ورَوُور سے تریشور کا راستہ کافی لمبا ہے، لیکن آٹو لیتے وقت ہمیں کچھ اور دوری بتائی جاتی ہے۔ کانٹے دار تاروں کے باڑ سے گھرے ربڑ کے وسیع و عریض باغات ذہن پر دیرپا تاثر چھوڑتے ہیں۔ ہمارا آٹو دوڑتی ہوئی پکی سڑک پر کھلے میدان میں ایک جھونپڑی کے سامنے آکر رک جاتا ہے۔ وروور، وکڈکّن چیری بلاک کی نو (۹) گرام پنچایتوں میں سے ایک ہے۔ یہ گرام پنچایتیں ایک نئے پروجیکٹ، گرین آرمی انیشیٹو، کی تجربہ گاہیں بن گئی ہیں۔

زیر کاشت ۱۰ ایکڑ زمین کے لیے کھیت میں بہت کم مزدور موجود ہیں۔ یہاں زیادہ مزدوروں کی بجائے دو ٹریکٹر گیلے کھیت میں بچھے مَلچ  (کھاد) پر چل رہے ہیں۔ دھان کے پُرسکون کھیتوں میں گہرے سبز رنگ کی وردیوں میں ملبوس گرین آرمی کے سات کارکن جھکے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے سروں پر چوڑے رم والے ہَیٹس ہیں۔ جیسے ہی ہم کھیت کے کناروں سے نیچے اترتے ہیں ایک سبز قمیض والا کسان، لگ بھگ بجھ چکی بیڑی انگلیوں کے درمیان دبائے میرے دوست کے پاس آجاتا ہے۔ یہ کے پی معیدین ہیں۔ وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ میری دوست، جو ایک مقامی اخبار کی صحافی ہیں، ان کی مدد کر سکتی ہیں۔

ان کے کھیت کے قریب ہی کان کنی اور کھدائی کا کام چل رہاہے۔ یہ قربت ان کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ میری دوست کا کہنا ہے کہ ان کا اخبار اس معاملے سے باخبر ہے۔ معیدین وروور میں کھیت کے اس ٹکڑے پر کام کرنے والے ۱۰ کسانوں میں سے ایک ہیں۔ دراصل ان کی پریشانی کی کئی وجوہات ہیں۔ لیکن ان کے کھیت میں کام کر رہے کیرالہ کے لیبر بینک کے یونیفارم والے گرین آرمی کے کارکنوں نے ان کے دو اہم مسائل کو حل کرنے میں کچھ پیشرفت کی ہے۔ یہ مسائل ہیں دھان کی کاشت میں کم پیداوار اور زرعی مزدوروں کی کمی۔

اپنے شاندار سماجی اشاریے کے باوجود کیرالہ کی زراعت غیرمعمولی نہیں رہی ہے۔ سال ۱۹۷۵ اور ۲۰۰۷ کے درمیان کیرالہ کی اہم غذا سمجھی جانے والی دھان کی کاشت ۸۴ء۸ لاکھ ہیکٹیئر سے گھٹ کر ۵۲ء۳ لاکھ ہیکٹیئر رہ گئی ہے۔ اگرچہ وڈکن چیری بلاک کی زرعی زمین کے تقریباً ایک چوتھائی حصے میں دھان کی کاشت ممکن ہے، لیکن وہاں کاشتکاری سست روی کا شکار تھی۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو پیداواری صلاحیت ۲۰۱۱ تک ۲ لاکھ ہیکٹیئر سے بھی کم ہو جائے گی۔

کیرالہ میں ایک پریشانی یہ بھی تھی کہ اونچی لاگت کی وجہ سے کسانوں نے اپنے کھیت مزدور اور ریاست نے اپنے کسان کھو دیے تھے۔ اے ٹی معیدین سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے گرین آرمی سے رابطہ کیوں کیا، تو انہوں نے کندھا اچکا کر کہا، ’’مجھے اس کام کے لیے لوگ نہیں ملے۔‘‘ آبادی میں اضافہ ہوا، لیکن زمینیں بے کاشت اور زراعت غیر فعال ہو گئی۔ خطرے کا اندازہ لگاتے ہوئے ۲۰۰۷ میں ریاستی حکومت نے ’فوڈ سیکورٹی ایکشن اسکیم‘ کا آغاز کیا۔ ادھر اپنے عزائم کو حقیقت پسندانہ رکھتے ہوئے گرین آرمی نے صرف وڈکن چیری بلاک میں دھان کی صد فیصد کاشت کا کام اپنے ذمے لیا۔

PHOTO • Asawari Sodhi
PHOTO • Asawari Sodhi

لہٰذا لیبر بینک کے وجود میں آنے سے پہلے تقریباً ایک دہائی تک اس قطعہ زمین کو کھالی چھوڑ دیا گیا تھا۔ گرین آرمی سے وابستہ مزدور، لتا، کچھ برہمی کے ساتھ لیکن نہایت فخریہ لہجے میں مجھ سے یہ بات کہتی ہیں۔ فخر اس بات پر کہ سبزہ کاری کے اس عمل میں حصہ لینا فائدہ مند بھی ہے اور یہ انہیں بااختیار بھی بناتا ہے۔ اس بات کی تصدیق آج ان کی نگرانی میں چل رہے ٹرانسپلانٹر کے انجن کی گونج کر رہی ہے۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں نے اندازہ لگایا کہ لتا کی نظر مسلسل مشین کے اوپر ہے۔ ان کی ٹھوڑی کے نیچے بندھا سفید اسکارف ان کی چوڑی پیشانی، ان کے مانگ کی سندور، گال کی نمایاں ہڈیوں، اور سیاہ آنکھوں کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ لتا لمبی ہیں لیکن مجھے ان سے بات کرتے ہوئے ان کی طرف نیچے دیکھنا پڑتا ہے، کیونکہ ہم جب تک بات کرتے رہے انہوں نے کبھی کناروں پر قدم نہیں رکھا، انہوں نے کھیت میں ٹخنوں تک گہرے پانی میں ہی رکے رہنے کو ترجیح دیا۔ ان کا تجربہ اور تیاری تقریباً دس سال پرانی ہے، حالانکہ سبز وردی اور ٹریکٹر صرف پانچ سال پرانے ہیں۔

انہوں نے پانچ سال قبل گرین آرمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ گرین آرمی کے بارے میں انہوں نے کڈمبا شری کے ذریعے پہلی بار سنا تھا۔ لتا اس وقت ایک کیلے کے باغ میں کام کرتی تھیں۔ گرین آرمی میں ایک نوآموز کے طور پر انہوں نے پندرہ دن کی تربیت حاصل کی تھی۔ وروور میں ان کی نگرانی میں چلنے والے ٹرانسپلانٹر کھیتوں میں دھان کے پودوں کو آٹھ کے مرتکز قطار میں لگا رہے ہیں۔ لتا ٹرانسپلانٹر کے مڑنے کے لیے ایک طرف کو بھاگتی ہیں۔ جب اسے چلنے میں مشکل پیش آتی ہے، تو کلنک کو اٹھاتی ہیں اور کام جاری رکھنے کے لیے ٹرانسپلانٹر کے بازو کو دھان کے پودوں سے بھرتی ہیں اور دوبارہ واپس آتی ہیں۔ دو ہفتوں کی ٹریننگ کے بعد وہ دوسری مشینیں بھی چلا سکتی ہیں۔ دراصل کوئی بھی شخص اس آرمی میں بھرتی ہو سکتا ہے اور مناسب تربیت حاصل کرنے کے بعد کام کرسکتا ہے۔ گرین آرمی مزدوروں اور کسانوں، دونوں کے مفادات کا اندازہ لگاتی ہے، مشینی زراعت میں مزدوروں کی ٹیم تشکیل دے کر انہیں تربیت دیتی ہے اور پھر انہیں کام کی جگہوں پر تعینات کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کسان کی شراکت کیا؟ اے ٹی معیدین نے اپنے کھیت کی تفصیلات اور ۳۰۰۰ روپے کے ساتھ لیبر بینک سے رابطہ کیا۔ گرین آرمی نے پورے سیزن میں ان کو درکار مزدوروں کی تعداد کا حساب لگایا۔ وڈکن چیری بلاک پنچایت نے راشٹریہ کرشی وگیان یوجنا (آر کے وی وائی) اور گرام پنچایتوں کی شراکت میں مشینری فراہم کرانے میں مدد کی۔

نیم میکانائزیشن کے باوجود پرانی وضع کے زرعی مزدوروں کو چھوڑا نہیں کیا گیا ہے۔ جب ٹرانسپلانٹر کھیت کے ایک حصے میں چلتا ہے، تو اس کے چند میٹر کے فاصلے پر پدماودی چار افراد کی ایک ٹیم میں شامل ہوکر پنڈلیوں تک گہرے پانی میں جھک کر کام کر رہی ہیں۔ وہ چار سال سے گرین آرمی کی رکن ہیں۔ زمین کا یہ حصہ تین ماہ تک ان کا دفتر رہے گا۔ کھیت کے کنارے ان کے پاس سِیڈ مَیٹ (پودوں کی پٹی) تیار ہے۔ جب انہیں مشین کے ذریعہ چھوڑے گئے خالی سوراخ نظر آتے ہیں، تو وہ اپنے ہاتھ میں موجود پودوں کو وہاں گاڑ دیتی ہیں۔ مشین کی غلطیوں سے قطع نظر میکانائزیشن ایک بدنام تقطیبی موضوع ہے۔ صنعت کاری کے نمونے، ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ اور غیر ضروری تکمیلی کہانیاں کثرت سے موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے گرین آرمی کا ڈیزائن اور نفاذ محتاط رہا ہے۔ مرحلہ وار میکانائزڈ زراعت ایک دم سے نہیں نافذ کی گئی۔ مشینیں تو مشینیں ہی ہوتی ہیں، لیکن وہ اسی وقت تک کارآمد رہتی ہیں جب تک کہ زرعی مزدور* نہ مل جائیں۔

اے ٹی میعدین اور کے پی میعدین خود کھیت کی مینڈوں پر جمے رہتے ہیں۔ وہ صرف اسٹیل کے تھرمس میں چائے، گلاس اور اچپم کے ساتھ قریب آتے ہیں۔ انہوں نے پندرہ ایکڑ زمین کے اس قطعہ کو لیز پر لے رکھا ہے۔ ایک ایکڑ زمین میں دھان کی کاشت کے لیے ۳۲ کلو بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیداوار میں سے ہر ایکڑ کے دس سینٹ پر زمین مالکان کا حصّہ ۲۲ کلوگرام ہوتا ہے۔ یعنی ایک ایکڑ کے لیے ۲۲۰ کلو اناج زمین مالکان کے حصے میں جاتا ہے۔ انہیں محکمہ زراعت کے دفتر سے پندرہ پیسے فی کلو گرام کی سبسڈی والے نرخوں پر بیج دستیاب کرائے جاتے ہیں۔ مختلف اداروں کے پورے نیٹ ورک میں محکمہ زراعت کا دفتر ہی گرین آرمی کو چلاتا ہے۔ آر کے وی وائی، مقامی حکومت خود اختیاری (سلف گورننس)، ایگریکلچر ٹیکنالوجی مینجمنٹ ایجنسی (اے ٹی ایم اے)، محکمہ زراعت، کڈمبا شری، تریشور ڈسٹرکٹ اور وڈکن چیری بلاک اس پروگرام کے افقی اور عمودی ارتکاز کے کچھ اہم شراکت دار ہیں۔

PHOTO • Asawari Sodhi

پچھلی فصل میں معیدین نے ۵۰۰۰ روپے کا منافع کمایا تھا۔ یہ رقم معمولی لگتی ہے۔ لیکن انہیں جو کچھ دستیاب ہوتا ہے وہ اسے لے لیتے ہیں۔ ان دستیاب چیزوں میں نیم مشینی زراعت، تربیت یافتہ مزدور اور مؤثر پیداوار شامل ہیں۔ لتا بتاتی ہیں، ’’مشینیں آنے سے پہلے فی ایکڑ زمین کی کاشت کے لیے دس مزدور رکھنے پڑتے تھے۔ اب اتنے ہی مزدور ۱۷ ایکڑ زمین کی کاشت کرسکتے ہیں۔‘‘ انہیں، پدماودی اور گرین آرمی کے دیگر کارکنان کو بھی کسی نہ کسی شکل میں سماجی تحفظ حاصل ہے۔ اندراج شدہ اور بھرتی شدہ مزدور ہر ماہ ۸۰۰۰ سے ۱۲۰۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ ان کے پاس ایک مستحکم معاہدہ ہے اور ان کی آمدنی کا انتظام پیرنگدور سروس کوآپریٹو بینک کرتا ہے۔ یہ آمدنی یومیہ اجرت کی مزدوری کے تقریباً برابر ہوتی ہے، لیکن ریاست کی ثالثی میں چلنے والا یہ پروگرام ملازمت کی مخصوص غیریقینی صورتحال سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ پروگرام نریگا کی ۱۰۰ دن کی مزدوری کی حد کو بھی تجاوز کر گیا ہے۔ گرین آرمی کے پاس لیبر بینک کے لیے اور بھی بڑے منصوبے ہیں۔ گرین آرمی کے رابطہ کار انوپ کشور کہتے ہیں، ’’پچھلے سال ہم دس ماہ کے کام کی ادائیگی کرنے کے قابل تھے۔ اب ہم ۳۰۰ دن کا روزگار فراہم کرنے کے قابل ہونا چاہتے ہیں۔‘‘

یہ پروگرام بھی کوتاہیوں سے پاک نہیں ہے۔ اگرچہ تمام شراکت داروں کے درمیان بہترین ہم آہنگی ہے، لیکن کبھی کبھار شرمناک غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔ ’’ہمیں خراب بیج ملے اور ہماری فصلیں ناکام ہو گئیں۔ ہم معاوضہ حاصل کرنا چاہتے ہیں،‘‘ معیدین اپنی رام کہانی بیان کرتے ہیں۔ وہ ان سات کسانوں میں سے دو ہیں جنہیں اس غلطی کی وجہ سے ایک فصل میں دو بار بیج لگانی پڑی ہے۔ ایسے معاملات اس وقت اور تکلیف دہ ہو جاتے ہیں جب غلطی کی تشخیص میں  پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔ دھان کی کاشت میں ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ دھان کے یہ کاشتکار مَیٹ پر دھان کے بیج بونے کے بعد تقریباً دو ہفتے انتظار کرتے ہیں۔ پودوں کے سبز ہونے کے بعد پیچ کو کاٹ کر پلاسٹک کے فلوٹر پر ٹرانسپلانٹر تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پلاسٹک کے فلوٹر سے کاٹ کر انہیں مشین میں ڈالا جاتا ہے۔ اگر سب کچھ ٹھیک چلتا ہے تو کام وقت پر اور موثر طریقے سے ہوجاتا ہے۔ تاہم خراب بیج اس عمل کو برباد کر دیتا ہے۔

مجموعی طور پر گرین آرمی نے کامیابی کا پرچم بلند کیا ہے۔ اس کی وجہ سے پیداوار اور پیداواریت میں اضافہ ہوا ہے، مزدوروں کو کچھ سماجی بہبود کے ساتھ کام مل گیا ہے اور کسان اس پیشے سے پہلو تہی نہیں کر رہے ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کی وجہ سے دوسری جگہوں پر اس کے ممکنہ نفاذ پر بات ہونے لگی ہے۔ آخرکار کیرالہ استثناء ہے ضابطہ نہیں۔ اور یہ سوال کہ کیا اجتماعی مایوسی اور زوال درحقیقت کسی پروجیکٹ کو متحرک کرنے اور عمل میں لانے کا سبب بنتی ہے؟ پھر بھی گرین آرمی کی پہل اصلاحی ریاستی مداخلت کا ایک ابتدائی خاکہ پیش کرتی ہے۔ یہ ایک امید افزا آغاز ہے۔

*تریشور ضلع ۱۲ کے وڈکن چیری بلاک میں دھان کی کاشت میں تیزی لانا

گرین آرمی کی مزید تصاویر کے لیے، اور اس موضوع پر فوٹوگرافر کو سننے کے لیے، ٹاکنگ البمز پر جائیں: http://www.ruralindiaonline.org/albums/the-green-army/

مترجم: شفیق عالم

Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam