وہ باورچی خانہ میں تازہ سبزیوں اور پھلوں کے تھیلے کے ساتھ داخل ہوتی ہیں، اور جب باہر نکلتی ہیں تو کچرے کے نام پر کہیں کچھ نہیں نظر آتا ہے۔ وجے لکشمی سمر اپنے کھانا پکانے کے عمل میں پورا کا پورا پھل یا سبزی استعمال کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ چھلکوں کو بھی پتیلی (برتن) میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ پڑھ کر آپ کو حیرت ہو رہی ہے؟

راجستھان کے اُدے پور میں چھلکوں، بیجوں، گٹھلیوں – یہاں تک کہ تربوز کے موٹے چھلکوں سے سبزی سے لے کر تلے ہوئے ہلکے پھلکے ناشتے بنانے تک کی روایت ہے۔ ان چھلکوں اور گٹھلیوں کی ادویاتی خوبیاں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر، آم کی گٹھلیوں کے بیج پیٹ میں مروڑ اور حیض کے دنوں میں ہونے والے درد کے علاج میں کام آتی ہیں۔

ادے پور کے بوڑھے بزرگ ہمیں بتاتے ہیں کہ پرانے زمانے میں سبزیوں کا کوئی حصہ برباد نہیں ہوتا تھا۔ باورچی خانہ میں جو چیزیں انسانی استعمال کے کام نہیں آتی تھیں وہ مویشیوں کو کھلانے یا کھیتوں میں کھاد بنانے کے کام میں لائی جاتی تھیں۔ حالانکہ، اس پورے عمل کا کوئی روایتی نام نہیں تھا، لیکن پرانی نسل کے لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے پاس کھانے لائق کسی بھی سامان کو برباد کرنے کا کوئی متبادل نہیں تھا۔

PHOTO • Sweta Daga

استعمال کے لیے تیار بالکل تازہ اور ہری تورئی کے چھلکے

PHOTO • Sweta Daga

آم کی گٹھلیوں کے اندر کے بیج

PHOTO • Sweta Daga

ادے پور شہر کے باہر زمین کو بھرنے کے لیے کچرا پھینکنے کی ایک جگہ۔ پلاننگ کمیشن کی ۲۰۱۵ میں شائع ایک رپورٹ (ٹاسک فورس آن ویسٹ ٹو انرجی) کے مطابق، زمین بھرنے کے علاقوں میں پھینکے گئے کچروں میں تقریباً ۵۰ فیصد مقدار نامیاتی کچروں کی ہے

آج راجستھان ہی نہیں، بلکہ پورے ہندوستان کے کئی علاقوں میں اس طریقے کو اپنایا جا رہا ہے، اور اس کو ’زیرو ویسٹ فوڈ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ صرف غذائی اشیاء تک محدود نہ رہنے والی اس عالمگیر تحریک کے مقاصد کے ہی موافق نہیں ہے، بلکہ زندگی کے متعدد دوسرے شعبوں میں بھی اسے شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد انسان کے ذریعے پیدا کیے گئے کچرے کی مقدار کو کم کرنا، وسائل کو بہتر طریقے سے محفوظ کرنا، اور ان کا دوبارہ استعمال یا ری سائیکل کرنا ہے۔ ان کارروائیوں اور کوششوں میں بھی ہماری توانائی کا غیر ضروری زیاں ہوتا ہے۔

راجستھان میں، جہاں سوکھا اور ریگستان دہائیوں سے انسانی سچائیوں کا اٹوٹ حصہ رہے ہیں، ایک ایک وسائل کی قیمت ہوتی ہے۔ غذائی اشیاء وہاں کبھی وافر مقدار میں دستیاب نہیں رہیں۔ راجستھانی کھانے متعدد قسم کی سوکھ چکی سبزیوں اور ناگ پھنی کے استعمال کی وجہ سے مشہور ہیں۔ وہاں کے مشہور کھانے ’پنچ کوٹا‘ میں ڈالے جانے والے پانچ اجزاء عموماً ریگستانوں میں ہی پائے جاتے ہیں: کیر ، جو ایک مقامی بیر ہوتی ہے؛ سنگریا ، جو ایک قسم کی پھلیاں ہوتی ہیں؛ کومٹیا ، جو ایک بیج ہے؛ گُندا ، جو ایک لسلسا پھل ہوتا ہے؛ اور سوکھی لال مرچ۔ جن دنوں ہری ساگ سبزیاں گاؤوں میں مشکل سے ملتی تھیں، تب لوگ اپنے دماغ دوڑانے لگے۔ چونکہ، ریاست کے بہت سے شہری علاقے ابھی بھی دیہی گروہوں کے ساتھ گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا یہ روایتیں ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہیں۔

وجے لکشمی درجنوں ایسے کھانے بنانے کے فن میں ماہر ہیں اور عام طور پر ایک ہی کھانے میں سبزی اور اس کے چھلکوں کا استعمال کرکے دو الگ الگ قسم کے کھانے بناتی ہیں۔ فیملی کے کچھ رکن سبزی کے الگ الگ حصوں کو خاص طور پر پسند کرتے ہیں۔ آم کے چھلکوں اور گٹھلیوں کو خشک کرنا بھی ایک ایسی ہی روایت ہے جو آج بھی زندہ ہے۔

PHOTO • Sweta Daga

وجے لکشمی سمر، تورئی کو چھیلنے کا صحیح طریقہ دکھا رہی ہیں

انہوں نے اپنے کھانے میں چھلکے کو آج بھی شامل کیوں رکھا ہے؟ ’’میں نے یہ روایت اپنی ماں، چچی تائیوں اور نانی دادیوں سے سیکھی ہے۔ جب میں چھوٹی تھی، تو کھانا پکانے میں میرا من کم لگتا تھا، لیکن اب مجھے باورچی خانہ میں طرح طرح کے تجربے کرنا اچھا لگتا ہے۔ میری فیملی کے لوگوں کو الگ الگ قسم کی سبزیوں کا ذائقہ چکھنا پسند ہے۔ ویسے بھی اضافی غذائیت کے نقطہ نظر سے چھلکوں کا استعمال کافی فائدہ مند ہے۔ اس سے ہمیں وافر مقدار میں فائبر (ریشہ) اور آئرن مل جاتا ہے۔‘‘

وہ تین الگ الگ قسم کے چھلکوں کی سبزی بنانا جانتی ہیں، جن میں کیلے، آم اور تورئی کے چھلکوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سبھی کو بنانے کے طریقے الگ ہیں۔ وہ سُکھائے گئے آم کے چھلکوں سے شروعات کرتی ہیں۔ ایک پریشر کوکر میں انہیں نرم ہونے تک پکائے جانے کے بعد، اسے ذائقہ دینے کے لیے اس میں آم کے اچار کا مسالا ملایا جاتا ہے۔ اور، آخر میں وہ ان چھلکوں کو ایک ساس پین میں پکاتی ہیں۔

PHOTO • Sweta Daga

ابالے جانے کے بعد نرم پڑ گئے آم کے چھلکے

PHOTO • Sweta Daga

ذائقہ بڑھانے کے لیے آم کے چھلکوں میں مسالے ملائے جاتے ہیں

PHOTO • Sweta Daga

ساس پین میں آم کے چھلکوں کو پکایا جا رہا ہے

PHOTO • Sweta Daga

تورئی کے چھلکے پتلے اور لمبے ہوتے ہیں، جو آسانی سے مسالوں کو جذب کر لیتے ہیں۔ وہ دو الگ الگ قسم کے کھانوں کو پکانے کے لیے تورئی اور اس کے چھلکوں کا استعمال کرتی ہیں

PHOTO • Sweta Daga

چھلکوں میں بیسن (باریک پسے ہوئے چنے) ملاتی ہوئیں وجے لکشمی

PHOTO • Sweta Daga

تمام اجزاء کو آپس میں اچھی طرح سے ملانے کے لیے ان میں پانی ڈال کر ان کا ایک محلول تیار کر لیا جاتا ہے۔ وہ کھانے کو ایک ساس پین میں پکاتی ہیں۔ تورئی کے چھلکے کو دھیمی آنچ پر پکایا جا رہا ہے

PHOTO • Sweta Daga

زیادہ تر لوگ زرد کیلے کے چھلکے کو سبزی کے طور پر نہیں پکاتے ہیں۔ لیکن، وجے لکشمی پکاتی ہیں۔ وہ مسکراتی ہوئی بتاتی ہیں، ’ہمارے گھر میں یہ روایت چلی آ رہی ہے۔‘ انہیں سیدھے پین میں پکاتے ہوئے وہ ان میں مسالے ڈالتی ہیں۔ اس کھانے کے لیے کیلے کے چھلکوں کو چھوٹے چھوٹے سائز میں کاٹا جاتا ہے

PHOTO • Sweta Daga

کیلے کے چھلکوں کے لیے سب سے کم تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں مسالوں کے ساتھ سیدھا پکایا جا سکتا ہے

PHOTO • Sweta Daga

تیار ہو چکے کھانے (بائیں سے دائیں): کیلے، آم اور تورئی کے چھلکے، جو ہمارے سامنے ذائقہ کے مختلف رنگ سمیٹے، دلکش سجاوٹ اور اضافی غذائیت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں

’زیرو ویسٹ‘ اور ’سلو فوڈ‘ تحریکوں سے وابستہ ودھی جین بتاتی ہیں کہ آج کے زمانے میں زیادہ تر لوگ پوری سبزی کا استعمال شاید ہی کرتے ہیں۔ بیج کے ساتھ ساتھ وہ چھلکوں کو بھی اتار دیتے ہیں۔ اٹلی میں شروع ہوئی اور اب پوری دنیا میں پھیل چکی ’سلو فوڈ تحریک‘ دراصل ’فاسٹ فوڈ‘ کلچر کی مخالفت میں ایک ردعمل ہے، اور اس ردعمل سے آگے بھی اس کی توسیع ہے۔ ’سلو فوڈ‘ میں اناجوں اور جغرافیائی اہمیت کی حامل مقامی اشیاء کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یہ وہ اشیاء یا طریقے ہیں جن سے مٹی اور ماحولیات کو کوئی فوری یا دائمی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پر، قدرتی کھیتی کو لیا جا سکتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے یہ سب سکھانے والی میری دادی اور میرے شوہر کی دادی یا جیا ہیں، جو ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ جیا کو گھنٹوں بیٹھ کر مٹر کی ایک ایک پھلیوں کو باریکی سے چھیلتے ہوئے دیکھ کر میں تنگ ہو جاتی تھیں۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ اپنا وقت برباد کر رہی ہیں، لیکن گھر کے محدود وسائل کے بارے میں وہ اچھی طرح سے جانتی تھیں۔ وہ بغیر مقصد کے کچھ بھی نہیں کرتی تھیں۔ ان کے لیے وہ گھر اور آس پاس کی عورتوں کے ساتھ مل کر بیٹھنے اور بات چیت کرنے کا ایک موقع ہوا کرتا تھا۔ اب میری ساس بھی اسی ’زیرو ویسٹ‘ روایت کو اپنا رہی ہیں۔ وہ ہر سال تربوز کے چھلکے کی سبزی ضرور پکاتی ہیں۔ اس سبزی کی وجہ سے وہ بہت مشہور ہیں۔‘‘

ودھی بتاتی ہیں کہ کئی لوگ کچھ خاص قسم کے چھلکوں کو علاج کے کام میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس میں سب سے مشہور کاڑھا ہے، جو ایک قسم کی ادویاتی چائے ہے۔ وہ انار کے چھلکے اتارتی ہیں، انہیں باہر دھوپ میں سکھا لینے کے بعد پانی میں ابالتی ہیں۔ یہ چھلکے ہاضمہ اور پیٹ کے مسائل کے لیے ٹھیک مانے جاتے ہیں۔ ’’مجھے اپنا روایتی کھانا سیکھنا اور پکانا بہت اچھا لگتا ہے۔ ہمارے روایتی علم کو زندہ رکھنا بے حد ضروری ہے۔‘‘

PHOTO • Sweta Daga

ودھی جین ایک انار سے اس کے دانے چھڑا رہی ہیں

PHOTO • Sweta Daga

انار کے چھلکے کو ہلکی آنچ پر ابال کر ایک ادویاتی چائے بنائی جاتی ہے

تقریباً ۸۰ سال سے اوپر کی ہو چکیں پریم دیوی دلال بھی اپنے کھانے میں چھلکوں اور بیجوں کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’جب میں چھوٹی تھی، تو گھر میں اناج کے ایک ایک دانے کا استعمال ہوتا دیکھتی تھی۔ اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی برباد کرنے کا کوئی متبادل نہیں تھا۔ ہمارے لیے ایک ایک پائی کی قیمت تھی – کچھ بھی آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔‘‘ آج رات کے کھانے کے لیے وہ کریلا بنا رہی ہیں۔ سبزی الگ پکائی جا رہی ہے اور چھلکے کا الگ کھانا بنایا جائے گا۔

پریم دیوی کہتی ہیں، ’’بیشک، اس طرح کھانا بنانے میں زیادہ محنت لگتی ہے، لیکن ہمارے لیے اس کی الگ اہمیت ہوا کرتی تھی۔ کھانے کی چیزیں سُکھانے اور پھل سبزیوں کے چھلکے چھیلنے کے وقت ہم ٹولہ محلہ کے گھروں میں جایا کرتے تھے۔ ہم ان دنوں لوگوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، کیوں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔ آج کی نوجوان نسل کے لیے اب ان باتوں کی خاص اہمیت نہیں ہے، لیکن، لوگ بھول گئے ہیں کہ اچھی صحت کا دار و مدار کھانے پر ہی ہے۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ کھانا ہی دوا ہے، دوا کھانا نہیں ہے۔‘‘

PHOTO • Sweta Daga

پریم دیوی رات کے کھانے کے لیے کریلا چھیل رہی ہیں۔ وجے لکشمی، ودھی اور پریم جیسی عورتیں ہمیں بھوک اور بربادی دونوں سے مقابلہ کرنے والے روایتی طور طریقوں کی جانب لوٹنے کے لیے آمادہ کرتی ہیں

یہ اسٹوری نئی دہلی کے سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کے ذریعے مضمون نگار کو حاصل ’میڈیا فیلوشپ آن گڈ فوڈ‘ کا حصہ ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sweta Daga

Sweta Daga is a Bengaluru-based writer and photographer, and a 2015 PARI fellow. She works across multimedia platforms and writes on climate change, gender and social inequality.

Other stories by Sweta Daga
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique