’’میرا دھاگہ ختم ہو گیا ہے۔ نقدی بھی ختم ہونے لگی ہے۔ لیکن میں لاک ڈاؤن کے سبب سیٹھ کو [تیار] ساڑی نہیں دے سکتا،‘‘ بڑھور گاؤں میں چندیری کپڑوں کے بنکر، سریش کولی کہتے ہیں۔
کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن شروع ہوئے مشکل سے ایک ہفتہ ہوئے تھے، جب ۳۱ سالہ سریش کے پاس دھاگوں کی جو آخری ریل بچی تھی، بُنائی کرنے سے وہ بھی ختم ہو گئی۔ پوری طرح سے تیار تین ساڑیاں پڑی ہوئی تھیں، جو پران پور گاؤں کے چندیری کپڑوں کے تاجر، سیٹھ آنندی لال کو سونپی جانی تھیں۔
بنکر کا گاؤں اتر پردیش کے للت پور ضلع میں، بیتوا ندی پر بنے راج گھاٹ باندھ کے پاس ہے۔ چندیری شہر، ندی کے اس پار، مدھیہ پردیش کے اشوک نگر ضلع میں ہے، جو اسی نام سے ہتھ کرگھا کپڑوں کا مرکز ہے۔ سیٹھ کا گاؤں، پران پور، اس شہر کے قریب ہے۔
بڑھور اور چندیری – جو سڑک کے راستے ایک دوسرے سے ۳۲ کلومیٹر دور ہیں – کے درمیان، یوپی-ایم پی سرحد پر پولس نے بیریکیڈ لگا دیے ہیں، جس کی وجہ سے سریش اس لاک ڈاؤن میں آنندی لال سے دور ہو گئے ہیں۔ ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جو لوگ دہلی سے گھر لوٹ رہے تھے، انہیں پولس پکڑ کر لے گئی،‘‘ سریش کہتے ہیں۔ ’’ہمارے گاؤں کو کبھی بیماری کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن سرکار نے ہمارے ضلع کو بند کر دیا ہے اور ہماری زندگی تہس نہس ہو گئی ہے۔‘‘
سریش نے آنندی لال سے تین ساڑیوں کے ۵۰۰۰ روپے مانگے تھے۔ ’’انہوں نے صرف ۵۰۰ روپے یہ کہتے ہوئے بھیجے کہ بازار کھلنے تک پوری ادائیگی نہیں ہوگی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے سیٹھ، سریش کو کچے مال – کپاس اور ریشم کے دھاگے، اور زری کے دھاگے دیتے – اور ان سے ساڑی، دوپٹے، اسٹول، ملائم کپڑے یا صرف کپڑے بننے کے لیے کہتے تھے۔ وہ انہیں ڈیزائن بھی مہیا کراتے تھے۔ ہر آرڈر کے حساب سے قیمتیں طے ہوتی تھیں اور پیسے کی ادائیگی ڈلیوری کے وقت، ہمیشہ نقد میں کی جاتی تھی۔
لاک ڈاؤن نے تاجروں اور بنکروں کے درمیان اس باضابطہ نظام کو بگاڑ دیا ہے۔ اپریل کے پہلے ہفتہ میں، سریش کو کام جاری رکھنے کے لیے اور بھی دھاگے اور زری کی ضرورت تھی، اور انہیں اپنی فیملی چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ انہوں نے پریشانی میں آنندی لال کو روز فون کرنا شروع کر دیا۔ آخرکار، سیٹھ ۲۷ اپریل کو بیریکیڈ کے پاس سریش سے ملنے کو تیار ہو گئے۔ انہوں نے سریش کو دھاگے کی ریل کے ساتھ پیشگی ادائیگی کے طور پر ۴۰۰۰ روپے دیے اور مئی کے آخر تک چار ساڑیوں کی بُنائی کرنے کے لیے کہا۔ باقی ادائیگی بنکر کو بعد میں کی جائے گی، انہوں نے کہا۔
سریش اور ان کی فیملی کا تعلق درج فہرست ذات میں شامل روایتی بنکر برادری، کولی (جسے ’کوری‘ بھی کہتے ہیں) سے ہے۔ سریش نے تقریباً ۱۴ سال پہلے اپنے والد سے بنائی سیکھی تھی۔ چندیری شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں کپڑے کی بنائی کرنے والے زیادہ تر کولی اور انصاری، ایک مسلم او بی سی برادری، ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۹ میں جب ہم ان سے ملے، تو کرگھے پر سریش کی حرکتیں پیانو بجانے والے کی طرح تھیں – وہ لیور اور لکڑی کے تختے کو اوپر نیچے اور دائیں بائیں اس انداز سے چلا رہے تھے کہ اس کی مترنم آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔ سوتی بانا کو منظم طریقے سے ریشم تانا میں بُنا جا رہا تھا۔ لاک ڈاؤن سے پہلے، وہ عام طور پر روزانہ ۱۰ گھنٹے کرگھا پر بیٹھتے تھے، اگر آرڈر زیادہ ہوتا تو کبھی کبھی ۱۴ گھنٹے بھی بیٹھتے تھے۔
چندیری کپڑے کی جالی دار کوالٹی بنا گوند اتارے ہوئے کچے دھاگے کے استعمال سے حاصل ہوتی ہے۔ اس دھاگے سے ہاتھ کی بنائی کے ذریعے جتنے بھی مال تیار ہوتے ہیں، ان میں چندیری ساڑی کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ملائم رنگ، ریشمی چمک، اور سونے کی زری کے بارڈر اور بوٹی اس کی خاصیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ چندیری علاقے میں گزشتہ ۵۰۰ سالوں سے بنی جا رہی ساڑی کو ۲۰۰۵ میں جغرافیائی نشان (جی آئی) والی سند ملی تھی۔
چندیری شہر میں، تجارت پر بحران کے بادل چھائے ہیں۔ بنکروں کو پیسے کی ادائیگی کے لیے سیٹھوں سے مول تول کرنا پڑ رہا ہے۔ خوردہ مانگ کم ہونے سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں
ایک عام ساڑی کی بنائی میں چار دن لگ سکتے ہیں، سریش بتاتے ہیں۔ لیکن زری بوٹی والی ایک ساڑی کو بُننے میں، ڈیزائن کی پیچیدگی کی بنیاد پر، ۸ سے ۳۰ دن لگ سکتے ہیں۔ رفتار کے تال میل اور گھنٹوں تک مکمل توجہ کے بعد آخر میں ہر ایک بے مثال چندیری ساڑی بنتی ہے۔
لاک ڈاؤن سے پہلے، سریش کے پاس، سوائے مانسون کے دو مہینوں کے – جون کے آخر سے اگست کے آخر تک، جب کپاس کے دھاگے میں نمی آ جاتی ہے – سال بھر لگاتار کام ہوتا تھا۔ ’’یہ لمبے گھنٹوں تک تھکا دینے والا کام ہوتا ہے۔ لیکن مجھے بُنائی میں مزہ آتا ہے۔ یہ مجھے کھانا اور معاش فراہم کرتا ہے۔ اس کے بغیر، مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے۔ ہمارے پاس گزر بسر کے لیے زمین نہیں ہے اور نہ ہی اس بحران سے بچنے کے لیے ہمارے پاس کوئی بچت ہے،‘‘ سریش کہتے ہیں۔
چندیری کے بنکر عام طور پر کسی پروڈکٹ کی رٹیل قیمت کا تقریباً ۲۰-۳۰ فیصد کماتے ہیں۔ ایک عام ساڑی، عام پلّو کے ساتھ، جسے سیٹھ خوردہ فروشوں کو ۲۰۰۰ روپے میں بیچتا ہے، سریش کو اس کے صرف ۶۰۰ روپے ملتے ہیں۔ اس کی بُنائی میں چار دن کا وقت لگتا ہے۔ ان کے ذریعے بُنی گئی زیادہ تر ساڑیاں رٹیل میں ۵۰۰۰ روپے میں فروخت ہوتی ہیں، اور ہر ایک کی بُنائی میں آٹھ دن لگتے ہیں۔ پیچیدہ بوٹی کے کام والی ساڑی ۲۰ ہزار روپے تک میں فروخت ہو جاتی ہے اور اس کی بُنائی میں ایک مہینے تک کا وقت لگتا ہے۔ زیادہ پیچیدہ ڈیزائنوں والی ساڑی سے بنکر ۱۲ ہزار روپے تک کما سکتے ہیں۔
بڑھور میں سریش کے تین کمرے کے گھر میں دو ہتھ کرگھا ایک پورے کمرے کو گھیرے ہوئے ہیں، جہاں وہ اپنی بیوی، شیام بائی، پانچ سالہ بیٹی اور اپنی ماں، چامو بائی کے ساتھ رہتے ہیں۔
آرڈر جب باقاعدگی سے ملتے ہیں، تو دونوں کرگھے لگاتار چلتے ہیں، جس سے روزانہ ساڑی کی بنائی ہوتی ہے۔ سریش اپنے والد کے ذریعے خریدا گیا کرگھا چلاتے ہیں۔ دوسرا کرگھا شیام بائی چلاتی ہیں۔ دونوں ساتھ مل کر، ماہانہ تقریباً ۱۰-۱۵ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔
شیام بائی کی پرورش چندیری کی ایک بنکر فیملی میں ہوئی، جہاں انہوں نے اپنے والد اور بھائی سے کرگھا کی پیچیدگیوں کو سیکھا۔ ’’سریش کے ساتھ جب میری شادی ہوئی تھی، تو کمرے میں صرف ایک کرگھا تھا۔ میں تھوڑی مدد کر سکتی تھی، لیکن ہم اپنی کمائی نہیں بڑھا سکتے تھے۔ دو سال پہلے، ہم نے ۵۰ ہزار روپے کا قرض لیا، میرے لیے ایک نیا کرگھا خریدنے کے لیے۔ اس سے، ہم ساڑیوں اور کپڑوں کی تعداد بڑھا سکتے تھے،‘‘ شیام بائی کہتی ہیں۔ انہوں نے بنکروں کے لیے ایک خاص اسکیم کے تحت بینک سے جو قرض لیا تھا، اس کی ۱۱۰۰ روپے کی ماہانہ قسط وہ ادا کرتے رہے ہیں۔
کئی بار جب سیٹھ سے آرڈر کم ملتے ہیں، تو شیام بائی تیندو کے پتّے جمع کرنے میں چامو بائی کی مدد کرتی ہیں۔ چامو بائی گزر بسر کے لیے بیڑی بناتی ہیں اور ہر ۱۰۰۰ بیڑی بنانے کے انہیں ۱۱۰ روپے ملتے ہیں۔ لیکن لاک ڈاؤن کے سبب ان کی آمدنی رک گئی ہے۔
چندیری شہر میں، تجارت بحران میں ہے۔ بنکروں کو پیسے کی ادائیگی کے لیے سیٹھ سے مول تول کرنا پڑ رہا ہے۔ رٹیل ڈیمانڈ کم ہونے سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ زیادہ تر بنکر تاجروں یا استاد بنکروں (عام طور پر، تجربہ کار بنکر جو تاجر بھی ہیں) کے لیے کام کرتے ہیں۔
اپریل کے وسط میں، چندیری شہر میں رہنے والے ۳۳ سالہ پردیپ کولی سے ان کے سیٹھ نے کہا تھا کہ ’’جب تک ماحول نہیں بدلتا‘‘ مزدوری کی شرحیں گھٹائی جائیں گی – ۱۵۰۰ روپے ماہانہ سے گھٹا کر صرف ۱۰۰۰ روپے۔ ’’ہم نے ان سے بحث کی تب جاکر وہ اس بات کے لیے تیار ہوئے کہ نئی شرحیں صرف نئے آرڈر کے لیے نافذ ہوں گی، موجودہ آرڈر کے لیے نہیں۔ لیکن ماحول اگر جلدی نہیں بدلا، تو ہم بڑی مصیبت میں پھنس جائیں گے،‘‘ پردیپ کہتے ہیں۔
چندیری کے بنکروں کو لاک ڈاؤن میں مفت سرکاری راشن دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن اپریل میں انہیں صرف ۱۰ کلو چاول ملے تھے۔ ’’نگر پالیکا کے اہلکاروں نے میرے محلے کا سروے کیا اور ہمیں دال، چاول اور آٹا [گیہوں کا آٹا] دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن تقسیم کے دوران انہوں نے صرف چاول دیا،‘‘ ۴۲ سالہ دیپ کمار کہتے ہیں، جو ۲۴ برسوں سے بنائی کر رہے ہیں۔ وہ اب اپنی چھ رکنی فیملی کے لیے راشن احتیاط سے نکال رہے ہیں، اور کہتے ہیں، ’’پہلے کبھی بھی میں نے اپنی چائے میں چینی ڈالنے سے پہلے دو بار نہیں سوچا تھا۔ نہ ہی کبھی میں نے یہ سوچا تھا کہ گیہوں کی روٹیاں روز نہیں بنائی جا سکتیں۔‘‘
دیپ کمار کے گھر میں کرگھے – دوسرا ان کے بھائی چلاتے تھے – جلد ہی خاموش ہو جائیں گے کیوں کہ ان کے دھاگے ختم ہو گئے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے جن گھروں کی ہر ہفتے اوسط آمدنی ۴۵۰۰ روپے ہوا کرتی تھی، اب وہ گھٹ کر ۵۰۰ روپے ہو گئی ہے۔ ’’میں [ہر ہفتے] سنیچر کو سیٹھ سے پیسے لینے جاتا ہوں۔ بدھ تک، میرے پاس پیسے نہیں بچتے ہیں،‘‘ کمار بتاتے ہیں۔
’’پاورلوم جب مقبول ہو گئے، تو ہم چندیری ساڑیوں کی گرتی مانگ کے دور سے بھی گزرے۔ لیکن ہم نے کسی طرح خود کو سنبھال لیا۔ لیکن میں اس قسم کے بحران کو سمجھ نہیں سکتا۔ کوئی سپلائی نہیں ہے، کوئی مانگ نہیں ہے، کوئی پیسہ نہیں ہے،‘‘ ۷۳ سالہ تلسی رام کولی کہتے ہیں، جو ۵۰ سالوں سے بنائی کر رہے ہیں، اور جنہیں ۱۹۸۵ میں قومی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ چندیری میں ان کے گھر پر چھ کرگھے ہیں، جنہیں وہ، ان کی بیوی، ان کے دو بیٹے اور بہو چلاتے ہیں۔
اشوک نگر ضلع میں بھلے ہی ابھی تک کووڈ- ۱۹ کا ایک بھی معاملہ سامنے نہ آیا ہو، لیکن لاک ڈاؤن اگر ہٹ بھی جاتا ہے، تو حالات کو پٹری پر آنے میں لمبا وقت لگے گا۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اگلے ۶-۷ مہینے تک کوئی نیا آرڈر ملے گا۔ اس کے بعد بھی، ہمیں قابل ذکر کساد بازاری دیکھنے کو ملے گی، کیوں کہ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوگا کہ وہ ہاتھ سے بنی ساڑیاں خرید سکیں۔ وہ پاورلوم والی [سستی] خریدیں گے،‘‘ چندیری شہر کے ایک تاجر امین الدین انصاری کہتے ہیں، جو تقریباً ۱۰۰ ہتھ کرگھا بنکروں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے، امین الدین کو ہر مہینے ۸-۹ لاکھ روپے کے آرڈر ملتے تھے۔ ان کے گاہکوں میں دہلی کے کئی شو روم کے ساتھ ساتھ بڑے کپڑوں کے برانڈ بھی شامل تھے، جو انہیں کچے مال کی خرید کے لیے پیشگی ادائیگی کر دیتے تھے۔ امین الدین کو امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں کئی بنکر اس کام کو چھوڑ کر بہتر ادائیگی والی یومیہ مزدوری کی طرف چلے جائیں گے۔
شو روم اور کپڑوں کے برانڈوں نے آرڈر کو ردّ کرنا شروع کر دیا ہے۔ سریش کے سیٹھ آنندی لال، جن کے پاس ۱۲۰ بنکر کام کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ عام طور پر بڑے برانڈ والے کئی شو روم آرڈر دینے کے لیے اپنے ملازمین کو چندیری بھیجتے ہیں۔ ’’اس سال جنوری میں ہمیں [ایک بڑے برانڈ سے] ۱ کروڑ روپے کا آرڈر ملا تھا۔ میں نے بنکروں کو تقسیم کرنے کے لیے ۱۰-۱۵ لاکھ روپے کے سامان خریدے تھے۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے تقریباً پانچ دن بعد، انہوں نے ہمیں فون کرکے پوچھا کہ کام کہاں تک پہنچا ہے۔ اس کے تقریباً ۱۰ دن بعد، آرڈر ردّ کر دیے گئے، سوائے ان کے جو پہلے سے ہی کرگھے پر تھے۔‘‘
لاک ڈاؤن سے پہلے، بنکر اکثر کہا کرتے تھے کہ ساڑی کی فروخت سے ہونے والے منافع پر کافی حد تک تاجر کیسے قابض ہو جاتے ہیں، جو لاگت اور بنکروں کی ادائیگی پر لگے پیسے کو کاٹنے کے بعد، رٹیل قیمت پر تقریباً ۴۰ فیصد کا منافع کماتے ہیں۔ دو سال پہلے، ۳۴ سالہ محمد دلشاد انصاری اور ان کی فیملی کے ممبران اور دوستوں میں سے تقریباً ۱۲-۱۳ لوگوں نے بچولیوں کے جھانسے سے باہر نکلنے کے لیے بنکروں کی ایک غیر رسمی تنظیم شروع کی تھی۔ انہوں نے ہتھ کرگھا کارپوریشن سے آزاد بنکر کے طور پر رجسٹریشن کرایا اور ایک ساتھ مل کر آرڈر پر کام کرنا شروع کیا۔ ’’ہم نے وہاٹس ایپ اور فیس بک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پر آرڈر لینا سیکھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اس تنظیم میں اب ۷۴ بنکر ہیں۔
لیکن تبھی کووڈ- ۱۹ آ گیا۔ مارچ میں دلشاد دہلی کی ایک نمائش میں تھے، جس کا انعقاد دست کار نامی ایک این جی او نے کیا تھا، یہ تنظیم دستکاری کو فروغ دیتی ہے اور دستکاروں کی حمایت کرتی ہے۔ انہیں امید تھی کہ وہ یہاں پر ۱۲-۱۵ لاکھ روپے کا مال فروخت کر پائیں گے۔ لیکن دہلی سرکار نے ۱۳ مارچ کو اجتماعی پروگراموں کے انعقاد پر پابندی لگا دی۔ ’’ہم ۷۵ ہزار روپے سے بھی کم کا مال فروخت کر پائے اور ہمیں گھر واپس لوٹنا پڑا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
اپریل کے پہلے ہفتہ میں، جن خریداروں نے سال کے بقیہ دنوں کے لیے آرڈر دے رکھے تھے، انہیں ردّ کرنا شروع کر دیا۔ دلشاد اب پریشان ہیں۔ ’’مجھے رات کو نیند نہیں آ رہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ساڑیاں کب فروخت ہوں گی۔ تب تک، ہم کیا کریں؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔
بازار جب دوبارہ کھلے گا، تو ہو سکتا ہے کہ تاجروں کے پاس کچا مال خریدنے اور رٹیل آرڈر لینے کے لیے وسائل ہوں، لیکن، دلشاد پیشن گوئی کرتے ہیں، ’’ہمیں آخر میں سیٹھوں کے نظام میں واپس جانا پڑے گا۔ یا ہمارے جیسے بنکر چندیری کے باہر یومیہ مزدوری کا کام کرنے کی طرف رخ کر سکتے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز