رام کرشن ریڈی کرشنا ضلع کے وڈلامنو گاؤں میں لیز (پٹّہ) پر لی گئی ۵ء۲ ایکڑ زمین پر مکئی کی کھیتی کرتے ہیں۔ انہوں نے اور آندھرا پردیش کے اگیری پلّے منڈل کے اس گاؤں کے آٹھ دیگر کسانوں نے حیدرآباد میں واقع کمپنی آئی ایم ایل سیڈز پرائیویٹ لمیٹیڈ کو بیج فروخت کرنے کے لیے کل ۳۰ ایکڑ زمین پر مکئی کی کھیتی کی تھی۔ ’’ہم نے ستمبر ۲۰۱۶ میں بوائی کی اور مارچ ۲۰۱۷ میں بیج فروخت کیے [تقریباً ۸۰ ٹن]۔ اس کے بعد ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن کمپنی نے ابھی تک ہم نو کسانوں کے ۱۰ لاکھ سے زیادہ روپے کی ادائیگی نہیں کی ہے،‘‘ ۴۵ سالہ رام کرشن کہتے ہیں۔

اس تجارت میں کمپنی ہر سال ستمبر کے آس پاس کسانوں کو ہائبرڈ بیج فراہم کرتی ہے۔ یہ بیج کاشتکار اگاتے ہیں اور اگلے سال مارچ میں بیج کی اپنی پیداوار کمپنی کو واپس کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کمپنی ایک خاص منافع پر وہ بیج کسانوں کو بازار میں فروخت کرتی ہے۔ بیج کسانوں کی کچھ ادائیگیاں کمپنی سے کیڑے مار دوائیں، جراثیم کش ادویات کی شکل میں اور یہاں تک کہ ۲۴ سے ۳۰ فیصد سالانہ شرح سود پر حاصل قرضوں کی واپسی کی شکل میں ہوتی ہیں۔ قرض (قرض جمع سود) کی رقم کسانوں کو ملنے والی حتمی رقم سے کاٹ لی جاتی ہے۔

کمپنی کو مارچ کے آخر تک کسانوں کو رقم کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے، لیکن ادائیگی کی رقم عام طور پر ۲ سے ۳ ماہ بعد آتی ہے۔ اگرچہ ۲۰۱۷ میں آئی ایم ایل سیڈز نے کسانوں کو کوئی ادائیگی نہیں کی ہے۔ واجبات کی عدم ادائیگی کے ساتھ ساتھ پچھلے کچھ سالوں سے قیمتوں اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت میں فرق کی وجہ سے مکئی کے بیج کے بہت سے کاشتکار قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں اور کئی کسان کھیتی باڑی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

پلّی سری نواس (۴۰ سالہ) وڈلامنو گاؤں میں تقریباً ۱۵ سالوں سے مکئی کے بیج کی کھیتی کرنے والے نو کسانوں میں سے ایک ہیں، وہ کہتے ہیں، ’’میرے اوپر [نجی ساہوکار کا] ۱۵ لاکھ روپے کا قرض ہے۔ میں ۱۵ ہزار روپے سالانہ کے حساب سے زمین کا کرایہ ادا کرتا ہوں، کیونکہ میرے پاس زیادہ زمین نہیں ہے۔ اس لیے میں نے کھیتی کرنا چھوڑ دیا ہے اور زرعی مزدور کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اب سری نواس کی روزانہ کی اجرت ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے ہے اور انہیں امید ہے کہ اپنی آدھی ایکڑ زمین بیچ کر وہ اپنے کچھ قرضے چکا دیں گے۔

Pilli Srinivas
PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

پّلی سری نواس (بائیں) اور رام کرشن ریڈی (دائیں) وڈلامنو گاؤں کے بیج کسانوں کے ایک گروپ میں شامل ہیں جو بیج کی ایک کمپنی سے اپنے واجبات کا انتظار کر رہے ہیں

تاہم آئی ایم ایل سیڈز لمیٹڈ اس بات سے انکار کرتی ہے کہ ادائیگی کا کوئی مسئلہ ہے۔ ’’[کسانوں کے ذریعہ کاشت کیے گئے] بیجوں کے اس کھیپ میں ’جرمینیشن (نمود) کا مسئلہ‘ تھا، لیکن ہم پھر بھی ۱۰ دنوں کے اندر ان کے پیسے ادا کر دیں گے،‘‘ یہ کہنا ہے کرشنا ضلع میں کمپنی آپریشنز سنبھالنے والے چیروکوری وینکٹ سبا راؤ کا۔ میں نے مئی ۲۰۱۸ میں ان سے بات کی تھی۔ کسانوں کو ابھی تک ان کے پیسے نہیں ملے ہیں۔ جب میں نے انہیں جولائی کے وسط میں دوبارہ فون کیا تو انہوں نے دوبارہ کہا کہ ۱۰ سے ۱۵ دنوں کے اندر کسانوں کی ادائیگی ہو جائے گی۔

رام کرشن کہتے ہیں، ’’کمپنی ایک سال سے زیادہ مدت سے کہہ رہی ہے کہ وہ ہمیں ادائیگی کردے گی۔ ہم نے وہی بیج اگائے جو کمپنی نے ہمیں دیے تھے۔ اگر ان کے اپنے بیجوں میں نمود کے مسائل ہوں تو ہم کیسے ذمہ دار ہیں؟‘‘

بیج کمپنیوں کی طرف سے کسانوں کو ادا کی جانے والی فی ٹن شرح، بیجوں کی درجہ بندی پر منحصر کرتی ہے۔ تاہم،  کسانوں کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۴-۲۰۰۲ کے بعد سے قیمتوں میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ یہ وہ سال ہیں جب مغربی کرشنا کے علاقے کے نوجھ وڈ، اگیری پلّے، چترئی اور مسونورو منڈلوں میں سب سے پہلے بیجوں کے لیے مکئی اگائی گئی تھی۔

کرشنا ضلع کے جوائنٹ ڈائرکٹر برائے زراعت، موہن راؤ کہتے ہیں، ’’تقریباً ۴۰۰۰ کسانوں نے ۲۰۱۷-۱۸ کے زرعی موسم میں ضلع میں واقع ۲۰ کمپنیوں کے لیے ۱۵۸۸۷ ایکڑ رقبے پر بیج کے لیے مکئی کی کاشت کی ہے۔‘‘ ریاست کے دیگر اضلاع کے علاوہ مغربی گوداوری، مشرقی گوداوری اور پرکاسم میں بھی بیجوں کے لیے مکئی کاشت کی جاتی ہے۔

مسونورو منڈل کے چنتالاولی گاؤں میں مکئی کے بیجوں کی کاشت شروع کرنے والے پہلے کچھ کسانوں میں پیڈی نینی وینکٹ سری نواس راؤ بھی شامل تھے۔ وہ ۱۱ ایکڑ اراضی کے مالک ہیں اور ۱۰ ایکڑ پر بنگلورو کی کمپنی سی پی سیڈز انڈیا کے لیے مکئی کاشت کرتے ہیں۔ اس کمپنی کی ایک فیکٹری نوجھ وڈ شہر میں واقع ہے۔ ’’آٹھ سال پہلے [۲۰۱۰ میں] پیداوار کی فی ٹن قیمت تقریباً ۱۴-۱۲ ہزار روپے تھی اور اس سال یہ قیمت ۱۸-۱۶ ہزار روپے ہے، جب کہ پیداواری لاگت میں دو سے تین گنا اضافہ ہوا ہے،‘‘ ۵۴ سالہ راؤ کہتے ہیں۔

’ہم نے کبھی کمپنیوں یا ان کے مالکان کو نہیں دیکھا۔ کمپنیاں اپنے منتظمین کے ذریعے کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے قیمتوں میں اضافے کے لیے ہماری فریاد نہیں سنی‘

’’اور زمین کی مزارعت (پٹہ) کی شرح ۲۰۰۰ سے بڑھ کر ۲۵۰۰۰  روپے فی ایکڑ ہو گئی ہے،‘‘ بنگلورو میں واقع سی پی سیڈز انڈیا کے لیے تین ایکڑ زمین پر مکئی کاشت کرنے والے چنتالاولّی کے کسان، ۴۵ سالہ تلاکونڈا سرینو کہتے ہیں۔ ’’سارے خرچے ملا کر فی ایکڑ سرمایہ کاری ۷۵۰۰۰  روپے بنتی ہے۔ یہ کمپنی ۱۶۰۰۰ روپے فی ٹن ادا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم فرض کریں کہ فی ایکڑ اوسط پیداوار تین ٹن ہے، تو ہم صرف ۴۸۰۰۰ روپے کما پاتے ہیں،‘‘ سرینو کہتے ہیں۔ ان پر نجی ساہوکاروں کے ۳۶ فیصد سالانہ سود کی شرح سے دو لاکھ روپے قرض ہیں، جو اسی شرح سود پر کمپنی کے ساتھ ایک اور قرض کے علاوہ ہیں۔

لیکن، سرینو مزید کہتے ہیں، ’’ہم [اب بھی] کمپنیوں کے لیے بیج کاشت کرتے ہیں، خواہ ہمیں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑ رہا ہو، کیونکہ ہمارے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ تجارتی مکئی [بازار میں] اس سے بھی کم قیمت پر بکتی ہے اور یہاں دوسری بہت سی فصلیں نہیں اگائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ میں اب تک کسان رہا ہوں، اب [زرعی] مزدور کے طور پر کیسے کام کرسکتا ہوں؟‘‘

مکئی کے بیج کاشت کرنے والے زیادہ تر پٹہ دار کسان ہیں، جنہیں بینکوں کی ادارہ جاتی قرضوں کی سہولت نہیں ہے، حالانکہ آندھرا پردیش لائسنس یافتہ کاشتکار ایکٹ ۲۰۱۱ پٹے دار کسانوں کو قرض کی اہلیت کا کارڈ اور صفر سود پر بینک قرض حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔ زیادہ تر بیج کسان زرعی مزدوروں اور منریگا کارکنوں کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔

جہاں ایک طرف کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے، وہیں بیج کمپنیاں زبردست منافع حاصل کر رہی ہیں۔ ’’کمپنیاں [مختلف نرسریوں کے ذریعے] کاشتکار کسانوں کو ایک کلو بیج ۳۲۰ روپے میں فروخت کرتی ہیں اور فی ایکڑ ۷ سے ۸ لاکھ کا منافع حاصل کرتی ہیں،‘‘ سرینو تخمینہ لگاتے ہیں۔

ستمبر ۲۰۱۷ میں وڈلامنو گاؤں کے گروپ نو کے کچھ کسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر کسانوں نے بنگلورو میں واقع ایگرو بائیوٹیک کمپنی میٹاہیلکس لائف سائنسز کی جانب سے فراہم کردہ بیج لیے اور مارچ ۲۰۱۸ میں اپنے کھیت سے پیدا شدہ بیج کمپنی کو واپس کر دیے۔ اسی مہینے میٹاہیلکس نے کسانوں کو ۱۹۷۰۰ روپے فی ٹن ادا کیے۔ آئی ایم ایل کی شرح (جب ادائیگی کی جاتی ہے) ۱۷۵۰۰ روپے فی ٹن ہوتی ہے۔

لیکن اس طرح کے متبادل محدود ہیں، اور ان کا فیصلہ ’منتظمین‘ کرتے ہیں۔ بیج اگانے والے علاقوں کے ہر گاؤں میں ایک یا دو افراد کمپنی اور کسانوں کے درمیان منتظم یا بچولیے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ گاؤں میں بیج جمع کرتے ہیں اور (فی الحال) ۲۰۰ روپے فی ٹن کے کمیشن کے عوض کمپنی کو منتقل کرتے ہیں۔

PHOTO • Rahul Maganti

کسانوں کی طرف سے کاشت شدہ بیج کمپنی کو دینے کے بعد ادائیگیوں میں عموماً تاخیر ہوتی ہے

’’ہم نے کمپنیوں یا ان کے مالکان کو کبھی نہیں دیکھا۔ کمپنیاں اپنے منتظمین کے ذریعے کام کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قیمت میں اضافے کے لیے ہماری فریاد کبھی نہیں سنی،‘‘ سرینو کہتے ہیں۔ ’’مزید برآں، جب ہم اپنی پیداوار منتظمین کو بیچ دیتے ہیں، تو ہماری واجب الادا رقم کا کوئی بھی ذمہ دار نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ میں فروخت کے مہینوں بعد [مارچ ۲۰۱۸ میں] بھی سی پی سیڈز سے ملنے والے اپنے پیسوں کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘

کچھ کسانوں کو نہیں معلوم کہ وہ کس کمپنی کے لیے بیج اگا رہے ہیں۔ وہ صرف اپنے گاؤں کے ’منتظم‘ کو جانتے ہیں۔ سی پی سیڈز کی نوجھ وڈ برانچ کے ایک ترجمان، کمار نے مجھے بتایا، ’’ہمارے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ تمام ادائیگیاں منتظم کو کر دی گئی ہیں۔ اگر وہ کسانوں کو ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہمارا منتظم کے ساتھ قانونی معاہدہ ہے۔ لہٰذا، براہ کرم اس سے پوچھیں۔‘‘

جب میں نے چنتالاولّی گاؤں میں سی پی سیڈز انڈیا کے منتظم ولابھانینی مرلی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، ’’میں کمپنی سے رقم موصول ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں کسانوں کو اپنی جیب سے ادائیگی کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘ کسانوں کا الزام ہے کہ کمپنی کی چال ہے کہ وہ منتظم کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی کسی بھی ذمہ داری سے پہلو تہی کرلیتی ہے۔

’’اپساکا [آندھرا پردیش اسٹیٹ سیڈ سرٹیفیکیشن اتھارٹی] کسانوں اور بیج کمپنیوں کے درمیان کے معاہدے کی نگرانی کے لیے ذمہ دار ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کرتی،‘‘ آل انڈیا کسان سبھا کے کرشنا ضلع کے سکریٹری نیمّاگَڈا نرسمہا کہتے ہیں۔ ’’اپساکا کو بیجوں کی تصدیق کرنی چاہیے، لیکن یہ شاید ہی ایسا کرتی ہے، جس کی وجہ سے جعلی بیج آجاتے ہیں، جیسا کہ وڈلامنو میں ہوا ہے۔‘‘

’’ہم کمپنی کے غلام ہیں،‘‘ سری نواس راؤ (اوپر کی تصویر میں) غصے سے کہتے ہیں۔ ’’بیج کمپنیاں ہندوستان میں انگریزی حکومت سے مشابہ ہیں۔‘‘ کسانوں کو تجارتی مکئی اگانے اور خود بازار میں فروخت کرنے سے کون روک رہا ہے؟ ’’آج مارکیٹ میں مکئی کی قیمت ۱۱۰۰۰ روپے فی ٹن ہے۔ مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے نبرد آزما ہونے کی بجائے، ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم کمپنیوں کو ۱۶۰۰۰ روپے فی ٹن کے حساب سے مکئی فروخت کریں،‘‘ راؤ جواب دیتے ہیں۔

متبادل کی تلاش میں چنتالاولی گاؤں کے ۴۴ سالہ کسان سوگاسنی وینکٹ ناگیندر بابو نے تین سال قبل بڑی کمپنیوں کے لیے اپنی ۱۳ ایکڑ زمین پر مکئی اگانا بند کر دیا ہے۔ ’’مکئی کی کوئی مناسب قیمت نہیں ملتی ہے۔ کیڑے مار دوائیں اور کھادوں کے زیادہ استعمال سے زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں قدرتی کاشتکاری کے طریقوں سے متاثر ہوا اور کیلا اور گنا اگا رہا ہوں۔ اس لیے اب صورتحال قدرے بہتر ہے۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam