’’میری شناخت سے صرف میرے گھر والوں کو اعتراض تھا، ماہی گیروں کو نہیں۔ کشتی کے مالکان مجھے کئیراسی [خوش نصیب ہاتھ] سمجھتے ہیں،‘‘ مچھلیوں کی نیلامی کرنے والی منیشا کہتی ہیں، جو ایک ٹرانس خاتون ہیں۔ وہ خوشی سے بتاتی ہیں، ’’انہوں نے مجھے اپنانے سے انکار نہیں کیا۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کون ہوں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میں ان کی مچھلیاں بیچوں۔‘‘

کڈلور اولڈ ٹاؤن بندرگاہ پر مچھلیوں کی نیلامی کرنے والی تقریباً ۳۰ خواتین میں سے ایک میناکشی (۳۷) کہتی ہیں، ’’میں زیادہ قیمت حاصل کر سکتی ہوں کیوں کہ میری آواز سب سے بلند ہے۔ کئی لوگ صرف مجھ سے خریدنا چاہتے ہیں۔‘‘ خریداروں کو پکارتے وقت ان کی آواز سب سے اونچی ہوتی ہے۔

میناکشی نے جنس کی تصدیق کرنے والی سرجری کرانے سے بہت پہلے ہی مچھلیوں کی نیلامی اور سوکھی مچھلیوں کا کاروبار شروع کر دیا تھا۔ اس کام میں انہیں روزانہ کشتی کے مالکان اور ماہی گیروں سے بات چیت کرنی پڑتی ہے۔ ’’انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دوسروں کے مقابلے میں مچھلیوں کو بہتر طریقے سے نیلام کرتی ہوں۔‘‘

وہ بتاتی ہیں کہ کشتی مالکان کی اخلاقی مدد کے بغیر وہ ۲۰۱۲ میں اپنی سرجری نہیں کرا پاتیں۔ انہی لوگوں میں سے ایک ان کے قریبی دوست اور متعمد بھی ہیں، جن کے ساتھ انہوں نے سرجری کے فوراً بعد ہی ایک مقامی مندر میں جا کر شادی کر لی تھی۔

Maneesha (right) is a fish auctioneer and dry fish trader. Seen here close to Cuddalore Old Town harbour (left) where she is one among 30 women doing this job
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

منیشا (دائیں) مچھلیوں کی نیلامی کرنے والی اور خشک مچھلیوں کی تاجر ہیں۔ یہاں انہیں کڈلور اولڈ ٹاؤن بندرگاہ (بائیں) کے قریب دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ ۳۰ دیگر عورتوں کے ساتھ یہ کام کرتی ہیں

No one discriminates against her, says Maneesha, a trans woman who interacts every day with boat owners and fishermen: 'They don’t have a problem '
PHOTO • M. Palani Kumar
No one discriminates against her, says Maneesha, a trans woman who interacts every day with boat owners and fishermen: 'They don’t have a problem '
PHOTO • M. Palani Kumar

کشتی کے مالکان اور ماہی گیروں کے ساتھ روزانہ بات چیت کرنے والی منیشا کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ہونے کی وجہ سے کوئی بھی ان کے ساتھ امتیاز نہیں کرتا ہے: ’انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘

منیشا نے سوکھی مچھلیوں کے پھلتے پھولتے کاروبار میں ایک تاجر کے ساتھ ۱۷ سال کی عمر میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا، اور اس ہنر کو سیکھنے کے بعد اگلی دہائی میں انہوں نے خود کا اپنا کاروبار کھڑا کر لیا۔ ’’اس کاروبار کے سہارے، میں نے بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطہ بنایا۔ ان میں سے کچھ نے مجھے مشورہ دیا کہ کڑی دھوپ میں مچھلیاں سُکھانے کی بجائے نیلامی کا کام شروع کر دوں۔ آہستہ آہستہ میں نے یہ کام شروع کر دیا۔‘‘

مچھلیوں کی نیلامی کے حقوق حاصل کرنے کے لیے، نیلامی کرنے والوں کو (جن میں سے تقریباً ۹۰ فیصد خواتین ہیں) کشتی کے مالکان کو پیشگی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ ’’میں رنگ سین جالوں سے مچھلی پکڑنے والی چار کشتیوں کے لیے [مچھلیوں کی] نیلامی کرتی ہوں۔ ان میں سے ہر ایک کشتی کے مالک کو میں نے شروع میں تین چار لاکھ روپے کی پیشگی رقم ادا کی۔ اس وقت میرے پاس بچت کے کچھ پیسے تھے لیکن دوستوں سے بھی قرض لینا پڑا تھا،‘‘ منیشا بتاتی ہیں۔ ’’سوکھی مچھلیوں کے کاروبار اور نیلامی کے کام سے ہونے والے منافع سے میں نے قرض کے پیسے لوٹانے شروع کیے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

نیلامی کرنے والے منیشا جیسے لوگ، مچھلیوں کے بندرگاہ پر آتے ہی اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔ یہ مچھلیاں رنگ سین جالوں ( سُروکّ ولئی ، یا چھوٹے سائز کے پرس سین جالوں) کا استعمال کرنے والی بڑی کشتیوں کے ذریعے پکڑی جاتی ہیں؛ بعض دفعہ خاندانی اکائیوں کے ذریعہ فائبر کی مدد سے چلائی جانے والی چھوٹی کشتیوں کے گروپ سے بھی مچھلیاں پکڑ کر لائی جاتی ہیں۔

’’مچھلیوں کے خراب ہونے پر میں انہیں مرغیوں کے چارے کے لیے سُکھا لیتی تھی، ورنہ کھانے لائق سوکھی مچھلیوں میں تبدیل کر دیتی تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ منافع کے پیسے کو دوبارہ استعمال کرنے سے ان کا کاروبار تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔

Auctioneers like Maneesha get to work once the fish comes into the harbour. Some fish need to be kept in a ice box to prevent them from getting spoilt while some are kept in the open (left)
PHOTO • M. Palani Kumar
Auctioneers like Maneesha get to work once the fish comes into the harbour. Some fish need to be kept in a ice box to prevent them from getting spoilt while some are kept in the open (left)
PHOTO • M. Palani Kumar

نیلامی کرنے والے منیشا جیسے لوگ، مچھلیوں کے بندرگاہ پر آتے ہی اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔ کچھ مچھلیوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے برف کے ڈبے میں رکھنا پڑتا ہے، جب کہ باقی مچھلیاں کھلے میں (بائیں) رکھ دی جاتی ہیں

Left: Maneesha waits with other women for the fish auction to begin. Right: All sellers leave the bridge around 5 p.m.
PHOTO • M. Palani Kumar
Left: Maneesha waits with other women for the fish auction to begin. Right: All sellers leave the bridge around 5 p.m.
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: منیشا دوسری عورتوں کے ساتھ نیلامی شروع ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔ دائیں: پل کے نیچے مچھلیاں بیچنے والے تمام لوگ شام کو تقریباً ۵ بجے اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں

پانچ سال پہلے حالات تب اچانک بدل گئے، جب منیشا سے وہ جگہ چھین لی گئی جس پر وہ مچھلیاں سُکھانے کا کام کرتی تھیں۔ اس زمین کو آئندہ کی بندرگاہ میں کشتی گھر (بوٹ ہاؤس) بنانے کے لیے تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ منیشا کے کاروبار کو اس سے پہلے بھی کئی خطروں کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب کچھ لوگوں نے عرضی داخل کرکے اپنے گھروں کے قریب گندگی اور بدبو کی شکایت کر دی تھی۔ اب کاروبار کرنے کی جگہ نہ ہونے اور مچھلی کو محفوظ کرنے میں مشکلات کے باعث انہیں اپنا کاروبار ہی بند کرنا پڑا۔

*****

سال ۲۰۲۰ میں، کووڈ۔۱۹ کے سبب نقل و حمل اور سپلائی چین میں رکاوٹ پیدا ہونے کی وجہ سے بندرگاہ پر کشتیوں کی آمد و رفت بہت کم ہو گئی تھی۔ پھر ۲۰۲۱ میں، تمل ناڈو میرین فشریز ریگولیشن رولز میں ترمیم کے بعد پرس سین جالوں پر پابندی لگنے کی وجہ سے ماہی گیر برادریوں کو دوسرا بڑا جھٹکا لگا۔ پڑھیں: سوکھی مچھلیوں کا مندا ہوتا کاروبار

منیشا نے کچھ دنوں پہلے ہی، سال ۲۰۱۹ میں اپنے شوہر کی اسٹیل کی کشتی پر کافی پیسے لگائے تھے۔ ’’ان کشتیوں پر خرچ کرنے کے لیے بہت سے لوگوں نے ہمیں قرض دیے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’ہمارے پاس کشتیاں ہیں، میں نے چار کشتیوں میں سے ہر ایک پر ۲۰ لاکھ روپے لگائے ہیں، لیکن سرکاری پابندی کی وجہ سے اب کوئی بھی ہم سے یہ کشتیاں نہیں خریدے گا۔ اور جب کشتیاں مچھلی پکڑنے نہیں جائیں گی، تو ہماری کمائی بھی نہیں ہوگی۔ ایسے میں ہم قرض کا پیسہ کیسے لوٹا پائیں گے؟‘‘

تاہم، جنوری ۲۰۲۳ میں سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کے آبی حدود سے باہر پرس سین جال سے مچھلیاں پکڑنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن یہ بھی کہا تھا کہ شرائط کے ساتھ مخصوص اقتصادی علاقہ (ای ای زیڈ) کے اندر ہی مچھلیاں پکڑی جائیں۔ کڈلور میں رنگ سین ٹیکنالوجی سے متعلق ماہی گیروں کے تنازع کی وجہ سے جن کشتیوں کی نیلامی کا کام منیشا کر رہی تھیں، انہیں اب پڈوچیری میں لنگر انداز ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اپنے زیورات (۱۰۵ ساورینز) کو بیچنے اور تین کمرے کے پکّے گھر کو بینک کے پاس گروی رکھنے کے باوجود، ابھی انہیں قرض کے ۲۵ لاکھ روپے لوٹانے باقی ہیں۔

Maneesha in front of the house (left) she built with her earnings. She also keeps cows (right), goats and chickens to supplement her income from selling fish
PHOTO • M. Palani Kumar
Maneesha in front of the house (left) she built with her earnings. She also keeps cows (right), goats and chickens to supplement her income from selling fish
PHOTO • M. Palani Kumar

اپنی محنت کی کمائی سے تعمیر کردہ گھر (بائیں) کے سامنے منیشا۔ آمدنی کے لیے مچھلیاں فروخت کرنے کے علاوہ، وہ گائے، بکریاں اور مرغیاں بھی پالتی ہیں

کڈلور اولڈ ٹاؤن وارڈ میں ۲۰ سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) ہیں اور منیشا تمام ضروری کاغذات جمع کرنے کے لیے تیار ہیں، پھر بھی انہیں پرائیویٹ لون لینا پڑا ہے۔  وہ بتاتی ہیں، ’’ان میں سے کوئی بھی مجھے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ٹرانس جینڈر ہونے کی وجہ سے کسی بھی بینک نے مجھے لون (قرض) نہیں دیا ہے؛ وہ مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے۔‘‘

منیشا کو لگتا ہے کہ بینک کے پیسے اور سرکاری تعاون سے انہیں مدد مل سکتی تھی۔ ’’حکومت نے ترومنی کُڑی میں تقریباً ۷۰ ٹرانس جینڈر افراد کو ایک کمرے کا مکان دیا تھا، لیکن سارے مکان جنگل میں تھے، جہاں نہ تو پانی کا انتظام ہے اور نہ ہی نقل و حمل کی کوئی سہولت۔ ایسے میں وہاں کون جائے گا؟ سارے گھر بہت چھوٹے اور الگ تھلگ تھے، اگر کوئی ہمارا قتل کر دے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا؛ کسی کو ہماری چیخ بھی نہیں سنائی دے گی۔ اس لیے ہم نے گھر کا پٹّہ حکومت کو واپس لوٹا دیا۔‘‘

*****

پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی منیشا نے، جن کی شناخت پیدائش کے وقت مرد کے طور پر کی گئی تھی، ۱۵ سال کی عمر سے ہی کمانا شروع کر دیا تھا۔ ان کے والد ایک کسٹم آفیسر تھے اور آبائی طور پر پڈوچیری کے قریب واقع پلئی چاوڑی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ان کی تعیناتی کڈلور اولڈ ٹاؤن بندرگاہ پر کی گئی تھی۔ ان کی ماں منیشا کے والد کی دوسری بیوی تھیں۔ وہ درج فہرست کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھیں اور پاس میں ہی چائے کی ایک دکان چلاتی تھیں۔

منیشا کے والد کی پہلی بیوی اور بچے ان کے گاؤں میں ہی رہتے تھے۔ شراب کا عادی ہونے کی وجہ سے وہ نہ تو کبھی کڈلور میں اپنی دوسری فیملی کا خیال رکھتے تھے اور نہ ہی خرچ اخراجات کے لیے کبھی پیسے دیتے تھے۔ منیشا کے سب سے بڑے بھائی سوندر راجن (جو اب ۵۰ سال کے ہو چکے ہیں) نے اپنی ماں اور بھائی بہنوں کی مدد کے لیے ۱۵ سال کی عمر میں ہی مچھلی پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی تین بہنیں ہیں – شکنتلا (۴۵)، شکیلہ (۴۳) اور آنندی (۴۰)؛ شکیلہ مچھلی فروش ہیں، جب کہ دیگر دو بہنیں شادی شدہ ہیں اور خود اپنا گھر چلاتی ہیں۔

Besides fish, Maneesha also sells milk (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
Besides fish, Maneesha also sells milk (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

مچھلیوں کے علاوہ، منیشا دودھ بھی بیچتی ہیں (دائیں)

تمام بھائی بہنوں نے ۱۵ سال کی عمر میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ منیشا کی ماں اور بہن بندرگاہ پر چائے اور بسکٹ وغیرہ بیچتی تھیں۔ منیشا سب سے چھوٹی ہیں، اس لیے ماں انہیں جو بھی کام دیتیں انہیں کرنا پڑتا تھا۔ سال ۲۰۰۲ میں، جب وہ ۱۶ سال کی تھیں، تو انہوں نے کڈلور کے انڈین ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) میں داخلہ لے لیا اور ویلڈنگ کا ایک سال کا کورس مکمل کیا۔ انہوں نے ویلڈنگ کے کارخانہ میں ایک مہینہ تک کام بھی کیا، لیکن یہ کام انہیں پسند نہیں آیا۔

جب انہوں نے سوکھی مچھلیوں کا کام شروع کیا، تب وہ ایک دن میں ۷۵ روپے کماتی تھیں – اس دوران انہیں مچھلیوں کو سر پر ڈھونے، انہیں صاف کرنے، نمک لگانے اور سُکھانے کا کام کرنا پڑتا تھا۔

سوکھی مچھلیوں کے کاروبار کے لیے درکار ہنر سیکھنے کے بعد، سال ۲۰۰۶ میں جب وہ ۲۰ سال کی ہوئیں، تو انہوں نے جنگل کی ایک کھلی ہوئی زمین کو صاف کر کے اس پر اپنے لیے مچھلیاں سُکھانا شروع کیا۔ دونوں بہنوں کی شادی کی وجہ سے فیملی کے اوپر کافی قرض جمع ہو چکا تھا۔ تبھی منیشا نے دو گائے خریدی اور ان کا دودھ بیچنا شروع کیا، ساتھ میں مچھلی کا کاروبار بھی کرتی رہیں۔ اب، ان کے پاس پانچ گائے، سات بکریاں اور ۳۰ مرغیاں ہیں، اس کے علاوہ مچھلیوں کی نیلامی اور انہیں بیچنے کا کام بھی چل رہا ہے۔

*****

منیشا حالانکہ اپنی مقررہ جنس سے ۱۰ سال کی عمر سے ہی پریشانی محسوس کرنے لگی تھیں، لیکن انہوں نے اس کے بارے میں بولنا تب شروع کیا جب وہ نوخیز عمر میں کمانے لگی تھیں۔ وہ اپنی ماں اور بہنوں کے لیے زیورات اور ساڑیاں خریدتیں، اور کچھ اپنے لیے بھی رکھ لیتیں۔ جب وہ ۲۰ سال کی ہوئیں، تو انہوں نے جنس کی تصدیق کرنے والی سرجری کرانے کا فیصلہ کیا۔

Maneesha with a friend (left) after work and outside her home (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
Maneesha with a friend (left) after work and outside her home (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

کام کے بعد ایک دوست کے ساتھ (بائیں) اور اپنے گھر کے باہر (دائیں) منیشا

انہوں نے دوسرے ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ میل جول بڑھانا شروع کر دیا۔ ان کی ایک دوست اپنا آپریشن کرانے کے لیے ممبئی گئی تھی۔ وہاں ۱۵ سال گزارنے کے بعد وہ کڈلور واپس لوٹی۔ اس نے مدد کی پیشکش کی تھی، لیکن منیشا اپنی فیملی کو چھوڑ کر ممبئی نہیں جانا چاہتی تھیں۔

اس کی بجائے انہوں نے کڈلور کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں جانے کا فیصلہ کیا، جہاں انہیں ایک ماہر نفسیات اور ایک وکیل سے سرٹیفکیٹ جمع کرانے کے لیے کہا گیا، اور حکام کو یہ سمجھانا پڑا کہ وہ یہ سرجری کیوں کرانا چاہتی ہیں۔ سرجری کی فیس انہوں نے اپنے کاروبار سے حاصل کی گئی رقم سے ادا کی اور اس پورے عمل کے دوران سارا خرچ بھی خود ہی برداشت کیا۔

جنس کی تبدیلی کے ان تمام سالوں میں فیملی کے ساتھ منیشا کے تعلقات ہمیشہ خراب رہے۔ سرجری کے بعد ان کی ماں اور بہنوں نے کئی سالوں تک ان سے بات نہیں کی، حالانکہ اس دوران وہ اپنے لیے تعمیر کردہ گھر کے بغل میں ہی رہتی تھیں۔ ان کی ماں بہت پریشان تھیں، یہاں تک کہ انہوں نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے منیشا سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ دوسرے ٹرانس جینڈر افراد کی طرح وہ کبھی سڑکوں پر بھینک نہ مانگیں۔

کچھ سال پہلے پتہ چلا کہ منیشا کی والدہ کو آنتوں کا کینسر ہے۔ لہٰذا منیشا نے ان کی سرجری اور علاج کے لیے ۳ لاکھ روپے ادا کیے، تب جا کر ماں بیٹی میں صلح ہوئی۔ ایک سال بعد ان کی ماں کا انتقال ہو گیا، لیکن ماں کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے بھائی بہنوں کے ساتھ منیشا کے تعلقات بحال ہو گئے۔

منیشا کا اصرار ہے کہ زیادہ تر ٹرانس جینڈر افراد کسی اور کی طرح محنت کرنے کو تیار رہتے ہیں، لیکن سرکاری مدد کی کمی اکثر انہیں بدسلوکی کا شکار بنا دیتی ہے۔ ’’کبھی کبھی جب میں اس گھر میں اکیلی ہوتی ہوں تو دروازہ کھولنے سے مجھے ڈر لگتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میری بہنیں الگ رہتی ہیں، اگرچہ وہ قریب میں ہی ہیں۔ لیکن، بلانے پر وہ فوراً میرے پاس آ جاتی ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Nitya Rao

Nitya Rao is Professor, Gender and Development, University of East Anglia, Norwich, UK. She has worked extensively as a researcher, teacher and advocate in the field of women’s rights, employment and education for over three decades.

Other stories by Nitya Rao
Photographs : M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is Staff Photographer at People's Archive of Rural India. He is interested in documenting the lives of working-class women and marginalised people. Palani has received the Amplify grant in 2021, and Samyak Drishti and Photo South Asia Grant in 2020. He received the first Dayanita Singh-PARI Documentary Photography Award in 2022. Palani was also the cinematographer of ‘Kakoos' (Toilet), a Tamil-language documentary exposing the practice of manual scavenging in Tamil Nadu.

Other stories by M. Palani Kumar
Editor : Shaoni Sarkar

Shaoni Sarkar is a freelance journalist based in Kolkata.

Other stories by Shaoni Sarkar
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique