اکتوبر ۲۰۲۲ کی دیر شام کو، بیلاری کے وڈّو گاؤں کے کمیونٹی سینٹر میں ایک کمزور، ضعیف خاتون ایک ستون سے ٹیک لگائے بیٹھی ہیں اور اپنے پیروں کو پھیلا کر آرام کر رہی ہیں۔ سندور تعلقہ کی پہاڑی والی سڑکوں پر ۲۸ کلومیٹر پیدل چلنے کی وجہ سے وہ کافی تھک چکی ہیں۔ اگلے دن انہیں مزید ۴۲ کلومیٹر چلنا ہے۔

سندور کے سُشیل نگر گاؤں سے تعلق رکھنے والی یہ کان کن، ہنومکّا رنگنّا، دو روزہ پد یاترا (پیدل سفر) پر نکلی ہیں، جس کا اہتمام بیلاری ضلع گنی کارمیکر سنگھ (بیلاری ضلع کے کانوں میں کام کرنے والوں کی تنظیم) نے کیا ہے۔ احتجاج کرنے والی یہ خواتین ۷۰ کلومیٹر پیدل چل کر، شمالی کرناٹک کے بیلاری (جسے بلاری بھی کہا جاتا ہے) میں واقع ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اپنے مطالبات جمع کرانے جا رہی ہیں۔ گزشتہ ۱۰ سالوں کے دوران یہ ۱۶ویں بار ہے جب ہنومکّا رنگنّا دیگر کان کن مزدوروں کے ساتھ، مناسب معاوضہ اور متبادل ذریعہ معاش کا مطالبہ کرتے ہوئے اس طرح سڑکوں پر اتری ہیں۔

وہ بیلاری کی ان سینکڑوں دستی مزدوروں میں سے ایک ہیں، جنہیں ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر میں کام سے نکال دیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’مان لیجئے کہ میں اب ۶۵ سال کی ہو چکی ہوں۔ اب اس بات کو ۱۵ سال سے بھی زیادہ ہو چکا ہے جب مجھ سے میرا کام چھین لیا گیا تھا۔ اس دوران پیسہ [معاوضہ] ملنے کا انتظار کرتے کرتے کئی لوگ مر گئے…خود میرے شوہر کی بھی موت ہو چکی ہے۔

’’ہم زندہ ضرور ہیں، لیکن ملعون ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آیا ان ملعونوں کو یہ [معاوضہ] ملے گا بھی یا ہم بھی اس کے بغیر ہی مر جائیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہم احتجاج کرنے آئے ہیں۔ جہاں کہیں بھی میٹنگ ہوتی ہے، میں اس میں شرکت کرتی ہوں۔ ہم نے سوچا کہ چلو آخری بار کوشش کرکے دیکھتے ہیں۔‘‘

Left: Women mine workers join the 70 kilometre-protest march organised in October 2022 from Sandur to Bellary, demanding compensation and rehabilitation.
PHOTO • S. Senthalir
Right: Nearly 25,000 mine workers were retrenched in 2011 after the Supreme Court ordered a blanket ban on iron ore mining in Bellary
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: کانوں میں کام کرنے والی خواتین کارکنوں نے معاوضہ اور باز آبادکاری کا مطالبہ کرتے ہوئے، اکتوبر ۲۰۲۲ میں سندور سے بیلاری تک ۷۰ کلومیٹر کے احتجاجی مارچ میں شرکت کی۔ دائیں: سپریم کورٹ کے ذریعے بیلاری میں خام لوہے کی کان کنی پر مکمل پابندی لگائے جانے کے بعد ۲۰۱۱ میں تقریباً ۲۵ ہزار کان کن مزدوروں کی چھٹنی کر دی گئی تھی

*****

کرناٹک کے بیلاری، ہوسپیٹ اور سندور علاقے میں خام لوہے کی کان کنی ۱۸۰۰ کی دہائی سے ہو رہی ہے جب برطانوی حکومت نے چھوٹے پیمانے پر کان کنی شروع کی تھی۔ آزادی کے بعد، حکومت ہند اور مٹھی بھر پرائیویٹ کان مالکان نے ۱۹۵۳ میں خام لوہے کی پیداوار شروع کی؛ اسی سال ۴۲ ممبران کے ساتھ بیلاری ڈسٹرکٹ مائن اونرز ایسوسی ایشن قائم کی گئی تھی۔ چالیس سال بعد، ۱۹۹۳ کی قومی معدنی پالیسی نے کان کنی کے شعبہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کیں، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو مدعو کیا، خام لوہے کی کان کنی میں سرمایہ کاری کے لیے مزید پرائیویٹ کھلاڑیوں کو ترغیب دی گئی، اور پیداوار کے عمل کو آزاد بنا دیا گیا۔ اگلے چند سالوں میں بیلاری میں کان کنی کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، ساتھ ہی اس کام کے لیے بڑے پیمانے پر مشینوں کا بھی استعمال کیا جانے لگا۔ جیسے ہی ہاتھ سے کیے جانے والے کام کی جگہ مشینوں نے لی، کچی دھات کی کھدائی، اسے توڑنے، کاٹنے اور چھاننے کا کام کرنے والی خواتین مزدوروں کی نوکری چلی گئی۔

اگرچہ ان تبدیلیوں سے پہلے کانوں میں بطور مزدور کام کرنے والی خواتین کی صحیح تعداد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، لیکن یہاں کے لوگوں میں یہ بات عام ہے کہ ہر دو مرد مزدوروں کے مقابلے میں کم از کم چار سے چھ خواتین دستی مزدوری کرتی تھیں۔ ہنومکّا یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مشینیں آ گئیں اور ہمارے لیے کوئی کام نہیں بچا۔ پتھر توڑنے اور انہیں لادنے کا جو کام پہلے ہم کرتے تھے، اب اسے مشینوں نے کرنا شروع کر دیا۔‘‘

وہ بتاتی ہیں، ’’کان کے مالکوں نے ہمیں اب یہاں آنے سے منع کر دیا۔ لکشمی نارائن مائننگ کمپنی (ایل ایم سی) نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ ہم کڑی محنت کرتے تھے، لیکن ہمیں پیسے نہیں ملے۔‘‘ اسی وقت ان کی زندگی میں ایک اور اہم واقعہ پیش آیا: ان کے یہاں چوتھے بچے کی پیدائش ہوئی۔

سال ۲۰۰۳ میں، نجی ملکیت والی کمپنی ایل ایم سی سے انہیں کام سے نکالے جانے کے چند سال بعد، ریاستی حکومت نے ۱۱۶۲۰ مربع کلومیٹر اراضی کو پرائیویٹ کان کنی کے لیے کھول دیا، جو تب تک صرف ریاستی اداروں کے ذریعے کان کنی کے لیے مخصوص تھی۔ اس کے نتیجہ میں، اور ساتھ ہی چین میں کچی دھات کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے، کان کنی کے شعبہ میں بڑی تیزی سے کام شروع ہو گیا۔ سال ۲۰۱۰ میں بیلاری سے خام لوہے کی برآمد میں ۵۸۵ فیصد کا زبردست اضافہ ہوا، جب یہاں سے ۵۷ء۱۲ کروڑ میٹرک ٹن خام لوہا ایکسپورٹ کیا گیا، سال ۲۰۰۶ میں یہاں سے صرف ۱۵ء۲ کروڑ میٹرک ٹن ہی برآمد کیا گیا تھا۔ کرناٹک لوک آیُکت (ریاستی سطح کی اتھارٹی جو بدانتظامی اور بدعنوانی پر نظر رکھتی ہے) کی ایک رپورٹ کے مطابق، سال ۲۰۱۱ میں اس ضلع کے اندر تقریباً ۱۶۰ کانیں تھیں، جن میں تقریباً ۲۵ ہزار مزدور کام کرتے تھے، جن میں سے زیادہ تر مرد تھے۔ تاہم، غیر سرکاری اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیڑھ سے دو لاکھ کارکن اسفنج آئرن مینوفیکچرنگ، اسٹیل ملز، ٹرانسپورٹ اور بھاری گاڑیوں کی ورکشاپ جیسی متعلقہ سرگرمیوں سے منسلک تھے۔

A view of an iron ore mining in Ramgad in Sandur
PHOTO • S. Senthalir
A view of an iron ore mining in Ramgad in Sandur
PHOTO • S. Senthalir

سندور کے رام گڑھ میں خام لوہے کی کان کنی کا ایک منظر

پیداوار اور ملازمتوں میں اتنے اضافہ کے باوجود، ہنومکّا جیسی زیادہ تر عورتوں کو کان میں دوبارہ کام پر نہیں رکھا گیا۔ کام سے نکالے جانے کے بعد انہیں کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔

*****

اُدھر، بیلاری کے کان کنی شعبہ میں تیز رفتار ترقی ان کمپنیوں کے ذریعے اندھا دھند کان کنی کی وجہ سے ہوئی، جنہوں نے تمام قوانین کی خلاف ورزی کی اور ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۰ کے درمیان سرکاری خزانے کو مبینہ طور پر ۱۶۰۸۵ کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا۔ لوک آیُکت کو کان کنی کے اس گھوٹالہ کی جانچ کرنے کے لیے کہا گیا، جس نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ کئی کمپنیاں غیر قانونی کان کنی کے کام میں ملوث ہیں؛ اس میں لکشمی نارائن مائننگ کمپنی بھی شامل تھی جہاں ہنومکّا پہلے کام کرتی تھیں۔ لوک آیکت کی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے، سپریم کورٹ نے ۲۰۱۱ میں بیلاری میں خام لوہے کی کان کنی پر مکمل پابندی لگا دی۔

حالانکہ، ایک سال بعد عدالت نے کچھ کانوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی، جہاں کسی قسم کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے ذریعے مقررہ مرکزی با اختیار کمیٹی (سی ای سی) کی سفارش پر عدالت نے کان کنی کرنے والی کمپنیوں کو مختلف زمروں میں تقسیم کر دیا: خلاف ورزی نہ کرنے یا کم از کم خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کو زمرہ ’اے‘؛ تھوڑی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کو ’بی‘؛ اور کئی خلاف ورزیاں کرنے والی کمپنیوں کو ’سی‘ زمرہ میں رکھا گیا۔ جن کانوں میں قانون کی سب سے کم خلاف ورزی ہوئی تھی انہیں ۲۰۱۲ سے مرحلہ وار طریقے سے دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سی ای سی کی رپورٹ میں پھر سے دعویٰ کرنے اور بحالی (آر اینڈ آر) کے منصوبوں کے لیے مقاصد اور رہنما خطوط بھی بیان کیے گئے ہیں جنہیں کان کنی کی لیز (پٹّہ) دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔

غیر قانونی کان کنی کے اس گھوٹالہ نے اس وقت کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت کو گرا دیا اور بیلاری میں قدرتی وسائل کے بے دریغ استحصال کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ تقریباً ۲۵ ہزار کان کن مزدوروں کو بغیر کسی معاوضہ کے کام سے نکال دیا گیا۔ تاہم، سرخیوں میں انہیں کوئی جگہ نہیں ملی۔

بے یار و مددگار چھوڑ دیے گئے ان مزدوروں نے، معاوضہ اور دوبارہ روزگار دیے جانے کا مطالبہ کرنے کے لیے بیلاری ضلع گنی کارمیکر سنگھ بنایا۔ یونین نے ریلیاں اور دھرنوں کا اہتمام کرنا شروع کیا اور مزدوروں کی حالت زار کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ۲۰۱۴ میں ۲۳ دنوں کی بھوک ہڑتال بھی کی۔

Left: A large majority of mine workers, who were retrenched, were not re-employed even after the Supreme Court allowed reopening of mines in phases since 2012.
PHOTO • S. Senthalir
Right: Bellary Zilla Gani Karmikara Sangha has been organising several rallies and dharnas to draw the attention of the government towards the plight of workers
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: کان کے مزدوروں کی ایک بڑی اکثریت، جن کی چھٹنی کر دی گئی تھی، کو سپریم کورٹ کے ذریعے کانوں کو ۲۰۱۲ سے مرحلہ وار طریقے سے دوبارہ کھولنے کی اجازت کے بعد بھی کام پر دوبارہ نہیں رکھا گیا۔ دائیں: مزدوروں کی حالت زار کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے لیے بیلاری ضلع گنی کارمیکر سنگھ نے کئی ریلیوں اور دھرنوں کا اہتمام کیا ہے

Hanumakka Ranganna, who believes she is 65, is among the hundreds of women mine manual workers who lost their jobs in the late 1990s
PHOTO • S. Senthalir

ہنومکّا رنگنّا، جن کا خیال ہے کہ وہ ۶۵ سال کی ہیں، کان میں دستی مزدوری کرنے والی ان ہزاروں خواتین میں شامل ہیں جو ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر میں اپنے کام سے ہاتھ دھو بیٹھیں

یونین، کان کنی کے اثرات والے علاقہ کے لیے جامع ماحولیاتی منصوبہ نام سے شروع کیے گئے بحالی کے اہم اقدام میں بھی مزدوروں کے مطالبہ کو شامل کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بیلاری کے کان کنی والے علاقے میں صحت، تعلیم، کمیونی کیشن اور ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر پر مرکوز منصوبہ کے نفاذ کی نگرانی، اور اس خطہ میں ایکولوجی اور ماحولیات کی بحالی کے لیے، سال ۲۰۱۴ میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر کرناٹک مائننگ انوائرمنٹ ریسٹوریشن کارپوریشن قائم کیا گیا تھا۔ کارکن چاہتے ہیں کہ اس منصوبہ میں معاوضہ اور باز آبادکاری کے ان کے مطالبہ کو بھی شامل کیا جائے۔ یونین کے صدر، گوپی وائی کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ اور لیبر ٹربیونل میں اس سلسلے میں عرضیاں داخل کی ہیں۔

کارکنوں کے اس طرح متحرک ہونے کی وجہ سے ہنومکّا کو ایک ایسا پلیٹ فارم مل گیا ہے، جہاں وہ خواتین مزدوروں کی غیر منصفانہ چھٹنی کے خلاف اپنی آواز اٹھا سکتی ہیں۔ انہوں نے [سال ۲۰۱۱ میں کام سے نکالے گئے ۲۵ ہزار مزدوروں میں سے] ۴۰۰۰ مزدوروں کے ساتھ مل کر، معاوضہ اور باز آبادکاری کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک رِٹ پٹیشن داخل کی ہے۔ کارکنوں کی یونین کا حصہ بننے پر انہیں طاقت اور مدد ملی ہے، جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں، ’’سال ۱۹۹۲ سے ۱۹۹۵ تک ہماری حیثیت انگوٹھے کے نشان جیسی تھی۔ تب، سامنے آ کر [کارکنوں کے لیے] بولنے والا کوئی نہیں تھا۔‘‘ ہنومکّا کہتی ہیں، ’’میں نے [یونین کی] ایک بھی میٹنگ نہیں چھوڑی ہے۔ ہم لوگ ہوسپیٹ، بیلاری، ہر جگہ گئے ہیں۔ حکومت ہمیں جائز معاوضہ دے۔‘‘

*****

ہنومکّا کو یہ یاد نہیں ہے کہ انہوں نے کانوں میں کام کرنا کب شروع کیا تھا۔ وہ والمیکی برادری میں پیدا ہوئی تھیں، جسے ریاست میں درج فہرست قبیلہ کا درجہ حاصل ہے۔ بچپن میں وہ سُشیل نگر میں رہتی تھیں، جو خام لوہے کے ذخائر والی پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ پس ماندہ برادری سے تعلق رکھنے والے بے زمین لوگ جو کام کیا کرتے تھے، ہنومکا نے بھی وہی کیا – انہوں نے کانوں میں کام کرنا شروع کر دیا۔

