تمام طلباء میں سب سے بڑے بچے کی عمر ۱۳ سال اور بقیہ کی ۱۰ سے ۱۲ سال کے درمیان تھی۔ انگریزی ٹی وی چینلوں پر ہونے والی بحثوں کو چھوڑ دیں، تو اسکول ڈِبیٹ سے زیادہ بورنگ کچھ ہی چیزیں ہوتی ہیں۔ عام طور پر ’گاندھی کی اب بھی معنویت ہے‘ جیسے موضوع پر ۱۶-۱۴ سال کی عمر کے بہت اچھے انگریزی مقرر بحث و مباحثہ کرتے مل جائیں گے۔ کئی سارے جملے دہرائے جاتے ہیں۔ اگر آپ اسکولی ڈبیٹ کے ایسے ہی ایک پروگرام میں مہمانِ خصوصی ہوں، تو آپ اپنی جماہی کو دباتے ہیں اور پروگرام ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
حالانکہ، یہاں میں اپنی کرسی پر پرجوش ہو کر بیٹھا تھا۔ یہ ۱۳-۱۰ سال کے بچے جینیٹکلی موڈیفائیڈ (جینیاتی طور پر ترمیم شدہ) فصلوں پر بحث و مباحثہ کر رہے تھے۔ دونوں ہی فریق با صلاحیت تھے۔ ہر مقرر اپنے موضوع کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا اور اس سے گہرائی کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ تقریر کا مواد، معیار اور مقررین کا جوش سننے اور دیکھنے لائق تھا۔ باتیں اکثر تلخ اور مدلل طریقے سے رکھی جا رہی تھیں، لیکن بے حد شائستگی کے ساتھ۔ پیلے چاول (گولڈن رائس)، وِٹامن کی کمی، فصلوں کو لگنے والے کیڑے، آرگینک فارمنگ (نامیاتی کھیتی)، کرائی جینس، اُلٹی زیرہ پوشی اور آلودہ فصلیں۔ آپ نے نام لیا نہیں کہ انہوں نے بتانا شروع کر دیا۔ اور، بہترین طریقے سے اپنی بات رکھ رہے تھے۔
بحث کی نظامت کرنے والی خاتون انتہائی معتدل اور پختہ مزاج تھیں۔ وہ ایک اسٹاپ واچ کے ساتھ بیٹھیں اور مقررین ابھی اپنا جملہ ختم بھی نہیں کر پائے تھے کہ انہوں نے وقت ختم ہونے کا اعلان کر دیا۔ ہم نے اسکول کے پرنسپل سے یہ پوچھنے کے بارے میں سوچا کہ کیا ٹی وی اینکروں کو ان کے طلباء کے ذریعے منعقد ہونے والے از سر نو تعلیم کے کیمپ میں داخلہ دلایا جا سکتا ہے۔
یہاں بحث و مباحثے میں شامل زیادہ تر مقررین پہلی نسل کے انگریزی بولنے والے ہیں۔ حالانکہ، انہوں نے اس زبان میں اپنے دلائل پوری روانی کے ساتھ رکھے (پوری ڈبیٹ یہاں دیکھیں)۔
تمل ناڈو کے وِدیا وَنم اسکول میں ’پروجیکٹ ڈے‘ کا موضوع چاول تھا۔ اور میں اِن اسکولی بچوں سے ایسی ایسی باتیں جان پایا، جو مجھے پہلے معلوم نہیں تھیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ آٹوموبائل کلچر کی علامت ’ٹویوٹا‘ لفظ زراعت سے نکلا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ بنیادی لفظ ’ٹویوڈا‘ ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے ’زرخیز‘ یا ’دھان کے خوبصورت کھیت‘۔ یا مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ کمپنی کی شروعات کرنے والوں نے زراعت کی دنیا کے اس سادگی بھرے لفظ سے خود کو الگ کرنے کے لیے ’ڈی‘ کو ’ٹی‘ سے بدل دیا تھا۔
میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ ہونڈا کا مطلب ہوتا ہے ’دھان کے اصلی کھیت‘ یا ’دھان کے کھیتوں کا ذریعہ‘۔ اور اگر آپ یہ دعویٰ کرنے جا رہے ہیں کہ آپ جانتے تھے کہ ’نکاسون‘ کا مطلب ہوتا ہے ’جڑ کا درمیانی تنا‘ یا ’فوکودا‘ کا مطلب ہوتا ہے ’دھان سے بھرا کھیت‘ تو مجھے معاف کیجئے۔ میں نہیں جانتا تھا۔ حالانکہ، یہ بچے جانتے تھے۔ پروجیکٹ ڈے پر اپنی سالانہ نمائش میں اِن موضوعات پر انہوں نے پوسٹر اور اسکیچ بنا رکھے تھے۔
اِن چھوٹے بچوں نے مجھے وہ پانچ چھوٹے کھیت بھی دکھائے، جن میں یہ دھان اُگا رہے تھے۔ ان بچوں نے ہمیں دھان کی تمام قسموں اور ان کے تیار ہونے کے مختلف مراحل کے بارے میں بتایا۔ ان کے ساتھ کوئی ٹیچر نہیں تھا اور نہ ہی انہیں کوئی اور بتا رہا تھا۔ ان میں سے کچھ غریب کسانوں اور بے زمین مزدوروں کے بچے تھے۔
پروجیکٹ ڈے بہت خاص دن ہوتا ہے۔ بہت سے غریب اور ناخواندہ والدین یہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں کہ ایسے اسکول میں ان کے بچوں نے کیا سیکھا، جہاں متعینہ نصابی کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں۔ وِدیا وَنم کا مطلب ہے ’جنگل میں سیکھنا‘۔ اور یہاں یہی ہو رہا ہے۔ کوئمبٹور سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، تمل ناڈو و کیرالہ کی سرحد سے ملحق پہاڑیوں میں واقع اَنئی کَٹی کے اس اسکول میں تقریباً ۳۵۰ اسٹوڈنٹس پڑھتے ہیں۔ یہ سبھی بچے اِیرولا آدیواسی، آدی دراوڑ اور پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے لیے ایک اسکول بس چلتی ہے، مگر دور دراز سے کچھ طلباء سائیکل یا پیدل ہی اسکول آتے ہیں، کیوں کہ وہ ایسے گاؤوں میں رہتے ہیں جہاں بسیں نہیں پہنچ سکتیں۔ وِدیا وَنم اِیرولاؤں کے درمیان اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ کچھ کنبے تو اسکول کے پاس کے گاؤں میں رہنے آ گئے ہیں۔
نو سال قبل پریما رنگچاری کے ذریعے قائم کیے گئے اس اسکول میں کِنڈر گارٹن (کے جی) سے لے کر آٹھویں کلاس تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ یہ دو لسانی اسکول ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہاں بچے آٹھ سال کی عمر تک تمل اور انگریزی، دونوں زبان میں پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم انگریزی پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں، ’’جب ہم نے یہاں ایک اسکول بنانے کو لے کر بات کی، تو ایرولا آدیواسیوں کا یہی مطالبہ تھا۔ انہیں لگتا تھا کہ انگریزی کی کمی کے سبب ان کے بچے، انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں پڑھنے والے خوشحال گھرانوں کے بچوں سے پچھڑ جائیں گے۔‘‘ یہ والدین ایسے اسکولوں کے اخراجات کبھی نہیں برداشت کر سکتے۔ وِدیا وَنم آدیواسی اور دلت بچوں کے لیے پوری طرح مفت ہے۔ اسکول میں آدھے سے زیادہ طالب علم انہی برادریوں سے ہیں۔ جب کہ باقی بچے ہر مہینے ۲۰۰ روپے کی فیس ادا کرتے ہیں۔
۷۳ سالہ رنگچاری اس اسکول کی بانی پرنسپل اور ڈائرکٹر ہیں۔ طلباء انہیں پاٹی (دادی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسکول کے احاطہ میں ان کے گھر کی دیوار پر لگے سائن بورڈ پر لکھا ہے: پاٹی ویڈو (دادی کا گھر)۔
انہوں نے مجھے پروجیکٹ ڈے کی تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا تھا، تاکہ میں طلباء، ان کے والدین سے بات کروں اور نمائش دیکھوں۔ میں نے پہلے نمائش دیکھنے کی بات کہی، اور پہلے وہی کیا بھی۔ یہ جانے بغیر کہ وہ کتنا جانتے ہیں اُن بچوں سے بات کرنے کا مطلب خود کو بیوقوف ثابت کروانے جیسا تھا۔
تقریباً ۱۵ سے ۲۰ الگ الگ سیکشن میں اور ایک بڑے سے ہال میں لگی اِس نمائش نے مجھے اِس مشکل سے بچا لیا۔ ہر میز، ہر دیوار ایسے پرجوش طالب علموں کے گروپ سے گھری تھی جو اپنے موضوع پر حاصل کیے گئے علم (صرف معلومات نہیں) کو شیئر کرنے کے لیے بے چین تھے۔ ایک لمبی میز پر لوگوں کو طرح طرح سے پکائے گئے چاول کے نمونے دیے جا رہے تھے۔ (اور انہیں بچوں نے پکایا تھا۔)
یہاں کے ٹیچر بھی دلچسپ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تو مقامی ہیں اور بہت سارے تو خود ایرولا برادری سے ہیں۔ یہاں مغربی بنگال کے شانتی نکیتن سے بھی ٹیچر ہیں، جو آرٹس کی کلاسیں لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، دیگر ریاستوں اور دوسرے ممالک سے بھی رضاکار ٹیچر ہیں، جو وِدیا وَنم میں ایک سال تک اپنا وقت دیتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں طالب علموں کو الگ الگ تہذیبوں کے بارے میں سیکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ان بچوں نے، جن میں سے زیادہ تر نے کبھی کوئمبٹور ضلع سے باہر قدم نہیں رکھا، ہندوستان کے الگ الگ حصوں کی عکاسی کرنے والے گانے گائے، ڈانس کیا اور چھوٹے ناٹک پیش کیے۔ پروجیکٹ ڈے پر آئے ناظرین میں زیادہ تر غریب والدین ہیں، جنہوں نے شاید یہاں آنے کے لیے ایک دن کی اپنی مزدوری گنوا دی ہے۔
یہ عجیب لگتا ہے کہ اس اسکول کو سرکار کی طرف سے منظوری نہیں ملی ہے۔ سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) سے الحاق کی کوششوں میں اڑچنیں آتی رہی ہیں۔ حالانکہ یہ اسکول اپنے نویں تعلیمی سال میں داخل ہو چکا ہے، لیکن اس ادارہ کو سرکار کی جانب سے این او سی دینے سے ابھی تک انکار کیا جا رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے۔ اور، تمل ناڈو کے جنگلوں میں واقع اس اسکول کو ابھی بھی ریاست کی نوکرشاہی کے جنگل کے درمیان سے اپنا راستہ تلاش کرنا باقی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز