کرگل کی مین مارکیٹ روڈ پر کچھ آگے چلنے کے بعد ایک پتلی سی گلی نکلتی ہے، جس کے دونوں طرف دکانیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دکان کے باہر رنگ برنگے اسکارف اور دوپٹے لہرا رہے ہیں – اور اندر قسم قسم کی شلوار قمیض، سویٹر، پوشاک و لباس کا کلیکشن، جوتے چپل، بچوں کے کپڑے اور دیگر سامان موجود ہیں۔
یہ کمانڈر مارکیٹ ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق، یہ بازار اس نام سے اس لیے جانا جاتا ہے، کیوں کہ جس زمین پر یہ دکانیں بنی ہوئی ہیں اس کا مالک ایک ’کمانڈر‘ ہے۔ یہاں کی تمام دکاندار شیعہ خواتین ہیں۔
کرگل لداخ کی سرحد کے قریب واقع ہے، اور دونوں طرف سے ہمالیہ سے گھرا ہوا ہے۔ یہ 1947 تک، جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدیں کھنچ گئیں، وسطی ایشیا کی شاہراہِ ریشم کی تجارت کا ایک اہم جنوبی کنارہ تھا۔ اس قصبہ کی کل آبادی (2011 کی مردم شماری کے مطابق) تقریباً 16000 ہے، جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، اور ان کے ساتھ کچھ بدھسٹ اور دو چار سکھ گھرانے آباد ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں تین جنگیں دیکھی ہیں، جن میں سے آخری 1999 میں لڑی گئی۔
اس بازار میں – جس کا نام کمانڈر مارکیٹ بعد میں پڑا – سب سے پہلی دکان ایک عورت نے تقریباً تیس سال پہلے کھولی تھی۔ دکان کی موجودہ مالکن بتاتی ہیں کہ اس کی وجہ سے ان کو کافی مخالفت اور رسوائی جھیلنی پڑی تھی، اسی لیے آج کی دکان مالکنیں ان کا نام نہیں بتانا چاہتیں۔ حالانکہ بعد میں، ان کے عزم اور کامیابی سے متاثر ہوکر، مزید 3-2 عورتوں نے اسی جگہ پر کرایے پر دکانیں لیں۔ اب، اس بازار میں تقریباً 30 دکانیں ہیں، جن میں سے تین کے علاوہ سبھی دکانوں کو عورتیں چلاتی ہیں۔
دس سال پہلے تک بھی کرگل میں کسی عوامی مقام پر کوئی عورت نظر نہیں آتی تھی، لیکن کمانڈر مارکیٹ اب ان کے لیے ایک سنگ میل ہے، بھلے ہی اس کا جشن نہ منایا جاتا ہو۔ ان دکانوں پر بیٹھنے والی نوجوان لڑکیاں اس تبدیلی کا سبب عورتوں میں بڑھتی تعلیم کو بتاتی ہیں (جو 2001 میں تقریباً 42 فیصد سے بڑھ کر 2011 میں 56 فیصد ہو گئی)۔ اس کے علاوہ، دکانوں پر بیٹھنے والی بزرگ خواتین کا کہنا ہے کہ ان کی اقتصادی آزادی کو دیکھ کر مزید عورتوں نے اس بازار کا رخ کیا – کچھ عورتیں پیسہ کمانے کے لیے مجبور ہوکر یہاں آئیں، جب کہ کچھ کو یہاں پہلے دکانداری کرنے والی عورتوں سے حوصلہ ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ کرگل نے اب اس تبدیلی کو تسلیم کر لیا ہے۔
تصویر پر مبنی اس مضمون کے لیے میں نے جب کمانڈر مارکیٹ کا دورہ کیا، تو کچھ عورتوں نے کیمرہ سے بچنے کی کوشش کی، بعض کو اپنی تصویریں شائع ہونے کا خوف لاحق ہوا، اور بعض کی خواہش تھی کہ ان کا پورا نام استعمال نہ کیا جائے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنی کہانیاں خوشی اور فخر کے ساتھ بتانے کو تیار تھیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)