اکتوبر کی ابتدا میں جب ایک رات اچانک شوبھا چوان کی جھونپڑی کی بجلی گل ہو گئی، تو انہیں احساس ہو گیا کہ کچھ برا ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر کچھ پتہ لگاتے، لوہے کی چھڑ اور لاٹھیوں سے لیس کچھ مرد ان کے گھر میں گھس آئے اور اس آٹھ رکنی فیملی کو بے رحمی سے پیٹا۔ ایک گھنٹے بعد، اس گھر میں صرف سات لوگ ہی بچے کیوں کہ اس حملے میں شوبھا کے دو سال کے پوتے کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اگلے دن اس فیملی میں صرف چھ لوگ ہی بچے، کیوں کہ شوبھا کے زخمی شوہر نے اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔
حملہ آور آدھی رات سے کچھ دیر پہلے ان کے گھر میں گھسے اور فیملی کے تمام ممبران – ۶۵ سالہ شوبھا، ان کے ۷۰ سالہ شوہر ماروتی، ان کے بیٹے اور بہو، پوتا، پوتی، ایک بھتیجی اور شوبھا کی نند – کو گھسیٹتے ہوئے زمین پر پٹخ دیا اور انہیں لات گھونسے مارے۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے مہاراشٹر کے بیڈ ضلع میں ان کے گاؤں کے کنارے پر واقع اس فیملی کی جھونپڑی اور بکریوں کے باڑے کو آگ لگا دی۔ یہ تمام تفصیلات شوبھا نے پولیس میں درج کرائی گئی اپنی پہلی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) میں بیان کی ہیں۔
شوبا کی شادی شدہ بیٹی، ۳۰ سالہ انیتا اس واقعہ کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’اُس رات ہم تینوں کی عصمت دری کی گئی۔‘‘ بقول ان کے، حملہ آوروں نے ان کی، ان کی ۲۳ سالہ بھابھی اور ۱۷ سالہ بھتیجی کی عزت لوٹی۔
تشدد پر آمادہ ان حملہ آوروں کا گروپ رات کے اسی اندھیرے میں انیتا کی جھونپڑی تک پہنچ گیا، جو اپنی ماں کے گھر سے ایک کلومیٹر دور رہتی ہیں اور ان کی فیملی کو بھی دہشت زدہ کرنے سے باز نہیں آیا۔ انیتا بتاتی ہیں، ’’وہ لوگ ہمارے پاس تقریباً ۲ بجے [رات میں] پہنچے۔ وہ ہمیں گاؤں سے بھگانا چاہتے تھے۔ ہمارے پاس ایک موٹر سائیکل تھی جسے انہوں نے آگ کے حوالے کر دیا، اور ہمارے مویشیوں کو چُرا لے گئے۔‘‘ حملہ آوروں نے ان کی بھی جھونپڑی میں آگ لگا دی۔
شوبھا نے اپنی ایف آئی آر میں بتایا ہے کہ جب وہ لوگ چوان فیملی پر حملہ کر رہے تھے تو ان کی زبان سے بار بار یہی نکل رہا تھا: ’’تم لوگ چور ہو۔ ہم پاردھیوں کو اپنے گاؤں میں دیکھنا نہیں چاہتے۔‘‘
چوان فیملی کا تعلق پاردھی برادری سے ہے، جو مہاراشٹر میں درج فہرست قبیلہ کے طور پر درج ہے۔ پاردھی کسی زمانے میں شکاری ہوا کرتے تھے، لیکن نو آبادیاتی حکومت کے دوران اس برادری کو، ۱۸۷۱ کے مجرم قبائل سے متعلق قانون (سی ٹی اے) کے تحت ’مجرم قبیلہ‘ قرار دے دیا گیا۔ ان پر نظر رکھی جانے لگی، انہیں ’پیدائشی مجرم‘ کہا جانے لگا، اور ان کے چلنے پھرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ حکومت ہند نے جب سی ٹی اے کو کالعدم قرار دیا، تو پاردھیوں سمیت ۱۹۸ ’مجرم قبیلوں‘ کو ’ڈی نوٹیفائی‘ کر دیا گیا۔ لیکن ۱۹۵۲ کے جس ’عادتاً مجرموں سے متعلق قانون‘ سے سی ٹی اے کو تبدیل کیا گیا تھا، وہ ان برادریوں کے اوپر لگے ’مجرم‘ کے ٹیگ کو ہٹانے میں مدد نہیں کر سکا۔
بدنام زمانہ اور تعلیم و روزگار سے محروم پاردھی حاشیے پر ہی رہتے چلے آئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بیڈ ضلع کی تقریباً ۵۶۰۰ پاردھیوں کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) پر حملے میں اضافہ ہوا ہے۔ ضلعی عدالت میں شوبھا چوان کے کیس کی پیروی کرنے والے وکیل، سدھارتھ شندے بتاتے ہیں، ’’پاردھیوں کو آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی مجرم ہی سمجھا جاتا ہے۔ ان کے اوپر یہ حملہ اس لیے ہوا کیوں کہ مقامی لوگ انہیں گاؤں میں رہتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے۔‘‘ اور جس وقت سرکاری حکام کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے لوگوں کو باہر گھومتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے، ان پاردھی کنبوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔
حملہ کرنے والے سبھی ۱۰ ملزمین کا تعلق مراٹھا برادری سے ہے، جن کا وہاں پر غلبہ ہے۔ شوبھا کے ذریعے ایف آئی آر درج کرانے کے بعد ان میں سے آٹھ کو جلد ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پولیس کی ریمانڈ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ’’گاؤں میں لوگوں کو پریشان کرنے کی وجہ سے‘‘ پاردھی کنبوں پر حملہ کرنے کی بات قبول کر لی ہے۔ اس رپورٹر نے جب کیس کی تفتیش کرنے والے افسر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، وجے لاگرے سے مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کی، تو انہوں نے رپورٹر کی فون کالز کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک ملزم کا کہنا تھا کہ شوبھا کے بیٹے، کیدار نے اس پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔ شندے نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کیدار نے ایسا کیا تھا، لیکن اس نے ہراساں کیے جانے کی وجہ سے اس پر حملہ کیا تھا۔ ’’پاردھیوں کو سالوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے، اسی لیے یہ جھگڑا شروع ہوا۔‘‘ حملہ آوروں کو پولیس سے اس کی شکایت کرنی چاہیے تھی، وکیل کا کہنا ہے۔ ’’بجائے اس کے، انہوں نے پوری فیملی پر حملہ کر دیا، دو ممبر کا قتل کر دیا اور تین عورتوں کی عصمت دری کی۔ یہ سب صرف اس لیے کیا گیا تاکہ انہیں گاؤں سے بھگایا جا سکے۔‘‘
شوبھا کے دوسرے بیٹے، کرشنا کا کہنا ہے کہ گاؤں کے لوگ نہیں چاہتے کہ پاردھیوں کے پاس اپنی زمین ہو۔ ’’ہمارے پاس دو ایکڑ کھیت ہے جو گاؤں کے ٹھیک باہر، ہمارے گھر کے سامنے ہی پھیلی ہوئی ہے۔ انہیں یہ پسند نہیں ہے۔ تقریباً ۴-۵ سال پہلے، انہوں نے میرے والد پر حملہ کرکے ان کا ہاتھ توڑ دیا تھا۔ وہ ہم پر مویشی چوری کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور ہمیں یہاں سے بھگانے کے لیے جھوٹی شکایتیں درج کراتے ہیں۔ ہماری بدنامی کی وجہ سے پولیس بھی زیادہ تر موقعوں پر ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔‘‘
چوان فیملی پر ہوئے حملے کے بارے میں ممبئی کے ایک روزنامہ اخبار سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی ایس پی لاگرے نے متاثرین کو ’’ہسٹری شیٹر‘‘ بتایا تھا۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (ٹی آئی ایس ایس) کے محققین کے ذریعے ممبئی شہر میں پاردھیوں کے بارے میں ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے: ’’پولیس کے کئی افسران نے ہمیں بتایا کہ ان کے ٹریننگ مینوئل میں پاردھیوں اور دیگر ڈی نوٹیفائیڈ برادریوں کو ابھی بھی دائمی چور اور بد کردار کہا جاتا ہے۔‘‘
پاردھی لوگ زیادہ تر گیرن ، یعنی گاؤں کی چراگاہوں پر رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو سرکار کی طرف سے زمین کا مالکانہ حق مل چکا ہے، لیکن بہت سے لوگوں کو ابھی تک نہیں ملا ہے۔ کرشنا بتاتے ہیں، ’’ہم لوگ زیادہ تر مزدوری کرکے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ اور [کووڈ] لاک ڈاؤن کے بعد ہمیں جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ ایسے میں اس قسم کی ہراسانی کا سامنا کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘
مارچ ۲۰۲۰ کے آخری دنوں میں اچانک کووڈ۔۱۹ کے حملے کے بعد، پاردھیوں کو بے شمار مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ غریب اور کمزور برادریوں کے ساتھ ہونے والے امتیاز پر مبنی کیس پر توجہ مرکوز کرنے والے وکیل، شندے کہتے ہیں، ’’عام دنوں میں بھی، نوکری کے لیے کوئی آسانی سے ان پر بھروسہ نہیں کرتا تھا۔ کووڈ کے بعد، جب نوکریاں کم ہیں اور اسے حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد زیادہ، پاردھی اکثر آخری پسند ہوتے ہیں۔ معاشرہ انہیں دن میں آزاد نہیں رہنے دیتا، اور پولیس انہیں رات میں اجازت نہیں دیتی۔‘‘
پاردھی یومیہ مزدوری تلاش کرتے ہیں اور موسم کے لحاظ سے گنّے کاٹنے یا اینٹ بھٹوں پر کام کرنے کے لیے مہاجرت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ممبئی اور پونہ جیسے بڑے شہروں کی طرف ہمیشہ کے لیے کوچ کر جاتے ہیں۔ ٹی آئی ایس ایس کے مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلا کہ اثاثوں اور پیشہ ورانہ آمد و رفت کی کمی، اور ’’علاقے میں کم ترقی سے پیدا شدہ غریبی کے حالات اور پولیس اور گاؤوں والوں کی طرف سے مسلسل ہراسانی کی وجہ سے پاردھی کنبوں کو مُلُک [آبائی گاؤں] میں موجود اپنی گھریلو برادری سے شہر کی طرف جانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔‘‘
نومبر ۲۰۲۰ میں، جب بیڈ کے اینٹ بھٹے لاک ڈاؤن کے بعد دوبارہ کھول دیے گئے، تو پرلی تعلقہ کے چھوٹے سے قصبہ سرسالا کے رہنے والے وٹھل پوار نے کام کے لیے اپنا نام درج کرایا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہمارے علاوہ، اینٹ بھٹے پر کام کرنے والے تمام مزدوروں کو ٹھیکہ دار کی طرف سے پیشگی رقم ادا کی جاتی ہے۔ ہمیں صرف دن کے اختتام پر پیسے [۳۰۰ روپے] دیے جاتے ہیں کیوں کہ ہم پاردھی ہیں۔ ہم سالوں سے مکھیہ پرواہ [مین اسٹریم] میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘
۴۵ سالہ وٹھل کے نام پر اپنی کوئی زمین نہیں ہے، لہٰذا کام کے لیے وہ کسانوں اور اینٹ بھٹے کے ٹھیکہ داروں پر منحصر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’لیکن ہمیں ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ برسوں سے، ہم یہی کوشش کر رہے ہیں کہ گاؤوں کے لوگ ہمیں اپنا لیں۔‘‘
سال ۲۰۲۰ میں کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران، وٹھل کی پانچ رکنی فیملی نے سرکار کی طرف سے سپلائی کیے جانے والے مفت راشن پر کسی طرح گزارہ کیا۔ لیکن اس کے بعد سے گزارہ کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے کیوں کہ مزدوری کا کام بہت کم ملتا ہے۔ وبائی مرض سے پہلے وٹھل کو ایک ہفتہ میں ۴-۵ دن کام مل جاتا تھا، لیکن اب صرف ۲-۳ دن ہی کام ملتا ہے۔ ان کی ہفتہ واری آمدنی بھی ۱۲۰۰ روپے سے گھٹ کر اب صرف ۶۰۰ روپے رہ گئی ہے۔
اوپر سے ایک اور مصیبت یہ آن پڑی کہ اس سال جون میں انہیں زمین خالی کرنے کا نوٹس تھما دیا گیا۔ بیڈ-پرلی شاہراہ کے کنارے زمین کے ایک ٹکڑے پر رہنے والے وٹھل سمیت دس کنبوں سے کہا گیا ہے کہ ان کی زمین مہاراشٹر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ایک پروجیکٹ کے طور پر نشان زد کی گئی ہے۔
وٹھل سوالیہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’ہم کہاں جائیں گے؟ ہم نے جب حکام سے پوچھا تو انہوں نے کہا، ’جہاں چاہو وہاں چلے جاؤ‘۔‘‘
ان کی ۶۰ سالہ چچی، غلام بائی، سرسالا میں اپنی فیملی کے ساتھ چار دہائیوں سے رہتی چلی آئی ہیں۔ لیکن، آج بھی، گاؤں کے لوگ انہیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ وہ سوال کرتی ہیں، ’’جب اعتماد کی اتنی کمی ہے، تو نئی جگہ پر [اگر ہم یہاں سے گئے تو] ہمیں کیسے قبول کیا جائے گا اور رہنے کی اجازت دی جائے گی؟ اور وہ بھی، کووڈ کے زمانے میں؟ میں یہاں ۴۰ سال سے رہ رہی ہوں، لیکن آج بھی میں ایک ’قابض‘ ہوں۔ اس عمر میں، میں کہاں جاؤں گی؟‘‘
حالانکہ وٹھل اور غلام بائی کے پاس اپنا راشن کارڈ اور ووٹر کارڈ بھی ہے، اور وہ بجلی کا بل بھی ادا کرتے ہیں، پھر بھی انتظامیہ کے لیے انہیں یہاں سے ہٹانا اس لیے آسان ہے کیوں کہ جس زمین پر وہ رہتے ہیں اس کے وہ مالک نہیں ہیں۔
آزادی کے بعد متعدد پالیسیاں بنانے اور زمین کی اصلاح سے متعلق اقدام کے باوجود، سرکاروں نے کمزور برادریوں کے درمیان زمین کی تقسیم کے معاملے میں صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے۔ مہاراشٹر حکومت نے سال ۲۰۱۱ میں گیرن زمین پر ’قبضے‘ کے ریگولرائزیشن کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ’قبضے‘ کا مطلب ہے ۱۹۵۰ کی دہائی سے دلتوں اور دیگر محروم برادریوں کے ذریعے زمین پر قبضہ کر لینا، جب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے دلتوں سے کہا تھا کہ وہ سرکاری زمین کو اپنی تحویل میں لے لیں۔ امبیڈکر کا ماننا تھا کہ اپنی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کے لیے دلتوں کے پاس اپنی زمین کا ہونا ضروری ہے۔
غلام بائی بتاتی ہیں، ’’پہلے جب ہم یہاں آئے تھے، تو اس زمین پر جگہ جگہ جھاڑیاں اور درخت تھے۔ لیکن ہم نے اس زمین پر کام کیا، اسے رہنے اور کاشتکاری کے لائق بنایا۔ اب ہمیں دھکے دے کر نکال دیا جائے گا اور کوئی بچانے نہیں آئے گا۔‘‘
غلام بائی صحیح کہتی ہیں۔
گاؤں میں کسی کو بھی اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ شوبھا چوان کی فیملی کے زندہ بچے لوگوں کو دھمکی دی جا رہی ہے۔ اکتوبر میں اپنے گھروں پر حملے کے بعد، یہ فیملی الگ الگ سمتوں میں بکھر گئی۔ شوبھا اب اپنی دوسری بیٹی کے پاس ہیں، جو یہاں سے ۱۵۰ کلومیٹر دور رہتی ہے۔ کیدار کی لوکیشن کسی کو معلوم نہیں ہے۔ ان کا فون سوئچ آف ہے اور حملے کی اُس رات کے بعد کسی نے بھی ان کو دیکھا نہیں ہے۔ انتیا اس حملے کے بعد کچھ دنوں تک تو اسی گاؤں میں رہیں، لیکن جب لوگ انہیں دشمنی کی نظروں سے دیکھنے لگے تو وہ بھی وہاں سے بھاگ گئیں۔ تاہم، ان میں سے ہر کوئی یہ کیس لڑنا چاہتا ہے۔ کیا انہیں اس کی بھی قیمت چکانی پڑے گی؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
اکتوبر میں جس فیملی پر حملہ ہوا تھا، ان کی شناخت کی حفاظت کے لیے فیملی ممبران کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
اسٹوری کی اس سیریز کو، رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ کے توسط سے پولٹزر سنٹر کی م دد حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز