جب شری رنگن (۵۵) اپنے کام سے فارغ ہوکر گھر واپس آتے ہیں، تو وہ سب سے پہلے اپنے ہاتھوں پر سوکھ چکے سخت ترین ربڑ کے دودھ کو ہٹاتے ہیں۔ رنگن نو عمری سے ہی ربڑ کے درختوں کو چھیل رہے ہیں اور وہ اس کے سفید دودھ سے بخوبی واقف ہیں جو سوکھتے ہی سخت اور بھورے رنگ کا ہو جاتا ہے۔ گھر پہنچنے کے بعد اسے اپنے ہاتھوں سے چھڑانا سب سے اہم کام ہوتا ہے۔

ان کے دن کی شروعات صبح چھ بجے ہوتی ہے جب وہ چھ سات انچ لمبے ہُک نما پال ویٹور کاٹھی (ربڑ کی چھال کو چھیلنے والا چاقو) سے لیس ہوکر سرولاکوڈ گاؤں میں اپنے ربڑ کے باغات میں جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کے والد کو الاٹ کردہ پانچ ایکڑ کاشتکاری کی زمین ان کے گھر سے محض پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے اور اس زمین پر وہ ربڑ، کالی مرچ اور لونگ کی کاشت کرتے ہیں۔

وہ اور ان کی بیوی لیلا شری رنگن، جن سے انہوں نے ۲۷ سال پہلے شادی کی تھی، دونوں ربڑ کے درختوں پر ساتھ ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان کا تعلق کانی کرن آدیواسی برادری سے ہے۔

شری رنگن (جو صرف اپنا پہلا نام استعمال کرتے ہیں) ربڑ کے خشک دودھ کو جمع کرکے اپنا کام شروع کرتے ہیں، جو ایک سیاہ کپ میں بہہ کر بھر گیا ہے جسے انہوں نے کئی روز پہلے درخت سے باندھ دیا تھا۔ ’’یہ اوٹوکارا ہے،‘‘ وہ ہمیں سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہ بچا ہوا ربڑ کا دودھ ہے جو اس دن کے تازہ دودھ کو جمع کرنے کے بعد کپ میں بہہ جاتا ہے۔ یہ رات بھر میں سوکھ جاتا ہے۔‘‘

خشک ربڑ کے دودھ کو فروخت کرنے سے اضافی آمدنی ہوتی ہے جسے وہ ۶۰-۸۰ روپے فی کلو کے درمیان کہیں بھی فروخت کرکے پیسے کما لیتے ہیں۔ وہ اوٹوکارا کو دو ہفتوں تک جمع کرنے کے بعد بازار میں فروخت کر دیتے ہیں۔

ایک بار جب وہ کپ خالی کرلیتے ہیں، تو وہ درخت کی چھال میں ایک انچ لمبی پٹی کاٹتے ہیں تاکہ کپ میں تازہ ربڑ کا دودھ بہہ سکے۔ وہ اپنی زمین پر لگے دیگر ۲۹۹ درختوں پر بھی اسی عمل کو دہراتے ہیں۔

Srirangan tapping rubber trees in his plantation in Surulacode village. He cuts a strip from the bark; latex flows into the black cup.
PHOTO • Dafni S.H.
Srirangan tapping rubber trees in his plantation in Surulacode village. He cuts a strip from the bark; latex flows into the black cup
PHOTO • Dafni S.H.

شری رنگن سرولا کوڈ گاؤں میں اپنے باغ میں ربڑ کے درختوں کو چھیل رہے ہیں۔ وہ چھال سے ایک پٹی کاٹتے ہیں؛ ربڑ کا دودھ سیاہ کپ میں بہنے لگتا ہے

After breakfast, Srirangan and Leela walk back with buckets (left) in which they collect the latex in (right)
PHOTO • Dafni S.H.
After breakfast, Srirangan and Leela walk back with buckets (left) in which they collect the latex in (right)
PHOTO • Dafni S.H.

ناشتے کے بعد، شری رنگن اور لیلا بالٹیاں لے کر واپس لوٹتے ہیں (بائیں) جس میں وہ ربڑھ کا دودھ اکٹھا کرتے ہیں (دائیں)

جب شری رنگن اپنے ربڑ کے درختوں پر کام کرنے کے لیے باغ میں جاتے ہیں، لیلا گھر کا کام ختم کرکے ناشتہ بناتی ہیں۔ تین گھنٹوں تک ربڑ کے درختوں کو چھیلنے کے بعد شری رنگن کھانا کھانے گھر آتے ہیں۔ یہ جوڑا توٹاملئی پہاڑ کے قریب رہتا ہے۔ کوڈئیار ندی قریب سے بہتی ہے۔ وہ اکیلے ہی رہتے ہیں – ان کی دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور اپنے شوہروں کے ساتھ رہتی ہیں۔

صبح ۱۰ بجے کے قریب، لیلا اور شری رنگن باغ میں واپس آتے ہیں، دونوں بالٹی لے کر ربڑ کے سفید دودھ کو اکٹھا کرنے کے لیے ان درختوں کے پاس جاتے ہیں جن میں ربڑ کا سیال بہہ کر کپ میں جمع ہو چکا ہوتا ہے۔ اس عمل میں انہیں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے اور پھر وہ دوپہر تک اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ آرام کرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے، کیوںکہ ربڑ کی چادریں بنانے کا عمل فوری طور پر شروع ہونا چاہیے ورنہ ربڑ کا دودھ خشک ہونا شروع ہو جائے گا۔

لیلا ربڑ کے دودھ کو پانی میں ملانا شروع کر دیتی ہیں۔ ’’اگر ربڑ کا دودھ گاڑھا ہو تو ہم مزید پانی ڈال سکتے ہیں۔ لیکن اسے چادروں میں تبدیل ہونے میں کافی وقت لگے گا،‘‘ لیلا (۵۰) بتاتی ہیں۔

لیلا مستطیل نما برتنوں کو ترتیب سے لگاتی ہیں جبکہ شری رنگن اس میں مرکب ڈالتے ہیں۔ ’’ہم اس برتن میں دو لیٹر ربڑ کا دودھ اور تھوڑی مقدار میں تیزاب ملاتے ہیں۔ تیزاب کی مقدار استعمال شدہ پانی کی مقدار پر منحصر ہے۔ ہم اس کی پیمائش نہیں کرتے،‘‘ لیلا یہ سب کچھ ہمیں اس وقت بتا رہی ہیں، جب ان کے شوہر نے سانچوں میں ربڑ کا دودھ ڈالنا ختم کر دیا ہے۔

جب پاری کی ٹیم مئی کے مہینے میں ان سے ملنے گئی تھی، تو ربڑ کا سیزن اسی وقت شروع ہوا تھا اور وہ ایک دن میں ربڑ کی صرف چھ چادریں بنا پا رہے تھے۔ چونکہ ربڑ بنانے کا عمل مارچ تک چلتا ہے، لہٰذا وہ سال بھر میں ۱۳۰۰ تک چادریں بنا سکتے ہیں۔

شری رنگن بتاتے ہیں، ’’ایک چادر میں ۸۰۰-۹۰۰ گرام ربڑ کا دودھ ہوتا ہے۔‘‘ لیلا احتیاط کے ساتھ تیزاب ملانا شروع کر دیتی ہیں۔

The couple clean and arrange (left) rectangular vessels, and then (right) mix the latex with water before pouring it in
PHOTO • Dafni S.H.
The couple clean and arrange (left) rectangular vessels, and then (right) mix the latex with water before pouring it in
PHOTO • Dafni S.H.

میاں بیوی (بائیں) مستطیل نما برتنوں کو صاف کرتے ہیں اور اسے ترتیب کے ساتھ رکھتے ہیں، اور پھر (دائیں) ربڑ کے دودھ کو ڈالنے سے پہلے اس میں پانی ملاتے ہیں

Srirangan pours the latex into the vessel using a filter (left); Leela mixes some acid in it (right) so that it coagulates.
PHOTO • Dafni S.H.
Srirangan pours the latex into the vessel using a filter (left); Leela mixes some acid in it (right) so that it coagulates
PHOTO • Dafni S.H.

شری رنگن ایک چھلنی (بائیں) کا استعمال کرتے ہوئے ربڑ کے دودھ کو برتن میں ڈالتے ہیں۔ لیلا اس میں تھوڑا سا تیزاب ملاتی ہیں (دائیں) تاکہ یہ جم جائے

پندرہ منٹ کے بعد ربڑ کا دودھ جم جاتا ہے اور ربڑ کی چادروں میں تبدیل ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ربڑ کے دودھ کو دو قسم کی رولر مشینوں میں ڈالا جاتا ہے۔ پہلی مشین کا استعمال ایک ہی شیٹ کو یکساں طور پر پتلا کرنے کے لیے چار بار کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری مشین کا استعمال اسے شکل دینے کے لیے ایک ہی بار کیا جاتا ہے۔ پھر چادروں کو پانی سے صاف کیا جاتا ہے۔ لیلا کہتی ہیں، ’’کچھ لوگ عام طور پر اس کے لیے ایک مزدور کو کام پر رکھ لیتے ہیں اور انہیں دو روپے فی چادر [جو وہ بناتے ہیں] کے حساب سے محنتانہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہم ربڑ کی یہ چادریں خود تیار کرتے ہیں۔‘‘

ڈھلی ہوئی ربڑ کی چادروں کو پہلے دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے۔ شری رنگن اور لیلا ربڑ کی چادروں کو ایک قطار میں لٹکا دیتے ہیں، جس کا استعمال وہ کبھی کبھی اپنے دھلے ہوئے کپڑوں کو سکھانے کے لیے کرتے ہیں۔ اگلے روز، وہ ان چادروں کو اپنے باورچی خانے میں لے جاتے ہیں۔

لیلا لکڑی کے اوپر لٹکی ہوئی ربڑ کی چادروں کے بنڈل کو دکھانے کے لیے ایک چھوٹا پردہ ہٹاتی ہیں۔ ’’آگ کی تپش چادروں کو خشک کر دیتی ہے۔ جب چادر بھوری رنگ کی ہو جائے گی تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ مکمل طور پر خشک ہو گئی ہے،‘‘ وہ بنڈل سے ربڑ کی چادر نکالتے ہوئے بتاتی ہیں۔

جب بھی انہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ جوڑا چادریں جمع کرکے آٹھ کلومیٹر دور واقع ربڑ کی چادر کی دکان پر اسے فروخت کر دیتا ہے۔ شری رنگن کہتے ہیں، ’’کوئی مقررہ قیمت نہیں ہے۔‘‘ انہیں جو رقم ملتی ہے وہ بازار کی قیمت کے مطابق روزانہ بدل جاتی ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’فی الوقت تو اس کی قیمت ۱۳۰ روپے فی کلوگرام ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’پچھلے سال ہمیں تقریباً ۶۰ ہزار روپے [ربڑ کی چادروں کو فروخت کرکے] ملے۔‘‘ لیلا کہتی ہیں، ’’اگر بارش ہو رہی ہو یا بہت زیادہ گرمی ہو، تو ہم ربڑ نکالنے کے لیے نہیں جاسکتے۔ ان دنوں انہیں صرف اس موسم کے گزر جانے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘‘

Left: The machines in which the coagulated latex thins out and gets a shape.
PHOTO • Dafni S.H.
Right: The sheets drying in the sun
PHOTO • Dafni S.H.

بائیں: وہ مشینیں جن میں جما ہوا ربڑ کا دودھ پتلا ہو کر ایک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دائیں: ربڑ کی چادریں دھوپ میں سوکھ رہی ہیں

To dry them out further, the sheets are hung in the kitchen. 'The heat from the fire dries the sheets.' says Leela. They turn brown in colour when dry
PHOTO • Dafni S.H.
To dry them out further, the sheets are hung in the kitchen. 'The heat from the fire dries the sheets.' says Leela. They turn brown in colour when dry
PHOTO • Dafni S.H.

ان چادروں کو مزید خشک کرنے کے لیے باورچی خانہ میں لٹکا دیا جاتا ہے۔ لیلا کہتی ہیں، ’آگ کی تپش چادروں کو خشک کر دیتی ہے۔‘ خشک ہونے پر ان کا رنگ بھورا ہو جاتا ہے

ربڑ کے درختوں کو عام طور پر ۲۰ سال بعد کاٹ دیا جاتا ہے کیونکہ ان سے پیدا ہونے والے دودھ کی مقدار وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کی جگہ نئے پودے لگائے جاتے ہیں اور نئے لگائے گئے ربڑ کے درختوں کو مطلوبہ دودھ پیدا کرنے میں سات سال لگتے ہیں۔ شری رنگن کہتے ہیں، ’’بعض اوقات لوگ ۳۰ یا ۱۵ سال بعد بھی درخت کاٹ دیتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ درخت کتنا زیادہ دودھ پیدا کر سکتا ہے۔‘‘

حکومت ہند کے ربڑ بورڈ کے اعدادوشمار کے مطابق، گزشتہ پندرہ برسوں میں ربڑ کی کاشت کے کل رقبے میں تقریباً ۳۸ فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اور اسی اثنا میں اس کی پیداوار میں ۱۸ فیصد کی کمی بھی واقع ہوئی ہے۔

شری رنگن بتاتے ہیں، ’’ہمارے کام کا منافع بھی موسم کے حساب سے بدلتا رہتا ہے۔‘‘ اس لیے ان کے پاس آمدنی کے دیگر ذرائع بھی ہیں – وہ سال میں ایک بار کالی مرچ اور لونگ کی فصل بھی اگاتے ہیں۔

’’کالی مرچ کے سیزن میں، اس کا منافع مارکیٹ میں فروخت ہونے والی کالی مرچ کی مقدار پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ کپاس جیسی دیگر تمام فصلوں کی طرح ہے۔ اس وقت [مئی میں]، ہمیں ایک کلوگرام ہری گول مرچ کی قیمت ۱۲۰ [روپے] ملتی ہے۔ ایک لونگ کے لیے ہمیں ۵۰ء۱ روپے ملتے ہیں،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔ ایک اچھے سیزن میں، وہ ۲۰۰۰-۲۵۰۰ عدد لونگ جمع کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

شری رنگن گزشتہ ۱۵ برسوں سے اور تلیور (بستی کے مکھیا) بھی رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’لوگوں نے اچھی تقریری صلاحیتوں کی وجہ سے مجھے منتخب کیا تھا۔ لیکن بڑھاپے کی وجہ سے میں اب ہر چیز کی اچھی طرح سے دیکھ ریکھ نہیں کر سکتا۔‘‘

وہ خوشی سے کہتے ہیں، ’’میں گاؤں میں ایک پرائمری اسکول [جی پی ایس- توٹل ملئی] بنوانے میں کامیاب رہا اور سڑک کی تعمیر کرانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔‘‘

مترجم: سبطین کوثر

Student Reporter : Dafni S.H.

Dafni S.H. is a third-year student of Journalism, Psychology and English Literature at Christ (Deemed to be University), Bengaluru. She wrote this story during her summer internship with PARI in 2023.

Other stories by Dafni S.H.
Editor : Sanviti Iyer

Sanviti Iyer is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with students to help them document and report issues on rural India.

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser