’یہاں کا سب سے اونچا مقام ایک مندر ہے۔ دیوتا کی مورتی گہرے پانی میں، گردن تک ڈوبی ہوئی ہے۔ چاروں طرف پانی ہی پانی ہے! مقامی لوگ خشک زمین تلاش کرنے کے لیے گئے ہوئے ہیں، جب کہ فیملی کا ایک رکن گھر کی رکھوالی کر رہا ہے۔ مندر کے اندر تین کمروں کی حویلی کی سب سے اوپری منزل پر ۶۷ بچے ہیں۔ اور ۳۵۶ بالغ بھی۔ یہاں بہت سے پالتو جانور ہیں جیسے کتے، بلیاں، بکری اور پرندے بھی...‘
یہ تھکاژی شو شنکر پلئی کے ذریعے لکھے گئے مختصر افسانہ ’دی فلڈ‘ کے ابتدائی سطور ہیں۔ یہ افسانہ ۱۹۲۴ کے ہولناک سیلاب پر مبنی ہے۔
اور بچوں کے ذریعے بنائی گئی ان تصویروں میں، آسمان سے کافی پانی برسا، جو ندیوں میں بہنے لگا، گھروں کے چاروں اور جمع ہو گیا اور کھیتوں میں بھر گیا۔ ان کی یہ فنی تخلیق سیلاب کی کہانی بیان کر رہی ہے، جسے انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
یہ تصویریں تقریباً ۱۰۰ سال بعد بنائی گئی ہیں، جب اسی سال جولائی-اگست میں زبردست بارش کے بعد کیرالہ میں ایک صدی کے بعد سب سے ہولناک سیلاب آیا تھا۔
کوٹناڈ علاقہ (کیرالہ کے الپوژہ، کوٹایم اور پٹھنم تھِٹّا اضلاع) میں، وسط جولائی میں جب پہلی بار سیلاب آیا – پانی لگاتار چڑھنے اور خطرناک شکل اختیار کرنے لگا – تو اسکول اور سرکاری دفاتر راحت کیمپ بن گئے۔
میں نے ۲۸ جولائی کو، کارتھکپ پلی تعلق کے مہادیوی کاڈ گاؤں میں واقع سرکاری مڈل اسکول کے کیمپ کا دورہ کیا۔ کسی زمانے میں، میں بھی اسی اسکول کا طالب علم ہوا کرتا تھا؛ جولائی اور اگست، ۲۰۱۸ میں یہ ۳۶۲ سیلاب متاثرہ کنبوں کے لیے پناہ گاہ بن گیا۔
کیمپ میں آس پاس گاؤوں کے زرعی مزدوروں کے ۲۳ بچے بھی تھے۔ ان میں سے زیادہ تر اُداس تھے۔ پورے کیمپ کا یہی حال تھا۔ میں اگلے دن اسکول میں پینٹنگ کے سامان لے آیا۔ میں نے جیسے ہی کاغذ، قلم اور پنسل بانٹنا شروع کیا، متجسس بچے میرے اردو گرد جمع ہو گئے۔ جلد ہی، وہ رنگین گھر، کھیت، سورج، پرندے، درخت، بادل، تتلی، پودے، انسان... اور پانی کی تصویریں بنانے لگے۔ کچھ مائیں، اپنے بچوں کی تصویریں دیکھ کر رونے لگیں۔
ہم نے ۲۴ اگست کو، اونم تہوار کے دن اسکول کی دیوار پر ان تصویروں کی نمائش کی – یہ تہوار اس سال خاموشی اور غم میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن ان رنگین تصویروں نے کچھ حد تک دن کو خوشنما بنا دیا۔
بچوں نے سیلاب کے بارے میں لکھا بھی تھا۔ یہ ان کی ڈائری میں ملیالم زبان میں لکھے گئے ان کے تجربوں کے ترجمے ہیں:
سیلاب کی ڈائری
’’دھیرے دھیرے، پانی نے ہمیں چاروں اور سے گھیرنا شروع کر دیا۔ یہ ہمارے گھر کے ساتھ ساتھ چوراہے تک پہنچ گیا۔ راحت رسانی ٹیم مچھلی پکڑنے والی ایک بڑی کشتی میں آئے اور ہمیں وہاں سے نکالا۔ اپنے گھر کو چھوڑنے کا ہمارا دل تو نہیں چاہ رہا تھا، لیکن یہ ڈر تھا کہ پانی اور بھی بڑھے گا، اس لیے ہمیں ان کے ساتھ جانا ہی پڑا۔ ہمیں پیی پاڈ پل پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا، وہاں سے ہم نے کے ایس آر ٹی سی [کرناٹک اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن] کی بس پکڑی، اور مہادیوی کاڈ اسکول میں اتر گئے۔ ہم جیسے ہی یہاں پہنچے، ہمیں کھانا اور کپڑے دیے گئے۔ ہم نے کھایا اور سونے چلے گئے۔ اگلے دن، ناشتہ میں ہمیں اُپما اور دوپہر میں چاول کھانے کے لیے دیا گیا۔ ہم نے رات میں بھی چاول ہی کھایا اور دوبارہ سو گئے۔ ہمیں ہر وقت کھانا ملتا رہا۔ اور ہم کیمپ میں خوشی خوشی رہے۔‘‘
- ابھجیت ایس، عمر ۱۳ سال، ساکن چیروتھانہ-ایپرمپو گاؤں، ہریپد بلاک، الپوژہ ضلع
’’میرے گھر میں یومِ آزادی پر سیلاب آیا۔ جیسے ہی پانی میرے گھر میں داخل ہوا، میں خوش ہو گیا کہ اب چھٹی ملے گی۔ میرے والدین نے گھر کے سارے سامان اونچی جگہوں پر رکھ دیے، سیلاب کے پانی سے اوپر۔ لیکن جب ہماری چارپائی پانی میں ڈوب گئی، تو ہم اپنے رشتہ دار کے گھر چلے گئے، جو ایک اونچے مقام پر ہے۔ کچھ دیر میں، وہاں بھی سیلاب کا پانی آ گیا۔ ہم جب وہاں سے چلے، تو پانی گردن بھر گہرا تھا۔ جب ہم چیروتھانہ ندی پر پہنچے، تو ہم نے وہاں پل پر اپنے پڑوسیوں کو بچاؤ کشتیوں کا انتظار کرتے پایا۔ کشتی میں سفر کرنا ایک خوفناک منظر تھا، ڈر کے مارے میں رونے لگا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں پرارتھنا کرنی شروع کر دی۔ چیرو تھانہ پل سے، ہم نے ایک بس لی اور اس اسکول میں پہنچے۔‘‘
- اتھُل موہن، عمر ۱۰ سال، ساکن چیرو تھانہ گاؤں، ہریپد بلاک، الپوژہ ضلع
’’سیلاب ہمارے لیے کئی مشکلیں لے کر آیا۔ ہمارے گھر کی سبھی چیزیں اب پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔‘‘
- ابھجیت پی، عمر ۱۰ سال، ساکن چیروتھانہ گاؤں، ہریپد بلاک، الپوژہ ضلع
’’میں ۱۵ اگست کو اسکول نہیں جا سکا – ہمارے گھر میں سیلاب آ گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ پانی کی سطح نیچے آ جائے گی، لیکن نہیں آئی۔ پانی دھیرے دھیرے چڑھنے لگا۔ شام کو بھی یہی حال تھا۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ رات میں پانی نہیں چڑھا۔ اگلی صبح ۶ بجے، سیلاب کا پانی پھر ہمارے گھر میں داخل ہونا شروع ہوا۔ یہ سب سے پہلے باورچی خانہ میں آیا، پھر ہال میں، کمرے میں... پھر ہر جگہ۔ پانی جب ہمارے دوسرے کمرے میں آدھا بھر گیا، تو ہم لوگ اپنے دادا جی کے چھوٹے بھائی کے گھر چلے گئے۔ ہم وہاں دو تین دن رہے۔ تیسرے دن، ہمارے رشتہ دار پہنچے۔ اسی شام، میرے والد کے بھائی کا گھر بھی سیلاب زدہ ہو گیا۔ ہم سبھی دو گروپوں میں اور بچاؤ کشتیوں سے چیرو تھانہ پل گئے۔ ہمیں پیی پاڈ پُل کے پاس اتار دیا گیا۔ بعد میں، ہم کے ایس آر ٹی سی کی بس میں چڑھے۔ جب ہم [مہادیوی کاڈ اسکول میں] پہنچے تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ کیمپ میں ہم پہلے لوگ تھے۔ ہمیں سونے کے لیے ایک جگہ ملی۔ کچھ دیر بعد، ہمیں کھانے کے لیے اپّم اور گوشت کا شوربہ ملا۔ رات میں، کوئی بھی سو نہیں سکا...‘‘
آکاش ایم، عمر ۱۴ سال، ساکن چیرو تھانہ-ایپرمپو گاؤں، ہریپد بلاک، الپوژہ ضلع
’’ایک مہینے سے بھی زیادہ گزر چکا ہے جب ہمارے گھر میں سیلاب کا پانی داخل ہوا تھا [جولائی میں]۔ ہمیں پاس کے ایک گھر میں رکھا گیا تھا۔ اس مہینے [اگست] کی ۱۷ تاریخ کو، سیلاب کا پانی اُس گھر میں بھی داخل ہو گیا۔ ہم نے بڑی مشکل سے وہ رات گزاری۔ اگلی صبح، پانی کی سطح بڑھنے لگی اور ہم دیکھتے رہے۔ ڈر کے مارے ہم سبھی رونے لگے تھے۔ تبھی، پولس اَنکل ہمیں بچانے کے لیے ایک بڑی گاڑی سے وہاں پہنچے۔ ہمیں کلار کوڈ نامی جگہ پر اتار دیا گیا۔ ہم حیران و پریشان تھے کہ کہاں جائیں۔ اَپّی (چچی) نے کہا کہ ہمیں کایم کولم واقع ان کے گھر بھیج دینا چاہیے۔ لہٰذا، ہم ایک بڑی گاڑی میں بیٹھے اور وہاں چلے گئے۔ اور وہاں پر جو رحمدل عورتیں کیمپ چلا رہی تھیں، انھوں نے ہمیں اس اسکول میں بھیج دیا۔ تب سے لے کر اب تک، ہمیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔‘‘
- اشوتھی بیجو، عمر ۹ سال، ساکن نیڈوموڈی گاؤں، چمپا کولم بلاک، الپوژہ ضلع
۲۹ اگست، ۲۰۱۸ کو مہادیوی کاڈ اسکول پھر سے کھل گیا، کلاسیں لگنے لگیں۔ جن بچوں اور کنبوں نے وہاں پناہ لی تھی، وہ اپنے گاؤوں لوٹ چکے ہیں، باقی لوگ دوسرے راحت کیمپ میں چلے گئے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)