ہر بدھ کو صبح ۱۰ بجے سے، متعدد گاؤوں کے آدیواسی آمابیڈا گاؤں کے ہفتہ وار ہاٹ میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ ’’یہاں ۴۵۔۵۰ گاؤوں کے لوگ آتے ہیں۔ یہ اس علاقہ کا بڑا ہاٹ ہے،‘‘ آمابیڈا کے ایک گونڈ آدیواسی کارکن، سُکائے کشیپ بتاتے ہیں۔ ان دور افتادہ گاؤوں میں چونکہ کیرانہ (جنرل) دکانیں نہیں ہیں، اس لیے وہ پورے ہفتہ کی ضروری اور دیگر سامان خریدنے چھتیس گڑھ کے کانکیر ضلع کے انتاگڑھ بلاک (شمالی بستر) میں واقع اس ہاٹ میں آتے ہیں۔ پکھانجور تحصیل کے سبزی اور مچھلی بیچنے والے اور کیش کل اور دھنورا بلاک کے کاروباری – ۳۰ کلومیٹر کے دائرہ سے – اپنے سامانوں کو بیچنے آمابیڈا آتے ہیں۔ اس ہاٹ میں ملنے والی سبزیاں ہیں آلو، پیاز، ٹماٹر، بیگن، بند گوبھی، پھول گوبھی اور ہری مرچ۔ بہت سے آدیواسی رائی، باجرا اور چاول لاتے ہیں، کچھ مہوا کے پھول، بانس سے بنے جھاڑو، اور جنگل کی دیگر پیداوار لے کر آتے ہیں۔ کچھ مسالے، تیل اور صابن بیچتے ہیں۔ کوزہ گر مٹی کے برتن لے کر آتے ہیں، لوہار کسانوں اور مزدوروں کے استعمال کے متعدد اوزار بیچتے ہیں۔ علاقہ کے باہر سے یہاں آنے والے تاجروں کی وجہ سے، یہ ہاٹ گزشتہ برسوں میں بڑھا ہے – وہ گھڑیاں، پلاسٹک کی بالٹیاں، مگ، چھلّے، بالوں کے کلپ اور دیگر سامان لاتے ہیں۔ وہ بیٹری سے چلنے والے ٹرانزسٹر ریڈیو، پاور چارجر اور مختلف سائزوں کے ٹارچ بھی بیچتے ہیں، جو خاص کر تب ضروری ہو جاتے ہیں، جب لوگ شام کے وقت یا رات میں اندھیرے جنگلی راستوں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ آس پاس کے گاؤوں میں حالانکہ اسی طرح کے چند دوسرے ہفتہ وار بازار لگتے ہیں، لیکن یہاں پر آمابیڈا ہاٹ سب سے پرانا ہے – جن متعدد بوڑھے مردوں اور عورتوں سے میں ملا وہ یہاں بچپن سے ہی آ رہے ہیں۔ لیکن ماضی کے ہاٹ میں بارٹر سسٹم چلتا تھا – مثال کے طور پر دھان کے بدلے نمک مل جاتا تھا۔ اب، یومیہ مزدوری یا دیگر کاموں سے ملنے والے پیسے سے سامانوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

’’میں جب بچہ تھا (تقریباً آٹھ سال کا) تو میں اپنے چچا کے ساتھ اس بازار میں آتا تھا،‘‘ کیشو سوری (۵۳) کہتے ہیں، جو کانکیر میں مقیم ایک رضاکار تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ’’میرے چچا اجورام سوری ہٹکارا گاؤں کے بانس کی ٹوکریاں بنانے والے تھے اور ہم سائیکل سے ہاٹ میں آیا کرتے تھے۔ ہم اپنا سفر ایک دن پہلے شام کو شروع کرتے، رات میں راستے میں رکتے، اور اگلے دن صبح کو دوبارہ چلنا شروع کرتے۔ اُس زمانے میں، زیادہ تر مارکیٹنگ پیداوار کی لین دین سے ہوا کرتی تھی، بہت کم لوگ پیسہ استعمال کرتے تھے۔ میرے چچا نے بھی بانس کی اپنی ٹوکریاں چاول اور دیگر سامانوں کے بدلے بیچی تھیں۔‘‘

آمابیڈا ہاٹ کانکیر شہر سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر دور ہے۔ یہ جنگل کا علاقہ ہے، جہاں سڑکیں اور ٹرانسپورٹ سروسز خراب ہیں – کوئی بس نہیں چلتی ہے، عموماً بھری ہوئی بولیرو ٹیکسیاں یا ٹیمپو ہی یہاں پر چلتے ہیں – اور یہ علاقہ نکسلی و ریاستی تشدد سے متاثر ہے۔ پولس پابندی سے گاڑیوں کو چیک کرتی ہے؛ انھوں نے ہماری گاڑی بھی چیک کی اور پوچھا کہ ہم کہاں کے رہنے والے ہیں اور ہاٹ کیوں جا رہے ہیں۔

ہم آمابیڈا میں دوپہر کو پہنچے، جو دکانداری کرنے اور تجارت کا سب سے مصروف وقت ہوتا ہے – دوپہر ۱ بجے سے ۳ بجے تک، جس کے بعد لوگ اپنے اپنے گاؤں کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ہم صحیح وقت پر مرغ کی لڑائی دیکھنے وہاں پہنچ گئے تھے۔ مرغا لڑائی ایک مشہور کھیل ہے اور ہندوستان کے مختلف حصوں کے آدیواسی ہاٹ میں تفریح کی ایک شکل ہے۔ میں نے اسے چھتیس گڑھ، اوڈیشہ، آندھرا پردیش اور جھارکھنڈ میں دیکھا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کے لیے، لڑاکو مرغ رکھنا اور جیتنا ایک فخر کی بات ہے۔

آمابیڈا میں، تقریباً ۲۰۰ مرد (کوئی عورت نہیں) بڑی لڑائی کے لیے جمع ہوتے ہیں، ان میں سے تقریباً ۵۰ لوگوں کے پاس مرغ ہوتے ہیں – باقی لوگ سامعین کے طور پر شامل ہوتے ہیں جو لڑنے والے مرغوں پر آپس میں شرط لگاتے ہیں۔ یہ شرط ۱۰۰ روپے سے لے کر ۵۰۰۰ روپے تک (یا اس کے آس پاس جیسا کہ انھوں نے مجھے بتایا) ہوتی ہے۔ لڑائی میں ۲۰ سے ۲۵ باؤٹ ہوتے ہیں، ہر ایک ۵ سے ۱۰ منٹ کا، جب تک کہ کوئی ایک مقابلہ کرنے والا بری طرح زخمی یا مر نہ جائے۔ جیتنے والے مرغ کے مالک کو زخمی یا مرا ہوا مرغ ملتا ہے – جس سے وہ گھر پر بعد میں مزیدار کھانے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ لڑائی جب شروع ہوتی ہے، تو شاباشی اور شور شرابہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ کشتی کے اکھاڑہ میں۔

A man selling vegetables at Amabeda haat
PHOTO • Purusottam Thakur

پاکھنجور گاؤں سے ایک سبزی فروش بڑی مقدار میں تازی بند گوبھیاں لے کر آمابیڈا ہاٹ آیا ہے، اور خریداروں کے آنے کا انتظار کر رہا ہے۔

A trader sorting out grains at Amabeda haat
PHOTO • Purusottam Thakur

ایک تاجر کُٹکی (باجرا) جیسے اناج خریدنے آیا ہے، جسے وہ کانکیر شہر میں بڑے تاجروں کو بیچے گا۔ کھانے کی بدلتی عادتوں اور پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم پر چاول کی دستیابی سے ملک کے کئی حصوں میں اب کُٹکی کی پیداوار نہیں ہوتی۔

Women sell forest produces, including mahua flowers and lac  (a natural resin)  to a trader.
PHOTO • Purusottam Thakur

عورتیں جنگل کی پیداوار ایک تاجر کو بیچ رہی ہیں، جس میں مہوا کے پھول اور لاکھ (قدرتی گوند) شامل ہیں۔ ان کے لیے، ساتھ ہی ساتھ یہاں جمع دیگر آدیواسیوں کے لیے، یہ ہاٹ دوستوں اور رشتہ داروں سے ملاقات کرنے، اور شادی، تہوار، پیدائش، موت سے متعلق ایک دوسرے کو بتانے کی جگہ بھی ہے۔

Massuram Padda (at the back) from Bagjor village and Ramsai Kureti from Ture village have brought their sewing machines here on bicycles. They will alter and repair torn clothes at the haat, and make around Rs.200-300 each
PHOTO • Purusottam Thakur

بگیہار گاؤں کے مسو رام پڈا (پیچھے) اور رام سائی کُریتی سائیکلوں سے اپنی سلائی مشینیں یہاں لائے ہیں۔ وہ ہاٹ میں کپڑے کی سلائی اور مرمت کریں گے، اور پورے دن میں ہر ایک کو اس سے ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے ملیں گے۔

Mibai from Suklapal village has been coming to this market since she was a child. Today, she is selling beans and will buy some things to take home as well
PHOTO • Purusottam Thakur

سُکلا پل گاؤں کی میبائی اس بازار میں بچپن سے آ رہی ہیں۔ آج، وہ پھلیاں بیچ رہی ہیں اور گھر لے جانے کے لیے کچھ چیزیں بھی خریدیں گی۔

It’s Jungleebai’s grandson’s (she didn’t give her full name) first visit to the haat; they’ve come from Suklapal village in  Antagarh block, around four kilometres away
PHOTO • Purusottam Thakur

جُگلی بائی (انھوں نے اپنا پورا نام نہیں بتایا تھا) ہاٹ میں پہلی بار اپنے چھوٹے پوتے کو لے کر آئی ہیں؛ وہ تقریباً چار کلومیٹر دور، انتاگڑھ بلاک کے سُکلا پال سے یہاں آئے ہیں۔

A man drinking mahua wine
PHOTO • Purusottam Thakur

ہاٹ میں جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو اکثر رشتہ داروں اور دوستوں کو جنگل سے جمع کیے ہوئے مہوا کے پھولوں سے بنی ہوئی شراب پلاتے ہیں۔

Itwaru, a farmer and farm labourer from nearby Kohcur village, is here to purchase mahua flowers and grapes to make wine
PHOTO • Purusottam Thakur

پاس کے کوہچور گاؤں کے کسان اور زرعی مزدور، اتوارو یہاں مہوا کے پھول اور انگور خریدنے آئے ہیں، جس سے وہ شراب بنائیں گے۔

Two women wait with their pots for customers
PHOTO • Purusottam Thakur

دو گونڈ آدیواسی عورتیں اپنے مٹی کے برتنوں کے ساتھ صارفین کا انتظار کر رہی ہیں۔

These days, broiler chicken is sold at the haat because it is cheaper than desi (country) chicken
PHOTO • Purusottam Thakur

آج کل، ہاٹ میں بوائلر چکن کافی مشہور ہیں، کیوں کہ یہ دیسی مرغیوں سے سستے ہیں۔

Brij Lal, an ironsmith from Bidapal village in Antagarh block  sells the blades attached to cocks’ claws during a fight. He prices them at Rs. 100 because, he says, “it takes a lot of hard work to make it sharp.”
PHOTO • Purusottam Thakur

انتا گڑھ بلاک کے بنڈا پال گاؤں کے لوہار، برج لال، لڑائی کے دوران مرغوں کے پیروں میں باندھے جانے والے بلیڈ بیچتے ہیں۔ انھوں نے اس کی قیمت ۱۰۰ روپے رکھی ہے کیوں کہ، وہ کہتے ہیں، ’’اسے دھاردار بنانے میں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔‘‘

The small knife used in cockfighting being attached to the leg of the cock
PHOTO • Purusottam Thakur

خطرناک بلیڈ مرغ کے پنجوں میں باندھے جا رہے ہیں، غیر مشکوک پرندہ کو بڑی لڑائی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

Ramchand Samrath (left, in white) from Amabeda village and Baiju, from Manku village wait for their roosters be paired before the fight
PHOTO • Purusottam Thakur

آما بیڈا گاؤں کے رام چند سم رتھ (بائیں، سفید کپڑے میں) اور مانکوٹ گاؤں کے بیجو، لڑائی سے پہلے اپنے مرغوں کی جوڑی بنوانے کا انتظار کر رہے ہیں۔

Around 200 men gather around the arena to watch the murga ladai
PHOTO • Purusottam Thakur

پرجوش اور تیز طرار مرغا لڑائی کو دیکھنے کے لیے تقریباً ۲۰۰ مرد اکھاڑہ کے چاروں طرف جمع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد، دن کے اخیر میں، کچھ لوگ واپس اپنے گاؤوں کو چلے جاتے ہیں، باقی کھلے ٹرک میں کھڑے ہوکر سواری کرتے ہیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Purusottam Thakur

Purusottam Thakur is a 2015 PARI Fellow. He is a journalist and documentary filmmaker and is working with the Azim Premji Foundation, writing stories for social change.

Other stories by Purusottam Thakur
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique