جس دن میرا ایس ایس سی [سیکنڈری اسکول سرٹیکفیٹ] کا نتیجہ آنے والا تھا، اس دن میری حالت بلّے سے ماری گئی کرکٹ گیند جیسی تھی۔ چوکا [رن] لگے گا یا چھکّا؟ ہر کوئی اس گیند کو ہی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اگر میں ناکام ہوئی، تو کیا ہوگا؟ میرے والد فوراً میری شادی کروا دیں گے۔
جب نتائج کا اعلان ہوا، میں نے ۷۹ اعشاریہ ۰۶ فیصد نمبرات حاصل کیے اور میں اپنے اسکول میں صرف ایک نمبر سے تیسری سب سے اعلیٰ رینک حاصل کرنے سے چوک گئی۔ میں اپنی کامیابی پر خوش تھی: ہمارے ناتھ جوگی خانہ بدوش معاشرہ میں کسی بھی لڑکی نے ۱۰ویں کلاس پاس نہیں کیا ہے۔
میں نو کھ [جل گاؤں جامود تحصیل، بلڈھانہ ضلع] میں رہتی ہوں، جو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جس میں صرف میری ہی برادری کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں سے کئی لوگ پونہ، ممبئی اور ناگپور بھیک مانگنے جاتے ہیں۔ میرے والدین کی طرح باقی لوگ، ہمارے گاؤں کے پاس دہاڑی مزدوری کرتے ہیں۔
میرے والدین – باؤلال صاحب راؤ (۴۵) اور دروپدا سولنکے (۳۶) – گیہوں، جوار، مکئی، سویابین اور کپاس کے کھیتوں میں دہاڑی مزدوری کرتے ہیں۔ آٹھ گھنٹے کام کرکے وہ دونوں ایک دن میں ۲۰۰-۲۰۰ روپے کماتے ہیں۔ ان کو مہینہ میں مشکل سے ۱۰-۱۲ دن ہی کام مل پاتا ہے کیوں کہ کئی لوگ کام کی تلاش میں رہتے ہیں اور کام اتنا ہے نہیں۔
میرے والد ۵ویں کلاس تک اسکول گئے تھے اور پھر انہوں نے اسکول چھوڑ کر کام کرنا شروع کر دیا۔ میری دو بڑی بہنیں ہیں – ۲۴ سالہ رُکما، کو کبھی اسکول نہیں گئی اور ۲۲ سالہ نینا، جو ۵ویں کلاس تک پڑھی ہے۔ میری دونوں بہنوں کی شادی ہو چکی ہے اور وہ بھی اسکول چھوڑنے کے بعد سے دہاڑی مزدوری کرتی رہی ہیں۔ میرا بڑا بھائی، ۲۰ سالہ دیولال بھی دہاڑی مزدور ہے۔ اس نے بھی کلاس ۹ میں اسکول چھوڑ دیا تھا۔ جب میں ۱۰ سال کی ہوئی، تومیرے والد نے کہا، ’’تم اب کام کرنا شروع کر سکتی ہو؛ تمہیں اب مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ اکیلے ہی ایسے نہیں ہیں۔ مجھے اسکول جاتے وقت روز ایک بوڑھی عورت ملتی ہے۔ انہوں نے بھی مجھے ڈانٹا، ’’تمہاری بہنیں اسکول نہیں گئیں، تمہیں کیا ضرورت ہے؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ اگر تم پڑھ لوگی تو تمہیں نوکری مل جائے گی؟‘‘
میرے چچا بھی کئی بار میرے والدین کو کہتے رہتے ہیں کہ انہیں میری شادی کروا دینی چاہیے، اور میرے والد بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ میں اپنی ماں سے کہتی ہوں، ’’بابا کو بول دو کہ وہ مجھ سے یا کسی اور سے میری شادی کے بارے میں بات نہ کیا کریں۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘ وہ جب ان سے بات کرنے کی کوشش کرتیں، تو ان میں زبردست لڑائی چھڑ جاتی۔
بعد میں جب میں نے ۱۰ویں کلاس پاس کر لیا اورایک صحافی میرا انٹرویو لینے آئے، تب میرے والد رو رہے تھے۔ انہوں نے صحافی سے کہا، ’’میں خوش ہوں کہ میری بیٹی نے میری نہیں سنی اور وہ پڑھائی کرتی رہی۔‘‘
میں نے سات سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کیا تھا۔ پڑوس کے پالس سُپو کے ایک اسکول سے دو ٹیچر سبھی اسکول جانے والی لڑکیوں کے نام لکھنے میرے گاؤں آئے تھے۔ کسی نے میرا نام بھی دے دیا، تو میں نے وہاں کے سرکاری پرائمری اسکول میں کلاس ۱ میں داخلہ لے لیا۔
ایک سال بعد میری ہی گاؤں میں ایک پرائمری اسکول شروع ہو گیا اور میں وہاں جانے لگی۔ میں ۵ویں کلاس میں ۱۴ کلومیٹر دور، جل گاؤں جمود کے تحصیل ہیڈکوارٹر میں مہاتما پھُلے نگر پریشد ودیالیہ میں جانے لگی۔ اسکول پہنچنے کے لیے میں دو کلومیٹر پیدل چلتی تھی، پھر ایک سواری والا آٹو مجھے شہر کے بس اسٹینڈ پر چھوڑتا تھا اور پھر میں اسکول پہنچنے کے لیے ایک کلومیٹر اور چلتی تھی۔ آٹو سے مجھے تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا تھا اور ایک طرف کا ۳۰ روپے کرایہ لگتا تھا۔ ہمارے گاؤں کی چھ لڑکیاں اسی اسکول میں جاتی تھیں اور ہم ہمیشہ ساتھ ہی جایا کرتے تھے۔
بارش کے وقت ایک دن ہمارے گاؤں کے پاس والی ندی میں پانی کی سطح بڑھ گئی تھی۔ ہمیں اسے پار کرکے مین روڈ پر پہنچنا تھا۔ عام طور پر ندی پار کرنے میں ہمارے صرف پیر گیلے ہوتے ہیں، ہم اپنا پائجامہ اوپر چڑھا لیتے ہیں اور چپل ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں۔
لیکن، اس دن پانی ہماری کمر تک تھا۔ کنارے پر کھڑے ہمارے ہی گاؤں کے ایک آدمی سے ہم نے کہا، ’’کاکا، ندی پار کرنے میں مدد کر دو۔‘‘ وہ چلّائے، ’’تم سب واپس جاؤ! تم لوگوں کو اسکول کیوں جانا ہے؟‘‘ اس دن ہم اسکول نہیں جا پائے۔ دوسرے دن کلاس میں ہمارے ٹیچر کو لگا کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں اور انہوں نے ہمیں سزا کے طور پر کلاس کے باہر کھڑا رکھا۔
جب یہ دوبارہ ہوا، تو میں نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ ٹیچر سے بات کریں۔ تب انہوں نے ہمارا یقین کیا۔ بعد میں، وہ ہمارے گاؤں آئے اور جو ہم نے انہیں بتایا تھا، انہوں نے خود دیکھا۔
میں نے جل گاؤں جمود بس اسٹینڈ کے اسٹیٹ ٹرانسپورٹ آفس میں ایک عرضی دینے کا فیصلہ کیا کہ وہ ہمارے گاؤں میں بس صبح ۹ بجے بھیج دیں۔ سبھی ۱۶ لڑکیوں نے اس عرضی پر دستخط کیے جو یہ بس لیتی تھیں۔ اس میں وہ دو لڑکیاں بھی شامل تھیں، جو ۴ کلومیٹر دور اسلام پور گاؤں میں رہتی ہیں۔ مانو وِکاس بس صرف لڑکیوں کے لیے ہے اور مفت ہے۔
اہلکار راضی ہو گئے اور انہوں نے ہم سے وعدہ کیا کہ اگلے دن بس صبح ۹ بجے وہاں ہوگی۔ بس آئی بھی اور میں بہت خوش تھی! لیکن وہ خوشی صرف ایک دن کی ہی تھی۔ اگلے دن جب بس نہیں آئی، تب میں اہلکار کے پاس گئی اور انہوں نے مجھ سے کہا، ’’بس دوسرے گاؤں سے ہوتے ہوئے آتی ہے اور وہاں کے لوگ وقت میں تبدیلی نہیں چاہتے ہیں۔ میں صرف تمہارے وقت کے مطابق بس نہیں بھیج سکتا۔‘‘ انہوں نے ہمیں صلاح دی کہ ہم اپنی کلاس کا وقت بدل دیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
بس سے سفر کرنے میں دیگر دشواریاں بھی ہیں۔ ایک بار میری سہیلیاں اور میں اسٹیٹ ٹرانسپورٹ بس میں چڑھے اور ایک لڑکے نے میری سہیلی کا دوپٹہ کھینچا اور چیخا، ’’تم موہدی پور کی لڑکیوں، نکلو یہاں سے!‘‘ دوسرے لڑکے بھی شامل ہو گئے اور بہت زیادہ لڑائی ہوئی۔ ہماری ناتھ جوگی برادری موہدی پور میں رہتی ہے۔ وہ لڑکے ناتھ جوگی برادری کی لڑکیوں کو بس میں بیٹھنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ میں غصہ ہو گئی اور جب بس جل گاؤں جمود پہنچی، تب میں اسے اسٹیٹ ٹرانپسورٹ آفس لے گئی۔ کنڈکٹر نے جھگڑا روکا اور ان لڑکوں سے کہا کہ یہ بس سب کے لیے ہے، لیکن ایسی چیزیں ہوتی ہی رہتی ہیں، اس لیے ہم آٹو سے جانا بہتر سمجھتے ہیں۔
جب میں ۱۵ سال کی تھی، تب میرے والد وہ زمین جس پر ہمارا گھر بنا ہے، اسے اپنے نام پر منتقل کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ میرے دادا کے نام پر تھا اور انہوں نے وہ زمین میرے والد کو تحفہ میں دیا تھا۔ لیکن ہمارے گاؤں کا آدمی جو منتقل کروا سکتا تھا، اس نے ۵ ہزار روپے کی مانگ کی۔ میرے والد کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے۔ ہم نے اس آدمی سے کئی بار درخواست کی لیکن وہ پیسے کے بغیر نہیں مانا۔ اگر گھر ہمارے نام پر نہیں رہے گا، تو ہم ریاست سے پکّا گھر بنوانے کے لیے ملنے والی رقم کے حقدار نہیں ہوں گے۔
ہمیں اپنا گھر اپنے نام پر کرانے کے لیے پیسے کیوں دینے چاہئیں؟ کسی کو بھی ایسی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں اور ایک دن بہت بڑی افسر بننا چاہتی ہوں۔ پھر ہمارے جیسے غریب لوگوں کو اپنا کام کروانے کے لیے رشوت نہیں دینی پڑے گی۔ میں اپنی برادری کے لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں سمجھانا چاہتی ہوں تاکہ وہ طاقتور لوگوں سے نہ ڈریں۔
سرکاری اسکولوں میں کلاس ۸ تک کتابیں مفت ملتی ہیں اور کوئی وردی بھی نہیں ہے۔ لیکن ۹ویں کلاس سے ہر کسی کو کتابیں اور کاپیاں خریدنی پڑتی ہیں، جن کی قیمت تقریباً ۱۰۰۰ روپے ہے اور اسکول کی وردی کی قیمت تقریباً ۵۵۰ روپے ہے۔ ایک بار کے لیے پرائیویٹ ٹیوشن لینے پر ۳ ہزار روپے مزید خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ میں نے صرف ایک بار کے لیے ہی ٹیوشن لی اور دوسری بار کے لیے نہیں لی سکی۔ میں نے اپنے ٹیچر سے اس سلسلے میں مدد کرنے کی درخواست کی۔ اپنے خرچ اٹھانے کے لیے، ۹ویں کلاس میں جانے سے پہلے میں نے گرمیوں میں اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا شروع کیا۔ میں صبح ۴ بجے اٹھتی اور ایک گھنٹہ پڑھتی تھی۔ میرے والدین اور بھائی اسی وقت کام کے لیے نکلتے تھے۔ ایک گھنٹہ پڑھائی کرنے کے بعد میں بھاکھری اور بھاجی بناتی تھی اوران لوگوں کے لیے کھیتوں میں لیکرجاتی تھی۔
میں ان کے ساتھ صبح ۷ بجے سے ۹ بجے تک کام کرتی تھی اور مجھے ایک گھنٹہ کے ۲۵ روپے ملتے تھے۔ ساڑھے ۹ بجے میں گھر واپس جاکر اسکول کے لیے تیار ہوتی تھی۔ اسکول سے واپس آنے کے بعد میں پھر سے کام پر جاتی تھی۔ میں چھٹیوں میں بھی کام کرتی تھی۔ اس پیسے سے مجھے اسکول کی وردی خریدنے میں مدد ملی۔
پچھلے سال [۲۰۱۹] میں نے جل شکتی ابھیان [مرکزی وزارت برائے آبی وسائل] کے ذریعے منعقد بلاک سطح کے مضمون نگاری مقابلہ میں ایک ٹرافی جیتی تھی۔ بلڈھانہ میں منعقد ضلعی سطح کی سائنس نمائش میں آرگینک کھاد پر بنائے گئے میرے پروجیکٹ کو دوسرا انعام ملا تھا۔ اسکول میں دوڑ کے مقابلہ میں بھی مجھے دوسرا انعام ملا تھا۔ مجھے جیتنا پسند ہے۔ ناتھ جوگی برادری کی لڑکیوں کو کبھی بھی جیتنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔
میں نے اگست میں جل گاؤں جمود میں کلاس ۱۱ اور ۱۲ کے لیے دی نیو ایرا ہائی اسکول میں داخلہ لیا ہے۔ وہ ایک پرائیویٹ اسکول ہے اور اس کی ایک سال کی فیس ۵ ہزار روپے ہے۔ میں نے سائنس کی پڑھائی کا انتخاب کیا ہے – ریاضی، فزکس، کیمسٹری، بایولوجی اور میں نے تاریخ کا بھی انتخاب کیا ہے کیوں کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ سول سروس کے داخلہ جاتی امتحان میں تاریخ سے بہت مدد ملتی ہے۔ میرا خواب ہے کہ میں آئی اے ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس) افسر بنوں۔
گریجویشن کے لیے مجھے پونہ یا بلڈھانہ جانا پڑے گا، جہاں یونیورسٹی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ مجھے بس کنڈکٹر یا آنگن واڑی کارکن بننا چاہیے کیوں کہ اس سے مجھے جلدی نوکری مل جائے گی۔ لیکن میں وہی بنوں گی جو میں بننا چاہتی ہوں۔
میری برادری کا بھیک مانگنے پر انحصار اور لڑکیوں کی کم عمر میں شادی کرنے کی ان کی ضد کو بھی میں بدلنا چاہتی ہوں۔ بھیک مانگنا ہی پیٹ بھرنے کا ایک واحد متبادل نہیں ہے، تعلیم بھی آپ کا پیٹ بھر سکتی ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی لوگ گاؤں واپس آ گئے ہیں اور ہر کوئی کام ڈھونڈ رہا ہے۔ میری فیملی بھی گھر پر ہے اور انہیں کوئی بھی کام نہیں مل رہا ہے۔ میرے والد نے میرے اسکول میں داخلہ کے لیے گاؤں کے ہی ایک بزرگ سے پیسے قرض لیے ہیں۔ پیسے واپس لوٹانا بہت ہی مشکل ہوگا۔ ہم کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہم بھیک کبھی نہیں مانگیں گے۔
پرشانت کھُنٹے ایک آزاد مراٹھی صحافی ہیں جو پونہ میں رہتے ہیں اور انہوں نے اس اسٹوری میں مدد کی ہے۔
کور فوٹو: انجلی شنڈے
مترجم: محمد قمر تبریز