وہ بتاتی ہیں، ’’میں بچپن سے ہی [کانوں میں] کام کرتی رہی ہوں۔ میں نے کئی مائننگ کمپنیوں میں کام کیا ہے۔‘‘ بچپن سے کام کرنے کی وجہ سے وہ پہاڑیوں پر چڑھنے میں ماہر ہو گئیں، جمپر سے [کچی دھات والی] چٹانوں میں سوراخ کرتیں اور دھماکہ کرنے کے لیے ان میں کیمکلز بھر دیتیں؛ کچے دھات کی کھدائی میں استعمال ہونے والے تمام بھاری اوزاروں کو سنبھالنے میں انہوں نے کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ ’’ اواگا مشینری اِلا ما [تب کوئی مشین نہیں ہوا کرتی تھی]،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’عورتیں جوڑی بنا کر کام کرتی تھیں۔ [دھماکہ کرنے کے بعد] ایک عورت ڈھیلی چٹان سے کچی دھات والے حصے کو کھودتی، دوسری نیچے بیٹھ کر انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتی۔ ہم لوگ بڑی چٹان کو تین الگ الگ سائزوں میں توڑتے تھے۔‘‘ دھول کے ذرات کو الگ کرنے کے لیے کچی دھات والے حصے کو چھاننے کے بعد، یہ عورتیں دھات کو اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتیں اور انہیں ٹرک پر لاد دیتیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’ہم سب نے پریشانی جھیلی ہے۔ کوئی بھی اس طرح جدوجہد نہیں کر پائے گا جس طرح ہم نے کیا ہے۔‘‘

’’میرے شوہر ایک شرابی تھے؛ مجھے پانچ بیٹیوں کی پرورش کرنی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اس وقت ایک ٹَن [کچی دھات] توڑنے کے مجھے ۵۰ پیسے ملتے تھے۔ ہمیں ٹھیک سے کھانا بھی نہیں ملتا تھا۔ ایک فرد کو کھانے کے لیے صرف آدھی روٹی ملتی تھی۔ ہم جنگل سے ساگ توڑ کر لاتے، اسے نمک کے ساتھ پیستے اور روٹی میں لپیٹ کر کھاتے تھے۔ کبھی کبھی ہم لوگ لمبا اور گول بینگن خرید کر لاتے، اسے آگ پر بھونتے، اس کا چھلکا صاف کرتے، اس پر نمک رگڑتے۔ پھر اسی کو کھاتے، پانی پیتے اور سونے چلے جاتے…ہماری زندگی ایسے ہی کٹتی تھی۔‘‘ ہنومکّا کو بیت الخلاء، پینے کا پانی اور حفاظتی پوشاک جیسی سہولیات کے بغیر کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ اتنا بھی نہیں کما پاتی تھیں جس سے کہ ان کا پیٹ بھر سکے۔

At least 4,000-odd mine workers have filed a writ-petition before the Supreme Court, demanding compensation and rehabilitation
PHOTO • S. Senthalir

کم از کم ۴۰۰۰ کان کن مزدوروں نے معاوضہ اور باز آبادکاری کا مطالبہ کرتے ہوئے، سپریم کورٹ میں ایک رِٹ پٹیشن داخل کی ہے

Hanumakka Ranganna (second from left) and Hampakka Bheemappa (third from left) along with other women mine workers all set to continue the protest march, after they had stopped at Vaddu village in Sandur to rest
PHOTO • S. Senthalir

ہنومکّا رنگنّا (بائیں سے دوسری) اور ہمپکّا بھیمپّا (بائیں سے تیسری) دیگر خواتین کان کن مزدوروں کے ساتھ، سندور کے وڈّو گاؤں میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد احتجاجی مارچ پر دوبارہ نکلنے کے لیے تیار ہو چکی ہیں

ان کے گاؤں کی ایک اور کان کن مزدور، ہمپکّا بھیمپّا کڑی محنت اور محرومی کی ایسی ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ وہ درج فہرست ذات والی برادری میں پیدا ہوئی تھیں، ان کی شادی بچپن میں ہی ایک بے زمین زرعی مزدور سے کر دی گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے یاد نہیں ہے کہ شادی کے وقت میری عمر کیا تھی۔ میں نے بچپن میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا – تب میں بالغ بھی نہیں ہوئی تھی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’ایک ٹن کچی دھات توڑنے پر مجھے روزانہ ۷۵ پیسے ملتے تھے۔ ایک ہفتہ تک کام کرنے کے بعد ہمیں سات روپے بھی نہیں مل پاتے تھے۔ اتنی کم آمدنی کی وجہ سے میں روتے ہوئے گھر آتی تھی۔‘‘

پانچ سال تک روزانہ ۷۵ پیسے کمانے کے بعد، ہمپکّا کی مزدوری ۷۵ پیسے بڑھا دی گئی۔ اگلے چار سالوں تک انہیں یومیہ ڈیڑھ روپے ملنے لگے، پھر ان کی مزدوری مزید ۵۰ پیسے بڑھا دی گئی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں ۱۰ سالوں تک ۲ روپے [یومیہ، ایک ٹن کچی دھات توڑنے کے عوض] کماتی تھی۔ ڈیڑھ روپے سے ہر ہفتے قرض کا سود چکاتی تھی، اور ۱۰ روپے میں بازار سے سامان لاتی تھی…ہم لوگ نوچو [ٹوٹا ہوا چاول] خریدتے تھے کیوں کہ وہ سستا ہوا کرتا تھا۔‘‘

اُس وقت انہوں نے سوچا کہ کڑی محنت کرنے سے زیادہ کمائی ہوگی۔ اس لیے وہ صبح ۴ بج سو کر اٹھ جاتیں، کھانا پکا کر اسے پیک کرتیں، اور پھر ۶ بجے سڑک پر پہنچ کر ٹرک کا انتظار کرتیں، جو انہیں کانوں تک پہنچاتا تھا۔ جلدی پہنچنے کا مطلب تھا کہ وہ ایک ٹن زیادہ کچی دھات توڑ سکتی تھیں۔ ہمپکّا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں کوئی بس نہیں آتی تھی۔ ہمیں [ٹرک] ڈرائیور کو ۱۰ پیسے دینے پڑتے تھے؛ بعد میں یہ بڑھ کر ۵۰ پیسے ہو گیا۔‘‘

گھر واپس آنا بھی آسان نہیں ہوتا تھا۔ دیر شام کو، وہ چار یا پانچ دیگر مزدوروں کے ساتھ بھاری کچی دھات سے لدے کسی ٹرک پر سوار ہو جاتیں۔ وہ یاد کرتی ہیں، ’’کبھی کبھی جب ٹرک کسی تیز موڑ کی طرف تیزی سے مڑتا تھا، تو ہم میں سے تین یا چار لوگ سڑک پر گر جاتے تھے۔ [لیکن] ہم نے کبھی درد محسوس نہیں کیا۔ دوبارہ ہم اسی ٹرک سے واپس لوٹتے تھے۔‘‘ پھر بھی، کچی دھات کا اضافی ایک ٹن توڑنے میں وہ جو کڑی محنت کرتی تھیں، اس کا پیسہ انہیں کبھی نہیں دیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہم اگر تین ٹن توڑتے تھے، تو ہمیں صرف دو ٹن کے ہی پیسے ملتے تھے۔ ہم نہ تو کچھ کہہ سکتے تھے اور نہ ہی کچھ مانگ سکتے تھے۔‘‘

Mine workers stop for breakfast in Sandur on the second day of the two-day padayatra from Sandur to Bellary
PHOTO • S. Senthalir
Mine workers stop for breakfast in Sandur on the second day of the two-day padayatra from Sandur to Bellary
PHOTO • S. Senthalir

سندور سے بیلاری تک کی دو روزہ پد یاترا کے دوسرے دن کان کن مزدور ناشتہ کے لیے سندور میں رکے

Left: Hanumakka (centre) sharing a light moment with her friends during the protest march.
PHOTO • S. Senthalir
Right: Hampakka (left) along with other women mine workers in Sandur
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: احتجاجی مارچ کے دوران اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہوئے ہنومکّا (درمیان میں)۔ دائیں: سندور میں دیگر خواتین کان کن مزدوروں کے ساتھ ہمپکّا (بائیں)

اکثر، جب کچی دھات کی چوری ہو جاتی تھی، تو سزا کے طور پر میستری [سردار مرد کارکن] ان مزدوروں کو پیسے دینے سے منع کر دیتا تھا۔ ’’ہفتے میں تین یا چار بار ہمیں [کچی دھات کی رکھوالی کرنے کے لیے] وہیں رکنا پڑتا تھا، تب ہم الاؤ جلاتے اور زمین پر ہی سو جاتے تھے۔ ہمیں یہ کام پتھروں [کچی دھات] کی رکھوالی کرنے اور اپنی اجرت حاصل کرنے کے لیے کرنا پڑتا تھا۔‘‘

روزانہ ۱۶ سے ۱۸ گھنٹے تک کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ اپنی بنیادی صحت کی دیکھ بھال کرنے سے معذور تھے۔ ہمپکا بتاتی ہیں، ’’ہم ہفتہ میں صرف ایک بار نہاتے تھے، جس دن ہمیں بازار جانا ہوتا تھا۔‘‘

سال ۱۹۹۸ میں کام سے نکالے جانے کے وقت، کانوں میں کام کرنے والی یہ عورتیں ایک ٹن کے عوض ۱۵ روپے کما رہی تھیں۔ جس دن وہ پانچ ٹن کچی دھات لادتیں، اس دن انہیں ۷۵ روپے ملتے تھے۔ جب وہ کچی دھات کے بڑے ٹکڑے الگ کرتیں، اس دن انہیں ۱۰۰ روپے ملتے تھے۔

کان کنی کے کام سے نکال دیے جانے کے بعد، ہنومکا اور ہمپکا نے روزی روٹی کے لیے کھیتی باڑی کا سہارا لیا۔ ہنومکا بتاتی ہیں، ’’ہمیں صرف بوجھ ڈھونے کا کام ملا۔ ہم گھاس پھوس نکالنے یا پتھر ہٹانے، مکئی کی فصل کاٹنے جاتے تھے۔ ہم نے یومیہ پانچ روپے پر کام کیا ہے۔ اب، وہ [زمین کے مالک] ہمیں ایک دن کے ۲۰۰ روپے دیتے ہیں۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ اب وہ کھیتوں پر باقاعدگی سے کام کرنے نہیں جاتیں؛ اب ان کی بیٹی ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اسی طرح، جب سے ہمپکا کے بیٹے نے ان کی دیکھ بھال کرنی شروع کی ہے، انہوں نے بھی زرعی مزدور کے طور پر کام کرنا بند کر دیا ہے۔

ہنومکا کہتی ہیں، ’’ہم نے ان پتھروں [کو توڑنے] کے لیے اپنا خون بہایا اور اپنی جوانی قربان کی ہے۔ [لیکن] انہوں نے [کان کنی کرنے والی کمپنیوں نے] ہمیں چھلکے کی طرح پھینک دیا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

S. Senthalir

S. Senthalir is Senior Editor at People's Archive of Rural India and a 2020 PARI Fellow. She reports on the intersection of gender, caste and labour. Senthalir is a 2023 fellow of the Chevening South Asia Journalism Programme at University of Westminster.

Other stories by S. Senthalir
Editor : Sangeeta Menon

Sangeeta Menon is a Mumbai-based writer, editor and communications consultant.

Other stories by Sangeeta Menon
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez