امیروں کا اسٹائل سینس، ٹرینڈنگ فیشن، اور سیکس۔

مہنگے سفر، بجٹ والے سفر، یا لگاتار سفر سے متعلق اپ ڈیٹس!

میمس، ٹرینڈنگ ڈانس اسٹیپس کا فطور، مذاقیہ اور کبھی کبھی تو بہت ڈراؤنے فلٹرز کا استعمال۔

آن لائن اسی طرح کے پوسٹ سب سے زیادہ وائرل ہوتے ہیں۔ پاری، ایسا کوئی مواد پوسٹ نہیں کرتا۔ پھر بھی، ہم نے سوشل میڈیا کی اس الجھی ہوئی دنیا میں اپنی ایک جگہ بنا لی ہے، جہاں قارئین کا ایک طبقہ موجود ہے۔ یہ ہوا کیسے؟ اسی تکنیک کے سہارے جو آسانی سے دستیاب ہے، لیکن جس کا حقیقت کے ساتھ مضبوط کہانی کو پیش کرنے کے لیے بہت کم استعمال ہوتا ہے۔

سال ۲۰۲۳ گزر چکا ہے، اور اس موقع پر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے کام سے متعلق قارئین کے ردعمل کو آپ جانیں (اور اس چھوٹی سی ویڈیو کلپ کو بھی دیکھیں)۔

’’ بانسواڑہ میں عورتوں کو کرسی پر بیٹھنے سے کون روکتا ہے؟ ‘‘ سے متعلق پوسٹ کی تعریف لاکھوں لوگوں نے کی۔ نیلانجنا نندی کی یہ اسٹوری راجستھان کی اُن عورتوں کے بارے میں ہے جو مردوں یا بزرگوں کے سامنے کبھی کرسی یا کسی اونچی جگہ پر نہیں بیٹھیں۔ انسٹاگرام پر اس ریل کو تقریباً سات لاکھ بار دیکھا گیا۔ سینکڑوں خواتین نے کمنٹ کرکے بتایا کہ انہوں نے بھی ان سب کا سامنا کیا ہے۔ وہیں کچھ لوگوں نے مانا کہ کیسے وہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے، لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ سب محض ایک خواب ہے۔ قاری ملکہ کمار نے کمنٹ کیا، ’’یہ سب دیکھ پانے کے لیے بہت باریک نظر چاہیے۔‘‘ روزمرہ کے عام تجربات کو درج کرنے والی صحافت کی شاید یہی سب سے بڑی تعریف اور حصولیابی ہے۔

ایسی تعریفیں ہمیں آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہیں اور ہمارے قارئین ایسا کئی طرح سے کرتے ہیں: ان کا یہ بتانا کہ انہوں نے ان اسٹوریز سے کتنا کچھ سیکھا ہے اور پاری کو مالی مدد بھیجتے رہنا، تاکہ ہم آزاد اور تحقیقی صحافت کے پلیٹ فارم کے طور پر کام جاری رکھ سکیں، یہ تمام کوششیں ہمارے لیے کافی مددگار ہیں۔

مدورئی میں چنبیلی کے پھولوں کے بازار کتنے رنگ برنگے اور رونق افروز ہوتے ہیں، اس کے بارے میں اپرنا کارتکیئن کی ایک ویڈیو اسٹوری نے دنیا بھر کے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ نمرتا کلپاڑی کہتی ہیں، ’’کتنا خوبصورت لکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں یہیں سے اُن بازاروں کو دیکھ سکتی ہوں اور چنبیلی کی خوشبو کو سونگھ سکتی ہیں۔‘‘ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہماری اسٹوریز کے بہانے لوگ ایسی جگہوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اپنی روزمرہ کی زندگی کے تجربات شیئر کرنے والے لوگوں کے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔

انسٹاگرام پر ہمارے جس ویڈیو کو اب تک سب سے زیادہ بار دیکھا گیا ہے وہ ایک ۳۰ سیکنڈ کا کلپ ہے، جس میں پونے میں کچرا بیننے کا کام کرنے والی ایک عورت، سُمن مورے، الفاظ کی طاقت کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ لوگ کیوں ان جیسی عورتوں کو ’’کچرے والی‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں، جب کہ وہ ان کی پھیلائی ہوئی گندگی کو صاف کرتی ہیں۔ اس ویڈیو کلپ کو ۱۲ لاکھ بار دیکھا گیا ہے، جہاں لوگوں نے سماج کی غیر حساسیت اور لاپروائی پر ان کے سوال کرنے پر ان کی تعریف کی ہے۔ ایک قاری نے یہاں تک کہا، ’’میں یہ قبول کروں گا کہ میں نے بھی اس لفظ [کچرے والی] کا استعمال کیا ہے۔ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پس ماندہ طبقات کے تجربات پر مبنی صحافت ایک بالغ اور حساس سماج کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔

ہمارے تعلیمی پروگرام، جہاں ہم طلباء کی سمجھ بڑھانے کے لیے ان اسٹوریز کا استعمال کرتے ہیں، کے جواب میں ایک ٹوئٹر یوزر @Vishnusayswhat نے کہا، ’’جب ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کیوں ایک آدمی دوسرے کے مقابلے میں پس ماندہ ہے اور اس کا اس بات سے بہت کم لینا دینا ہوتا ہے کہ وہ آدمی کتنی محنت کرتا ہے۔ پھر آپ ہندوستان کو تھوڑا اور بہتر طریقے سے سمجھ پاتے ہیں۔‘‘

اور ہمارا پیغام بہت دور تک پہنچ رہا ہے – بالی ووڈ آئیکن زینت امان نے اپنے انسٹاگرام پروفائل پر پاری کے کام کو ہائی لائٹ کرتے ہوئے کہا، ’’میں دیکھتی ہوں کہ قومی دھارے سے دیہی زندگی کی حقیقی کہانیاں غائب ہوتی جا رہی ہیں اور میں جانتی ہوں کہ کسی سیلیبریٹی کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی اخباروں کے بہت بڑے حصے پر چھائی رہتی ہیں۔‘‘ حالانکہ، اگر اپنی پہنچ کا صحیح سمت میں استعمال کریں، تو ایک سیلیبریٹی کی طاقت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی اس پوسٹ کے ۲۴ گھنٹے کے اندر ہم سے کئی ہزار فالوورز جڑے۔ ایک اور خوشگوار حیرانی کی بات یہ ہے کہ ٹوئٹر پر ہمارے فالوورز میں سے ایک ہالی ووڈ ایکٹر اور انٹرٹینر جان سینا بھی ہیں۔

لیکن سب سے زیادہ خوشی تو تب ہوتی ہے، جب ہماری اسٹوریز سے جڑے لوگوں کو معاشرے سے مدد ملتی ہے۔ ہمیں ان کی دعاؤں سے بھرپور خوشی ملتی ہے۔ ہماری ایک اسٹوری ، جس میں ہم نے بتایا تھا کہ کیسے بزرگ کسان سُبّیّا اور دیومّا اپنے علاج کے خرچ تلے دبے ہوئے ہیں، پڑھ کر قارئین نے ہمیں اتنے پیسے بھیجے کہ اس سے نہ صرف ہم نے ان کے تمام طبی اخراجات پورے کر دیے، بلکہ ان کی بیٹی کی شادی میں بھی تعاون کیا۔ ورشا کدم ایک ہونہار نوجوان ایتھلیٹ ہیں۔ فیملی کی خستہ مالی حالت اور ریاست کی طرف سے کوئی مدد نہ ملنے پر ان کے لیے اپنے خواب کو پورا کر پانا مشکل ہو گیا۔ قارئین نے پیسے، اسپورٹس کٹ بھیج کر اور یہاں تک کہ ٹریننگ کی پیشکش کرکے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی۔

انٹرنیٹ بھلے ہی اپنی بے رحمی اور غیر حساسیت کے لیے مشہور ہو، لیکن ہمارے قارئین نے ہمیں بتایا کہ اس دنیا میں حساسیت اب بھی موجود ہے۔

اگر آپ ہمیں پہلے سے فالو نہیں کر رہے ہیں، تو نیچے دیے گئے سوشل میڈیا ہینڈل پر جائیں اور ہمیں فالو کریں۔ ہم ہندی، تمل اور اردو میں بھی دستیاب ہیں۔

انسٹاگرام
ٹوئٹر
فیس بک
لنکڈ ان

پاری کی سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ بطور رضاکار (والنٹیئر) جڑنے کے لیے ہمیں [email protected] پر لکھیں۔

اگر آپ کو ہمارا کام پسند ہے، اور آپ پاری کی مدد کرنا چاہتے ہیں، تو براہ کرم ہم سے [email protected] پر رابطہ کریں۔ ہمارے ساتھ کام کرنے کی خواہش رکھنے والے فری لانس اور آزاد قلم کاروں، نامہ نگاروں، فوٹوگرافروں، فلم سازوں، ترجمہ نگاروں، ایڈیٹروں، خاکہ نگاروں اور محققین کا خیر مقدم ہے۔

پاری ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے اور ہم ان لوگوں کی مالی مدد پر منحصر ہیں جو ہماری کثیر لسانی آن لائن ویب سائٹ اور آرکائیو کو پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ پاری کی مالی مدد کرنا چاہتے ہیں، تو براہ کرم یہاں کلک کریں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique