اپنا ایک بازو آشیرواد میں اٹھائے تخت پر گدّی نشین بھگوان گنیس کی ۱۰ فٹ اونچی مورتی کی سونڈ پکڑے، شنکر مِردواڈ اسے گیلی مٹی سے حتمی شکل دے رہے ہیں۔ رنگ کی بوتلوں، ربر ڈائی کے ڈبّوں اور مورتیوں کے ڈھانچوں کے ارد گرد ناریل کی چھالیں اور پلاسٹر سے بھری بوریاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ’’کچھ حصوں میں پی او پی رہ گیا ہے،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔ ’’اس کے بعد مورتی رنگے جانے کے لیے تیار ہو جائے گی۔‘‘

وہ پرانے حیدرآباد شہر کے مصروف دھول پیٹ علاقے کی منگل ہاٹ روڈ پر لگیں تیار اور بن رہی مورتیوں کی قطار کے پیچھے جس ترپال اور بانس کے شیڈ کے نیچے کام کر رہے ہیں، وہ بمشکل نظر آ رہا ہے۔ بڑی چھوٹی گنیش کی مورتیاں لے جاتے ہوئے ٹرک اور ٹیمپو تنگ گلیوں میں بہت ہی دھیمی رفتار سے چل رہے ہیں – یہاں بنی ہوئی سب سے بڑی مورتیاں ۲۱ فٹ کی ہیں، جو ترپال سے ڈھکی ہیں اور مردوں کی جے کار لگاتی ہوئی بھیڑ کے درمیان عوامی خیموں اور گھروں کی طرف جا رہی ہیں۔

شنکر اس شیڈ میں جون کے آخری ہفتہ سے کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کا مالک، جو شہر سے باہر ہے، ایسی تین اور ورکشاپ چلاتا ہے۔ جب میں نے اگست کے آخری ہفتہ میں دورہ کیا تھا، تو ہر ایک ورکشاپ میں ۲-۳ کاریگر اس سال ستمبر کے پہلے ہفتہ میں ہونے والے گنیش چترتھی تہوار کے لیے مورتیاں تیار کرنے میں مصروف تھے۔

شنکر بتاتے ہیں کہ ایک اور دستہ – مورتی سازوں کا – دھول پیٹ کے کام کے اس شیڈ میں جنوری کے آس پاس آیا تھا اور اپریل میں واپس چلا گیا تھا، جیسا کہ وہ ہر سال کرتے ہیں۔ ’’اپنی دکان میں ہم کولکاتا کے رہنے والے مورتی ساز کو بلاتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’وہ چینی مٹی سے مورتی بناتے ہیں۔ مورتی ساز کو ایک [بڑی] مورتی کو پورا تیار کرنے میں تقریباً ۲۵ دن لگتے ہیں۔‘‘

Shankar painting the bruised part after pasting the chinni mitti
PHOTO • Sumit Kumar Jha
Babban sitting on the hand of a ganesh idol and painting it
PHOTO • Sumit Kumar Jha

بائیں: پس منظر کے کھرچے ہوئے حصے کو رنگتے شنکر مردواڑ۔ دائیں: ببّن داولیکر ناندیڑ ضلع سے یہاں آتے ہیں؛ وہاں گھر پر وہ ایک آٹورکشا چلاتے ہیں

کچھ ہفتے بعد، شنکر اور دیگر کاریگر آ جاتے ہیں۔ وہ اس پروسیس کو سمجھتے ہیں: تراشی ہوئی مٹی کی مورتی ایک نمونے کا کام کرتی ہے۔ شنکر اور ان کے ساتھی اس پر ربر ڈائی کی پرت لگاتے ہیں جو تقریباً ۱۰ دنوں میں ایک سخت پرت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر اس پر سیال ریزِن لگایا جاتا ہے۔ یہ سب مل کر ایک سانچے میں ڈھل جاتا ہے، جسے اصل مورتی سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ سانچے کو پلاسٹر اور بھوسی کے ساتھ ایک اور مورتی بنانے کے لیے بھرا جاتا ہے۔ لمبی مورتیوں کو سہارا دینے کے لیے اندر بانس رکھا جاتا ہے۔ پلاسٹر ۱۰-۱۵ منٹ میں سخت ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد سانچے کو ہٹا لیا جاتا ہے۔ کسی ٹوٹے پھوٹے حصے کو کاریگر گیلی مٹّی سے ٹھیک کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد، صارفین کی مانگ کے حساب سے مورتیاں رنگی اور سجائی جاتی ہیں۔

شنکر بتاتے ہیں کہ اس طرح سے اس ورکشاپ میں وہ اور دیگر لوگ ہر ایک ڈیزائن کی تقریباً ۵۰ مورتیاں بناتے ہیں – اور شنکر کے آجر کی چار ورکشاپ میں سیزن کے دوران کل ملا کر گنیش کی تقریباً ۴۰۰ مورتیاں بنائی جاتی ہیں۔ وہ صرف بڑی مورتیاں بناتے ہیں، ۱۰ فٹ کی یا اس سے بھی بڑی، اور ڈیزائن کے حساب سے ہر مورتی ۱۵ ہزار روپے سے ۶۰ ہزار روپے میں بیچی جاتی ہے۔

شنکر، جو اب ۲۹ سال کے ہیں، گنیش، دُرگا اور دیگر دیوتاؤں کی مورتیاں ایک دہائی سے زیادہ وقت سے بنا رہے ہیں۔ وہ کمبھار ذات سے ہیں، جو روایتی طور پر مٹی کے برتن بنانے میں ماہر تھے۔ ’’جب میں ۱۶ سال کا تھا تب دسویں کے امتحان کے بعد کی چھٹیوں میں پہلی بار اپنے چچا کے ساتھ دھول پیٹ آیا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں نے چھوٹے موٹے کام کیے، جیسے چیزوں کو لانا لے جانا یا رنگنے میں مدد کرنا۔‘‘ وہ تین مہینے تک رکے اور ہر ماہ ۳۵۰۰ روپے کمائے۔

شنکر کی فیملی حیدرآباد سے تقریباً ۱۸۰ کلومیٹر دور، تلنگانہ کے نظام آباد ضلع کے ورنی بلاک کے ورنی گاؤں میں ہے۔ اس چھٹی کے بعد وہ مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلع کے ایک کالج میں بی اے کی پڑھائی کرنے چلے گئے۔ ’’میں دوسرے سال میں پڑھائی چھوڑ دی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں فیملی میں سب سے بڑا تھا اور ان کی دیکھ بھال کرنا میری ذمہ داری تھی۔‘‘

شنکر کے تین بھائی ہیں (ان کی بہنیں نہیں ہیں) اور سبھی مورتی ساز ہیں۔ وہ اور ان کی بیوی سواتی، جو آمدنی کے لیے بیڑی بناتی ہیں، کی دو بیٹیاں ہیں، جو آٹھ اور تین سال کی ہیں۔ ان کے والدین ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں، اور گاؤں میں مٹی کے برتن بنانے کا کام کرتے ہیں۔

PHOTO • Sumit Kumar Jha

مورتی بنانے کا عمل: شنکر ربر ڈائی کا سانچہ (اوپر بائیں) لیے ہوئے، جس میں وہ اس ہاتھ (اوپر دائیں) کو بنانے کے لیے پی او پی اور ناریل کی بھوسی کا آمیزہ ڈالیں گے۔ شیلندر سنگھ گنیش کی مورتی (نیچے بائیں) کی آنکھوں کو رنگتے ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ رنگائی کا یہ سب سے مشکل حصہ ہے۔ بدری وشال اسے آخری شکل دیتے ہوئے (نیچے دائیں)

کالج چھوڑنے کے فوراً بعد وہ دھول پیٹ لوٹ آئے۔ ’’دوسرے مورتی سازوں کو کام پر دیکھتے اور ان کی مدد کرتے ہوئے میں نے بھی مورتیاں بنانا سیکھ لیا۔ تبھی سے میں ٹھیکہ پر ایک مورتی ساز کے طور پر کرنول، گنٹور، نیلور، وجے واڑہ، ہوسُر اور بنگلور جیسی کئی جگہوں پر کام کرتا رہا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’پہلے سال کے ۱۲ مہینے کام ہوتا تھا، لیکن اب مجھے یہ کام صرف آٹھ مہینے ملتا ہے۔ دھول پیٹ میں پیداوار کم ہو گئی ہے کیوں کہ پچھلے ۳-۴ برسوں سے یہاں پر باہر سے مورتیاں آنے لگی ہیں۔‘‘

شنکر بتاتے ہیں کہ دھول پیٹ میں دو مہینے مورتیاں بنانے کے لیے انہیں ہر مہینے ۳۰ ہزار روپے تک مل جاتے ہیں۔ ’’میں مالکوں سے براہِ راست معاہدہ کرتا ہوں اور میرے ہنر کے سبب وہ مجھے رکھ لیتے ہیں اور زیادہ (رقم) ادا کرتے ہیں۔ نئے کاریگر اور ایک جگہ رہ جانے والے کاریگر کم کماتے ہیں۔ میں کم وقت میں اور زیادہ ہنرمندی سے کام پورا کرتا ہوں،‘‘ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔

’’اس کے بعد میں اپنے گاؤں واپس جاتا ہوں اور جو بھی کام ملتا ہے، کر لیتا ہوں۔ میں گھروں میں پُتائی یا ڈھابوں پر معاون کا کام کرتا ہوں، اور روزانہ تقریباً ۶۰۰ روپے کماتا ہوں،‘‘ گنیش کی مورتی کے چہرے پر سفید رنگ چھڑکنے کے لیے مچان پر اسپرے گن پکڑ کر کھڑے شنکر بتاتے ہیں۔

شنکر کی طرح کئی دیگر کاریگر تلنگانہ اور دیگر ریاستوں سے گنیش چترتھی اور دسہرہ تہوار سے پہلے دھول پیٹ کی مورتیوں کے ورکشاپ میں آتے ہیں۔ ان مہینوں میں وہ ورکشاپ میں رہتے اور سوتے ہیں۔ ان میں سے ایک، ناندیڑ ضلع کے بیلولی تعلقہ کے بڈور گاؤں سے آنے والے ۲۲ سالہ ببّن داولیکر بھی ہیں۔ وہ پانچ سالوں سے، جون کے پہلے ہفتے میں یہاں آ رہے ہیں اور پھر اپنے گاؤں لوٹ کر آٹورکشا چلاتے ہیں۔ ان کے والد بھی آٹو ڈرائیور ہیں اور ماں آنگن واڑی کارکن۔ ’’ہم صبح آٹھ بجے کام شروع کرتے ہیں اور یہ آدھی رات یا اس کے بعد تک چلتا ہے۔ کوئی مقررہ وقت نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

۳۲ سالہ بلویر سنگھ منگل ہاٹ علاقے کے ہی ہیں اور ۱۰ برسوں سے دھول پیٹ میں ایک دیگر ورکشاپ میں برسرکار ہیں۔ ’’مجھے مہینے میں ۱۲ ہزار روپے ملتے ہیں۔ لیکن میرا کام گھٹ کر اب صرف چھ یا آٹھ مہینے کا رہ گیا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’مہاراشٹر میں بنی مورتیوں کی بڑھتی مقبولیت کے سبب دھول پیٹ کی مورتیوں نے اپنی شہرت کھو دی ہے۔ بیگم بازار کی دکانیں [ایک کلومیٹر دور] انہیں کم قیمت پر بیچتی ہے۔ میں باقی مہینوں میں حیدرآباد میں چوکیدار کا یا [گھروں میں] پُتائی کا کام کرتا ہوں، لیکن میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ میں اس کام کو کرکے خوش ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

PHOTO • Sreelakshmi Prakash ,  Sumit Kumar Jha

مٹی، پلاسٹر اور بھوسی کے بعد مورتی اب چمکیلے رنگوں سے رنگ گئی ہے۔ اوپر بائیں: شنکر اسپرے گن سے رنگوں کو درست کرتے ہوئے۔ اوپر دائیں: ٹرک سے اپنے خیمہ تک پہنچنے کو تیار ایک مورتی۔ نیچے بائیں: کبھی کبھی سڑک پر صورت ٹھیک کی جاتی ہے، جب کہ کچھ مورتیاں دھول پیٹ کی سڑک پر اپنے گاہکوں کا انتظار کر رہی ہیں

دھول پیٹ میں ایک مورتی ساز کے ورکشاپ میں کام کرنے والے ۳۸ سالہ گنپت مونِک ورار مانسون کی نمی میں مورتیوں کو سُکھانے کے لیے استعمال ہونے والے چارکول کو گرم کر رہے ہیں۔ وہ ریگ مال سے مورتی کو رگڑنے اور ہاتھ اور سونڈ جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ تلنگانہ کے عادل آباد ضلع (نقشہ دووبارہ کھینچے جانے کے بعد اب نرمل ضلع میں) کے تنور ڈویژن میں اپنے گاؤں، دولت آباد میں کھیتی کے کام میں وقفہ کے دوران، اپنے بہنوئی کے ساتھ یہاں پہلی بار آئے ہیں۔ وہاں وہ ایک زرعی مزدور ہیں اور روزانہ ۲۵۰ روپے کماتے ہیں؛ وہ دو ایکڑ پٹّے کی زمین پر کھیتی بھی کرتے ہیں۔ ’’میں جولائی کے وسط سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ مجھے [ہر ماہ] ۱۳ ہزار روپے ملتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’کھیتی سے مجھے سال میں ۵۰-۶۰ ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ میں سویا، اڑد، ارہر، مونگ، جوار، چنا اُگاتا ہوں... مجھے یہ کام (مورتی سازی) اچھا نہیں لگتا ہے۔ مجھے رات میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ اگلے سال میں نہیں آؤں گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

وہ، شنکر اور دیگر کاریگر جب سانچوں سے مورتیاں بنا لیتے ہیں، تو پھر اسے سجانے کا کام شروع ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ تھوڑی رنگائی بھی کرتے ہیں، لیکن مصوروں کا ایک الگ دستہ ۲-۳ کے گروپوں میں یہ کام کرتا ہے – ایک آدمی چہرے پر، دوسرا ہاتھوں پر اور اسی طرح سے دیگر لوگ رنگائی کرتے ہیں۔ ’’ہم [گنیش] پوجا سے دو مہینے پہلے، جون سے کام شروع کر دیتے ہیں،‘‘ اسپرے گن اور رنگ کی بوتل پکڑے ہوئے ۳۱ سالہ بدری وشال بتاتے ہیں، جو دھول پیٹ کے رہنے والے ہیں۔ ’’ایک مورتی رنگنے میں آدھا دن [آٹھ گھنٹے] لگتا ہے۔ ہم ایک وقت میں ۵-۶ مورتیوں پر کام کرتے ہیں۔‘‘ بدری ۱۵ سالوں سے مورتیاں رنگ رہے ہیں۔ ’’میں باقی مہینوں میں تھوک میں پتنگیں بیچتا ہوں، جو میں کانپور سے لاتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’یہاں مجھے رکشا بندھن پر آدھے دن کی چھٹی ملی، ورنہ ہمیں دو مہینے تک کوئی چھٹی نہیں ملتی ہے۔ پینٹ کمپریشر مشین [اسپرے گن] سے کام آسان ہو گیا ہے لیکن باریکیوں میں ہمارا زیادہ تر وقت جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس بار مجھے کتنا پیسہ ملے گا، یہ میرے کام پر منحصر ہے۔‘‘

آنکھوں کی رنگائی کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ اسی ورکشاپ میں ۲۰ سالہ شیلندر سنگھ گنیش کی مورتیوں کی آنکھیں اور پیشانی کو برش سے پوری توجہ کے ساتھ رنگ رہے ہیں۔ ’’دو سال پہلے میں نے یہاں ایک مصور کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں دو مہینے کام کرتا ہوں اور باقی مہینے میں پڑھائی کرتا ہوں [وہ ۱۲ویں کلاس پاس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں] اور اپنے والدین کی [دھول پیٹ میں ان کی ڈوسا اِڈلی کی دکان میں] مدد کرتا ہوں۔ میں استاد مصور بننا چاہتا ہوں جو شری گنیش کی آنکھیں رنگ سکے۔ آنکھیں رنگنا سب سے مشکل کام ہے، یہ اس طرح ہونا چاہیے کہ بھکت چاہے جہاں کھڑے ہوں یہ لگنا چاہیے کہ گنیش جی انہیں ہی دیکھ رہے ہیں۔‘‘

سمت کمار جھا کے ذریعے اضافی رپورٹنگ۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Sreelakshmi Prakash

Sreelakshmi Prakash likes to do stories on vanishing crafts, communities and practices. She is from Kerala, and works from Hyderabad.

Other stories by Sreelakshmi Prakash
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique