جے پور ہائی کورٹ کا احاطہ کافی خوشگوار ہے۔ اس کے باغ میں ایک ایسا عنصر ہے جو راجستھان میں بہت سے لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ یہ شاید ملک میں کسی عدالت کا واحد احاطہ ہے جس میں ’قانون ساز منو‘ کا مجسمہ نصب ہے (کور فوٹو دیکھیں)۔

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ’منو‘ نامی کسی فرد کا کبھی کوئی وجود تھا۔ ان کا مجسمہ مصور کے تخیل کا نتیجہ تھا۔ یہ ایک محدود تخیل ثابت ہوا۔ منو یہاں سلولائڈ (فلموں) کے ’رشی‘ کی رسمی تصویر میں فٹ بیٹھتے ہیں۔

اساطیری روایت کے مطابق اس نام کے ایک شخص نے منو اسمرتی لکھی تھی۔ اسمرتیاں دراصل وہ اصول ہیں، جنہیں برہمن صدیوں پہلے معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ وہ اصول تھے جو ذات پات کے شدید امتیازات پر مبنی تھے۔ بہت سی ایسی اسمرتیاں تھیں، جو عموماً ۲۰۰  قبل مسیح اور ۱۰۰۰ عیسوی کے درمیان وجود میں آئی تھیں۔ انہیں کئی مصنفین نے ایک طویل عرصے میں مرتب کیا تھا۔ ان میں سے سب سے مشہور منو اسمرتی ہے، جواس لیے غیر معمولی ہے کیونکہ یہ ایک ہی جرم کے لیے مختلف ذاتوں پر سزا کے مختلف معیارات طے کرتی ہے۔

اس اسمرتی میں پسماندہ ذاتوں کی زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ ’’کسی شُودر کے قتل کے پرائشچت (کفارہ)‘‘ کو ہی لے لیں۔ یہ پرائشچت ’’کسی مینڈک، کتے، اُلّو یا کوے‘‘ کے قتل کے پرائشچت کے برابر ہے۔ وہیں ’’کسی نیک شودر‘‘ کے قتل کے لیے زیادہ سے زیادہ کسی برہمن کے قتل کے لیے طے شدہ پرائشچت کا ۱۶واں حصہ ادا کرنا پڑتا تھا۔

قانون کی نظر میں مساوات پر مبنی نظام میں شاید ہی اس کی تقلید کی ضرورت ہو۔ لیکن راجستھان کے دلت اپنے استحصال کی اس علامت کی عدالت کے احاطہ میں موجودگی سے ناراض ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ہندوستان کے آئین ساز کو احاطے کے اندر کوئی جگہ نہیں ملی ہے۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا مجسمہ سڑک کے کنارے نصب ہے اور اس کا رخ ٹریفک کی طرف ہے۔ جبکہ منو عدالت میں آنے والوں پر پورے جاہ و جلال کے ساتھ نظر ڈالتے ہیں۔

The statue of “Manu, the Law Giver” outside the High Court in Jaipur
PHOTO • P. Sainath
An Ambedkar statue stands at the street corner facing the traffic
PHOTO • P. Sainath

جے پور ہائی کورٹ میں: منو کا مجسمہ پورے جاہ و جلال کے ساتھ عدالت (بائیں) میں آنے والے تمام لوگوں پر نگاہیں ڈالتا ہے۔ سڑک کے کنارے بابا صاحب امبیڈکر کا مجسمہ جس کا رخ  ٹریفک کی طرف ہے (دائیں)

راجستھان منو کے نظریات پر کھرا اترا ہے۔ اس ریاست میں اوسطاً ہر ۶۰ گھنٹے میں ایک دلت عورت کی عصمت دری ہوتی ہے۔ ہر نو دن میں ایک دلت کا قتل کیا جاتا ہے۔ ہر ۶۵ گھنٹے میں ایک دلت دردناک گزند کا شکار ہوتا ہے۔ ہر پانچ دن میں کسی دلت کنبے کا گھر یا ان کے املاک کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ اور ہر چار گھنٹے میں ’آئی پی سی‘ (انڈین پینل کوڈ) کی دیگر دفعات میں شکایت کا اندراج ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے قتل، عصمت دری، آتش زنی یا شدید گزند کے علاوہ دیگر شکایات کا اندراج۔

مجرموں کو شاید ہی کبھی سزائیں ملتی ہیں۔ سزا کی شرح ۲ سے ۳ فیصد کے درمیان ہے۔ یہی نہیں، دلتوں کے خلاف ہونے والے بہت سے جرائم کبھی عدالتی کٹہرے تک پہنچتے ہی نہیں۔

ایسی لاتعداد شکایات ہیں جن کو ’ایف آر‘ (حتمی رپورٹس) کے ذریعہ بند اور دفن کر دیا جاتا ہے۔ حقیقی اور سنگین مقدمات اکثر دبا دیے جاتے ہیں۔

اجمیر ضلع کے ایک گاؤں میں بھنوری دیوی کی بیٹی کی عصمت دری کی گئی تھی، وہ کہتی ہیں، ’’مسئلہ گاؤں سے ہی شروع ہوتا ہے۔ گاؤں کے لوگ ذات پنچایت بلاتے ہیں اور ظلم کے شکار لوگوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ اپنے حملہ آوروں سے صلح کر لیں۔ وہ کہتے ہیں: ’پولیس کا دروازہ کیوں کھٹکھٹانا؟ ہم لوگ خود ہی مسئلہ کو حل کر لیں گے‘۔‘‘

مسئلے کے حل کا مطلب عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ظالموں کے سامنے مظلوم ہتھیار ڈال دے۔ بھنوری کو پولیس کے پاس جانے سے روک دیا گیا تھا۔

بہرحال، کسی دلت یا آدیواسی کا تھانے میں داخل ہونا اپنے آپ میں خطرے کو دعوت دینا ہے۔ جب وہ وہاں جاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ بھرت پور ضلع کے کُمہیر گاؤں میں، تقریباً ۲۰ آوازیں ایک ساتھ جواب دیتی ہیں: ’’دو سو بیس روپے داخلہ فیس۔ اور اگر آپ اپنی شکایت پر ان سے  کارروائی چاہتے ہیں تو اس سے کئی گنا زیادہ رقم دینی پڑتی ہے۔‘‘

جب کوئی اونچی ذات کا شخص کسی دلت پر حملہ کرتا ہے، تو پولیس حملے کے شکار شخص کو شکایت درج کرنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہری رام کہتے ہیں، ’’وہ ہم سے پوچھیں گے، کیا؟ باپ بیٹے کو نہیں مارتے ہیں کیا؟ بھائی بھائی کو نہیں مارتے ہیں کیا؟ تو، اسے بھول جاؤ اور شکایت واپس لے لو۔‘‘

رام کھلاڑی ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایک اور مسئلہ ہے، پولیس دوسری طرف سے بھی پیسے لیتی ہے۔ اگر وہ زیادہ پیسے دیتے ہیں، تو ہمارا معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ ہمارے لوگ غریب ہیں اور اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘ لہٰذا، آپ جو ۲۰۰۰ سے ۵۰۰۰ روپے ادا کر سکتے ہیں، اسے کھو دیتے ہیں۔

اس کے بعد تفتیش کرنے آیا پولیس اہلکار شکایت کنندہ کو ہی گرفتار کر سکتا ہے۔ اگر مؤخر الذکر کوئی دلت ہے جس نے کسی اونچی ذات والے کے خلاف شکایت درج کرائی ہے، تو اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کانسٹیبل کا تعلق اکثر بڑی ذات سے ہوتا ہے۔

’’ایک بار جب اونچی ذات کے لوگوں نے مجھ پر حملہ کیا، تو ڈی آئی جی نے میرے دروازے کے باہر ایک پولیس اہلکار کو تعینات کر دیا تھا،‘‘ اجمیر میں بھنوری کہتی ہیں۔ ’’وہ حولدار اپنا سارا وقت یادوؤں کے گھر میں شراب نوشی اور کھانے پینے میں گزارتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے انہیں مجھ سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں بھی بتایا۔ دوسرے موقع پر میرے شوہر کو بری طرح مارا پیٹا گیا۔ میں تنہا تھانے گئی۔ انہوں نے ایف آئی آر تک درج نہیں کی اور مجھ سے بدسلوکی کرنے لگے: ’ایک عورت (اور ایک دلت) ہونے کے باوجود تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟‘ وہ بہت زیادہ غصے میں تھے۔‘‘

کُمہیر میں چنی لال جاٹو اس کی وضاحت کرتے ہیں: ’’سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے اختیارات کسی پولیس کانسٹیبل کے برابر بھی نہیں ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ کانسٹیبل ’’ہمیں بناتا یا بگاڑتا ہے۔ جج دوبارہ قانون سازی نہیں کر سکتے اور انہیں فریقین کے ماہر وکلاء کے دلائل سننے پڑتے ہیں۔ یہاں ایک حولدار اپنے قوانین خود بناتا ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘‘

Chunni Lal Jatav on right, with friends in Kunher village. Three men sitting in a house
PHOTO • P. Sainath

کُمہیر کے چنی لال جاٹو (دائیں) متانت سے کہتے ہیں: ’سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے اختیارات کسی پولیس کانسٹیبل کے برابر بھی نہیں ہیں‘

کافی جدوجہد کے بعد اگر ایف آئی آر درج کر لی گئی تب بھی نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں، جو ’’داخلہ فیس‘‘ اور دیگر ادا کردہ رقوم کے علاوہ ہے۔ پولیس گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے میں تاخیر کرتی ہے۔ بھنوری کہتی ہیں، ’’وہ کچھ ملزمان کو جان بوجھ کر گرفتار نہیں کرتے ہیں۔‘‘ انہیں صرف ’مفرور‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پولیس کا موقف یہ ہوتا ہے کہ ان کی گرفتاری کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

ہم نے بہت سے گاؤوں میں کئی موقعوں پر ’’مفروروں‘‘ کو آزادانہ گھومتے پھرتے دیکھا۔ گواہوں کے بیانات درج کرنے میں سرد مہری خطرناک تاخیر کا باعث ہے۔

ایسے حالات گاؤں میں دلتوں کو ان کے حملہ آوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، جو اکثر انہیں اپنے مقدمے واپس لینے اور ان سے صلح کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ دھول پور ضلع کے نکسوڑا میں اونچی ذات کے لوگوں نے رامیشور جاٹو پر عجیب و غریب تشدد کیا تھا۔ انہوں نے ان کی ناک میں سوراخ کیا اور ان کے نتھنوں میں ایک میٹر لمبے اور دو ملی میٹر موٹے جوٹ کے دو دھاگوں کی نکیل ڈال دی تھی۔ پھر اس نکیل سے پکڑ کر گاؤں کے چاروں طرف ان کا پریڈ کرایا تھا۔

میڈیا کی تمام تر توجہ کے باوجود اس معاملے کے سبھی گواہان، بشمول رامیشور کے والد، مانگی لال اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے ہیں۔ یہی نہیں، مظلوم نے خود ان لوگوں کو بری کر دیا ہے جن پر انہوں زیادتی کے الزامات عائد کیے تھے۔

وجہ؟ ’’ہمیں اسی گاؤں میں رہنا ہے،‘‘ مانگی لال کہتے ہیں۔ ’’ہماری حفاظت کون کرے گا؟ ہم خوف سے مرے جا رہے ہیں۔‘‘

Mangi Lai Jatav and his wife in Naksoda village in Dholpur district
PHOTO • P. Sainath

نکسوڑا گاؤں میں ایک دلت کے خلاف تشدد کے ایک معاملے میں، مظلوم کے گواہ بشمول ان کے والد مانگی لال (دائیں)، اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے تھے۔ ’ہمیں اسی گاؤں میں رہنا ہے‘، وہ کہتے ہیں۔ ’ہماری حفاظت کون کرے گا؟‘

سینئر ایڈووکیٹ بنور باگڑی، جو خود ایک دلت ہیں، نے مجھے جے پور کی عدالت میں بتایا، ’’کسی بھی ظلم و زیادتی کے معاملے میں بہت جلد کارروائی کی جانی چاہیے۔ اگر اس میں چھ ماہ سے زیادہ کی تاخیر ہو جائے تو شاید ہی سزا کا کوئی امکان باقی رہتا ہے۔ گواہوں کو گاؤں میں دہشت زدہ کیا جا سکتا ہے اور وہ اپنے بیان سے منحرف ہو سکتے ہیں۔‘‘

گواہوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ علاوہ ازیں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے متعصب شواہد میں مزید دھاندلی کر دی جاتی ہے، کیونکہ گاؤں میں اونچی ذات کا گروپ مقامی پولیس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتا ہے۔

اگر مقدمہ آگے نہیں بڑھتا تو اس کے لیے وکلاء ذمہ دار ہوتے ہیں۔ چنی لال جاٹو کہتے ہیں، ’’تمام وکیل خطرناک ہوتے ہیں۔ آپ کا سامنا کسی ایسے وکیل سے ہوسکتا ہے جو آپ کے دشمن کے ساتھ سودا طے کرلے۔ اگر اس کا سودا طے ہو گیا، تو آپ کا کام تمام ہوگیا۔‘‘

اس کے علاوہ اخراجات حقیقی مسئلہ ہیں۔ جے پور میں ہائی کورٹ کے چند دلت وکیلوں میں سے ایک چیتن بیروا کہتے ہیں، ’’قانونی امداد کی ایک اسکیم موجود ہے، لیکن یہ بہت پیچیدہ ہے۔ فارم میں آپ کی سالانہ آمدنی جیسی تفصیلات درج کرنی ہوتی ہے۔ یومیہ اور موسمی اجرت پر کام کرنے والے بہت سے دلتوں کے لیے یہ الجھن کا باعث ہے۔ ساتھ میں اپنے حقوق سے ناواقفیت کے باعث بہت سے لوگ امدادی فنڈ کے بارے میں جانتے ہی نہیں۔‘‘

قانونی برادری میں دلتوں کی کم نمائندگی بھی آڑے آتی ہے۔ جے پور کی عدالت میں تقریباً ۱۲۰۰ وکیل ہیں، جن میں سے تقریباً آٹھ دلت ہیں۔ ادے پور میں تقریباً ۴۵۰ وکیلوں میں سے نو دلت ہیں۔ اور گنگا نگر میں، ۴۳۵ میں سے چھ دلت ہیں۔ اعلیٰ سطح پر نمائندگی بہت ہی کم ہے۔ ہائی کورٹ میں درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی جج نہیں ہے۔

راجستھان کی عدالتوں میں دلت افسران یا منصف موجود ہیں، لیکن کمہیر کے چنی لال کہتے ہیں، ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ’’ان کی تعداد بہت کم ہے اور اس پر طرہ یہ کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے ہیں، وہ اپنی پہچان بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

جب کوئی مقدمہ عدالت میں پہنچتا ہے تو وہ پیشکار کی نظر سے ہو کر گزرتا ہے۔ مجھے کئی جگہوں پر بتایا گیا تھا، ’’اگر اسے رشوت نہیں دی گئی، تو آپ اپنی تاریخوں کے لیے پریشان ہو کر جائیں گے۔‘‘ اور ویسے بھی، ’’سارا نظام ہی جاگیردارانہ ہے،‘‘ چنی لال کہتے ہیں۔ ’’اسی لیے اس میں پیشکار کی بھی اپنی حصہ داری ہوتی ہے۔ متعدد مجسٹریٹوں کے دفاتر میں تمام عدالتی افسران بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں، جس کے بلوں کی ادائیگی پیشکار کرتا ہے۔ میں نے حال ہی میں ان صحافیوں کے سامنے اس کا انکشاف کیا جنہوں نے اس کے بارے میں لکھا تھا۔

اور آخر میں سزا کی شرح انتہائی کم  ہوتی ہے۔ لیکن یہ بس اتنا ہی نہیں ہے۔

جے پور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل پریم کرشن کہتے ہیں، ’’آپ کے حق میں اچھا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے حکام کا رویہ مایوس کن ہوتا ہے۔‘‘ پریم کرشن پیپلز یونین فار سول لبرٹیز، راجستھان کے صدر بھی ہیں۔ ’’درجہ فہرست ذاتوں کے معاملے میں معاشی نا اہلی اور سیاسی تنظیم دونوں کی کمی ہے۔ یہاں تک کہ دلت سرپنچ بھی قانونی نظام میں پھنسے ہوئے ہیں جس کا وہ اندازہ نہیں کر سکتے۔‘‘

Anju Phulwaria, the persecuted sarpanch, standing outside her house
PHOTO • P. Sainath

راہولی میں معطل دلت سرپنچ انجو پھلواریا کو اپنے مقدمہ کے سلسلے میں ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد مالی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے

ٹونک ضلع کے راہولی کی معطل سرپنچ انجو پھلواریا نے اپنا مقدمہ لڑنے میں دسیوں ہزارروپے خرچ کیے۔ اب انہیں مالی تباہی کا سامنا ہے۔ ’’ہم نے اپنی لڑکیوں کو ایک اچھے پرائیویٹ اسکول سے نکال کر سرکاری اسکول میں ڈال دیا ہے۔‘‘ یہ وہی اسکول ہے جس کے اساتذہ طلباء کو دلت املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے اکسانے کے ذمہ دار تھے۔

نکسوڑا میں منگی لال نے ناک میں نکیل کسنے کے مقدمے میں ۳۰ ہزار روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ اس مقدمہ میں انہوں نے اور ان کے بیٹے نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ ان کے کنبے نے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی چھوٹی سی زمین کا ایک تہائی حصہ بیچ دیا ہے۔

راجستھان کے نئے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت ایسے معاملات میں کچھ تبدیلی کے خواہشمند دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ’ایف آر‘ (حتمی رپورٹ یا بند مقدمات) کا رینڈم سروے کرانے پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے جے پور میں مجھے بتایا کہ اگر جان بوجھ کر معاملات کو چھپانے کی کوشش کا پتہ چلا، ’’تو تحقیقات کو کمزور کرنے والے قصورواروں کو سزا دی جائے گی۔‘‘ گہلوت پنچایت قوانین میں بھی ترمیم کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ ’’اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کمزور طبقات کے لوگوں کو سرپنچ جیسے عہدوں سے غلط طریقے سے معزول نہ کیا جائے۔‘‘

انجو پھلواریا جیسے چند سرپنچوں کو درحقیقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور حکومت میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس عمل کو الٹ کر گہلوت سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن یہ ان کے سامنے ایک بہت بڑا اور مشکل کام ہے۔ حکومتی نظام کی ساکھ کبھی بھی اتنی کمزور نہیں تھی۔

رام کھلاڑی کہتے ہیں، ’’ہمیں قانونی یا عدالتی عمل پر ذرا بھی بھروسہ نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قانون بڑے لوگوں کے لیے ہے۔‘‘

درحقیقت یہ راجستھان ہے، جہاں عدالت کے اندر منو کا ایک لمبا سایہ موجود ہے۔ اور جہاں امبیڈکر باہری آدمی ہیں۔

دو حصوں پر مشتمل اس اسٹوری میں شامل ۱۹۹۱-۹۶ کے دوران کے جرائم کے اعداد و شمار قومی کمیشن برائے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی راجستھان کے لیے ۱۹۹۸ کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں۔ تب سے اب تک ان میں سے کئی اعداد وشمار افسوس ناک حد تک تبدیل ہو چکے ہوں گے۔

دو حصوں پر مشتمل یہ اسٹوری سب سے پہلے ۱۱ جولائی ۱۹۹۹ کو دی ہندو میں شائع ہوئی تھی۔ اس اسٹوری کو انسانی حقوق کی صحافت کے لیے پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل گلوبل ایوارڈ سے اس کے افتتاحی سال ۲۰۰۰ میں نوازا گیا تھا۔

مترجم: شفیق عالم

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam