تین سال کی سُہانی کو اپنی دادی کی گود میں بے سدھ پڑا دیکھ کر، دیہی طبی افسر اُرمیلا دُگّا کہتی ہیں، ’’آپ کو انہیں (ملیریا کی دوا) ہمیشہ شہد یا گڑ جیسی میٹھی چیز کے ساتھ کھانا چاہیے۔‘‘
بچی کو ملیریا کی کڑوی دوا کھلانے میں تین عورتوں کے پیار اور ہنر کی ضرورت پڑتی ہے – بچی کی نانی، ایک دیگر دیہی طبی افسر (آر ایچ او) ساوتری نائک، اور میتانن (آشا کارکن) منکی کچلن۔
اس عمل کی نگرانی کرتے ہوئے، ۳۹ سالہ سینئر آر ایچ او اُرمیلا ایک بڑے رجسٹر میں معاملے کی تفصیلات درج کرتی ہیں۔ دوسری طرف، سامنے کے احاطہ میں بچوں کے کھیلنے کی آواز گونج رہی ہے۔ ان کا عارضی کلینک چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع میں، نومُنج میٹا گاؤں کی ایک آنگن باڑی کے اُس برآمدے میں ہے، جو جزوی طور پر ڈھکا ہوا ہے۔
مہینہ کے ہر دوسرے منگل کو، آنگن واڑی کا ماحول آؤٹ پیشنٹ کلینک (وہ کلینک جہاں علاج کرانے والے مریضوں کو داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی) جیسا ہو جاتا ہے، جہاں بچے ابتدائی حروف یاد کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، اور ان کی مائیں، نوزائیدہ بچے، اور دوسرے لوگ چیک اَپ کے لیے لگی قطار میں پائے جاتے ہیں۔ اُرمیلا اور طبی ملازمین کی ان کی ٹیم تقریباً ۱۰ بجے صبح وہاں پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد، برآمدے میں ایک میز اور بینچ رکھی جاتی ہے؛ وہ بیگ سے رجسٹر، جانچ اور ٹیکہ کاری والے آلات نکال کر، اپنے مریضوں کو دیکھنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
سہانی کا ریپڈ ڈائیگنوسٹک ٹیسٹ (آر ڈی ٹی) ملیریا کی اُن تقریباً ۴۰۰ جانچوں میں سے ایک ہے، جو نارائن پور بلاک کے چھ گاؤوں میں ایک سال میں کی جاتی ہے۔ اُرمیلا اور ان کی معاونین، جس میں ۳۵ سالہ آر ایچ او ساوتری نائک بھی شامل ہیں، اس بلاک کی انچارج ہیں اور یہ سبھی ٹیسٹ وہی کرتی ہیں۔
نارائن پور ضلع کے چیف میڈیکل ہیلتھ آفیسر، ڈاکٹر آنند رام گوٹا کہتے ہیں، ’’ملیریا صحت سے متعلق ہمارے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ خون کے خلیوں اور لیور پر اثر ڈالتا ہے، جس سے اینیمیا ہوتا ہے، اور اس کی وجہ سے جسمانی قوت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے، مزدوری بھی متاثر ہوتی ہے۔ بچے پیدائش کے وقت کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔‘‘
سال ۲۰۲۰ میں، چھتیس گڑھ میں ملیریا سے ۱۸ موتیں ہوئی تھیں، جو ملک کی دوسری ریاستوں کے مقابلے سب سے زیادہ تھیں۔ ۱۰ اموات کے ساتھ مہاراشٹر دوسرے نمبر پر تھا۔ نیشنل ویکٹر بورن ڈیزیز کنٹرول پروگرام کے مطابق، ملیریا کے ۸۰ فیصد معاملے ’آدیواسی، پہاڑی، مشکل گزار اور ناقابل رسا علاقوں میں‘ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اُرمیلا بتاتی ہیں کہ ’’عام طور پر یہاں کے لوگ مچھروں کو بھگانے کے لیے نیم کی پتیاں جلاتے ہیں۔ ہم انہیں بار بار کہتے ہیں کہ سوتے وقت مچھردانی کا استعمال کریں، اور اپنے گھروں کے آس پاس جہاں بھی پانی جمع ہو، اسے سُکھائیں۔ دھواں [نیم کی پتیوں کو جلانے سے اٹھنے والا] مچھروں کو بھگانے میں مدد کرتا ہے، لیکن دھواں ختم ہونے کے بعد وہ واپس لوٹ آتے ہیں۔‘‘
بعد میں اُرمیلا، نارائن پور ضلع کے ۶۴ مراکز میں سے ایک، ہلامی مُنمیٹا کے ذیلی طبی مرکز (ایس ایچ سی) میں، رجسٹروں میں دوسری بار معاملے کی تفصیلات درج کریں گی۔ انہیں رجسٹروں کو اپ ڈیٹ کرنے میں روزانہ تقریباً تین گھنٹے لگتے ہیں، جس میں ہر ٹیسٹ، متعدد ٹیکہ کاری، زچگی سے قبل اور زچگی کے بعد کی جانچ، ملیریا اور ٹی بی کی جانچ، اور بخار، درد کے لیے ابتدائی طبی مدد کی تفصیلات درج کرنی ہوتی ہیں۔
اُرمیلا ایک معاون نرس دائی (اے این ایم) بھی ہیں، جس کے لیے انہوں نے دو سال کی ٹریننگ لی ہے۔ آر ایچ او کے طور پر انہوں نے ریاست کے ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر کے ذریعے منعقد دیگر ٹریننگ کیمپوں میں بھی شرکت کی ہے، جو سال میں تقریباً پانچ بار، ایک سے تین دنوں کے لیے لگائے جاتے ہیں۔
مرد آر ایچ او کو کثیر جہتی طبی ملازم کے طور پر صرف ایک سال کی ٹریننگ لینی پڑتی ہے۔ اُرمیلا کہتی ہیں، ’’یہ صحیح نہیں ہے۔ ہم ایک ہی کام کرتے ہیں، اس لیے ٹریننگ [لیاقت کے طور پر] بھی ایک جیسی ہونی چاہیے۔ اور ایسا کیوں ہے کہ مجھے مریض ’سسٹر‘ کہتے ہیں، لیکن مرد آر ایچ او کو ’ڈاکٹر صاحب‘ کہتے ہیں؟ آپ کو اپنی اسٹوری میں اس کا ذکر کرنا چاہیے!‘‘
اب بچے اپنی کلاسوں میں واپس آ گئے ہیں، اور ابتدائی حروف (ابجد) دہرا رہے ہیں۔ سہانی کو دوا کھانے کے بعد ہلکی نیند میں دیکھ کر، اُرمیلا، سہانی کی دادی سے بات کرنے کے لیے مڑتی ہیں اور گونڈی زبان میں ملیریا کے علاج اور غذائیت کے بارے میں کچھ مشورے دیتی ہیں۔ نارائن پور ضلع کے ۷۸ فیصد رہائشی گونڈ آدیواسی برادری سے ہیں۔
’’میں ان میں سے ایک [گونڈ] ہوں،‘‘ اُرمیلا کہتی ہیں۔ ’’میں گونڈی، ہلبی، چھتیس گڑھی اور ہندی بول سکتی ہوں۔ لوگوں کو اپنی بات سمجھانے کے لیے مجھے ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ مجھے انگریزی بولنے میں تھوڑی دقت ہے، لیکن میں سمجھ سکتی ہوں۔‘‘
انہیں اپنی نوکری میں سب سے زیادہ جو بات پسند آتی ہے، وہ ہے لوگوں کے ساتھ بات چیت۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے اپنے کام کا وہ حصہ پسند ہے جب میں لوگوں سے ملتی ہوں اور ان کے گھر بھی جاتی ہوں۔ میں روزانہ ۲۰ سے ۶۰ لوگوں سے ملتی ہوں۔ مجھے ان کی تشویشوں کو سننا اور ان کی زندگی کے بارے میں جاننا اچھا لگتا ہے۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں لکچر نہیں دیتی، کم از کم مجھے تو ایسا نہیں لگتا!‘‘
دوپہر کے ایک بج چکے ہیں اور اُرمیلا نے صبح بنائی ہوئی روٹی اور موسمی ہری پتہ دار سبزی والا اپنا ٹفن نکالا۔ وہ دوپہر کا کھانا جلد ختم کرنا چاہتی ہیں، تاکہ ان کی ٹیم گھروں کے دورے کے لیے نکل سکے۔ ارمیلا، ساوتری (جو ہلبی آدیواسی برادری سے ہیں) کے ساتھ، بنا گیئر والے اپنے اسکوٹر پر روزانہ تقریباً ۳۰ کلومیٹر کی دوری طے کرتی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ دو لوگوں کا ساتھ ہونا ضروری ہے، کیوں کہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا سفر گھنے جنگلات کے بیچ سے ہوکر طے کرنا پڑتا ہے۔
اس طرح آگے بڑھتے ہوئے، ارمیلا اور ان کی ٹیم اپنے کام کے دوران ۱۰ سے ۱۶ کلومیٹر کے دائرے میں آباد، چھ گاؤوں کے تقریباً ۲۵۰۰ لوگوں کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ وہ جن ۳۹۰ گھروں میں جاتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر گونڈ اور ہلبی آدیواسی ہیں، جب کہ کچھ لوگ دلت برادری کے ہیں۔
ان کا ماہانہ دورہ، جو ’گرامین سواسوتھیہ سووچھتا آہار دیوس‘ (دیہی صحت، صفائی اور غذائیت کا دن) کے نام سے جانا جاتا ہے، مہینہ کی ایک متعینہ تاریخ کو الگ الگ علاقوں میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس دن، ارمیلا اور ان کے معاونین (ایک مرد اور عورت آر ایچ او) ٹیکہ کاری، پیدائش کا رجسٹریشن، اور ماؤں کی صحت کی نگرانی جیسے ۲۸ قومی پروگراموں میں سے کئی کے زمینی کاموں کی جانچ کرتے ہیں۔
کاموں کی ایک طویل فہرست ہے – ارمیلا اور دیگر آر ایچ او ہی صحت عامہ کے نظام کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور سارے کام کرتے ہیں۔ ان پر ہی سپروائزر، سیکٹر کے ڈاکٹر، بلاک میڈیکل آفیسر، اور ہر ضلع کے چیف میڈیکل آفیسر (سی ایم او) انحصار کرتے ہیں۔
سی ایم او، ڈاکٹر گوٹا کہتے ہیں، ’’آر ایچ او ہی صف اول کے طبی ملازمین ہیں، اور وہ ہی صحت کے نظام کا چہرہ ہیں۔ ان کے بغیر ہم بے بس اور لاچار ہیں۔‘‘ وہ آگے کہتے ہیں، ’’نارائن پور ضلع کی ۷۴ خواتین آر ایچ او اور ۶۶ مرد آر ایچ او، زچہ و بچہ کی صحت، دماغی صحت، ٹی بی، جذام اور اینیمیا جیسی بیماریوں پر لگاتار نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کام کبھی نہیں رکتا۔‘‘
کچھ دنوں بعد، ہلامی نونمیٹا سے تقریباً ۱۶ کلومیٹر دور، مالیچور گاؤں کے ’دیہی صحت، صفائی اور غذائیت کے دن‘ ارمیلا تقریباً ۱۵ خواتین کو صلاح دیتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر چھوٹی بچیاں ہیں۔
انتظار کرنے والے مریضوں میں سے ایک ہیں پھول کُوَر کارنگا، جو گنڈا برادری (چھتیس گڑھ کی درج فہرست ذات کے طور پر درج) سے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے جب ارمیلا یہاں فیلڈ وزٹ پر تھیں، تو پھول کُور نے انہیں کمزوری اور تھکان محسوس ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔ ارمیلا کو شک ہوا کہ پھول کور کو اینیمیا ہے، اس لیے انہیں آئرن کی گولیاں لینے کی صلاح دی تھی اور وہ آج آئرن کی گولیاں لینے آئی تھیں۔ دوپہر کے تقریباً ۲ بج چکے ہیں، اور دن کی آخری مریض وہی ہیں۔
قومی خاندانی صحت کے سروے۔۴ (۲۰۱۵-۱۶) کے مطابق، چھتیس گڑھ میں ۱۵ سے ۴۹ سال کی خواتین کی تقریباً آدھی (۴۷ فیصد) آبادی کو اینیمیا ہے، اور اسی کی وجہ سے ریاست کے ۴۲ فیصد بچوں کو بھی اینیمیا ہے۔
ارمیلا کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا سامنا کر رہی کم عمر کی لڑکیوں میں، شادی سے پہلے اس سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ اپنے رجسٹر میں آخری بچی کچھ تفصیل درج کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’لڑکیوں کی شادی ۱۶ یا ۱۷ سال کی عمر میں ہو جاتی ہے، اور وہ ہمارے پاس تب آتی ہیں، جب کچھ دنوں سے انہیں حیض نہیں آ رہا ہوتا ہے اور ان کے حاملہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ میں انہیں زچگی سے قبل، آئرن اور فولک ایسڈ جیسی ضروری تکمیلی دوائیں نہیں دے پاتی۔‘‘
مانع حمل کی صلاح دینا ارمیلا کے کام کا ایک اور بڑا حصہ ہے، اور وہ چاہتی ہیں کہ اس کا زیادہ اثر ہو۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں لڑکیوں کو شادی سے پہلے کبھی دیکھ ہی نہیں پاتی، اس لیے حاملہ ہونے میں دیری کرنا اور دو بچوں کے درمیان فرق رکھنے کے بارے میں بات کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘ ارمیلا نوجوان لڑکیوں سے بات کرنے کے لیے، مہینہ میں کم از کم ایک اسکول جانے کی کوشش کرتی ہیں، اور بڑی عمر کی عورتوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور انہیں اس امید میں صلاح دیتی ہیں کہ جب وہ پانی بھرنے، چارہ اکٹھا کرنے جائیں یا غیر رسمی طور پر ملیں، تو چھوٹی عمر کی لڑکیوں کو کچھ معلومات فراہم کریں۔
ارمیلا نے جب سال ۲۰۰۶ میں دیہی طبی افسر (آر ایچ او) کے طور پر اپنے کام کی شروعات کی تھی، تو پھول کور (جن کی عمر اب ۵۲ سال ہے) پہلی خاتون تھیں، جو حاملہ ہونے سے بچنے کے لیے نس بندی کرانے کے لیے تیار ہوئی تھیں۔ انہوں نے ۱۰ سال میں چار لڑکوں اور ایک لڑکی کو جنم دیا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ان کی بڑھتی فیملی کی وجہ سے کچھ بیگھہ زمین پر دباؤ پڑے گا، وہ مزید حاملہ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ پھول کور یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’میرے آپریشن کا انتظام کرنے سے لیکر مجھے نارائن پور کے ضلع اسپتال لے جانے تک، ارمیلا ہر جگہ میرے ساتھ تھیں۔ وہ میرے ساتھ اسپتال میں رکی بھی رہیں اور اگلے دن مجھے گھر واپس لے آئیں۔‘‘
دونوں خواتین کی دوستی آگے بھی برقرار رہی۔ جب پھول کور کے بیٹوں کی شادی ہوئی اور ان کے پہلے بچوں کی پیدائش ہوئی، تو وہ اپنی دونوں بہوؤں کو ارمیلا کے پاس لے آئیں، تب ارمیلا نے انہیں اگلی بار حاملہ ہونے میں ایک متعینہ فرق رکھنے کی اہمیت سمجھی۔
پھول کور جانے کے لیے تیار ہوتی ہیں، اور اپنی کمر پر ایک چھوٹی تھیلی میں آئرن کی ٹیبلیٹ باندھتے اور اپنی ساڑی کو ٹھیک کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں ہر دو سال میں حاملہ ہو جاتی تھی، اور مجھے معلوم ہے کہ اس کا کیا اثر پڑتا ہے۔‘‘ ان کی دونوں بہوؤں کو کاپر ٹی لگا ہوا ہے، اور دونوں نے دوبارہ حاملہ ہونے سے قبل ۳ سے ۶ سال تک کا انتظار کیا۔
ارمیلا ایک سال میں، ۱۸ سال یا اس سے کم عمر کی غیر شادی شدہ لڑکیوں میں انچاہے حمل کے کم از کم تین معاملے دیکھتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو ان کی مائیں لیکر آتی ہیں اور ان کا جلد از جلد اسقاط حمل کروانا چاہتی ہیں۔ اسقاط حمل عام طور پر ضلع اسپتال میں کیا جاتا ہے۔ ارمیلا کا کہنا ہے کہ وہ ان کی حالت کے بارے میں ان کے ساتھ ’لُکا چھپی‘ کھیلتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے ذریعہ حمل کی شناخت کر لینے پر، وہ غصہ میں اس بات سے انکار کر دیتی ہیں اور سیراہا [مقامی ویدیہ یا حکیم] کے پاس چلی جاتی ہیں، یا وہ مندروں میں جاتی ہیں اور حیض کو ’پھر سے شروع‘ کرنے کے لیے پرارتھنا کرتی ہیں۔‘‘ این ایف ایچ ایس ۔ ۴ کے مطابق، ریاست میں ۴۵ فیصد اسقاط حمل گھر پر ہی کیے جاتے ہیں۔
آر ایچ او سب سے تلخ تبصرہ ان مردوں پر کرتی ہیں، جنہیں وہ یہاں آتے ہوئے کبھی نہیں دیکھتیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ شاید ہی کبھی یہاں [ایس ایچ سی میں] آتے ہیں۔ مرد سوچتے ہیں کہ حمل عورتوں کا مسئلہ ہے۔ کچھ مرد نس بندی کرواتے ہیں، لیکن عام طور پر زیادہ تر مرد اسے خواتین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ [شوہر] اپنی بیویوں کو ذیلی مرکز سے کنڈوم لانے کے لیے بھی بھیج دیتے ہیں!‘‘
ارمیلا کا اندازہ ہے کہ ایک سال میں شاید ان کے دائرہ کار میں بس ایک آدمی ہی نس بندی کرواتا ہے۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’اس سال [۲۰۲۰] میرے گاؤں کے ایک بھی آدمی نے نس بندی نہیں کروائی۔ ہم صرف صلاح دے سکتے ہیں، ہم مجبور نہیں کر سکتے، لیکن امید یہی ہے کہ مستقبل میں اور بھی مرد آگے آئیں گے۔‘‘
شام کے تقریباً ۵ بجنے والے ہیں اور صبح ۱۰ بجے سے شروع ہوا ان کا دن اب ختم ہونے کو ہے۔ وہ ہلامی مُنمیٹا میں اپنے گھر تقریباً اسی وقت لوٹتی ہیں جب ان کے شوہر ۴۰ سالہ کنہیا لال دگا، جوپولس میں ہیں، گھر آتے ہیں۔ اس کے بعد، چھ سال کی بیٹی پلک کے ساتھ بیٹھ کر اس کا ہوم ورک کروانے اور گھر کے کچھ کام کرنے کا وقت ہو جاتا ہے۔
ارمیلا جانتی تھیں کہ بڑی ہوکر وہ اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے کام سے پیار کرتی ہوں، حالانکہ یہ کافی چیلنج بھرا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس کام سے مجھے بہت عزت ملتی ہے۔ میں کسی بھی گاؤں میں جا سکتی ہوں، اور لوگ اپنے گھروں میں میرا استقبال کرتے ہیں اور میری بات سنتے ہیں۔ یہی میرا کام ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز