مایا دوپہر میں گھر کے پرانے المونیم کے برتن سے چاول کے آخری بچے ہوئے دانے کھرچ رہی ہیں۔ پورے دن میں یہ ان کا واحد کھانا ہونے والا ہے۔ کڑھائی میں ان کے اور شِو کے لیے مسور کی دال نہیں بچی ہے۔
۲۳ سالہ مایا کہتی ہیں، ’’ہم صرف ایک وقت کھانا کھاتے ہیں، لیکن اپنے بچوں کے لیے دو بار کھانا پکاتے ہیں۔ ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ انہیں پیٹ بھر کھانا ملے۔‘‘ ان کی جھونپڑی بانس سے بنی ہے، جس کی دیواریں اور چھت پرانی ساڑیوں اور چادروں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ اپنی جھونپڑی کے سامنے بیٹھے ۲۵ سالہ شِو کہتے ہیں، ’’وبائی مرض شروع ہونے کے بعد سے ہم کم راشن خرید پا رہے ہیں۔‘‘
مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے ہی، مایا اور شِو گنڈاڈے اپنے اور اپنے چار بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے بچوں کی عمر ۲ سے ۷ سال تک ہے۔
کھلے میدان میں بنی ان کی جھونپڑی پنڈھاریہ چیواڑی گاؤں سے تقریباً ۶ سے ۷ کلومیٹر کی دوری پر ہے، جو بیڈ ضلع کے بیڈ تعلقہ میں ان کی بستی کے سب سے قریب ہے۔ جب بارش ہوتی ہے، تو جھونپڑی کی رنگین دیواروں اور چھتوں سے پانی ٹپکتا ہے۔
میدان میں بنی ۱۴ جھونپڑیوں میں مسن جوگی برادری کے لوگ رہتے ہیں، جو ایک خانہ بدوش قبیلہ (مہاراشٹر میں او بی سی کے طور پر درج فہرست) ہے۔ یہ قبیلہ روایتی طور پر مانگ کر گزارہ کرتا رہا ہے۔ اس فیملی کے لوگ عموماً سال میں ایک بار، کام اور یومیہ مزدوری کی تلاش میں ریاست کے ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں بھٹکتے رہتے ہیں۔
ان میں سے کئی لوگ اب کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں۔ عورتیں عام طور پر ری سائیکلنگ کے لیے الگ الگ گاؤوں سے بال اور پرانے کپڑے جمع کرتی ہیں، اور مرد کچرے کے ڈبے اور گھروں سے پلاسٹک، لوہا اور المونیم کے ردّی کے سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ مایا، جو بال اور کپڑوں کے بدلے پلاسٹک کے ٹب اور بالٹیوں کا لین دین بھی کرتی ہیں، کہتی ہیں، ’’ردّی مال خریدنے والے تاجر ہمیں اتنے ہی پیسے دیتے ہیں جتنا مال ہم نے ایک دن میں اکٹھا کیا ہوتا ہے۔‘‘
وہ آگے کہتی ہیں، ’’جب ہماری کمائی ایک جگہ بند ہو جاتی ہے، تو ہم دوسرے تعلقہ چلے جاتے ہیں۔ ہم ایک سال سے زیادہ کسی ایک جگہ نہیں رکتے۔‘‘
لیکن، کورونا وبائی مرض کے سبب سفر پر پابندی اور نقل و حمل کے ذرائع کی کمی کے سبب وہ نقل مکانی نہیں کر سکے۔ شِو، جو پولیو کی وجہ سے لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں، کہتے ہیں، ’’نومبر ۲۰۱۹ سے ہی ہم بیڈ میں ہیں۔ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ ہم ایک ٹیمپو کرایے پر لے سکیں۔ اور ایس ٹی (اسٹیٹ ٹرانسپورٹ) بسوں میں اپنے سارے سامان کے ساتھ سفر کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘
وہ آگے کہتے ہیں، ’’ہماری کمائی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم نے کتنے پرانے کپڑے اور بال جمع کیے۔‘‘ وبائی مرض سے پہلے بھی ایسے کئی دن آتے تھے جب شِو اور مایا دن بھر میں کوئی کمائی نہیں کر پاتے تھے، لیکن اُن دونوں کی مہینہ بھر کی مشترکہ کمائی کبھی ۷-۸ ہزار روپے سے کم نہیں ہوتی تھی۔
لیکن، اب ایک سال سے زیادہ وقت سے، وہ مہینہ میں ۴ ہزار روپے سے زیادہ نہیں کما پا رہے ہیں۔
کمائی میں ہونے والی اس کمی کا مطلب ہے کہ راشن اور کھانے میں کٹوتی کرنا۔ مایا اور شِو کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ہر مہینہ میں اپنی چھ رکنی فیملی کے کھانے پینے پر وہ ۴۰۰۰ روپے سے ۵۰۰۰ روپے تک خرچ کرتے تھے۔
وبائی مرض سے پہلے وہ ہر ہفتہ دو کلو دال اور ۸-۱۰ کلو چاول خریدتے تھے اور اب وہ ایک ہفتہ میں صرف ایک کلو سستی مسور کی دال اور دو کلو چاول خرید پا رہے ہیں۔ ’’اس کے علاوہ، مہینہ میں کم از کم تین دن ہم مٹن (بکرے کا گوشت) یا چکن (مرغ کا گوشت)، کبھی کبھی انڈے، سبزیاں اور بچوں کے لیے پھل خرید کر لاتے تھے،‘‘ مایا اپنی انگلیوں پر جوڑ کر بتاتی ہیں۔ لیکن، لاک ڈاؤن کے بعد سے ان کی فیملی پیٹ بھر کھانا بھی نہیں کھا پا رہی ہے۔ مایا کہتی ہیں، ’’ایسا نہیں ہے کہ پہلے ہم دعوت اڑایا کرتے تھے، لیکن ہمارے پاس پیٹ بھرنے کے لیے پورا راشن ضرور ہوتا تھا۔‘‘
شِو کہتے ہیں، ’’اب تو ہر چیز، تیل سے لیکر دال تک مہنگی ہو چکی ہے۔ یہ سب ہم کیسے خرید سکتے ہیں؟ اب تو ہم پہلے جتنا کماتے بھی نہیں ہیں۔‘‘
حالانکہ، وبائی مرض سے ایک دہائی قبل ہی ہندوستان میں کھانے پر کیا جانے والا خرچ مسلسل گھٹنے لگا تھا۔ این ایس ایس (نیشنل سیمپل سروے) کے گھریلو صارف کے اخراجات کا سروے ۲۰۱۱-۱۲ کے مطابق، کنبوں کے ذریعے غذائی اجناس پر کیا جانے والا خرچ گھٹ کر ۴۸ اعشاریہ ۶ فیصد ہو گیا تھا، جو ۱۹۹۳ میں ۶۳ اعشاریہ ۲ فیصد تھا۔ (ہر پانچ سال پر ہونے والے اس سروے کے اگلے مرحلہ کے نتائج کو شماریات اور پروگرام کے نفاذ کی وزارت نے عام نہیں کیا ہے۔)
دہلی کی کچھ تنظیموں کے اتحاد ’’ریپڈ رورل کمیونٹی رسپانس ٹو کووڈ۔۱۹‘‘ (جو دیگر کئی سرگرمیوں کے علاوہ، راشن تقسیم کرنے کا کام کر رہی تھی) کے ذریعے کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق ، جب سے وبائی مرض کی شروعات ہوئی ہے، سماجی اور اقتصادی طور پر پس ماندہ برادریوں کے درمیان فاقہ کشی کا مسئلہ اور بھی سنگین ہو گیا ہے۔ ۱۲ دسمبر، ۲۰۲۰ سے لیکر ۵ جنوری، ۲۰۲۱ کے درمیان ’’آبادی کے تقریباً ۴۰ فیصد حصے [۱۱ ریاستوں میں ۱۱۸۰۰ لوگوں کے درمیان کیا گیا سروے] کے کھانے پینے میں کمی آئی ہے‘‘ اور تقریباً ۲۵ فیصد لوگ انڈے، گوشت، سبزیاں، اور تیل نہیں خرید پا رہے ہیں۔
اگر مایا اور شِو کے پاس راشن کارڈ ہوتا، تو انہیں کچھ حد تک مدد مل جاتی۔ قومی غذائی تحفظ قانون، ۲۰۱۳ کے مطابق، جن کنبوں کے پاس راشن کارڈ ہے وہ ہر مہینے فی کس کل پانچ کلو اناج رعایتی قیمت پر خرید سکتے ہیں: چاول ۳ روپے فی کلو، گیہوں ۲ روپے فی کلو، اور موٹا اناج ایک روپیہ فی کلو۔
مایا کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس راشن کارڈ نہیں ہے، کیوں کہ ہم کبھی ایک جگہ پر لمبے وقت تک نہیں رہے۔‘‘ اس لیے وہ اور ان کی بستی کے ۱۴ دیگر کنبے ’پردھان منتری غریب کلیان اَنّ یوجنا‘ جیسی سرکاری اسکیموں، جس کے تحت غریبوں کو وبائی مرض کے دوران اضافی ۵ کلو مفت اناج دیا جانا تھا، کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں۔
غذائی تحفظ مہم کی ایک رکن دیپا سنہا، جو دہلی میں رہتی ہیں، کہتی ہیں، ’’ہم بڑے پیمانے پر فاقہ کشی دیکھ رہے ہیں۔ اس بار، دوسری لہر کی وجہ سے فاقہ کشی کی حالت مزید خستہ ہو چکی ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے اور سپریم کورٹ کے ذریعے بار بار ہدایت جاری کرنے کے باوجود، حکومت ان کے لیے کوئی انتظام نہیں کر رہی ہے۔‘‘
۴۸ سالہ لکشمن گھن سرواڑ کہتے ہیں، ’’ہماری برادری [مسن جوگی] کے آدھے سے زیادہ لوگوں کے پاس نہ راشن کارڈ ہے اور نہ ہی کوئی شناختی کارڈ۔‘‘ لکشمن ناندیڑ کے ایک سماجی کارکن ہیں، جو ’مسن جوگی مہاسنگھ‘ چلاتے ہیں۔ یہ تنظیم تعلیم، مختلف قسم کی دستاویز تک رسائی، اور دیگر امور پر کام کرتی ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ مہاراشٹر میں مسن جوگی برادری کی کل آبادی تقریباً ایک لاکھ ہے، اور ان میں سے ۸۰ فیصد لوگ کوڑا بیننے کا کام کرتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔
دیگر خانہ بدوش برادریاں بھی انہی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان میں نریش اور سُوَرن پوار بھی شامل ہیں، جو اپنے دو بچوں (۴ سال کی ایک بیٹی اور ۵ سال کا ایک بیٹا) کے ساتھ یوتمال ضلع کے نیر تعلقہ میں رہتے ہیں۔ ان سے میری ملاقات مئی ۲۰۱۹ میں ہوئی تھی (اور اس مضمون کے لیے ان سے فون پر گفتگو ہوئی)۔ ان کا تعلق پھانسے پاردھی خانہ بدوش برادری (درج فہرست قبیلہ میں شامل) سے ہے۔ وہ پھوس کی ۷۰ جھونپڑیوں کی ایک چھوٹی بستی میں رہنے والے ان ۳۵ کنبوں میں سے ایک ہیں جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔
۲۶ سال کی سُوَرن روزانہ صبح کو اپنی بچی کو لیکر آس پاس کے گاؤوں میں بھیک مانگنے جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ہر دروازے پر آواز لگاتی ہوں... لیکن، بھیک مانگنا اب آسان نہیں ہے، کیوں کہ گاؤں والوں کو کورونا سے متاثر ہو جانے کا ڈر ہے۔ کئی لوگ ہمیں گاؤں کے اندر داخل نہیں ہونے دیتے۔ جن لوگوں کو ہم پر رحم آتا ہے، وہ ہمیں چاول دے دیتے ہیں اور کبھی کبھی بچی ہوئی بھاکری بھی مل جاتی ہے۔‘‘ (دیکھیں: لاک ڈاؤن میں بھیک سے محروم پاردھی )
ایک طرف سُوَرن کھانے کے لیے ادھر ادھر بھٹکتی ہیں، تو دوسری طرف ان کے شوہر، ۲۸ سالہ نریش اور کچھ دوسرے مرد آس پاس کے جنگلی علاقوں میں تیتر کا شکار کرنے جاتے ہیں۔ ان کا گوشت یا تو کھایا جاتا ہے یا پھر یہ لوگ ان پرندوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ نریش کہتے ہیں، ’’شکار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کئی بار جنگل والے (محکمہ جنگلات کے اہلکار) ہمیں متنبہ کرتے ہیں۔ ہم اکثر خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔‘‘
لمبا دن ختم ہونے پر، ان کے کھانے کی پلیٹ میں الگ الگ گھروں سے جمع کیا گیا چاول، مرچ پاؤڈر یا تل کی چٹنی ہوتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ انہیں کھانے میں سبزیاں ملی ہوں۔ سَوَرن بتاتی ہیں، ’’کچھ کسان ہمارے مانگنے پر، ہمیں بینگن یا آلو دے دیتے ہیں۔‘‘
وبائی مرض سے ایک دہائی قبل ہی ہندوستان میں کھانے پر کیا جانے والا خرچ مسلسل گھٹنے لگا تھا۔ این ایس ایس (نیشنل سیمپل سروے) کے گھریلو صارف کے اخراجات کا سروے ۲۰۱۱-۱۲ کے مطابق، کھانے پر کیا جانے والا خرچ گھٹ کر ۴۸ اعشاریہ ۶ فیصد ہو گیا تھا، جو ۱۹۹۳ میں ۶۳ اعشاریہ ۲ فیصد تھا
قومی کمیشن برائے غیر فہرست، خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش قبائل کے پاس کئی عرضیاں داخل کی گئیں، جن میں ان کے جیسے کئی لوگوں کو شناختی کارڈ بنوانے میں آنے والے مسائل کو سامنے رکھا گیا ہے، چونکہ انہی دستاویزوں کے ذریعے ہی سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ کمیشن کی سال ۲۰۱۷ کی رپورٹ کے مطابق، ’’دستاویزوں اور شناختی کارڈ سے متعلق کل ۴۵۴ عرضیوں میں سے، ۳۰۴ عرضیاں دیگر دستاویزات جیسے موت کا سرٹیفکیٹ، بی پی ایل [راشن] کارڈ، اور آدھار کارڈ کے متعلق ہیں۔‘‘
وبائی مرض کے سبب ان کی حالت مزید خستہ ہو گئی ہے۔
مرکزی حکومت نے ۲ جون، ۲۰۲۱ کو ریاستوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ایک سرکولر جاری کیا، ’’سماج کے پس ماندہ اور کمزور طبقے جیسے سڑکوں پر رہنے والے، کوڑا بیننے والے، پھیری والے، رکشہ چلانے والے، مہاجر مزدور وغیرہ، جو غذائی بحران کا سامنا کر رہے ہیں... راشن کارڈ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔‘‘
مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں حکومت پہلے ہی ۲۶ جنوری، ۲۰۲۰ سے ’شِو بھوجن یوجنا‘ چلا رہی تھی، تاکہ بغیر کسی کاغذ کے لوگوں کو ۱۰ روپے میں پکا ہوا کھانا مہیا کرایا جا سکے۔ وبائی مرض کے دوران اس کھانے کی قیمت گھٹا کر ۵ روپے پلیٹ کر دی گئی تھی۔ مہاراشٹر کے ۲۰۲۰-۲۱ کے اقتصادی سروے کے مطابق، ’’اسکیم کے آغاز سے لیکر دسمبر ۲۰۲۰ تک، ۹۰۶ شِو بھوجن مراکز کے ذریعے ۲ کروڑ ۸۱ لاکھ شِو بھوجن تھالیاں تقسیم کی جا چکی ہیں۔‘‘
مگر یہ تھالیاں شِو اور نریش کی بستیوں تک نہیں پہنچی ہیں۔ شِو کہتے ہیں، ’’ہمیں اس کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔‘‘ وہیں نریش کا کہنا ہے، ’’اگر ہمیں اس کے بارے میں معلوم ہوتا، تو ہم آدھے پیٹ گزارہ نہیں کر رہے ہوتے۔‘‘
دیپا سنہا کہتی ہیں، ’’یہ ایشو مرکز بنام ریاست کا بن چکا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے سوال کہیں گم ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ ریاستیں اپنی سطح پر الگ الگ اسکیمیں چلا رہی ہیں، لیکن قومی سطح پر کوئی اسکیم نہیں چلائی جا رہی ہے۔‘‘
سماجی تحفظ کی اسکیموں سے باہر ہوتے ہوئے بھی، نہ تو نریش ہمیشہ شکار پر جاتے تھے اور نہ سُورن کو ہمیشہ بھیک مانگنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ وہ ہمیشہ آدھے پیٹ نہیں سوتے تھے۔ ان کی زندگی اس سے کچھ بہتر تھی۔
نریش بتاتے ہیں، ’’ہم کوئی بھی کام کر لیتے تھے – جیسے گڑھے کھودنا، سڑک بنانا، نالے کی صفائی، پھول بیچنا۔‘‘ سال کے ۶ مہینے، دسمبر سے مئی کے درمیان وہ ممبئی، ناگپور اور پونہ جیسے شہروں میں کام کرتے تھے۔ وہ فلائی اوور کے نیچے یا کسی جھونپڑی میں سو جاتے تھے، اور چھ مہینے کی کڑی محنت کے بعد ۳۰-۳۵ ہزار روپے بچا لیتے تھے۔
ان پیسوں سے وہ سال کے بقیہ چھ مہینوں میں اناج، تیل اور سبزیاں خریدتے تھے۔ نریش کہتے ہیں، ’’یہ ہماری بڑی کمائی ہوتی تھی۔ ہم ہر مہینے [کھلے بازار سے] ۱۵-۲۰ کلو چاول، ۱۵ کلو باجرا، ۲-۳ کلو مونگ خرید پاتے تھے۔‘‘
وبائی مرض کے بعد ان کی مالی حالت پوری طرح خستہ ہو گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب وہ نقل مکانی نہیں کر سکتے ہیں، اور انہیں شکار کرکے اور بھیک مانگ کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ نریش کہتے ہیں، ’’سرکار کبھی بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیتی ہے، اور ہم شہروں میں پھنسے نہیں رہنا چاہتے ہیں۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنے گھر پر ہی رہیں، بھلے ہی ہم بھوکے مر جائیں۔ پاس کے گاؤں میں کام مل پانا بیحد مشکل ہے۔ شہروں میں مزدوری کرکے ہماری حالت بہتر ہو جاتی تھی، لیکن اب...کچھ نہیں بچا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز