’’ندی میں کھیتی کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے – فصل کاٹنے کے بعد یہاں نہ تو کوئی پرالی بچتی ہے اور نہ ہی کوئی گھاس پھوس اگتی ہے۔‘‘

کُنتی پانے، مہاسمند ضلع کے گھوداری گاؤں کی رہنے والی ہیں، اور اُن ۶۰-۵۰ کسانوں میں سے ایک ہیں جو دریائے مہاندی کی ریت پر کھیتی کرتے ہیں۔ یہ ندی رائے پور ضلع میں نگری شہر کے قریب پھرسیا گاؤں سے ہو کر بہتی ہے۔ ۵۷ سالہ کُنتی بتاتی ہیں، ’’یہ کام میں ایک دہائی سے کر رہی ہوں۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ یہاں بھنڈی، پھلیاں اور خربوز اگاتی ہوں۔‘‘

وہ اپنی عارضی گھاس کی جھونپڑی میں بیٹھ کر ہم سے یہ باتیں کر رہی ہیں، جو کہ ایک آدمی کے رہنے کے لیے کافی ہے اور اتنی مضبوط ہے کہ بارش کے دوران آدمی بھیگنے سے بھی بچ سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گائے اور دوسرے آوارہ جانوروں کے حملوں سے بچانے کے لیے رات میں اس جھونپڑی کے اندر بیٹھ کر کھیتوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔

مہاندی کے اوپر بنا ہوا پُل رائے پور ضلع کے پرگاؤں کو مہاسمند ضلع کے گھوداری گاؤں سے جوڑتا ہے۔ پل کے اوپر سے دیکھنے پر ایسا لگتا ہے کہ نیچے ندی میں سبز رنگ کے ٹکڑے تیر رہے ہیں۔ دونوں گاؤوں کے کسانوں نے ندی کے ریتیلے حصوں کو آپس میں بانٹ لیا ہے، جن پر وہ دسمبر سے مئی کے آخر میں ہونے والی پہلی بارش تک کھیتی کرتے ہیں۔

Left : Farmers bathing in the river by their fields.
PHOTO • Prajjwal Thakur
Right: Kunti Pane sitting in front of her farm
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: کسان اپنے کھیتوں کے پاس دریا میں نہا رہے ہیں۔ دائیں: کُنتی پانے اپنے کھیت کے سامنے بیٹھی ہیں

Watermelons (left) and cucumbers (right) grown here on the bed of the Mahanadi
PHOTO • Prajjwal Thakur
Watermelons (left) and cucumbers (right) grown here on the bed of the Mahanadi
PHOTO • Prajjwal Thakur

یہاں مہاندی کی ریت پر تربوز (بائیں) اور کھیرے (دائیں) اُگتے ہیں

’’گاؤں میں ہمارے پاس ایک ایکڑ زمین ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں، لیکن یہاں پر کھیتی کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

کُنتی بتاتی ہیں، ’’ہمارے ایک کھیت پر، کھاد، بیج، مزدوری اور نقل و حمل پر تقریباً ۴۰-۳۰ ہزار روپے کی لاگت آتی ہے۔ ان تمام اخراجات کے بعد تقریباً ۵۰ ہزار روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔‘‘

کمہار کمیونٹی (جو چھتیس گڑھ میں او بی سی کے طور پر درج ہے) سے تعلق رکھنے والی کنتی کہتی ہیں کہ ان کی برادری کا روایتی پیشہ مٹی کے برتن اور مورتیاں بنانا ہے۔ دیوالی اور پولا تہواروں کے دوران کُنتی مٹی کے برتن بناتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے مٹی کے برتن بنانا پسند ہے، لیکن یہ کام میں سال بھر نہیں کر سکتی۔‘‘ پولا تہوار مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ کے کسانوں کے ذریعے منایا جاتا ہے۔ اس تہوار میں، بیل اور سانڈھ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور زراعت اور کاشتکاری میں ان کے اہم کردار کا جشن منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار عام طور سے اگست کے مہینہ میں منایا جاتا ہے۔

*****

جگدیش چکردھاری ایک ۲۹ سالہ گریجویٹ ہیں، جو رائے پور ضلع کے چھورا بلاک میں واقع پرگاؤں میں پتھر کی ایک کان میں کام کرتے ہیں۔ اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے انہوں نے چار سال پہلے ندی کے اندر اپنی فیملی والے ریتیلے حصہ میں کام کرنا شروع کیا۔ اپنی فیملی کی مالی مدد کرنے کے لیے وہ طالب علمی کے زمانہ سے ہی پتھر کی کان میں کام کر رہے ہیں اور روزانہ ۲۵۰ روپے کماتے ہیں۔

Left: Jagdish Chakradhari sitting in his hut beside his farm.
PHOTO • Prajjwal Thakur
Right: Indraman Chakradhari in front of his farm
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: کھیت کے پاس بنی اپنی جھونپڑی میں بیٹھے جگدیش چکردھاری۔ دائیں: اندرامن چکردھاری اپنے کھیت کے سامنے کھڑے ہیں

Left: Indraman Chakradhari and Rameshwari Chakradhari standing on their field.
PHOTO • Prajjwal Thakur
Right: Muskmelon grown on the fields of Mahanadi river
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: اندرامن چکردھاری اور رامیشوری چکردھاری اپنے کھیت کے سامنے کھڑے ہیں۔ دائیں: دریائے مہاندی کے کھیتوں پر خربوز اگتے ہیں

ان کے والد شتروگھن چکردھاری (۵۵) اور ماں دلاری بائی چکردھاری (۵۰)، اور بہن تیجسوری (۱۸) بھی مہاندی کے ان کھیتوں پر کام کرتے ہیں۔ چکردھاری فیملی کا تعلق بھی کمہار برادری سے ہے، لیکن یہ لوگ مٹی کے برتن نہیں بناتے۔ جگدیش کہتے ہیں، ’’اس سے میری زیادہ کمائی نہیں ہو پائے گی۔‘‘

اندرامن چکردھاری (۴۰) بھی ایک کمہار ہیں، جو پرگاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ تہواروں کے دوران دیوی دُرگا اور بھگوان گنیش کی مورتیاں بناتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کام سے وہ سالانہ ایک لاکھ روپے کما سکتے ہیں۔

اندرامن کہتے ہیں، ’’میں نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا میری طرح کسان بنے۔ وہ نوکری یا کچھ اور حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ ۱۱ویں کلاس میں پڑھتا ہے اور کمپیوٹر چلانا بھی سیکھ رہا ہے۔ وہ کھیتوں میں ہماری مدد کرتا ہے، لیکن کھیتی باڑی کرکے مشکل سے گزارہ ہو پاتا ہے۔‘‘

ان کی بیوی، رامیشوری چکردھاری کھیتوں پر کام کرتی ہیں اور مٹی کے برتن اور مورتیاں بھی بناتی ہیں۔ ’’شادی کے بعد میں دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتی تھی۔ میں اسے ترجیح دیتی ہوں کیوں کہ ہم اپنے لیے کام کر رہے ہیں، کسی اور کے لیے نہیں۔‘‘

Left: Indraman Chakradhari carrying the beans he has harvested from his field to his hut to store.
PHOTO • Prajjwal Thakur
Right: Rameshwari Chakradhari working in her field
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: اندرامن چکردھاری اپنے کھیتوں میں اگائی ہوئی پھلیاں توڑ کر اسے اپنی جھونپڑی میں رکھنے لے جا رہے ہیں۔ دائیں: رامیشوری چکردھاری اپنے کھیت میں کام کر رہی ہیں

Left: Shatrughan Nishad in front of his farm.
PHOTO • Prajjwal Thakur
Right: Roadside shops selling fruits from the farms in Mahanadi river
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: اپنے کھیت کے سامنے کھڑے شتروگھن نشاد۔ دائیں: دریائے مہاندی کے کھیتوں پر اگائے گئے پھل سڑک کے کنارے بنی دکانوں پر بیچے جاتے ہیں

مہاسمند ضلع کے گھوداری گاؤں میں رہنے والی شتروگھن نشاد کی فیملی تین نسلوں سے یہاں کھیتی کر رہی ہے۔ ندی کے اندر کھیت کا ایک ٹکڑا اس ۵۰ سالہ کسان کا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مہاراشٹر کا رہنے والا ایک آدمی یہاں خربوز اور تربوز کی کھیتی کرتا تھا اور ہم لوگ اس کے کھیتوں پر مزدوری کرتے تھے۔ بعد میں، ہم لوگ خود بھی یہاں کھیتی کرنے لگے۔‘‘

یہاں چار مہینے تک کھیتی کرنے والے شتروگھن بتاتے ہیں، ’’دسمبر میں ہم مٹی میں کھاد ملاتے ہیں اور بیج بوتے ہیں، اور فروری میں فصل کاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

ریاست کی راجدھانی رائے پور، یہاں سے ۴۲ کلومیٹر دور ہے جہاں سبزی منڈی ہے۔ بلاک ہیڈکوارٹر ارنگ یہاں سے صرف چار کلومیٹر دور ہے، اس لیے کسان اسے ترجیح دیتے ہیں۔ کسانوں کو ان جگہوں پر اپنا سامان لے جانے میں رَیک کے حساب سے پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں – رائے پور تک ایک رَیک لے جانے کے ۳۰ روپے لگتے ہیں۔

اگر آپ مہاندی کے اس پل سے کبھی گزریں، تو ندی کے اندر کھیتی کرنے والے ایسے کئی کسان آپ کو سڑک کے کنارے ترپال اور لکڑی کے ڈنڈوں سے بنی عارضی دکانوں میں سبزیاں اور پھل بیچتے ہوئے نظر آ جائیں گے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Prajjwal Thakur

Prajjwal Thakur is an undergraduate student at Azim Premji University.

Other stories by Prajjwal Thakur
Editor : Riya Behl

Riya Behl is Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI). As a multimedia journalist, she writes on gender and education. Riya also works closely with students who report for PARI, and with educators to bring PARI stories into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique