’’ وِکنار ناہیں ہینڈلوم۔ آیوشیہ کاڑھلے تیاچیاور [میں ہتھ کرگھا نہیں بیچوں گا۔ میں نے اس پر اپنی زندگی گزاری ہے]،‘‘ وسنت تامبے کہتے ہیں، اُس سات فٹ لمبے کرگھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جو اُن کے گھر کے بیچ میں کھڑا ہے۔ ’’آپ اس کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا کپڑا بنا سکتے ہیں،‘‘ وہ فخر سے کہتے ہیں۔
ساگوان کی لکڑی سے بنے اس کرگھے پر، تامبے ہر دو ہفتے میں ۶۶ میٹر کپڑا بُنتے ہیں، اور اوسطاً ایک مہینہ میں ۱۳۰ میٹر دھاگے کا استعمال کرتے ہیں، جس کے بعد یہ ہائی کوالٹی والے شرٹ کی سلائی کے لیے چلا جاتا ہے۔ وہ ۶۰ سے زیادہ برسوں سے یہ کام مختلف کرگھوں پر کر رہے ہیں – اور اب تک ۱۰۰۰۰۰ میٹر سے زیادہ کپڑے کی بُنائی کر چکے ہیں۔
ایک لاکھ میٹر کی شروعات نوواری یا نو گز کی ساڑی سے ہوئی تھی۔ اب ۸۲ سال کے ہو چکے تامبے جب ۱۸ سال کے تھے، تب وہ سب سے پہلے رینڈل گاؤں کے ایک کارخانہ میں شاگرد کے طور پر ہتھ کرگھا پر بیٹھے، جہاں انھوں نے سیکھا کہ ساڑی کیسے بنانی ہے۔ ’’ہمیں ایک مہینہ تک کارخانہ [ورکشاپ] میں مفت کام کرنا پڑتا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
جلد ہی، تامبے نے چار گھنٹے میں ایک نوواری (آٹھ میٹر سے تھوڑا زیادہ) بُننا شروع کیا، اور ہر ایک ساڑی سے ۱ء۲۵ روپے کمائے۔ ’’ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں بُنائی کے لیے مقابلہ کرتے۔ ایک ہفتہ میں سب سے زیادہ ۲۱ ساڑیاں بُنی جاتی تھیں،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ۱۹۶۰ اور ۷۰ کی دہائی میں، انھیں اور ان کے ساتھیوں کو ایسے کارناموں کے لیے ۲ روپے کا بونس ملتا تھا۔
کارخانہ کی تربیت ضروری تھی، کیوں کہ نوجوان وسنت کی فیملی میں کوئی بھی بُنکر نہیں تھا۔ اس فیملی کا تعلق دھنگر برادری سے ہے، جو خانہ بدوش ذات کی شکل میں فہرست بند ہے۔ وسنت کے والد، شنکر تامبے، ایک راج مستری کے طور پر کام کرتے تھے، اور ان کی والدہ سونابائی ایک زرعی مزدور اور خاتون خانہ تھیں۔ ’’میں گھروں کی اونچائی سے گرنے سے ڈرتا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے کیوں راج مستری کا کام نہیں کیا۔ ’’اس لیے میں نے کچھ اور کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
تامبے نے دوسری کلاس تک پڑھائی کی، لیکن انھیں اسکول چھوڑنا پڑا کیوں کہ ان کے والدین اس کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ کام کرنے کے لیے اپنے والد کے ساتھ بے ترتیبی سے جانے کے بعد، وہ ایک مقامی سونار کے معاون بن گئے۔ حالانکہ جلد ہی، ان کے گاؤں میں کرگھوں کے آنے سے نوجوان وسنت کارخانوں میں کام کرنے لگے۔
۱۹۶۰ کی دہائی تک، جب فی ساڑی کی شرح بڑھ کر ڈھائی روپے ہو گئی، تب وسنت ایک مہینہ میں ۷۵ روپے کے آس پاس کمانے لگے، اور جب بھی کام ملتا وہ بُنائی کرتے تھے۔ اس آمدنی کو بڑھانے کے لیے، انھوں نے زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۱۹۵۰ کی دہائی میں، کھیتوں پر دن بھر ۱۰ گھنٹے تک مزدوری کرنے کے انھیں چار آنے یا ۲۵ پیسے ملتے تھے۔ ’’۱۹۶۰ میں ہم ۲ روپے میں ایک کلو چاول خریدا کرتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ کھیت سے ارہر کی دال ۶۲ پیسے فی کلو بیچی جاتی تھی۔
۱۹۷۵ میں، کارخانوں کے کرگھے پر ۲۰ سال تک کام کرنے کے بعد، وسنت جو اُس وقت ۳۸ سال کے تھے، کولہاپور ضلع کے ہٹکننگلے تعلقہ کے اپنے گاؤں، رینڈل میں ورکشاپ مالکوں سے دو استعمال شدہ کرگھے خریدے، جن میں سے ہر ایک کی قیمت ۱۰۰۰ روپے تھی۔ اپنے کرگھے پر، وہ مقامی ہتھ کرگھا کوآپریٹو کو بیچ کر ۳ روپے فی ساڑی کما سکتے تھے۔
مزدوری کے بارے میں بات کرتے ہوئے تامبے ۱۹۶۴ کو یاد کرتے ہیں، جب بہتر مزدوری کے لیے بُنکروں نے ہتھ کرگھا مالکوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ تب وہ رینڈل میں ہتھ مگھا کامگار یونین کے صدر تھے۔ ’’ہمارا مطالبہ تھا کہ فی ساڑی ہمیں جو ڈھائی روپے ملتے ہیں، اس کو بڑھایا جائے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ تین مہینے کے احتجاج کے بعد، ہتھ کرگھا مالک نرم پڑے۔ ’’ہم ۵ پیسے کی شرح سے اضافہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے،‘‘ تامبے کہتے ہیں۔ اور بُنی ہوئی ساڑی کو تہہ کرنے کا کام، جو پہلے بُنکروں کے ذریعے کیا جاتا تھا، بُنکروں کے ایک الگ گروپ کو سونپا گیا۔ ’’مزدوروں کو جب تین مہینے تک ادائیگی نہیں کی گئی، تو گاؤں کے کسانوں نے مفت میں اپنی پیداوار تقسیم کرکے ان کی مدد کی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
لیکن ۱۹۷۰ کی دہائی تک، سستے پاورلوم دستیاب ہونے لگے تھے جس کی وجہ سے پورے مہاراشٹر میں سادی سوتی ساڑیوں کی مانگ کم ہونے لگی تھی۔ رینڈل کے ہتھ کرگھا بُنکر سوتی ساڑی کی بُنائی چھوڑ شرٹ کے لیے کپڑا تیار کرنے لگے۔
’’[ہمارے کرگھے پر بنائی گئی] ساڑی عام ہوتی تھی اور ان کا رنگ بھی کچھ دھلائی کے بعد پھیکا پڑ جاتا تھا۔ انھیں کون خریدتا؟‘‘ تامبے سوال کرتے ہیں۔ ۱۹۸۰ کی دہائی تک، رینڈل کی کپڑا رنگائی کرنے والی ورکشاپ (ان میں سے زیادہ تر کارخانہ داروں کی ملکیت والی) کو بھی اِچل کرنجی شہر (رینڈل سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور) میں بڑھتی رنگائی صنعت سے مقابلہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا، جس نے اس پروسیس میں تیزی لانے والی مشینوں اور کیمیاوی رنگوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
تامبے کا اندازہ ہے کہ پہلا پاورلوم ۱۹۷۰ کی شروعات میں رینڈل میں آیا تھا، جسے ایک مقامی تاجر نے ممبئی سے خریدا تھا۔ اس کی لاگت ۵۰۰۰ روپے تھی، وہ یاد کرتے ہیں۔ ان کے بعد، گاؤں کے کچھ دیگر لوگوں نے بھی جلد ہی ساہوکاروں سے قرض لینا شروع کیا اور ممبئی، احمد آباد اور سورت سے پاورلوم خریدنے لگے۔ آج، ایک پاورلوم کی قیمت کم از کم ایک لاکھ روپے ہے اور بنُکروں کا اندازہ ہے کہ ۱۹۶۷۴ لوگوں کی آبادی والے رینڈل گاؤں (مردم شماری ۲۰۰۱) میں ان کی کل تعداد ۷۰۰۰ ہے۔
ہندوستان کی ہتھ کرگھا مردم شماری، ۲۰۰۹-۲۰۱۰ کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر میں اُس سال ۳۴۱۸ بُنکروں کے ساتھ ۴۵۱۱ ہتھ کرگھا تھے، جب کہ مہاراشٹر سرکار کے کوآپریٹو محکمہ، سپلائی اور کپڑا محکمہ کی فروری ۲۰۱۸ کی ایک دستاویز بتاتی ہے کہ پورے مہاراشٹر میں اس وقت ۱۳ لاکھ پاورلوم ہیں۔
اور تامبے سمیت رینڈل میں صرف چار بُنکر ہیں، جو ہتھ کرگھا پر کام کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں
رینڈل کے بُنکر طویل عرصے تک اپنے کپڑے، گاؤں کے کارخانہ داروں کے ذریعے چلائی جا رہی دو کوآپریٹو سوسائٹیز – آٹومیٹک ہینڈلوم کوآپریٹو وِنکر سوسائٹی اور ہتھ مگھ وِنکر کوآپریٹو سوسائٹی – کو بیچتے تھے۔ اس کے بعد ان کپڑوں کو یہاں سے تقریباً ۲۲۰ کلومیٹر دور، سولاپور شہر کی ایک بڑی سوسائٹی کو بیچ دیا جاتا تھا۔
لیکن ہتھ کرگھے سے بنے کپڑے کی مانگ میں کمی کے سبب، رینڈل کی یہ سوسائٹیز ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر میں بند ہو گئیں۔ ایک عمارت کی دو منزلوں میں پھیلے ان کے دفاتر اب بند رہتے ہےیں، اور اس کی ایک منزل اب ایک پرائیویٹ اسکول کو کرایے پر دے دی گئی ہے۔ آس پاس کے گاؤوں اور قصبوں کی دیگر ہتھ کرگھا سوسائٹیز بھی اب بند ہونے لگی ہیں، اس لیے بُنکروں نے رینڈل سے تقریباً ۲۲ کلومیٹر دور، بیلگام ضلع کے چکوڈی تعلقہ کے کوگنولی گاؤں میں واقع، کرناٹک ہینڈلوم ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمٹیڈ کے ایک ذیلی مرکز کو بیچنا شروع کر دیا – جیسا کہ وہ ابھی بھی کرتے ہیں۔
اس کارپوریشن سے، تامبے اور رینڈل کے تین دیگر بُنکروں کو ۳۱ کلو کا تانا بیم، جس کے چاروں طرف ۲۴۰ میٹر کپاس یا پالیسٹر کا دھاگہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے، اور پانچ کلو وزن کا دھاگے کا ایک دیگر رول ملتا ہے۔ ’’میں [اس کا استعمال کرتے ہوئے] جو کپڑا بُنتا ہوں، وہ اچھے معیار کا ہوتا ہے [جس میں دھاگے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے] اور مجھے فی میٹر ۲۸ روپے ملتے ہیں،‘‘ تامبے کہتے ہیں۔ ’’دیگر بُنکروں کو اس سے بھی کم [تقریباً ۱۹ روپے] ملتے ہیں۔‘‘ بُنائی سے ان کی ماہانہ کمائی ۳۰۰۰ روپے سے ۴۰۰۰ روپے کے درمیان ہے، اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک ایکڑ زمین پر گنّے کی کھیتی کرکے اضافی کمائی کرتے ہیں۔
’’ہتھ کرگھے میں بہت سارا جسمانی کام شامل ہوتا ہے، اور زیادہ تر لوگ اس اسے کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ پاورلوم میں آپ کو بس ایک مشین چلانی پڑتی ہے،‘‘ تامبے کہتے ہیں۔ ’’ایک اضافی پیشہ ضروری ہے۔ اتنی کم آمدنی پر ہم گزارہ کیسے کریں گے؟‘‘
وسنت کی بیوی، ۷۵ سالہ وِمل نے ہتھ کرگھا چلانا نہیں سیکھا۔ رینڈل میں، صرف مرد ہی کرگھے پر کام کرتے ہیں، جب کہ عورتیں چرخے جیسی مشین پر کام کرتی ہیں، جو ایک دائرہ کار پِرن یا محور کے چاروں طرف بانا کے دھاگے کو لپیٹتی ہے۔ (ہندوستان کی ہتھ کرگھا شماری ۲۰۰۹-۲۰۱۰ کے مطابق، ملک کے ۳۸ لاکھ ۴۷ ہزار بالغ بُنکروں اور متعلقہ کاریگروں میں سے ۷۷ فیصد عورتیں اور ۲۳ فیصد مرد ہیں)۔ ’’میرے پاس گھر کا بہت کام ہوتا تھا، اور میں ہاتھ سے دھاگے کاتتی تھی،‘‘ وِمل کہتی ہیں، جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ہتھ کرگھا کیوں نہیں چلاتی ہیں۔ انھوں نے زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کیا، لیکن بڑھتی عمر کے سبب ایک دہائی پہلے یہ کام کرنا بند کر دیا۔
ومل کو ۲۵ پِرن لپیٹنے میں تقریباً تین گھنٹے لگتے ہیں، اور ان کے شوہر کو ایک میٹر کپڑا بُننے کے لیے تین پِرن کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے وہ فرش پر بیٹھتی تھیں، لیکن پچھلے سال ایک حادثہ میں پیر ٹوٹ جانے کی وجہ سے اب وہ کرسی پر بیٹھتی ہیں۔
ان کے دو بیٹوں کی موت بچپن میں ہی ہو گئی تھی، اور ایک بیٹی، جس کی شادی ہو چکی ہے، سلائی کا کام کرتی ہے۔ تامبے نے ۱۹۸۰ کی دہائی کی شروعات میں جو دوسرا ہتھ کرگھا خریدا تھا، اسے ایک دروازہ بنانے کے لیے توڑ دیا۔ یہ ایک ایسی دنیا کی طرف جا رہا ہے، جو دھندلی ہو چکی ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)