پولماراسیٹی پدمجا کے گھر والوں نے ۲۰۰۷ میں ان کی شادی کے وقت جہیز میں ۲۵ تُلام (۲۵۰ گرام) سونے کے زیورات دیے تھے۔ ’’میرے شوہر نے جب یہ سب خرچ کر دیا، تو انہوں نے مجھے بھی چھوڑ دیا،‘‘ گزر بسر کے لیے گھڑیوں کی مرمت کرنے والی ۳۱ سالہ پدمجا بتاتی ہیں۔

پدمجا کے شوہر نے ایک ایک کرکے تمام زیورات فروخت کر دیے، اور سارا پیسہ شراب پر خرچ کر دیا۔ ’’مجھے اپنے اور پنی فیملی کا، خاص کر میرے بچوں کا پیٹ پالنا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے گھڑیوں کی مرمت کرنے کا کام شروع کیا، جب ان کے شوہر نے ۲۰۱۸ میں ان کی فیملی کو چھوڑ دیا تھا – اور شاید آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم شہر میں یہ کام کرنے والی وہ واحد عورت ہیں۔

تب سے، وہ گھڑی کی ایک چھوٹی سی دکان پر کام کر رہی ہیں اور ۶ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پاتی ہیں۔ لیکن مارچ میں جب کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن شروع ہوا، تو ان کی کمائی پر بھی اس کا اثر پڑا۔ اس مہینے انہیں صرف آدھی تنخواہ ملی تھی، اور اپریل اور مئی میں کچھ بھی نہیں ملا۔

’’مئی تک کا کرایہ میں نے کسی طرح اپنی بچت سے چُکایا،‘‘ پدمجا بتاتی ہیں، جو اپنے بیٹوں- ۱۳ سالہ امن اور ۱۰ سالہ راجیش کے ساتھ شہر کے کنچرا پالم علاقے میں رہتی ہیں۔ ’’مجھے امید ہے کہ میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا جاری رکھ پاؤں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ مجھ سے زیادہ [۱۰ویں کلاس سے بھی آگے] پڑھائی کریں۔‘‘

پدمجا کی آمدنی سے پورا گھر چلتا ہے، جس میں ان کے والدین بھی شامل ہیں۔ انہیں اپنے بے روزگار شوہر کی طرف سے کوئی اقتصادی مدد نہیں ملتی۔ ’’وہ اب بھی آتے ہیں، لیکن جب ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے، صرف تبھی آتے ہیں،‘‘ پدمجا کہتی ہیں۔ آنے پر وہ انہیں اپنے یہاں ٹھہرنے دیتی ہیں۔

’’گھڑیوں کی مرمت کرنے کا فیصلہ غیر متوقع تھا،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’میرے شوہر جب مجھے چھوڑ کر چلے گئے، تو میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ میں کمزور تھی اور میرے بہت کم دوست تھے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں، تبھی میرے کسی دوست نے یہ مشورہ دیا۔‘‘ ان کے دوست کے بھائی، ایم ڈی مصطفیٰ نے پدمجا کو گھڑیوں کی مرمت کرنے کا کام سکھایا۔ وشاکھاپٹنم کے مصروف جگدمبا جنکشن علاقے میں ان کی ایک گھڑی کی دکان ہے۔ پدمجا جہاں کام کرتی ہیں، وہ دکان بھی اسی جگہ پر ہے۔ چھ مہینے کے اندر، انہوں نے یہ ہنر سیکھ لیا تھا۔

Polamarasetty Padmaja’s is perhaps the only woman doing this work in Visakhapatnam; her friend’s brother, M. D. Mustafa (right), taught her this work
PHOTO • Amrutha Kosuru
Polamarasetty Padmaja’s is perhaps the only woman doing this work in Visakhapatnam; her friend’s brother, M. D. Mustafa (right), taught her this work
PHOTO • Amrutha Kosuru
Polamarasetty Padmaja’s is perhaps the only woman doing this work in Visakhapatnam; her friend’s brother, M. D. Mustafa (right), taught her this work
PHOTO • Amrutha Kosuru

پولماراسیٹی پدمجا وشاکھا پٹنم میں یہ کام کرنے والی شاید اکیلی عورت ہیں؛ انہیں یہ کام ان کے دوست کے بھائی، ایم ڈی مصطفیٰ (دائیں) نے سکھایا تھا

لاک ڈاؤن سے پہلے، پدمجا ایک دن میں تقریباً ایک درجن گھڑیوں کی مرمت کرتی تھیں۔ ’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایک گھڑی میکینک بنوں گی، لیکن مجھے اس میں مزہ آتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے سبب، مرمت کرنے کے لیے زیادہ گھڑیاں نہیں تھیں۔ ’’مجھے کلک، ٹک-ٹاک، اور ٹوٹی ہوئی گھڑیوں کو ٹھیک کرنے کی آواز یاد آتی تھی،‘‘ وہ ایک گاہک کی گھڑی کے ٹوٹے ہوئے ’کرسٹل‘ (شفاف ڈھکن) کو بدلتے ہوئے کہتی ہیں۔

بغیر کسی آمدنی کے گھر چلانا کافی مشکل تھا۔ لاک ڈاؤن میں رعایت کے بعد، پدمجا نے بھلے ہی جون سے کام پر دوبارہ جانا شروع کر دیا تھا، لیکن انہیں ہر مہینے صرف ۳۰۰۰ روپے – ان کی آدھی تنخواہ – ہی مل رہی تھی۔ جولائی میں دو ہفتے کے لیے، جگدمبا جنکشن میں گھڑی کی دکانیں بند رہیں کیوں کہ اس علاقے کو کنٹینمنٹ علاقہ قرار دے دیا گیا تھا۔ ابھی تک کام میں تیزی نہیں آئی ہے، وہ کہتی ہیں۔ ’’میں روزانہ صبح ۱۰ بجے سے شام ۷ بجے تک کام کرتی ہوں۔ میں کسی دیگر کام میں اپنا ہاتھ نہیں آزما سکتی۔‘‘

وہ جس دکان پر کام کرتی ہیں، اس کے ٹھیک سامنے، فٹ پاتھ پر مصطفیٰ کی چھوٹی سی دکان ہے۔ نیلے رنگ کی اس دکان پر، ایک شیلف میں بچوں اور بالغوں کے لیے کچھ گھڑیاں، ڈیجیٹل اور اینالاگ، دونوں ہی شکل میں رکھی ہوئی ہیں۔ وہ اسپیئر پارٹس اور چمٹی جیسے آلات، اور اپنے استعمال کے لیے آنکھوں کا لوپ شیلف کے نیچے رکھے ہوئے ہیں۔

لاک ڈاؤن سے پہلے مصطفیٰ ایک دن میں ۱۰۰۰ روپے کماتے تھے، لیکن جون میں دکان دوبارہ کھلنے کے بعد ان کی آمدنی گھٹ کر محض ۵۰ روپے یومیہ ہو گئی۔ اس لیے کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اسے کنٹینمنٹ علاقہ قرار دینے کے بعد، جب انہیں جولائی میں اپنی دکان بند کرنی پڑی، تو انہوں نے اسے ویسا ہی رہنے دیا۔ ’’کوئی کاروبار نہیں تھا اور سفر پر مجھے اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اور نیا اسٹاک جمع کرنے کے لیے انہیں ہر چھ مہینے میں ۴۰-۵۰ ہزار روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے وہ جولائی سے اپنی بچت سے کام چلا رہے ہیں۔

مصطفیٰ تقریباً پچاس سال سے گھڑی بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ ’’میں نے ۱۰ سال کی عمر میں ہی اپنے دادا اور والد سے یہ ہنر سیکھا تھا،‘‘ ۵۹ سالہ مصطفیٰ کہتے ہیں، جن کے پاس بی کام کی ڈگری ہے۔ وہ دونوں گھڑی ساز (گھڑیوں کو مرمت کرنے اور بنانے والے) تھے، جن کی کنچرا پالم میں دکانیں تھیں۔ مصطفیٰ نے اپنی خود کی دکان ۱۹۹۲ میں کھولی تھی۔

M.D. Mustafa, who has been using up his savings since July, says, '''When mobile phones were introduced, watches began losing their value and so did we'
PHOTO • Amrutha Kosuru
M.D. Mustafa, who has been using up his savings since July, says, '''When mobile phones were introduced, watches began losing their value and so did we'
PHOTO • Amrutha Kosuru

ایم ڈی مصطفیٰ، جو جولائی سے اپنی بچت سے کام چلا رہے ہیں، کہتے ہیں، ’موبائل فون آنے کے بعد گھڑیوں نے اپنی وقعت کھونی شروع کر دی تھی اور ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا‘

’’ماضی میں ہمارے پیشہ کا احترام کیا جاتا تھا۔ ہم گھڑی ساز کے طور پر جانے جاتے تھے۔ موبائل فون آنے کے بعد گھڑیوں نے اپنی وقعت کھونی شروع کر دی تھی اور ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ۲۰۰۳ تک، وہ وشاکھا پٹنم واچ میکرز ایسوسی ایشن کے رکن بھی تھے۔ ’’یہ ایک تنظیم کی طرح تھی، جس میں گھڑی کے تقریباً ۶۰ سینئر میکینک تھے۔ ہم ہر مہینے ملتے تھے۔ وہ اچھا دور تھا،‘‘ مصطفیٰ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ یہ تنظیم ۲۰۰۳ میں منتشر ہو گئی، اور اس کے کئی ممبران نے یا تو پیشہ ہی چھوڑ دیا یا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔ لیکن مصطفیٰ اپنے والیٹ میں اپنا ممبرشپ کارڈ اب بھی لیکر چلتے ہیں۔ ’’یہ مجھے شناخت کا جذبہ عطا کرتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

مصطفیٰ کی دکان سے تھوڑی ہی دور، محمد تاج الدین کی دکان ہے اور وہ بھی تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں: ’’جدید تکنیک کے سبب یہ پیشہ اب ختم ہو رہا ہے۔ ایک دن گھڑیوں کی مرمت کرنے والا شاید کوئی بھی نہیں بچے گا،‘‘ ۴۹ سالہ تاج الدین کہتے ہیں، جو گزشتہ ۲۰ سال سے گھڑیوں کی مرمت کر رہے ہیں۔

بنیادی طور سے آندھرا پردیش کے مغربی گوداوری ضلع کے ایلورو شہر کے رہنے والے تاج الدین، چار سال پہلے اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ وشاکھا پٹنم آ گئے تھے۔ ’’ہمارے بیٹے کو یہاں ایک ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ میں سول انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے لیے پورا وظیفہ ملا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

’’لاک ڈاؤن نے مجھے مختلف قسم کی گھڑیوں کا پتا لگانے کا وقت دیا، لیکن اس نے میری تنخواہ چھین لی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کی ماہانہ تنخواہ ۱۲ ہزار روپے ہوا کرتی تھی، لیکن مارچ سے مئی تک انہیں اس کا صرف آدھا حصہ ہی ملا۔ اس کے بعد اگلے دو مہینے تک انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملی۔

تاج الدین ایک دن میں تقریباً ۲۰ گھڑیوں پر کام کرتے تھے، لیکن لاک ڈاؤن کے دوران مرمت کرنے کے لیے ان کے پاس ایک بھی گھڑی نہیں تھی۔ انہوں نے گھر سے کچھ گھڑیاں ٹھیک کیں۔ ’’میں نے زیادہ تر بیٹریاں ٹھیک کیں، سستی یا بنا برانڈ والی گھڑیوں کے گلاس [’کرسٹل‘] یا پٹّے بدلے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ حالانکہ، اگست میں، انہیں اپنی پوری تنخواہ ملی۔

تاج الدین کہتے ہیں کہ گھڑی کی مرمت کرنا کسی خاص برادری کا پیشہ نہیں ہے، اور اسے کہیں سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ ان کی مانگ ہے کہ گھڑی سازوں کو سرکاری مدد ملنی چاہیے۔

Mohammad Tajuddin (top row) used to work on about 20 watches a day, but he had hardly any to repair during the lockdown. S.K. Eliyaseen (bottom right) says, 'Perhaps some financial support would do, especially in these hard times'
PHOTO • Amrutha Kosuru

محمد تاج الدین (اوپر کی قطار) ایک دن میں تقریباً ۲۰ گھڑیوں پر کام کرتے تھے، لیکن لاک ڈاؤن کے دوران مرمت کرنے کے لیے ان کے پاس ایک بھی گھڑی نہیں تھی۔ ایس کے الیاسین (نیچے دائیں طرف) کہتے ہیں، ’شاید کچھ مالی مدد سے، خاص کر اس مشکل دور میں، کام چل جائے

’’شاید کچھ مالی مدد سے، خاص کر اس مشکل دور میں، کام چل جائے،‘‘ جگدمبا جنکشن کے ایک مشہور اسٹور میں گھڑی کی مرمت کرنے والے ایس کے الیاسین کہتے ہیں۔ انہیں بھی اپریل سے جون تک ان کی پوری تنخواہ – ۱۵ ہزار روپے – نہیں ملی تھی۔ اور مارچ، جولائی اور اگست میں انہیں صرف آدھی تنخواہ ملی۔ ’’میرے بچوں کے اسکول سے فیس چکانے اور نئی کتابیں خریدنے کے لیے لگاتار فون آتے رہے،‘‘ ۱۰ اور ۹ سال کی عمر کے دو بچوں کے والد، ۴۰ سالہ الیاسین کہتے ہیں۔ ’’ہم اپنی بیوی کی کمائی سے گھر چلا رہے تھے۔‘‘ ان کی بیوی عابدہ، جو ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر ہیں، ۷ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پاتی ہیں، اور انہوں نے بچوں کی فیس اور کتابوں کے لیے عابدہ کے والدین سے ۱۸ ہزار روپے قرض لیے تھے۔

الیاسین نے ۲۵ سال کی عمر سے اس علاقہ میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ ’’گھڑیوں کی مرمت کرنا میری بیوی کا خاندانی پیشہ تھا۔ یہ مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے شادی کے بعد اپنے سسر سے کہا کہ وہ مجھے بھی یہ سکھا دیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اس ہنر نے مجھے زندہ رہنے کی طاقت اور وسائل دیے ہیں،‘‘ الیاسین کہتے ہیں، جو وشاکھا پٹنم میں بڑے ہوئے اور اسکول کبھی نہیں گئے۔

حالانکہ الیاسین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ان مہنگی گھڑیوں کو خرید سکیں، جن پر وہ کام کرتے ہیں، لیکن انہیں ٹھیک کرنا انہیں ضرور آتا ہے۔ لیکن گھڑی کے بڑے برانڈ عام طور پر اس کی مرمت کرنے سے بچتے ہیں اور اس کام کے لیے کسی کو بھی مقرر نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں۔ ’موومنٹ‘ (گھڑی کے اندرونی سسٹم‘ کو اکثر، خرابی کو ٹھیک کرنے کے بجائے نئے سے بدل دیا جاتا ہے۔ ’’ہم گھڑی کے میکینک، موومنٹ کو ٹھیک کر سکتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم اس چیز کو ٹھیک کر سکتے ہیں، جو غیر ضروری طور پر دنیا کے گھڑی کے برانڈوں کے ذریعے بدل دیا جاتا ہے۔ مجھے اپنے کام پر ناز ہے۔‘‘

حالانکہ ان کے خود کے ہنر بھی کافی ٹھیک ٹھاک ہیں، لیکن الیاسین، مصطفیٰ اور جگدمبا جنکشن کے دیگر گھڑی ساز، ۶۸ سالہ محمد حبیب الرحمن کی عزت کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی قسم کی گھڑی کی مرمت کر سکتے ہیں، جس میں ونٹیج ٹائم پیس جیسے کہ پینڈولم گھڑیاں بھی شامل ہیں، وہ کہتے ہیں۔ وہ ایک پل میں پرانی گھڑیوں کے پیچیدہ سسٹم کو بھی ٹھیک کر سکتے ہیں، اور غوطہ خوری والی اور کوراٹز گھڑیوں کے ماہر ہیں۔ ’’کچھ ہی لوگ بچے ہیں جو پینڈولم گھڑی کی تعریف کرتے ہیں،‘‘ حبیب الرحمن (سب سے اوپر، کور فوٹو میں) کہتے ہیں۔ ’’آج کل سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا ہے۔‘‘

'Even before the coronavirus, I had very few watches to repair. Now it's one or two a week', says Habibur, who specialises in vintage timepieces (left)
PHOTO • Amrutha Kosuru
'Even before the coronavirus, I had very few watches to repair. Now it's one or two a week', says Habibur, who specialises in vintage timepieces (left)
PHOTO • Amrutha Kosuru

’کورونا وائرس سے پہلے بھی، میرے پاس مرمت کے لیے بہت کم گھڑیاں تھیں۔ اب ایک ہفتہ میں صرف ایک یا دو بچی ہیں‘، حبیب الرحمن کہتے ہیں، جو وِنٹیج ٹائم پیس (بائیں) کے ماہر ہیں

جس دکان پر حبیب الرحمن کام کرتے تھے، اس کے مالک نے انہیں کورونا وائرس کے سبب گھر پر رہنے کے لیے کہا تھا۔ ’’پھر بھی میں آتا ہوں۔ میرے پاس مرمت کرنے کے لیے گھڑیاں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ پچھلے ۵-۶ برسوں سے انہیں ۴۵۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے، جب کہ ۲۰۱۴ تک ان کی تنخواہ ۸-۱۲ ہزار روپے تھی، جب دکان کے نئے مالک نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ونٹیج گھڑیوں میں ان کی مہارت کی بہت مانگ ہوگی۔

’’کورونا وائرس سے پہلے بھی، میرے پاس مرمّت کے لیے بہت کم گھڑیاں تھیں۔ میں ہر مہینے شاید ۴۰ گھڑیوں کی مرمت کرتا تھا۔ اب ایک ہفتہ میں صرف ایک یا دو گھڑیاں ہی بچی ہیں،‘‘ حبیب الرحمن کہتے ہیں۔ اپریل اور مئی میں انہیں تنخواہ نہیں ملی، لیکن جون سے انہیں پوری تنخواہ مل رہی ہے۔ ’’اگر وہ میری تنخواہ کاٹیں گے، تو گزارہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘ حبیب الرحمن اور ان کی بیوی، ۵۵ سالہ زلیخا بیگم، اپنی مشترکہ آمدنی سے گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے، وہ کپڑے کی سلائی کرکے مہینے میں تقریباً ۴-۵ ہزار روپے کماتی تھیں۔

حبیب الرحمن جب ۱۵ سال کے تھے، تو کام کی تلاش میں وشاکھا پٹنم آئے تھے۔ اوڈیشہ کے گج پتی ضلع کے پرلاکھے مُنڈی شہر میں ان کے شوہر ایک گھڑی ساز تھے۔ جب وہ ۲۰ سال کے تھے، تو وشاکھا پٹنم میں گھڑی کے تقریباً ۲۵۰-۳۰۰ میکنیک تھے، وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’لیکن اب مشکل سے ۵۰ ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’وبائی مرض ختم ہونے کے بعد، شاید ایک بھی نہیں بچا ہوگا۔‘‘

انہوں نے اپنی چار بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی کو یہ ہنر سکھایا ہے؛ دیگر تین کی شادی ہو چکی ہے۔ ’’اسے یہ پسند ہے،‘‘ وہ اپنی ۱۹ سالہ بیٹی کے بارے میں بتاتے ہیں، جو بی کام کی پڑھائی کر رہی ہے۔ ’’مجھے امید ہے کہ وہ اب تک کی سب سے بہتر گھڑی ساز بنے گی۔‘‘

حبیب الرحمن کا ایک اور خواب ہے: وہ گھڑیوں کا اپنا برانڈ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ’’گھڑی کی مرمت خود وقت کو ٹھیک کرنے جیسا ہے،‘‘ حبیب الرحمن کہتے ہیں۔ ’’مجھے اپنی عمر کی پرواہ نہیں ہے۔ میں جب گھڑی کے ساتھ کام کرتا ہوں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنا وقت لگے گا۔ میں اس پر تب تک کام کرتا ہوں جب تک کہ یہ ٹھیک نہ ہو جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں ابھی ۲۰ سال کا ہوں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Amrutha Kosuru

Amrutha Kosuru is a 2022 PARI Fellow. She is a graduate of the Asian College of Journalism and lives in Visakhapatnam.

Other stories by Amrutha Kosuru
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique