پورنیما مستری اپنے مچھلی پکڑنے والے جال کے ساتھ رائے منگل ندی سے باہر نکل رہی ہیں، پانی ان کی کمر تک ہلکورے لے رہا ہے۔ وہ ندی کے کنارے تقریباً آدھا گھنٹہ تک تیرتی رہیں، ٹائیگر جھنگوں کی تلاش میں وہ جال کو ادھر ادھر کھینچتی رہیں۔

ندی کے کنارے، وہ جال میں پھنسی چیزوں کو چنتی ہیں، وہ گھاس پھوس، تنے اور دیگر مچھلیوں سے جھینگوں کے بچوں کو الگ کرتی ہیں۔ ان کی ساڑی اور چٹیا گرم سورج سے سوکھنے لگی ہے۔ لیکن پورنیما کو ندی میں دوبارہ جانا ہے۔ ’’مجھے اچھی خاصی مقدار میں ٹائیگر جھینگوں کے بچوں کو پکڑنا ہے، تاکہ میں انھیں بیچ سکوں۔ اس میں ابھی ۲ سے ۳ گھنٹے اور لگیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

پکڑی ہوئی چیزوں کو چننے کے لیے کیچڑ سے بھرے کنارے پر بیٹھی ہوئی، پورنیما کھارے پانی اور کیچڑ میں کئی گھنٹوں تک وقت گزارنے کے بارے میں بتاتی ہیں، جس کی وجہ سے جلد کا انفیکشن اور کھجلی ہو جاتی ہے۔ ’’دیکھئے، ہمارا کام کتنا مشکل ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’سندربن کے لوگ یونہی زندگی بسر کرتے ہیں اور کھاتے ہیں۔‘‘

پورنیما نے اپنی فیملی کی مدد کرنے کے لیے دو سال پہلے یہ کام شروع کیا تھا۔ ان کے فیملی میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان کے شوہر کو پانی سے ڈر لگتا ہے، اسی لیے وہ مچھلی پکڑنے نہیں جاتے، جو کہ یہاں کا ایک عام پیشہ ہے۔ لہٰذا، وہ گھر پر رہ کر سبزیاں اُگاتے ہیں بیچنے کے لیے۔

ویڈیو دیکھیں: پورنیما مستری بیچنے کے لیے بچوں کو پکڑنے کے لیے رائے منگل ندی میں ڈبکی لگا رہی ہیں


کیا انھیں مگرمچھوں اور چیتوں سے ڈر لگتا ہے، جو کہ سندربن میں عام طور سے ہر جگہ مل جاتے ہیں؟ ’’بعض دفعہ، مجھے مگرمچھوں سے ڈر لگتا ہے؛ انھوں نے اس گاؤں کے لوگوں پر حملہ کیا ہے،‘‘ پورنیما بتاتی ہیں۔ ’’چیتے یہاں اس لیے نہیں آتے، کیوں کہ جنگل کے قریب سیکورٹی نیٹ انھیں دور رکھتا ہے۔‘‘

پورنیما جوگیس گنج گاؤں میں رہتی ہیں، جہاں کی آبادی ۷ ہزار سے زیادہ ہے۔ مغربی بنگال کے ہنگل گنج بلاک میں رائے منگل ندی کے کنارے بسے اس گاؤں میں گھر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ سندر بن کے دیگر گاؤوں کی طرح ہی، جوگیس گنج گاؤں کی عورتیں اور بچے سیڈلنگ (مچھلیوں کے بچے) پکڑنے کا کام کرتے ہیں۔ مچھلی اور کیکڑے کے ساتھ ساتھ جنگل سے شہد اور لکڑیاں جمع کرکے بیچنا ہی ان کی گھریلو آمدنی کا ذریعہ ہے۔

ریاستی حکومت کا ڈاٹا (۲۰۰۹ سے) دکھاتا ہے کہ سندر بن میں رہنے والے کل ۴۴ لاکھ لوگوں میں سے ۲ لاکھ لوگ اپنی غریبی کی وجہ سے ٹائیگر جھینگوں کے بچے پکڑنے کا کام کرتے ہیں۔

ہیم نگر گاؤں کے شوما مونڈل کہتے ہیں کہ یہ کام عام طور سے عورتیں ہی کرتی ہیں۔ ’’مرد بڑے کام کرتے ہیں، جیسے کیکڑے پکڑنا، جس سے اچھی آمدنی ہوتی ہے (جس کے لیے وہ گروپ بناکر کشتی کرایے پر لیتے ہیں)۔ سیڈلنگ پکڑنا عورتوں کا کام بن چکا ہے، اور نہایت غریب گھروں کے بچے بھی (اس کام کو کرتے ہیں)۔ اس سے آمدنی بہت کم ہوتی ہے، لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ ہر گھر سے کم از کم ایک عورت اس کام کو ضرور کرتی ہے۔ ہم زیادہ کھیتی نہیں کر سکتے، کیوں کہ مانسون کو چھوڑ کر سال کے زیادہ تر دنوں میں مٹی اور پانی کھارا رہتا ہے، اسی لیے مانسون میں ہم صرف چاول کی کھیتی کرتے ہیں۔‘‘


03-US-From river to plate-the journey of the Sundarbans tiger prawn.jpg

بائیں: جو لوگ ٹائیگر جھینگوں کے بچے پکڑتے ہیں، وہ تقریباً پانچ گھنٹے پانی میں گزارتے ہیں تاکہ وافر مقدار میں پکڑ سکیں۔ دائیں: ایک عورت کم ٹائڈ والے پانی میں جال پھینک رہی ہے، جو کہ سیڈلنگ کو پکڑنے کا بالکل صحیح وقت ہوتا ہے


شوما سیڈلنگ کی تلاش میں تقریباً ہر روز کم ٹائڈ کے وقت ندی میں جاتی ہے۔ کم ٹائڈ مچھلی کے بچے پکڑنے کا بالکل صحیح وقت ہوتا ہے، لیکن یہ مختلف وقت میں واقع ہوتا ہے۔ اس لیے شوما بعض دفعہ آدھی رات کو ندی میں جاتی ہے یا پھر صبح کے ۴ بجے۔ ’’جب گہرا اندھیرا ہوتا ہے، تو ہم یہ دیکھ نہیں پاتے کہ آس پاس کوئی مگرمچھ یا دوسرے جنگلی جانور ہیں یا نہیں۔ دن کے اجالے میں، ہم کم از کم انھیں دیکھ سکتے ہیں اور بھگا سکتے ہیں۔‘‘

پورنیما اور شوما جیسی سیڈلنگ جمع کرنے والوں کی کمائی موسم کے حساب سے بدلتی رہتی ہے۔ ’’جاڑے کے دوران، جو سب سے اچھا موسم ہوتا ہے، ہمیں ایک ہزار سیڈلنگ کے ۳۰۰ روپے ملتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’دوسرے وقت میں یہ قیمت نیچے گر کر ۱۰۰ روپے ہو سکتی ہے یا پھر ۶۰ روپے تک پہنچ سکتی ہے۔‘‘

اچھے دنوں میں، ۲۰۰۰ سیڈلنگ پکڑے جا سکتے ہیں، لیکن یہ سال میں کچھ دفعہ ہی ہوتا ہے۔ باقی وقت میں شوما صرف ۲۰۰ سے ۵۰۰ سیڈلنگ ہی پکڑ پاتی ہے۔ ’’بازار (ہیم نگر کے) جانے اور (چاول اور دالیں جیسی) ضروری اشیاء خریدنے کے لیے یہ پیسہ کافی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔


04-IMG_3670-US-From river to plate-the journey of the Sundarbans tiger prawn.jpg

ٹائیگر جھینگوں کے بچے چھوٹے ہوتے ہیں، جیسے بال کے ٹکڑے۔ ان کی قیمت ۱۰۰۰ سیڈلنگ کے حساب سے طے ہے


سردیوں کے مہینے میں، دسمبر سے فروری تک، شوما کپڑوں کی فیٹکری میں کام کرنے کے لیے تمل ناڈو کے ایروڈ ضلع چلی جاتی ہیں، جہاں وہ پردے اور تکیوں کے غلاف سیتی ہیں۔ حالانکہ سردیوں کے موسم میں سیڈلنگ کی قیمت سب سے زیادہ ملتی ہے، لیکن کئی عورتیں ندی کے ٹھنڈے پانی میں کام کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ شوما کے شوہر سومین مونڈل ایروڈ کی اسی فیکٹری میں فل ٹائم کام کرتے ہیں۔ شوما یہاں سے روزانہ ۲۰۰ سے ۵۰۰ روپے تک کماتی ہیں، جب کہ ان کے شوہر اس سے کچھ زیادہ کماتے ہیں۔ ان کی پانچ سال کی بیٹی اپنے دادا دادی کے ساتھ گاؤں میں ہی رہتی ہے۔

سیڈلنگ کو جس طرح جمع کیا جاتا ہے، اس کی تنقید ماہرین ماحولیات اور ریاست کا محکمہ جنگلات کرتا رہتا ہے۔ جال میں سیڈلنگ کے علاوہ مچھلیوں کی بہت سی دوسری قسمیں بھی پھنس جاتی ہیں۔ لیکن یہ عورتیں ان کو چھوڑ دیتی ہیں، جس سے وہ قسمیں ختم ہوسکتی ہیں۔ جال کو گھسیٹنے سے مٹی کا کٹاؤ ہوتا ہے اور پانی کو ندی سے باہر بہنے سے روکنے کے لیے جو باندھ بنایا گیا ہے، وہ کمزور ہوتا رہتا ہے۔

لیکن، پورنیما دوسری مچھلیوں کو پھینکتی نہیں ہیں۔ ان کے گھر کے پاس ایک تالاب ہے، جہاں وہ انھیں پلنے بڑھنے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں۔ ’’جن کے پاس تالاب نہیں ہے، انھیں دوسری مچھلیوں کو پھینکنا پڑتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں، رائے منگل ندی کے کنارے سیڈلنگ کی چھنٹائی کو جاری رکھتے ہوئے۔

ٹائیگر جھینگوں کا کاروبار حالانکہ ان گاؤوں میں عورتوں کی مزدوری پر منحصر ہے، لیکن اس کام میں سب سے کم اجرت انھیں ہی ملتی ہے۔ سیڈلنگ کے جمع ہو جانے کے بعد، مرد اس تجارت کا منافع اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ بچولیے ان سیڈلنگ کو عورتوں سے خریدنے کے لیے گاؤوں کے دورے کرتے رہتے ہیں اور بھیریوں میں ان کی پیداوار کے لیے بیچ دیتے ہیں۔ یہ کھارے پانی کے مصنوعی تالاب ہیں، جو ساؤتھ ۲۴ پرگنہ ضلع کے کیننگ، جیبن تال، سربیریا اور دیگر مقامات پر بنائے گئے ہیں۔ یہاں، ان سیڈلنگ کو کم از کم تین مہینوں کے لیے رکھا جاتا ہے، جس کے دوران وہ سائز میں بڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں کیننگ، بارسات اور دھم کھالی کے ہول سیل مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے، اور ایکسپورٹ کے لیے آگے بھیج دیا جاتا ہے، اکثر مردوں کے ذریعے موٹر بائک پر، جو انھیں پانی سے بھرے پلاسٹک بیگ میں سیڈلنگ کو لے کر جاتے ہیں۔


05-IMG_2112-US-From river to plate-the journey of the Sundarbans tiger prawn.jpg

ساؤتھ ۲۴ پرگنہ ضلع کے کھارے پانی کے احاطے میں رکھنے کے بعد، سیڈلنگ سائز میں بڑے ہو جاتے ہیں


پوری طرح بڑے ہوچکے ٹائیگر جھینکوں کی قیمت ہول سیل مارکیٹ میں کافی اچھی مل جاتی ہے۔ ترون مونڈل، جو کیننگ فش مارکیٹ میں ہول سیلر ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی اصل آمدنی ٹائیگر جھینگوں سے ہی آتی ہے۔ ’’یہ اچھا کاروبار ہے۔ ہم بھیریوں سے اسے ۳۸۰ سے ۸۸۰ روپے فی کلو کے حساب سے خریدتے ہیں، اور ۴۰۰ سے ۹۰۰ روپے فی کلو کے حساب سے بیچتے ہیں (جو ان کے سائز پر منحصر ہوتا ہے)۔ ہمارا منافع (فی کلو کے حساب سے) ۱۰ سے ۲۰ روپے ہوتا ہے۔ ہمیں سپلائی زیادہ تر سندر بن سے ملتی ہے، بسنتی اور گوسابے جیسے بلاکوں سے۔ ہم انھیں ایجنٹوں کو بیچ دیتے ہیں، جو بڑی کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں، جہاں سے انھیں ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔‘‘

ہندوستان کا سی فوڈ ایکسپورٹ ۱۶۔۲۰۱۵ میں ۴ اعشاریہ ۶۸ بلین ڈالر تھا؛ اس ایکسپورٹ میں جھینگوں کی مقدار تقریباً ۷۰ فیصد تھی اور انھیں زیادہ تر جاپان، چین اور امریکہ ایکسپورٹ کیا گیا۔ ٹائیگر جھینگے، جنہیں سیاہ ٹائیگر جھینگے بھی کہتے ہیں، جھینگوں کی برآمدات کا اہم حصہ ہیں۔ مغربی بنگال ہندوستان کی جھینگے پیدا کرنے والی بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے اور سی فوڈ کا ایکسپورٹر ہے۔

شوما اور پورنیما جیسے سیڈلنگ جمع کرنے والے حالانکہ اس سے حاصل ہونے والے پیسے کا کچھ حصہ ہی دیکھ پاتے ہیں۔ عورتیں اونچی قیمت کا مطالبہ نہیں کر سکتیں، کیوں کہ ایجنٹ ہی قیمت طے کرتے ہیں اور اس کاروبار پر انہی کا کنٹرول ہے۔ ’’سیڈلنگ کی قیمت کے علاوہ، بچولیے ہمیں سالانہ جمع رقم دیتے ہیں (۲۰۰ سے ۵۰۰ روپے فی کس)، جسے ہمیں واپس نہیں کرنا پڑتا،‘‘ شوما بتاتی ہیں۔ ’’یہ جمع رقم ہمیں صرف انھیں ہی بیچنے کے لیے مجبور کرتی ہے، ہم کسی اور کو نہیں بیچ سکتے۔ ہم عورتیں بڑی تعداد میں جمع ہو کر ان سے تول مول نہیں کر سکتیں۔‘‘

لیکن یہ شوما اور پورنیما جیسی عورتوں کی محنت ہے، جس کی وجہ سے ٹائیگر جھینگوں کا ہول سیل اور ایکسپورٹ مارکیٹ برقرار ہے، اور یہ قیمتی کھانا ہندوستان اور دنیا بھر کی پلیٹوں میں پہنچ رہا ہے۔


Urvashi Sarkar is an independent journalist and a 2016 PARI Fellow.

Other stories by Urvashi Sarkar
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique