں لکڑہاروں، دہاڑی مزدوروں، اینٹ بھٹہ مزدوروں جیسی محنت کش برادریوں کے بچے پڑھتے ہیں، جنہیں دوپہر کے کھانے میں پلاؤ، دال چاول اور راجما چاول دیا جاتا ہے۔
ہندوستان کے غریب بچوں کو کھانا کھلانے کی اس پہل کو فروغ دینے کی کوشش کافی تاخیر سے ہوئی ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۲۱-۲۰۱۹ ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) کے مطابق، پانچ سال سے کم عمر کے ۳۲ فیصد بچے عام طور سے کم وزن کے ہیں۔ سال ۲۰۱۹ میں یونیسیف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی ۶۹ فیصد اموات کی وجہ سوء تغذیہ (غذائیت کی کمی) ہے۔
یہ خوفناک حقیقت اس منظر کو بھی بیان کر دیتی ہے کہ آخر چھٹی کے دن بھی آٹھ سالہ رونّی سنگھ اپنی ماں کے ساتھ مغربی بنگال کے آندول پوٹہ گاؤں میں، دھوپا بیریا شیشو شکشا کیندر میں کھچڑی لینے کیوں آتے ہیں۔ مقامی لوگ اسکول کو ’کھچڑی اسکول‘ کہتے ہیں، اور اس میں تقریباً ۷۰ بچوں کا داخلہ ہے۔ اکتوبر کے آخر میں، جب ’پاری‘ نے مغربی بنگال کے شمالی ۲۴ پرگنہ ضلع کے اس اسکول کا دورہ کیا تھا، تب دیوالی کی چھٹیوں میں اسکول بند ہونے کے باوجود بھی بچے کھانا کھانے یا اپنا یومیہ مڈ ڈے میل لینے آ رہے تھے۔
زیادہ تر بچوں کا تعلق پس ماندہ برادریوں سے ہے اور ان کے والدین مقامی ماہی گیری صنعت میں کام کرتے ہیں۔ رونّی کی ماں (جو اپنا نام بتانا نہیں چاہتی تھیں) نے بھی کہا، ’’وبائی مرض [کووڈ۔۱۹] کے دوران اسکول ایک بڑا سہارا تھا، کیوں کہ وہ باقاعدگی سے کھانا دیتے تھے۔‘‘
جب مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ نے قہر برپا کرنا شروع کیا، تو کئی ریاستوں میں مڈ ڈے میل اسکیم کو چلانے میں رکاوٹ آئی۔ اسکول بند ہونے سے کروڑوں بچے متاثر ہوئے؛ کرناٹک میں، ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ دوپہر کا کھانا تعلیم کے بنیادی حق کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ہے۔
ایشوریہ، تلنگانہ میں گچی باؤلی کے پاس واقع ایک کم آمدنی والے رہائشی علاقہ، پی جناردن ریڈی نگر کے ایک پرائمری اسکول میں پڑھتی ہیں۔ ان کے والد رنگا ریڈی ضلع کے تعمیراتی مقامات پر دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں اور ان کی ماں گھریلو ملازم ہیں۔ نو سال کی یہ بھوکی بچی کہتی ہے، ’’کاش اسکول میں ہر دن انڈے ملتے۔ کاش، ہر دن ایک سے زیادہ انڈے کھانے میں دیے جاتے۔‘‘
بچوں کی غذائیت میں ایک اہم رول نبھانے والی مڈ ڈے میل اسکیم بدعنوانی، ملاوٹ، خراب معیار اور الگ الگ قسم کے کھانے کی کمی، اور ذات پر مبنی تفریق جیسے مسائل سے اچھوتی نہیں رہی ہے۔ پچھلے سال، گجرات اور اتراکھنڈ میں اونچی ذات کے طلباء نے دلت باورچیوں کے ذریعے بنائے گئے کھانے کا بائیکاٹ کیا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دلت باورچی کو مبینہ طور پر برخاست کرنے کا بھی معاملہ سامنے آیا تھا۔
کرناٹک میں، ۱۶-۲۰۱۵ کے درمیان پانچ سال سے کم عمر کے غذائیت کی کمی والے بچوں کی تعداد میں صرف ایک فیصد کی گراوٹ ہوئی ہے۔ پہلے یہ تعداد ۳۶ فیصد تھی، اب ۳۵ فیصد ہے ( این ایف ایچ ایس۔۵ )۔ اس کے علاوہ، سال ۲۰۲۰ کی ایک سرکاری رپورٹ میں کوڈگو اور میسور ضلعوں کے بچوں میں غذائیت سے متعلق کمیوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ لیکن، سیاسی پارٹیاں صرف اس بات کو لے کر آپس میں لڑتی رہتی ہیں کہ مڈ ڈے میل میں انڈا دینا سبزی خوری ہے یا نہیں۔
ایک طرف ملک میں غذائیت کی کمی ہے، وہیں دوسری طرف مہاراشٹر میں اسکولوں کو بند کیا جا رہا ہے؛ جب کہ یہاں کے اسکولوں میں ۶ لاکھ ۱۶ ہزار ایسے بچے پڑھتے ہیں جو غذائیت کی کمی کے شکار ہیں – یہ تعداد ہندوستان کے سبھی غذائیت کی کمی والے بچوں کے پانچویں حصے سے تھوڑا ہی کم ہے۔ احمد نگر ضلع کے گنڈے گاؤں کے ایسے ہی ایک اسکول میں پڑھنے والے زیادہ تر طلباء پاردھی ہیں۔ پاردھی ایک ڈی نوٹیفائیڈ قبیلہ ہے، اور ریاست میں ان کی گنتی سب سے غریب اور پس ماندہ برادری کے طور پر کی جاتی ہے۔
پوٹکاوستی گنڈے گاؤں پرائمری ضلع پریشد اسکول کے پرنسپل کلاسکر گیان دیو گنگا رام کہتے ہیں، ’’اسکول بند ہونے کے بعد، یہ بچے نہ صرف اسکول کی پڑھائی چھوڑ دیں گے، بلکہ غذائیت والے کھانے سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ اس سے آدیواسی اور پس ماندہ برادریوں کے درمیان غذائیت کی کمی اور اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
منظور بھونسلے کی آٹھ سال کی بیٹی، بھکتی یہاں پڑھنے والے ۱۵ پاردھی بچوں میں سے ایک ہے۔ منظور کہتے ہیں، ’’اسکول نہیں ہوگا، تو کھانا نہیں ملے گا۔ کورونا کے تین سال بہت برے گزرے۔ اگر اسکول ایک بار پھر بند ہو جائیں گے، تو ہمارے بچے آگے کیسے بڑھیں گے؟‘‘
یہ اسٹوری چھتیس گڑھ سے پرشوتم ٹھاکر ؛ کرناٹک سے سینتلیر ایس ؛ تلنگانہ سے امرتا کوسورو ؛ تمل ناڈو سے ایم پلانی کمار ؛ ہریانہ سے عامر ملک ؛ آسام سے پنکو کمار داس ؛ مغربی بنگال سے رتائن مکھرجی ؛ مہاراشٹر سے جیوتی شنولی ؛ راجستھان سے حاجی محمد نے لکھی ہے؛ اس کی ایڈٹنگ پریتی ڈیوڈ اور ونوتا مالیہ نے کی ہے، جس میں سنویتی ایئر نے ادارتی تعاون دیا ہے۔ فوٹو ایڈٹنگ بینیفر بھروچا نے کی ہے۔
کور فوٹو: ایم پلانی کمار
مترجم: محمد قمر تبریز