مدراس (اب چنئی) کے پرانے تجارتی مرکز، جارج ٹاؤن کے تقریباً درمیان میں واقع ایک تنگ، گھماؤدار سڑک پر روزانہ صبح کو چہل پہل شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ اسے اس کے آفیشیل نام، یعنی ’بیڈرین اسٹریٹ‘ کی مدد سے تلاش کریں گے تو آپ اسے کبھی ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ ہر کوئی اسے پوکڑئی (پھول بازار) کہتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ ۱۹۹۶ میں چنئی کے کویم بیڈو میں سبزی اور پھولوں کا ایک لمبا چوڑا بازار بننے کے بہت پہلے سے یہاں بورے کے حساب سے پھول بیچے جاتے تھے۔ اور آج، ۱۸ سال بعد بھی پوکڑئی میں صبح کی چہل پہل برقرار ہے، جہاں کے پھول بیچنے والے دوسری جگہ جانے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور خریدار بھی نئے متعینہ بازاروں تک جانا نہیں چاہتے۔

صبح ہونے سے پہلے ہی پوکڑئی میں لوگوں کا مجمع لگ جاتا ہے اور آپ کو پیر رکھنے کی بھی جگہ نہیں ملتی۔ کویَم بیڈو، آندھرا پردیش، اور دور افتادہ جنوبی تمل ناڈو سے پھولوں سے پوری طرح بھری بویاں یہاں آتی ہیں۔ سڑک اکثر و بیشتر کیچڑ سے بھری رہتی ہے؛ بیچ میں کوڑے کچرے کا ایک لمبا پہاڑی نما ڈھیر پڑا رہتا ہے۔ تصور کیجئے کہ ہزاروں پیروں کے نیچے پرانے پھول کچلے جا رہے ہوتے ہیں؛ سوچئے کہ سینکڑوں ٹائر ان کو روند رہے ہوتے ہیں؛ اور پھر ان سے نکلنے والی مہک کے بارے میں تصور کیجئے۔ یہ سب دیکھنے میں کہیں سے بھی اچھا نہیں لگتا۔ لیکن گلی کی اپنی ہی خوبصورتی ہے۔ گلی کے دونوں طرف دکانیں ہیں؛ کچھ سیمنٹ سے بنی پکّی دکانیں ہیں، جن میں الماریاں ہیں اور چھت سے پنکھے ٹنگے ہیں؛ بقیہ دکانیں بس جھونپڑی نما ہیں۔ حالانکہ، سبھی دکانیں خوب رنگ برنگی نظر آتی ہیں۔ یہ پوکڑئی کی پکّی دکانوں میں سے ایک ہے۔ سڑک کے دونوں طرف ایسی سو سے زیادہ دکانیں ہیں۔ کئی دکانیں مہاجر مزدوروں کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں، جو گاؤں میں خشک سالی کی مار جھیلتے کھیتوں اور گھٹتے روزگار کی وجہ سے بھاگ آئے ہیں۔ ان کے معاون (ہیلپر) اکثر ان کے اپنے گاؤں یا آس پاس کے گاؤوں کے نوجوان لڑکے ہوتے ہیں، جو پیچھے کی طرف واقع یا اوپر کے چھوٹے کمروں میں رہتے ہیں۔ (یہ تصویر تب لی گئی تھی، جب میں ۱۹ اپریل، ۲۰۱۲ کو صبح سویرے پوکڑئی گیا تھا۔)

A man sits by his flower stall
PHOTO • Aparna Karthikeyan

وی شن موگاویل (بائیں) ۱۹۸۴ میں ڈِنڈی گُل کے گونڈم پٹّی سے چنئی آئے تھے۔ انہیں مہاجرت اس لیے کرنی پڑی، کیوں جب وہ مزدوری کے لیے باہر جاتے تھے، تو گاؤں میں ان کی یومیہ ۵ روپے کی کمائی ہوتی تھی۔ چنئی میں اُن دنوں بھی روزانہ کی مزدوری اس سے دس گُنا زیادہ تھی۔ ان کے والد اپنی ۳ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے تھے۔ لیکن جب بارش کم ہوتی گئی، تو پانی کی کمی ہو گئی اور معاش کمانا ناممکن ہو گیا۔ اب ان کے گاؤں میں بورویل لگنے لگے ہیں، لیکن بہت دیر ہو چکی ہے، کیوں کہ بہت سے لوگ گاؤں سے چلے گئے ہیں۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan

پیسوں کی گنتی کرتے کے رام چندرن دائیں طرف کھڑے ہیں۔ وہ ڈِنڈی گُل ضلع کے چونگن چٹّی پٹّی کے رہنے والے ہیں۔ اپنے گاؤں میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرنے والے رام چندرن، ایک بہتر معاش کی تلاش میں ۲۰۰۳ میں چنئی آئے تھے۔ ان کے والدین اب بھی گاؤں میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کی طرح، ان کے گاؤں کے زیادہ تر لوگ کام کی تلاش میں مہاجرت کر چکے ہیں؛ صرف ۴۰ یا ۵۰ سال کے بالغ حضرات ہی وہاں رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان تیروپور، کوئمبٹور یا چنئی میں کام کرنے کے لیے چلے گئے ہیں۔ اور اس طرح ۱۰۰۰ کی آبادی والے اس گاؤں میں، بقول رام چندرن، اب آدھے سے بھی کم لوگ رہتے ہیں۔ اور ان میں سے ان کی عمر کے بہت کم مرد بچے ہیں۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan

اے موتوراج کا تعلق ڈنڈی گل ضلع کے پچئی مَلَیَن کوٹئی سے ہے، جہاں پانچ سال پہلے ۳۰ ہزار روپے میں بیچی جانے والی ۱ سینٹ (سینٹ، جنوبی ہند میں زمین کی پیمائش کرنے کی اکائی ہے۔ ۱ سینٹ تقریباً ایک سوویں ایکڑ کے برابر ہوتا ہے) زمین اب ایک لاکھ روپے کی ہے۔ وجہ؟ یہ بڑے شہروں کو جوڑنے والے چوراہے کے پاس ہے، اور جو لوگ وہاں رہتے ہیں وہ روزانہ ان شہروں میں سے کسی بھی شہر آسانی سے آ جا سکتے ہیں۔ اس وجہ سےاب کوئی کھیتی نہیں کرنا چاہتا ہے، کھیتوں میں کام کرنے کے لیے بہت کم لوگ بچے ہیں۔ موتوراج کی ماں ان چند لوگوں میں سے ہیں جو اَب بھی کھیتی کرتے ہیں (ان کے پاس ۲ ایکڑ زمین ہے) اور وہ زرعی مزدوروں کی مدد سے کنیر کے پھول اُگاتی ہیں۔ پانی کی دستیابی، حالانکہ مزدوروں سے بھی کم ہے۔ تقریباً ۸۰۰ فٹ کی بورنگ میں پانی کم یا بالکل نہیں ہونے کی وجہ سے، اب وہ ہفتے میں دو بار اپنے کھیتوں کی سینچائی کے لیے ٹینکر (۷۰۰ روپے فی لوڈ) سے پانی خریدتی ہیں۔ بارش سے حالت بہتر ہو سکتی ہے، لیکن گاؤں میں زندگی ہمیشہ دشوار ہی رہی؛ اور جب موتوراج کے رشتہ داروں نے انہیں ۱۸ سال پہلے چنئی میں روزگار تلاش کرنے کے لیے کہا، تو انہوں نے ان کے مشورہ پر عمل کیا اور یہاں چلے آئے۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan

ایس پراکرم پانڈیئن (بائیں) کے دادا نے ان کے لیے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے – وہ چاہتے تھے کہ ان کا پوتا بڑا ہو کر پولیس والا بنے، اسی لیے انہوں نے ان کا نام مدورئی کے ایک راجا کے نام پر رکھا۔ انہوں نے سوچا کہ یہ نام ان کے سینے پر پِن سے لگے بِلّے پر اچھا لگے گا۔ لیکن، ’پارک‘ (یہاں ہر کوئی انہیں اسی نام سے بلاتا ہے، اور جس کا مقامی بولی میں مطلب ہے بیکار خواب دیکھنے والا) کبھی اسکول نہیں گئے، اور اب پھول بیچتے ہیں۔ ڈنڈی گل ضلع کے پلّا پٹّی گاؤں کے رہنے والے پراکرم پانڈیئن ۱۴ سال کی عمر میں چنئی آ گئے تھے۔ شروع میں، انہوں نے کویَم بیڈو میں کام کیا، اور بعد میں ایک دُکان لگانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے وہ ڈھائی لاکھ روپے (سود کے ساتھ) کے قرضدار بھی ہوگئے۔ پھر انہوں نے کچھ زمین بیچ کر ڈیڑھ لاکھ روپے واپس کر دیے۔ لیکن بقیہ قرض کو چکانے کے لیے پیسے جمع ہو جائیں، وہ اسی تاک میں لگے رہتے ہیں؛ وہ روزانہ صبح ہونے سے پہلے اٹھتے ہیں – اور غروب آفتاب تک کام کرتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Aparna Karthikeyan

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique