ہم جیسے ہی جیپ سے نیچے اُترے، قلعہ نما راجاوومّنگی پولیس اسٹیشن کے اندر سپاہیوں نے گھبرا کر اپنی پوزیشن لے لی۔ یہ اسٹیشن خود ہی پولیس کی نگرانی میں ہے۔ خصوصی مسلح پولیس اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ یہ دیکھ کر بھی کہ ہم صرف کیمرے سے لیس ہیں، تناؤ کم نہیں ہوا۔ مشرقی گوداوری کے اس حصہ میں پولیس اسٹیشن کی فوٹوگرافی ممنوع ہے۔

اندرونی گلیارے کی سیکورٹی پر تعینات ہیڈ کانسٹیبل نے یہ جاننا چاہا کہ ہم کون لوگ ہیں۔ صحافی؟ تناؤ تھوڑا کم ہوا۔ میں نے پوچھا، ’’ردعمل میں آپ کچھ تاخیر نہیں کر رہے ہیں؟ آپ کے اسٹیشن پر تو ۷۵ سال پہلے حملہ ہوا تھا۔‘‘

اس نے فلسفیانہ انداز میں کہا، ’’کون جانتا ہے؟ آج دوپہر کو بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

آندھرا پردیش کے اس آدیواسی علاقے کو ’’ایجنسی‘‘ علاقہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگست ۱۹۲۲ میں یہاں کے لوگوں نے بغاوت کر دی تھی۔ شروع میں جو کچھ مقامی غصے کی وجہ سے ہوا، اس نے بعد میں وسیع سیاسی شکل اختیار کر لی۔ ایک غیر آدیواسی، اَلّوری رام چندر راجو (جنہیں لوگ سیتا رام راجو کے نام سے جانتے ہیں) نے مانیم بغاوت میں پہاڑی آدیواسیوں کی قیادت کی تھی۔ مقامی لوگ اس بغاوت کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہاں، لوگ صرف مسائل کا حل ہی نہیں چاہتے تھے۔ ۱۹۲۲ تک آتے آتے، انھوں نے راج (برطانوی حکومت) کو اکھاڑ پھینکنے کی لڑائی شروع کر دی۔ باغیوں نے ایجنسی علاقہ میں موجود کئی پولیس اسٹیشنوں، جن میں سے ایک راجاوومنگی پولیس اسٹیشن بھی ہے، پر حملہ کرکے اپنے ارادے بتا دیے تھے۔

sitarama raju's statue
PHOTO • P. Sainath

مشرقی گوداوری میں سیتا رام راجو کا مجسمہ

اس علاقہ کے جن مسائل کی وجہ سے لوگوں نے انگریزوں سے لڑائی لڑی، وہ ۷۵ برسوں کے بعد اب بھی موجود ہیں۔

راجو کے ساتھیوں نے گوریلا جنگ میں انگریزوں کو مات دے دی تھی۔ ان سے مقابلہ کرنے میں ناکام انگریزوں نے بغاوت کو کچلنے کے لیے، مالابار اسپیشل فورس وہاں بلا لی۔ یہ دستہ جنگل میں لڑنے میں ماہر تھا اور وائرلیس سیٹ سے لیس تھا۔ یہ بغاوت ۱۹۲۴ میں راجو کی موت کے بعد ختم ہوئی۔ پھر بھی، انگریزوں کے لیے، جیسا کہ تاریخ نویس ایم وینکٹ رَنگیّا نے لکھا ہے: ’’اس نے عدم تعاون کی تحریک سے زیادہ پریشانی کھڑی کی۔‘‘

اس سال سیتا رام راجو کی ۱۰۰ویں سالگرہ ہے، انہیں ۲۷ سال کی عمر میں ہی مار دیا گیا تھا۔

برطانوی حکومت نے پہاڑی قبیلوں کو برباد کر دیا۔ سال ۱۸۷۰ اور ۱۹۰۰ کے درمیان، راج نے کئی جنگلات کو ’’ریزو‘‘ قرار دے دیا اور پوڈو (منتقلی) کھیتی پر پابندی لگا دی۔ جلد ہی انہوں نے آدیواسیوں کو جنگل کی چھوٹی پیداوار جمع کرنے کے حق سے محروم کر دیا۔ محکمہ جنگلات اور اس کے ٹھیکہ داروں نے اس حق کو چھین لیا۔ اس کے بعد، انہوں نے آدیواسیوں کے درمیان سے جبراً مزدوروں کو اپنے یہاں کام پر لگانا شروع کیا، اکثر بغیر کسی اجرت کے۔ یہ پورا علاقہ غیر آدیواسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اکثر، سزا کے طور پر ان کی زمینیں ان سے چھین لی جاتی تھیں۔ ایسے قدموں سے پورے علاقے کی معیشت چرمرا گئی۔

Sitarama Raju's samadhi in Krishnadevipet
PHOTO • P. Sainath

کرشنا دیوی پیٹ میں سیتا رام راجو کی سمادھی

رَمپا کی کویا آدیواسی رمایمّا بتای ہیں، ’’بے زمین لوگ آج سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ ۵۰ سال پہلے کی حالت میں نہیں جانتی۔‘‘

راجو کے لیے رمپا اہم مقام تھا۔ ۱۵۰ گھروں والے اس چھوٹے سے گاؤں میں، رمایمّا سمیت تقریباً ۶۰ لوگ بے زمین ہیں۔

ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہمارے ماں باپ نے تقریباً ۱۰ روپے کا قرض لینے کی وجہ سے اپنی زمین کھو دی۔ اور، آدیواسیوں کے بھیس میں آنے والے باہری لوگ ہماری زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔‘‘ یہاں کا سب سے بڑا زمیندار میدانی علاقے سے آیا تھا، جو ریکارڈ آفس میں کام کرتا تھا۔ اس کے سبب، وہ اس علاقہ کی مالکانہ حق سے جڑی دستاویزوں تک پہنچ گیا۔ اور لوگوں کا ماننا ہے کہ اس نے ان میں چھیڑ چھاڑ کی۔ اس کی فیملی اب کھیتی کے موسم میں تقریباً ۳۰ مزدوروں کو ہر دن کام پر رکھتی ہے۔ ایک ایسے گاؤں میں یہ ایک انوکھی بات ہے، جہاں پر لوگوں کے پاس تین ایکڑ یا اس سے بھی کم زمین ہے۔

زمین کا مسئلہ مغربی گوداوری ضلع میں پیدا ہو رہا ہے اور مشرق میں زور پکڑ رہا ہے۔ آدیواسی ترقیاتی ایجنسی کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ آدیواسیوں کی زیادہ تر زمین، ’’آزادی کے بعد ختم ہوگئی، حالانکہ ان کے حقوق کی حفاظت کی جانی چاہیے تھی۔‘‘ اس علاقے کی تقریباً ۳۰ فیصد زمین ۱۹۵۹ سے ۱۹۷۰ کے درمیان منتقل ہو گئی۔ عجیب بات ہے کہ ’’ ۱۹۵۹ کا آندھرا پردیش اسٹیٹ لینڈ ٹرانسفر ریگولیشن ایکٹ بھی اس ٹرینڈ کو نہیں روک سکا۔‘‘ یہ قانون، جو ریگولیشن ۱/۷۰ کے نام سے مشہور ہے، کا بنیادی مقصد اسے ہی روکنا تھا۔ اب اس قانون کو مزید کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

In another landless household of Rampa, P. Krishnamma speaks of her family's present-day struggles
PHOTO • P. Sainath

رمپا کی ایک اور بے زمین فیملی میں، پی کرشنمّا اپنی فیملی کی موجودہ جدوجہد کے بارے میں بتا رہی ہیں

یہاں پر آدیواسیوں اور غیر آدیواسیوں کے درمیان کی لڑائی پیچیدہ بنی ہوئی ہے۔ یہاں کے بہت سے غیر آدیواسی غریب بھی ہیں۔ تناؤ کے باوجود، ابھی تک وہ آدیواسیوں کے غصے کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا تعلق تاریخ سے ہے۔ بغاوت کے دوران راجو نے یہ ہدایت جاری کی تھی کہ صرف انگریزوں اور سرکاری اداروں پر حملے کیے جائیں گے۔ رمپا باغیوں کی نظر میں ان کی لڑائی صرف انگریزوں سے تھی۔

آج، غیر آدیواسیوں کا خوشحال طبقہ آدیواسیوں اور خود اپنے لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ یہاں کی نچلی نوکرشاہی بنیادی طور پر غیر آدیواسی ہے۔ ریگولیشن ۱/۷۰ کے توڑ بھی نکال لیے گئے ہیں۔ کونڈاپلّی گاؤں کے بے زمین کویا آدیواسی پوٹَّو کامراج بتاتے ہیں، ’’زمین کو پٹّہ پر دینے کا رواج یہاں عام ہے۔‘‘ پٹّہ پر دی گئی زمین شاید ہی کبھی اپنے مالک کے پاس لوٹتی ہے۔ کچھ باہری لوگ آدیواسی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے، آدیواسی عورت کو اپنی دوسری بیوی بنا لیتے ہیں۔ کونڈاپلّی، سیتارام راجو کے زیر اثر علاقے میں پڑتا تھا۔ انگریزوں نے یہاں سے باغیوں کو انڈمان جزیرہ بھیج دیا تھا، جس سے تمام قبائل منتشر ہو گئے اور گاؤں تباہ ہو گیا۔

آدیواسی برادریوں کو اس طرح الگ کردینے کا مطلب ہے کہ اس زمانے کی بلاواسطہ مقامی یادداشت ادھوری ہے۔ لیکن راجو کا نام ابھی بھی جادو بکھیر رہا ہے۔ اور مسائل جوں کے توں بنے ہوئے ہیں۔ ویزاگ ضلع کے ممپا گاؤں کے کامراجو سومولو مذاقیہ انداز میں کہتے ہیں، ’’چھوٹی موٹی جنگلی پیداوار ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔ یہاں بہت کم جنگل بچا ہے۔‘‘ اس کا مطلب ہے غریبوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ، کیوں کہ جہاں وہ رہتے ہیں وہاں بقول رَمایمّا، انہیں ’’اکثر کھانے کے طور پر صرف کانجی پانی دستیاب ہو پاتا ہے۔‘‘ یہاں یہ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ مشرقی گوداوری کا شمار ہندوستان کے امیر دیہی ضلعوں میں ہوتا ہے۔

آدیواسیوں کے درمیان درجہ بندی بھی ہونے لگی ہے۔ کونڈاپلّی کے پوٹّو کامراج بتاتے ہیں، ’’امیر کویا آدیواسی اپنی زمین پٹّہ پر ہم گاؤوں والوں کو نہیں دیتے، بلکہ باہری لوگوں کو دے دیتے ہیں۔ امیر ہمیشہ متحد ہو جاتے ہیں۔‘‘ کچھ ہی آدیواسیوں کو سرکاری نوکریاں ملتی ہیں۔ اور ان علاقوں کے بے زمین مزدوروں کو سال کے کئی مہینوں تک کوئی کام نہیں ملتا۔

The poor "often just have kanji water for a meal," says Ramayamma, a landless Koya tribal of Rampa (L), “The rich always get together,” says landless Koya tribal Pottav Kamraj in Kondapalli village (R)
PHOTO • P. Sainath
The poor "often just have kanji water for a meal," says Ramayamma, a landless Koya tribal of Rampa (L), “The rich always get together,” says landless Koya tribal Pottav Kamraj in Kondapalli village (R)
PHOTO • P. Sainath

رمپا کی بے زمین کویا آدیواسی رَماَیمّا (بائیں) بتاتی ہیں کہ غریبوں کو ’’اکثر کھانے کے طور پر صرف کانجی پانی دستاب ہو پاتا ہے۔‘‘ کونڈاپلّی گاؤں کے بے زمین کویا آدیواسی پوٹّو کامراج (دائیں) کہتے ہیں، ’’امیر لوگ ہمیشہ متحد ہو جاتے ہیں‘‘

مزدوری کو لیکر مغربی گوداوری میں جدوجہد شروع ہو چکی ہے، جو مشرقی علاقے تک بھی پھیل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، امیر غیر آدیواسی کچھ قبائلی سرداروں کو چُن رہے ہیں۔ ممپا میں، پنچایت کا صدر، جو ایک آدیواسی ہے، اب ایک بڑا زمیندار ہے۔ اس کی فیملی کے پاس تقریباً ۱۰۰ ایکڑ زمین ہے۔ سومولو بتاتے ہیں، ’’وہ پوری طرح باہری لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘

انگریز، الّوری سیتا رام راجو کو توڑنے میں ناکام رہے۔ انھیں ۵۰ ایکڑ زرخیز زمین دینا بھی کوئی کام نہ آیا۔ انگریز اس بات کا پتہ نہیں لگا سکے کہ وہ آدمی جس کی کوئی ذاتی شکایت نہیں تھی، اسے آدیواسیوں سے اتنا لگاؤ کیوں تھا۔ انگریزوں کی ایک رپورٹ میں یہ تک کہا گیا تھا کہ وہ ’’کلکتہ کی کسی خفیہ سوسائٹی کے رکن تھے‘‘۔ راج (برطانوی حکومت) کے علاوہ، میدانی علاقوں کے کچھ لیڈر، جس میں کانگریس کے سرکردہ لیڈر بھی شامل تھے، نے ان کی مخالفت کی تھی۔ کئی نے ۲۴۔۱۹۲۲ میں ان کی بغاوت کو کچلنے کی اپیل بھی کی تھی۔ مدراس لیجسلیٹو کونسل میں، سی آر ریڈی جیسے لیڈروں نے بغاوت کو کچلنے سے پہلے اس کی شروعات کے اسباب کی جانچ تک کی مخالف کی تھی۔

مؤرخ مرلی اٹلوری تو یہاں تک کہتے ہیں کہ خود ’’قوم پرست‘‘ پریس بھی ان سے عداوت رکھتا تھا۔ تیلگو میگزین ’دی کانگریس‘ نے لکھا تھا کہ اگر اس بغاوت کو کچل دیا گیا، تو اسے ’’خوشی‘‘ ہوگی۔ ’آندھرا پتریکا‘ نے اس بغاوت پر حملہ کیا۔

انہیں اپنانے کی قواعد مرنے کے بعد ہوئی، جیسا اٹلوری بتاتے ہیں۔ جب انہیں مار دیا گیا، تو آندھرا پتریکا نے راجو کے لیے ’’ولہلّا کا آشیرواد‘‘ مانگا۔ ستیہ گرہیوں نے ان کا موازنہ جارج واشنگٹن سے کیا۔ کانگریس نے انہیں شہید کے طور پر اپنا لیا۔ ان کی وراثت کو اپنے نام کرنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں۔ ریاستی حکومت ان کے ۱۰۰ویں یومِ پدائش پر اس سال کافی پیسہ خرچ کرنے والی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو ریگولیشن ۱/۷۰ میں ترمیم چاہتے ہیں، جس قدم سے آدیواسیوں کو مزید چوٹ پہنچے گی۔

Damaged samadhi of Sitarama Raju
PHOTO • P. Sainath
bust of Sitarama Raju
PHOTO • P. Sainath

بائیں: سیتا رام راجو کی ٹوٹی ہوئی سمادھی۔ دائیں: سیتا رام راجو کا نصف مجسمہ

کرشنا دیوی پیٹ میں راجو کی سمادھی (مزار) کی نگرانی کرنے والے بزرگ، گجال پیڈپّن کو تین سال سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ اس علاقہ کے لوگوں کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ویزاگ۔مشرقی گوداوری سرحد پر، سخت گیر لیفٹسٹوں کا اثر بڑھتا جا رہا ہے۔

کونڈاپلّی کے پوٹّو کامراج بتاتے ہیں، ’’ہمارے آباء و اجداد نے ہمیں بتایا تھا کہ سیتارام راجو آدیواسیوں کے لیے کیسے لڑے تھے۔‘‘ کیا کامراج اپنی زمین واپس لینے کے لیے آج لڑیں گے؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں، ’’ہاں۔ ہم جب بھی ایسا کرتے ہیں، تو پولیس ہمیشہ نائڈوؤں اور امیروں کی مدد کرتی ہے۔ لیکن ہمیں اپنی طاقت پر بھروسہ ہے، اور ایک نہ ایک دن ہم ضرور لڑیں گے۔‘‘

لگتا ہے کہ ہیڈ کانسٹیبل کا پولیس اسٹیشن پر حملہ ہونے کا خدشہ صحیح تھا۔

یہ حملہ آج دوپہر کو بھی ہو سکتا ہے۔

کور فوٹو: رمپا کے کویا برادری کے محروم آدیواسی۔ زمین کا مسئلہ مغربی گوداوری ضلع میں پیدا ہو رہا ہے اور مشرق میں زور پکڑ رہا ہے

یہ اسٹوری سب سے پہلے ٹائمز آف انڈیا کے ۲۶ اگست، ۱۹۹۷ کے شمارہ میں شائع ہوئی تھی۔

اس سیریز کی دیگر کہانیاں:

جب ’سالیہان‘ نے برطانوی حکومت سے لوہا لیا

پَنی مارہ کے آزادی کے پیدل سپاہی – ۱

پَنی مارہ کے آزادی کے پیدل سپاہی – ۲

لکشمی پانڈا کی آخری لڑائی

عدم تشدد اور ستیہ گرہ کی شاندار نَو دہائیاں

شیرپور: جن کی قربانیاں فراموش کر دی گئیں

سوناکھن: دو بار ہوا ویر نارائن کا قتل

کَلِّیاسِّیری: سومُکن کی تلاش میں

کَلِّیاسِّیری: آزادی کے اتنے سال بعد بھی جاری ہے جدوجہد

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique