اشوک جاٹو ایک ایسے شخص ہیں جنہیں مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔

اشوک جاٹو (۴۵) کی صبح بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی کسی عام آدمی کی۔ وہ عام مزدوروں کی طرح دوسروں کے کھیتوں میں محنت کرتے ہیں، اور عام مزدوروں کی طرح ہی دن بھر کے کام کے بعد شام کو گھر واپس لوٹتے ہیں۔ لیکن اشوک اور اور باقیوں میں صرف ایک فرق ہے: سرکاری طور پر اشوک کی موت ہو چکی ہے۔

جولائی، ۲۰۲۳ میں کھورگھر کے رہنے والے اشوک کو معلوم ہوا کہ انہیں پردھان منتری کسان سمان ندھی کے تحت ملنے والے ۶۰۰۰ روپے لگاتار دو سالوں سے نہیں ملے ہیں۔ سال ۲۰۱۹ میں مرکزی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس اسکیم کے تحت کسانوں کو کم از کم  انکم سپورٹ کے طور پر سالانہ ۶۰۰۰ روپے تک دیے جائیں گے۔

پہلے دو سالوں تک یہ رقم باقاعدگی سے ان کے اکاونٹ میں جمع کی جاتی رہی۔ پھر اچانک رک گئی۔ انہوں نے سوچا کہ کسی خرابی کے سبب ایسا ہو گیا ہوگا اور سسٹم اسے خود بخود درست کر لے گا۔ اشوک صحیح تھے۔ ایسا ایک خرابی کی وجہ سے ہوا تھا، لیکن ویسے نہیں جیسا کہ انہوں نے سوچا تھا۔

جب وہ ضلع کلکٹریٹ میں ادائیگی روکے جانے کی وجہ دریافت کرنے پہنچے، تو کمپیوٹر کے پیچھے بیٹھے شخص نے ڈیٹا دیکھ کر بتایا کہ ۲۰۲۱ میں کووِڈ ۱۹ کے دوران ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔ انہیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ہنسیں یا روئیں۔ ’’مجھے سمجھ نہیں آیا اس پر کیا بولوں،‘‘ اشوک کہتے ہیں۔

Ashok Jatav, a farm labourer from Khorghar, Madhya Pradesh was falsely declared dead and stopped receiving the Pradhan Mantri Kisan Samman Nidhi . Multiple attempts at rectifying the error have all been futile
PHOTO • Parth M.N.

مدھیہ پردیش کے کھورگھر سے تعلق رکھنے والے اشوک جاٹو ایک زرعی مزدوری ہیں، جنہیں دھوکہ سے مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اب اس کی وجہ سے انہیں پردھان منتری کسان سمان ندھی کے تحت ملنے والی امدادی رقم نہیں مل پا رہی ہے۔ اس غلطی کو درست کرنے کی اب تک کی ان کی متعدد کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں

مدھیہ پردیش کی درج فہرست ذاتوں میں شامل جاٹو برادری سے تعلق رکھنے والے اشوک دوسروں کے کھیتوں میں محنت کرکے یومیہ ۳۵۰ روپے کی اجرت پر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ خود ایک ایکڑ زمین کے مالک ہیں، جہاں وہ اپنے استعمال کے لیے فصلیں اگاتے ہیں۔ ان کی بیوی لیلا بھی زرعی مزدور ہیں۔

’’اگر ہم دن میں کام کرتے ہیں، تو رات میں کھانا ملتا ہے،‘‘ شیو پوری ضلع میں اپنے گاؤں میں ایک کھیت میں سویابین کی کٹائی کے دوران لیے گئے ایک وقفے میں اشوک کہتے ہیں۔ ’’سالانہ ۶۰۰۰ کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے، لیکن ہمارے لیے کوئی بھی رقم خوش آئند ہے۔ میرا ایک ۱۵ سال کا بیٹا ہے۔ وہ اسکول میں ہے اور مزید پڑھائی کرنا چاہتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا۔‘‘

ڈیتھ سرٹیفکیٹ کو منسوخ کرانے کے لیے اشوک نے ذاتی طور پر شیو پوری کے ضلع کلکٹر کودرخواست دی۔ تنسیخ کے عمل میں تیزی لانے کی امید میں گرام پنچایت کی عوامی سماعت میں بھی اس معاملے کو اٹھایا۔ عوامی سماعت کے بعد پنچایت افسران ان سے ملنے گئے اور کہا کہ انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ وہ زندہ ہیں۔ ’’میں ان کے سامنے کھڑا تھا،‘‘ وہ حیران کن انداز میں کہتے ہیں، ’’انہیں اور کیا ثبوت چاہیے؟‘‘

اس غیرمعمولی اور پریشان کن صورت حال میں مبتلا وہ واحد شخص نہیں ہیں۔

Ashok was asked by the officials to prove that he is alive. ‘I stood in front of them,' he says, bewildered , 'what more proof do they need?’
PHOTO • Parth M.N.

افسروں نے اشوک سے یہ ثابت کرنے کو کہا کہ وہ زندہ ہیں۔ ’میں ان کے سامنے کھڑا تھا،‘ وہ حیران کن انداز میں کہتے ہیں، ’انہیں اور کیا ثبوت چاہیے؟‘

سال ۲۰۱۹ اور ۲۰۲۲ کے دوران گرام پنچایت اور ضلع پریشد کے درمیان مقامی کڑی کے طور پر کام کرنے والے ادارے بلاک پنچایت کے سی ای او اور کمپیوٹر آپریٹر نے ایک گھوٹالہ کیا۔ اس گھوٹالے میں انہوں نے شیو پوری ضلع کے ۱۵-۱۲ گاؤوں کے ۲۶ لوگوں کو کاغذ پر مردہ قرار دے دیا۔

وزیر اعلیٰ کی سنبل یوجنا کے تحت کسی حادثے کا شکار ہونے والے شخص کے اہل خانہ کو ریاستی حکومت کی جانب سے ۴ لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ان گھوٹالے بازوں نے اُن ۲۶ لوگوں کی طرف سے معاوضے کی رقم کا دعویٰ کیا اور ایک کروڑ روپے سے بھی زیادہ کی رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس نے متعلقہ گھوٹالے بازوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کے خلاف تعزیرات ہند کی دھوکہ دہی اور جعلسازی سے متعلق دفعات ۴۲۰، ۴۶۸، اور ۴۰۹ کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔

شیو پوری پولیس اسٹیشن کے ٹاؤن انسپکٹر ونے یادو کہتے ہیں، ’’ہم نے ایف آئی آر میں گگن واجپئی، راجیو مشرا، شیلیندر پرما، سادھنا چوہان اور لتا دوبے کو نامزد کیا ہے۔ ہم مزید ثبوت کی تلاش میں ہیں۔‘‘

ایک مقامی صحافی، جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے، کا خیال ہے کہ اگر تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے، تو شیو پوری میں اور بھی ایسے کئی معاملے سامنے آ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، غیر جانبدارانہ کارروائی سے کئی بڑے لوگوں کا نام سامنے آ سکتا ہے۔

دریں اثنا، جن لوگوں کو مردہ قرار دیا گیا انہیں اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔

Dataram Jatav, another victim of the scam, says, ‘when you declare me dead, I lose access to all credit systems available to me’. In December 2022, the farmer from Khorgar could not get a loan from the bank to buy a tractor
PHOTO • Parth M.N.

اس جعل سازی کے ایک اور شکار داتارام جاٹو کہتے ہیں، ’جب آپ مجھے مردہ قرار دیتے ہیں، تو میں اپنے لیے دستیاب تمام قرضوں کے نظام تک رسائی کھو دیتا ہوں‘۔ دسمبر ۲۰۲۲ میں کھورگر کے اس کسان کو ٹریکٹر خریدنے کے لیے بینک سے قرض نہیں مل سکا تھا

کھورگھر میں پانچ ایکڑ اراضی کے مالک ۴۵ سالہ کسان داتارام جاٹو کے ٹریکٹر کا لون اسی وجہ سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ دسمبر ۲۰۲۲ میں انہیں ٹریکٹر خریدنے کے لیے رقم کی ضرورت تھی، جس کے لیے وہ بینک گئے، جو ان کے مطابق قرض حاصل کرنے کا سیدھا ذریعہ تھا۔ ’’وہاں یہ پتہ چلا کہ اگر آپ مر چکے ہیں، تو قرض حاصل کرنا مشکل ہے،‘‘ داتارام ہنس دیتے ہیں۔ ’’مجھے پتہ نہیں تھا۔‘‘

داتارام وضاحت کرتے ہیں کہ کسی کسان کے لیے سرکاری فوائد، اسکیمیں اور سبسڈی والے قرضے حیات بخشنے والے آکسیجن کی طرح ہوتے ہیں۔ ’’میرے نام پر ایک بڑا قرض ہے،‘‘ وہ رقم بتائے بغیر کہتے ہیں۔ ’’جب آپ مجھے مردہ قرار دے دیتے ہیں، تو میں اپنے لیے دستیاب قرضوں کے تمام نظام تک رسائی کھو دیتا ہوں۔ میں اپنی کھیتی کے لیے سرمایہ کیسے جمع کروں؟ فصل کے لیے قرضے کیسے حاصل کروں؟ میرے پاس نجی ساہوکاروں کے دروازوں پر دستک دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

نجی ساہوکاروں یا سود خوروں سے قرض لینے کے لیے کسی کاغذی کارروائی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ دراصل، انہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ آیا آپ مر چکے ہیں یا زندہ ہیں، وہ صرف اپنی اونچی شرح سود کی پرواہ کرتے ہیں، جو ۸-۴ فیصد ماہانہ تک ہو سکتی ہے۔ جب کسان سود خوروں سے رجوع کرتے ہیں، تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ آنے والے کئی سالوں کے لیے سود کی ادائیگی کر دیتے ہیں جب کہ اصل رقم وہی رہتی ہے۔ لہذا، ایک چھوٹا سا قرض بھی ان کے گلے کی ہڈی بن جاتا ہے۔

’’میں بڑی مصیبت میں ہوں،‘‘ داتارام کہتے ہیں۔ ’’میرے دو بیٹے ہیں جو بی ایڈ اور بی اے کر رہے ہیں۔ میں انہیں پڑھانا چاہتا ہوں۔ لیکن اس دھوکہ دہی کی وجہ سے میں ایک برا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوا اور اس کا اثر میرے پورے مالی معاملات پر پڑا ہے۔‘‘

Left: Ramkumari with her grandchild in their house in Khorghar and (right) outside her home. Her son Hemant was a victim of the fraud. While they did not suffer financial losses, the rumour mills in the village claimed they had declared Hemant dead on purpose to receive the compensation. ' I was disturbed by this gossip,' says Ramkumari, 'I can’t even think of doing that to my own son'
PHOTO • Parth M.N.
Left: Ramkumari with her grandchild in their house in Khorghar and (right) outside her home. Her son Hemant was a victim of the fraud. While they did not suffer financial losses, the rumour mills in the village claimed they had declared Hemant dead on purpose to receive the compensation. ' I was disturbed by this gossip,' says Ramkumari, 'I can’t even think of doing that to my own son'
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: رام کماری اپنے پوتے کے ساتھ کھورگھر میں اپنے گھر میں اور (دائیں) اپنے گھر کے باہر۔ ان کے بیٹے ہیمنت دھوکہ دہی کا شکار ہوئے ہیں۔ حالانکہ انہیں مالی نقصان نہیں اٹھانا پڑا ہے، لیکن گاؤں میں افواہ پھیلی ہے کہ انہوں نے معاوضہ حاصل کرنے کے لیے ہیمنت کو جان بوجھ کر مردہ قرار دیا تھا۔ ’میں اس بکواس سے پریشان تھی،‘ رام کماری کہتی ہیں، ’میں اپنے بیٹے کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی‘

رام کماری راوت (۴۵) کے لیے اس کے نتائج مختلف رہے ہیں۔ ان کے ۲۵ سالہ بیٹے ہیمنت دھوکہ دہی کا نشانہ بننے والوں میں سے ایک تھے۔ خوش قسمتی سے ان کی ۱۰ ایکڑ زمین ان کے والد کے نام پر ہے اس لیے انہیں کوئی مالی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔

’’لیکن لوگ پیٹھ پیچھے ہماری باتیں کرنے لگے،‘‘ کھورگھر کے اپنے مکان کے برآمدے میں پوتے کو جھولا جھلاتے ہوئے رام کماری کہتی ہیں۔ ’’گاؤں میں لوگوں کو شبہ ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر اپنے بیٹے کو کاغذ پر قتل کر دیا، تاکہ ۴ لاکھ روپے حاصل کر سکیں۔ میں اس بکواس سے پریشان ہو گئی۔ میں اپنے بیٹے کے لیے ایسا سوچ بھی نہیں سکتی،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

رام کماری کا کہنا ہے کہ ہفتوں تک وہ اس طرح کی ناگوار افواہوں سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ ان کا ذہنی سکون بالکل درہم برہم ہو چکا تھا۔ ’’میں بے چین اور خبطی ہوگئی تھی،‘‘ وہ تسلیم کرتی ہیں۔ ’’میں ہمیشہ یہ سوچتی رہتی تھی کہ اسے ٹھیک کرکے ہم لوگوں کے منہ کیسے بند کر سکتے ہیں۔‘‘

ستمبر کے پہلے ہفتے میں رام کماری اور ہیمنت ضلع کلکٹر کے دفتر میں ایک تحریری درخواست لے کر گئے، جس میں ان سے اس معاملے کو دیکھنے کی گزارش کی گئی تھی۔ ’’میں نے ان سے کہا کہ میں زندہ ہوں،‘‘ ہیمنت مسکراتے ہوئے کہتے ہے۔ ’’اس قسم کی درخواست کے ساتھ ان کے دفتر میں داخل ہونا عجیب لگا۔ لیکن ہم نے وہ کیا جو ہم کرسکتے تھے۔ ہمارے بس میں اور ہے کیا؟ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا ہے۔ ہمارا ضمیر صاف ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

اشوک نے بھی خود کو زندہ ثابت کرنے کی کوشش چھوڑ دی ہے۔ ایک یومیہ اجرت والے مزدور کے طور پر ان کی ترجیح کام تلاش کرنا اور دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا ہے۔ ’’یہ فصل کی کٹائی کا موسم ہے اس لیے باقاعدگی سے کام مل جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’دوسرے ایام میں، شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے کام تلاش کرنے کے لیے شہر کے قریب جانا پڑتا ہے۔‘‘

انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ ہمیشہ اپنے معاملے کی جانکاری لیتے ہیں۔ انہوں نے کئی دفعہ چیف منسٹر ہیلپ لائن پر بھی کال کی ہے، لیکن ساری کوششیں بے سود رہی ہیں۔ دراصل وہ سرکاری دفاتر کے چکر لگا کر اپنی یومیہ اجرت کھونے کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے۔ ’’اب جب وہ ٹھیک ہوگا تب ہوگا۔‘‘ ان کی آواز میں تکلیف، حیرت اور بہت ساری محنت کے سبب ہونے والی تھکان شامل تھی۔ لیکن پھر بھی وہ سرکاری کاغذات کے مطابق مردہ ہو چکے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Editors : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Editors : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam