آر کرشنا تمل ناڈو کی کوٹاگری پنچایت کے ویلری کومبئی گاؤں میں ایک طرح سے مشہور شخصیت ہیں۔ انہوں نے روایتی کرومبا مصوری میں اپنی مہارت سے مقامی سطح پر شہرت حاصل کی ہے۔ یہ طرز ہندسی اور مختصر ترین ہے، اور اس کے موضوعات میں شامل ہیں فصل کٹائی کے تہوار، مذہبی تقریب، شہد جمع کرنے کا سفر اور نیگری کے آدیواسیوں کے دیگر رواج۔

ہم اُن سے گھنے جنگل میں ملے، سرسبز چائے کے باغات اور پُر خطر کٹہل کے درختوں سے ہوکر، دو گھنٹے کی سیدھی چڑھائی کے بعد۔ پر سکون پہاڑی راستے پر ہیئر پِن کو گھماتے ہوئے، میرے دو ساتھی اور میں اچانک سورج کی روشنی سے بھرے علاقے میں لڑکھڑاتے ہوئے، اور کرشنا کے راستے میں آ گئے۔

PHOTO • Olivia Waring

کرشنا کے گاؤں، ویلری کومبئی کے راستے میں سرسبز چائے کے باغات

انہوں نے ہماری غیر رسمی آمد پر کوئی اعتراض نہیں جتایا، بلکہ کافی خوش ہوئے اور اپنے کام کے بارے میں بتانے کے لیے ایک صاف جگہ پر بیٹھ گئے۔ ایک پیلے رنگ کی بوری میں نارنگی پلاسٹک کے اکارڈِین فولڈر میں کئی درجن اخباروں کی کٹنگ، تصویریں اور ان کی مصوری کے نمونے تھے۔ وہ اس پارسل کو اپنے ساتھ ہر جگہ لے کر جاتے ہیں، شاید اسی قسم کی ناگہانی ملاقات کی خواہش لیے۔

’’ایک بار ضلع کلکٹر نے میری کچھ مصوری میں دلچسپی دکھائی اور [انہیں] خریدا،‘‘ ۴۱ سالہ کرشنا، ہمیں بڈاگا زبان میں بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے کریئر کا سب سے قابل فخر لمحہ تھا۔

کرشنا آدیواسی مصوروں کی ایک لمبی قطار کے آخری چند میں سے ایک ہیں۔ کئی کرومبا مانتے ہیں کہ  ایلوتھوپارئی کے چٹانوں پر کی گئی نادر مصوری انہی کے اجداد نے کی ہے۔ یہ ویلرکومبئی سے تین کلومیٹر دور واقع آثارِ قدیمہ کا ایک مقام ہے، جو ۳۰۰۰ سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ ’’اس سے پہلے، ہم ایلوتھوپارئی کے پاس رہتے تھے، جنگل کے اندرونی علاقوں میں،‘‘ کرشنا کہتے ہیں۔ ’’آپ ان تصویروں کو صرف کرومبا [کے درمیان] میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

کرشنا کے دادا بھی مشہور مصور تھے، جنہوں نے کئی مقامی مندروں کی آرائش میں مدد کی، اور کرشنا نے پانچ سال کی عمر میں انہی سے سیکھنا شروع کیا۔ آج، وہ اپنے دادا کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں، کچھ تبدیلیوں کے ساتھ: ان کے اجداد جہاں کھڑی چٹانوں پر چھڑی سے مصوری کرتے تھے، وہیں کرشنا کینوس اور ہاتھ سے بنے کاغذ پر برش کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ، حالانکہ، آرگینک، گھر میں بنے رنگ کا استعمال پابندی سے کرتے ہیں، جو کہ بقول ہمارے ترجمہ نگار، اپنے کیمیاوی رنگوں کے مقابلے کہیں زیادہ چمکدار ہوتے ہیں اور لمبے وقت تک چلتے ہیں۔

PHOTO • Olivia Waring

بائیں: کرشنا کی مصوری کرتے ہوئے ایک تصویر۔ دائیں: ان کی تکمیل شدہ تخلیقوں میں سے ایک

کرشنا کے ۸x۱۰ سائز کی اصل تصویریں کوٹاگری میں لاسٹ فاریسٹ انٹرپرائزیز کی تحائف کی دکان میں تقریباً ۳۰۰ روپے میں فروخت ہوتے ہیں۔ یہ تنظیم شہد اور دیگر مقامی پیداوار بیچتی ہے۔ انہیں دو تصویریں بنانے میں تقریباً ایک دن لگتا ہے، اور وہ ہفتہ میں ۵-۱۰ تصویریں فروخت کرتے ہیں۔ وہ گریٹنگ کارڈ اور بُک مارک بھی بناتے ہیں، اور انہیں اکثر مقامی گھروں اور کاروباروں کی دیواروں کو کرومبا طرز مصوری میں سجانے کے لیے بھی بلایا جاتا ہے۔ وہ کبھی کبھی کرومبا کے بچوں کو یہ فن سکھاتے بھی ہیں۔ تمام لوگوں نے بتایا کہ اپنی اس تخلیقی کوشش سے وہ ۱۰-۱۵ ہزار روپے ماہانہ کما لیتے ہیں۔

وہ شہد جمع کرنے والے سفر میں شامل ہوکر اس آمدنی کو مکمل کرتے ہیں، جس سے وہ سیزن میں ۱۵۰۰-۲۰۰۰ روپے ہر مہینے کماتے ہیں۔ اس کام میں زمین سے کوئی سو فٹ اوپر چڑھ کر، ٹیلے کی دراڑوں میں بنے چھتّوں میں دھواں کرکے وہاں سے شہد کی مکھیوں کو بھگانا، پھر ان کے ذریعے چھوڑے گئے شہد کو جمع کرنا شامل ہے۔ ان کوششوں کے دوران ہلاکت خیز واقعات بھی پیش آتے ہیں، بھلے ہی وہ کبھی کبھار ہوتے ہوں۔ اس شکار میں کتنا برا ہو سکتا ہے اس کی یاد دلاتے ہوئے، ہم نے جس جگہ پر کیمپ لگایا تھا، وہاں سے ہمیں ایک سیدھی چٹان دکھائی دی، جہاں کئی سال پہلے کسی کی گرنے سے موت ہو گئی تھی۔ اپنے اُس ساتھی کے احترام میں، شہد کے شکاری اب اس جگہ بالکل بھی نہیں جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے، شہد جمع کرتے ہوئے خود کرشنا کو جو سب سے برا زخم آیا، وہ ان کی ناک پر شہد کی مکھی کا ڈنک تھا۔

PHOTO • Olivia Waring

وہ چٹان جہاں سے کئی سال پہلے شہد اکٹھا کرنے والے ایک کرومبا کی گرکر موت ہو گئی تھی

ہمارے وہاں سے روانہ ہونے سے قبل، کرشنا نے ہمیں ویلری کومبئی میں اپنے گاؤں کا راستہ بتایا اور وہاں جانے کے لیے مدعو کیا۔ ہم وہاں کچھ گھنٹے بعد پہنچے۔ ان کی بیوی، سُشیلا نے ہمارا گرمجوشی سے استقبال کیا، اور ان کی دو سال کی بیٹی، گیتا نے کم پرجوش طریقے سے خیرمقدم کیا۔

PHOTO • Olivia Waring

کرشنا کی بیٹی گیتا، چوکھٹ سے شرماتے ہوئے جھانک رہی ہے (تصویر: آڈرا باس)۔ دائیں: ان کی بیوی سُشیلا، گیتا کے ساتھ

سُشیلا نے شائستگی سے ان کی آرگینک تصویروں کے نمونے ہمیں دکھائے، جسے کرشنا روایتی دستور کے مطابق، جنگلاتی اشیاء سے تیار کرتے ہیں۔ ان کی مصوری کی انواع، مٹی کی خاصیت براہِ راست ان جنگلاتی اشیاء میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کٹّے گاڈا کی پتیوں سے ہرا رنگ آتا ہے؛ مختلف قسم کے بھورے رنگ وینگئی مارم پودے کے رس سے آتے ہیں۔ کریمارم کی چھال سے کالا رنگ نکلتا ہے، کلیمان ریت سے پیلا رنگ، اور بُریمن ریت پوری طرح سے چمکدار سفید رنگ فراہم کرتی ہے۔ لال اور نیلے رنگ کرومبا تصویروں میں بہت ہی کم ملتے ہیں۔

PHOTO • Olivia Waring

کرشنا کے فن کے مراحل: کٹّے گاڈا کی پتیاں، ہاتھ سے بنے آرگینک رنگ، اور کچھ تیار تصویریں

کرشنا بضد ہیں کہ کرومبا آرٹ آنے والی کئی نسلوں تک زندہ رہے گا۔ ان کے لیے، مصوری صرف ذاتی شوق نہیں ہی نہیں ہے، بلکہ کرومبا تہذیب کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بھی ہے، جس کے بارے میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ تیزی سے برباد ہو رہی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ نوجوان فنکاروں کو کیا صلاح دیں گے، تو وہ کہتے ہیں، ’’آپ چاہیں تو یونیورسٹیوں میں جا سکتے ہیں، لیکن ہماری تہذیب سے باہر نہ جائیں۔ فاسٹ فوڈ اچھی چیز نہیں ہے – وہی کھائیں جو پرانے لوگ کھاتے تھے۔ اس مصوری کو جاری رکھیں، شہد جمع کرنا جاری رکھیں... تمام دوائیں یہاں جنگلات میں دستیاب ہیں۔‘‘

کرشنا قدیم اور جدید کے درمیان کی غیر یقینیت سے پوری طرح واقف ہیں؛ بلکہ، جب ہم بات کر رہے تھے، ان کا فون بجنے لگا، اسی قسم کے گانے سے جو آپ نے شاید ممبئی کے نائٹ کلب میں سنا ہو۔ ہم سبھی ہنسنے لگے اور انٹرویو کو جاری رکھا، لیکن کچھ پل کے لیے، پرسکون پہاڑی کی خاموشی میں خلل پڑ گیا تھا۔

لاسٹ فاریسٹ انٹرپرائزیز کے مارکیٹنگ ایگزیکٹو، اور نیلگری میں میرے ترجمہ نگار اور گائڈ، سروانن راجن کا تہ دل سے شکریہ۔ لاسٹ فاریسٹ انٹرپرائزیز سے جڑی اے آئی ایف کلنٹن فیلو، آڈرا باس کا بھی شکریہ جنہوں نے کوٹاگری میں میرے رہنے کا انتظام کیا اور میرے ساتھ فیلڈ کا دورہ کیا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Olivia Waring

Olivia Waring is pursuing graduate studies in medicine and humanitarian engineering at Harvard University and the Massachusetts Institute of Technology. She worked at PARI in Mumbai from 2016-17, supported by an American India Foundation Clinton Fellowship.

Other stories by Olivia Waring
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez