’’آج تک کسی نے میرا انٹرویو نہیں لیا ہے۔ میں سب کچھ بتاؤں گی...‘‘

’سب کچھ‘ میں شامل ہے معمولی پیسے کے بدلے ممبئی کے کھار ویسٹ علاقہ میں تقریباً ۷۰ سالوں سے مختلف گھروں کے ٹوائلیٹ صاف کرنا، جھاڑو پونچھا لگانا اور دھلائی کرنا۔ بھٹیری سب جیت لوہٹ کو ۱۹۸۰ کی دہائی سے لے کر ۱۹۹۰ کی شروعات تک، ۱۵-۱۶ گھروں والی اس علاقہ کی ایک پوری عمارت کی صفائی کے بدلے ہر مہینے صرف ۵۰ روپے ملتے تھے، ساتھ ہی ان گھروں کا جوٹھا یا بچا ہوا کھانا بھی مل جاتا تھا۔

’’میرا نام بھٹیری دیوی ہے۔ میں ہریانہ کے روہتک ضلع کے سانگی گاؤں کی رہنے والی ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ ممبئی میں کب آئی، مگر جب آئی تھی، تب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ساس نے ہمارے ایک رشتہ دار کے بدلے مجھے کام پر لگوا دیا تھا۔ ہمارا بیٹا بس دو تین سال کا ہی تھا کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا (وہ بھی ایک صفائی ملازم تھے)۔ وہ دادر میں کام کیا کرتے تھے۔ ایک دن لوکل ٹرین سے جب گھر لوٹ رہے تھے، تو دروازے پر لٹکا ہونے کے سبب ایک کھمبے سے ٹکرا گئے اور وہیں ان کی موت ہو گئی۔‘‘

واقعہ کو کئی عشرے بیت چکے ہیں، لیکن اس کے بارے میں بتاتے وقت غم ان کے چہرے پر صاف جھلک رہا ہے۔ وہ والمیکی نگر، باندرہ ایسٹ، ممبئی میں رہتی ہیں۔ آدھار کارڈ میں ان کا سال پیدائش ۱۹۳۲ درج ہے، جو یہ بتا رہا ہے کہ ان کی عمر ۸۶ سال ہے۔ لیکن ان کے چہرے کی جھریوں کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ۹۰ سال سے زیادہ کی ہوں گی – جیسا کہ وہ خود بھی دعویٰ کر رہی ہیں۔ ان کا بیٹا ہریش، جو اپنی عمر کے ۷۰ویں سال میں تھا، اسی سال ۳۰ جون کو اس کا بھی انتقال ہو گیا۔ بھٹیری کی شادی ۱۲-۱۳ سال کی چھوٹی عمر میں ہی ہو گئی تھی، جس کے بعد وہ اپنے شوہر سرب جیت لوہٹ کے ساتھ ممبئی آ گئی تھیں۔

ان کی فیملی کے تمام لوگ (اور سسرال کے زیادہ تر رشتہ دار) ممبئی میں تھے، وہ سبھی ہریانہ سے آئے تھے۔ تقریباً سبھی صاف صفائی کے کام میں لگے ہوئے تھے اور پرائیویٹ نوکری کرتے تھے۔ اس پورے محلے میں زیادہ تر لوگ، بھٹیری کی ہی طرح، والمیکی برادری سے ہیں، جو الگ الگ دور میں روزی روٹی کی تلاش میں ہریانہ سے یہاں آئے۔ بھٹیری کی ہی طرح، وہ سبھی اپنے گھر میں ہریانوی بولتے ہیں۔ پورے ممبئی کی والمیکی بستیوں میں ہریانہ سے آئے لوگوں کی اکثریت ہے، خاص طور پر بھانڈوپ ٹینک روڈ، ڈومبی ولی، ماٹونگا کیمپ، وِکرولی اور چیمبور میں۔

یہ ذات صاف صفائی کے ہی کام میں کیوں پھنسی ہوئی ہے؟ ’قسمت کا ایک دھاگہ ہے۔ یہی کام ہماری برادری کا واحد کام ہے، سبھی اسے کرتے ہیں،‘ بھٹیری دیوی کہتی ہیں

ویڈیو دیکھیں: بھٹیری دیوی اپنی زندگی کی کہانی بیان کر رہی ہیں

اس برادری کے لوگوں کی نقل مکانی پورے ہندوستان میں ایک ہی جیسی ہے، اور یہ لوگ ہر جگہ ایسی ہی بستیوں میں ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہی حال ان کی ذات سے وابستہ کام کا بھی ہے، جو کئی نسلوں سے اس برادری کے ذریعے کیا جا رہا ہے – ممبئی میں یا کہیں اور۔ یہ پیٹرن شہروں کی جگمگاتی زندگی میں کہیں چھپ جاتا ہے اور کبھی دکھائی نہیں دیتا۔

بھٹیری، جن کی پیٹھ سالوں سے کام کرتے کرتے جھک چکی ہے، کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا ہے کہ انھیں اپنی زندگی کی حالت کو لے کر بہت زیادہ فکرمندی ہے۔ ہم نے جب ممبئی میں واقع ان کے گھر پر ان سے ملاقات کی، تو وہ بڑے جوش سے اپنی کہانی ہمیں سنانے لگیں۔ اس گھر میں باقی سبھی لوگ یہ دیکھ کر حیران تھے۔ انھوں نے اس سے پہلے کسی اور کے ساتھ انھیں اتنا کھل کر بات کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تبھی، بھٹیری نے ان سے کہا کہ پہلے کسی نے بھی ان کا انٹرویو نہیں لیا ہے – اور یہ کہ وہ بولنا چاہتی ہیں۔

بھٹیری نے پھر بتانا شروع کیا۔ اپنے شوہر کی موت کے بارے میں: ’’یہ میری زندگی کا سب سے مشکل وقت تھا۔ میرے جیٹھ اور دیور بھی اسی گھر میں رہتے تھے۔ میں اس وقت کماتی تھی۔ سسرال والے میری اکثر پٹائی کرنے لگے۔ میرے شوہر کے بھائی مجھ پر دباؤ ڈالنے لگے کہ میں ان میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کر لوں۔ میں نے کہا، نہیں۔ میرے پاس ایک بیٹا ہے، میں اسی کے ساتھ اپنا وقت گزار لوں گی۔ میں جانتی تھی کہ اگر میں نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کر لی، تو کوئی بھی میری عزت نہیں کرے گا۔ میں نے اپنے لیے کمایا، اپنے بیٹے کی پرورش کی، اور اپنی عزت کو سنبھالے رکھا۔ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔‘‘ (کچھ ذاتوں یا برادریوں میں، بیوہ کی شادی اس کے شوہر کے چھوٹے یا بڑے بھائی کے ساتھ کر دی جاتی ہے)۔

’’شادی کے بعد، میں اپنے شوہر، ساس سسر اور دیور کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ شروع میں ہم لوگ کھار میں رہتے تھے، جہاں کھٹِک [یہ بھی دلت ہیں] رہتے ہیں۔‘‘

Bhateri Devi standing outside
PHOTO • Bhasha Singh
The entrance to Valmiki Nagar where Bhateri Devi Lives
PHOTO • Bhasha Singh

بھٹیری دیوی شادی کے بعد ممبئی کے والمیکی نگر (دائیں) آ گئی تھیں۔ یہاں ۱۵-۱۶ گھروں کی صفائی کے بدلے انھیں ہر ماہ صرف ۵۰ صرف ملتے تھے۔

’’میں نے زندگی بھر کھار میں ہی کام کیا۔ ان دنوں، یہاں دو چار عمارتیں ہی تھیں۔ تب ممبئی کھلی کھلی اور خالی خالی ہوا کرتی تھی۔‘‘ بھٹیری کو نہ تو اپنی تنخواہ یاد ہے اور نہ ہی یہ یاد ہے کہ جب وہ ممبئی آئی تھیں، تو کتنے پیسے میں آلو پیاز یا کپڑے ملتے تھے۔ گھر کے لیے سامان خریدنے سے لے کر ان کی کمائی تک، ہر چیز پر ساس کا کنٹرول تھا۔ بھٹیری کو اس میں سے ایک بھی پیسہ نہیں ملتا تھا۔

بھٹیری کی پوری زندگی کھار کی اسی عمارت کے ارد گرد گھومتی رہی، جہاں وہ ٹوائلیٹ صاف کرنے اور جھاڑو پونچھا کرنے جایا کرتی تھیں۔ اسّی سال کی ہونے پر بھی انھوں نے اپنا یہ کام نہیں چھوڑا تھا۔ ’’بہت لڑائی جھگڑے کے بعد ہماری ددیا ساس کا کام کسی اور کو سونپا گیا۔ آج بھی ہمارے منع کرنے کے باوجود وہ کھار ویسٹ کے لوگوں سے ملنے چلی جاتی ہیں،‘‘ ان کے پوتے، سنجے ہریش لوہٹ کی بیوی، ۳۷ سالہ تنو لوہٹ، بتاتی ہیں۔

سنجے نے کچھ دنوں تک گٹر (نالے) کی صفائی کا کام کیا، لیکن لیور کی بیماری ہونے پر اسے چھوڑ دیا۔ بھٹیری سے جب راقم الحروف کی ملاقات ہوئی تھی، تب سنجے اسپتال سے علاج کراکر گھر لوٹے تھے۔ لیکن، دو مہینوں کے اندر ہی لیور فیل ہونے سے ان کی موت ہو گئی، تب ان کی عمر ۴۰ سال تھی۔ سنجے ایک بے حد خوش مزاج انسان تھے اور مرنے سے کچھ دنوں پہلے ہی انھوں نے ہمیں بتایا تھا: ’’بچپن سے ہی میں نے اپنی دادی کو جھاڑو لگاتے اور گٹر صاف کرتے دیکھا ہے۔ ان کی بدولت ہی ہم زندہ ہیں۔ انھوں نے ہی ہماری پرورش کی اور کوشش کی کہ ہم اس گندگی سے دور رہیں۔ وہ شروع سے ہی محنت کرتی رہیں۔‘‘

Granddaughter-in-law Tanu, wife of Bhateri Devi's deceased grandson Sanjay, with Sachi 11, Sara 8 and Saina 5. They are standing underneath the a garlanded poster of Bhateri Devi’s son, Sanjay’s father.
PHOTO • Bhasha Singh

بھٹیری دیوی کے پوتے کی بیوی، تنو لوہٹ، ساچی (۱۱)، سارہ (۸) اور ساینا (۵) کے ساتھ ایک ہورڈنگ کے نیچے کھڑے ہو کر اپنے سسر کو خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہیں

’’میرے والد شروع میں آٹو رکشہ چلاتے تھے۔ پھر، انھوں نے وہ کام چھوڑ دیا اور گھر پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد انھیں سکریٹریٹ میں صفائی ملازم کا کام مل گیا، لیکن وہاں مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ کسی نے ذات کو لے کر فقرہ کس دیا، جس کے بعد جھگڑا ہوا، اور پھر انھیں وہاں سے باہر نکال دیا گیا۔ تب سے لے کر اپنی موت تک، وہ گھر پر ہی رہے۔

’’جب میں چھوٹا تھا، تو دادی بتاتی تھیں کہ سات منزلہ ایک پوری عمارت کی صفائی کے بدلے انھیں ۵۰ روپے ملتے تھے۔ پوری بلڈنگ میں جو ۱۵-۱۶ گھر ہوتے تھے، وہ سبھی ملا کر اتنے پیسے دیتے تھے۔ گھر کا خرچ کیسے چلتا تھا، یہ بھی آپ کو بتاتا ہوں۔ جن گھروں میں وہ کام کرتی تھیں، وہاں بڑے لوگ رہتے تھے، جو اپنا بچا ہوا کھانا دے دیتے تھے۔ اور ہم لوگ کئی دنوں تک وہی کھاتے تھے۔ ابھی گزشتہ کچھ دنوں سے دادی نے ۴۰۰۰ روپے ماہانہ کمانا شروع کیا تھا۔‘‘

بھٹیری کے لیے یہ مشکل بھرا سال رہا ہے۔ پہلے شوہر کی موت ہوئی، پھر ان کے بیٹے سنجے کا انتقال ہو گیا۔ ویسے، اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ خوش دکھائی دے رہی ہیں۔ ’’دماغ کام میں لگا رہتا۔ کام کرنے والے ہم سبھی لوگ ایک ساتھ جاتے، گپیں مارتے، ایک دوسرے سے اپنا دکھ سکھ بانٹتے۔ گھر کی لڑائی سے دور۔ کام بھی ایسا کہ چھٹی ہی نہیں ملتی تھی، جس کے سبب میں کبھی اپنے گاؤں نہیں جا سکی۔ لیکن زندگی بھر میں نے وہی کپڑے پہنے، جو میں وہاں سے لے کر آئی تھی۔‘‘ آج بھی، وہ اپنی زبان اور پوشاک میں ٹھیٹھ ہریانوی ہیں۔

پوری عمر ایک ہی طرح کے کام میں گزار دینے کے بعد بھی، بھٹیری کو یہ نہیں معلوم کہ قصوروار کسے ٹھہرایا جائے۔ نہ ہی وہ کسی کے تئیں غصے کا اظہار کرتی ہیں۔ ’’قسمت کا ایک دھاگہ ہے۔ یہی کام ہماری برادری کا واحد کام ہے، سبھی اسے کرتے ہیں۔‘‘ اور یہی سوچ کر بھٹیری اور ان جیسی لاکھوں عورتیں اس غیر انسانی اور گندگی بھرے کام کو انجام دے رہی ہیں۔

تو ان کی ذات کے لوگ اس کام میں پھنسے ہی کیوں ہوئے ہیں؟ بھٹیری اس کا جواب بڑی معصومیت سے دیتی ہیں: ’’مجھے اس کا جواب نہیں معلوم۔ میرے سبھی لوگ اسے کرتے ہیں، اس لیے میں بھی کر رہی ہوں۔ جھاڑو کو لگاتار پکڑنے سے میری کلائی مڑ گئی ہے، لیکن مجھے پنشن تک نہیں ملتی۔ ہمارے پاس غریبوں والا [بی پی ایل] کارڈ تک نہیں ہے۔

’’لیکن میں خوش ہوں، مجھے کھانے کے لیے اچھا کھانا ملتا ہے۔ اور ہاں، مجھے ایک چیز کا اطمینان ضرور ہے – کہ میں نے زندگی بھر اپنی محنت سے کما کر کھایا۔ اور گھر کے باہر، کھلی ہوا میں سانس لی۔ مجھے باہر گھومنا پسند ہے۔ میں نے کام کرنا کبھی بند نہیں کیا اور دل بہلانے کے لیے بیڑی پیتی رہی۔‘‘

وہ ہنستی ہیں، اور ٹوٹے ہوئے دانتوں کے بیچ یہ مسکراہٹ ان کے سارے غم چرا لیتی ہے۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Bhasha Singh

Bhasha Singh is an independent journalist and writer, and 2017 PARI Fellow. Her book on manual scavenging, ‘Adrishya Bharat’, (Hindi) was published in 2012 (‘Unseen’ in English, 2014) by Penguin. Her journalism has focused on agrarian distress in north India, the politics and ground realities of nuclear plants, and the Dalit, gender and minority rights.

Other stories by Bhasha Singh
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique